درس گاہ – 36

ملتان میں قیام کو چھے ماہ ہونے کو تھے۔کالج جاتا تھا مگر ابھی تک ایف ایس سی میں اٹکے ہونے کے باعث تھرڈ ائیر کی پڑھائی میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی۔کالج آنے جانے میں باقاعدگی تھی نہ ہی کبھی کسی نے اس سلسلے میں خلل آنے پر تادیب کی تھی۔عجیب بددلی کی فضا تھی اور میں اس سے نکل پانے کی راہ تلاش نہیں کر پا رہا تھا۔
اسلم میتلا کے مکان پر طاہرفاروقی سے ملاقات کے بعد وہ ہماری طرف بھی آنے لگے تھے۔کبھی اسلم کے ساتھ کبھی اکیلے۔وہ شاید گورنمنٹ کالج بوسن روڈ سے ایم۔اے(اردو)کر رہے تھے اور ادبی میدان میں اپنی کامیابیوں کی خبر دیتے رہتے تھے۔طرح مصرع پر کہی اُن کی دو ایک غزلیں مجھے بہت پسند آئی تھیں اور یاد بھی ہو گئی تھیں۔شعر اسلم میتلا بھی کہتے تھے اور بعد میں انہوں نے اردو اور سرائیکی زبان میں اپنے کلام کے کئی مجموعے یادگار چھوڑے مگر اس وقت وہ زیادہ فعال نہیں تھے اور اُن کی توجہ اپنی تعلیم پر مرکوز تھی۔
طاہرفاروقی کے اصرار پر میں نے اپنا رطب و یابس انہیں دکھایا۔اُن کے خیال میں کہیں کہیں قلم لگانے کی ضرورت تھی مگر میں نے اس کے لیے اپنی رغبت ظاہر نہیں کی تو انہوں نے بھی اصرار نہیں کیا اور جب بھی آتے،گپ لگا کر رخصت ہو جاتے۔
وہ خادم کیتھلی کے فرزند تھے اور حرم گیٹ کے دروازے کی بغل کی ایک گلی میں رہتے تھے۔ان کی نیم پلیٹ کی تخصیص یہ تھی کہ وہ گھر میں ان کی موجودگی یا عدم موجودگی کی غمازی کرتی تھی۔نام کے نیچے دو سلائڈنگ تختیوں پر”اِن”اور”آؤٹ”لکھا تھا۔گھنٹی بجانے سے پہلے اُن پر نظر ڈال لیں تو اُن کے ہونے نہ ہونے کی خبر ہو جاتی تھی۔
ہماری گلی کی دُبلی قیامتیں میرے گاؤں آنے کے بعد میرے دوستوں سے میری خبر لیتی رہی تھیں۔میں پلٹا تو نامہ بری کا سلسلہ پھر آغاز ہو گیا۔اصرار اُن کے گھر کا زینہ ناپنے پر تھا مگر مجھے خودکشی کا شوق نہیں تھا سو میں بلا توقف معذرت کر لیتا تھا۔اس مسلسل نامہ بری،جو ایک ہی جملے”نہیں!کوٹھی پر”پر مشتمل ہوا کرتی تھی،کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب پیام بر نے بھی مجھ پر فدا ہونے کا تاثر دینا شروع کر دیا۔یہ بھید میں نے اپنے دوستوں پر افشا کیا تو انہوں نے اس”گرمی”کا سبب اُس گھرانے کی پان خوری کی عادت کو ٹھہرایا۔

کچھ دن بعد جب ملاقات پر مصر پہلی دُبلی قیامت کوٹھی پر آنے پر تیار ہو گئی تو طے پایا کہ یہ ملاقات دوپہر کے کھانے کے بعد ہوگی۔اس میں سہولت یہ تھی کہ اُس وقت سینا غائب رہتا تھا اور امّاں لیلیٰ اپنے کمرے میں ہوتی تھی۔ہاں یہ مشکل ضرور تھی کہ گیٹ سے میرے کمرے کے بیچ وسیع صحن تھا اور اس ایک کنال سے زیادہ رقبے کو طے کرنے میں اماں لیلیٰ کے کمرے سے دیکھ لیے جانے کا واضح امکان تھا کہ اب وہ ہماری ہلچل پر خصوصی نظر رکھتی تھی۔
طے پایا کہ اس خطرے سے نپٹنے کے لیے طاہرفاروقی سمیت سبھی دوست برآمدے میں موجود رہیں گے اور حسینہ کے بھاگ کر منزلِ مقصود تک پہنچنے تک اماں لیلیٰ کے دروازے کے سامنے کھڑے رہیں گے اور ایسا ہی کچھ واپسی کے لمحات میں کِیا جائے گا۔
وقتِ مقررہ پر گیٹ کو کُھلا رکھا گیا اور حسینہ نے وقت کی پابندی مغربی روایت کے تحت کی مگر مشکل یہ ہوئی کہ اُس وقت اماں لیلیٰ ابھی داخلے کی عمارت کے برآمدے میں براجمان تھی۔خوبیٔ قسمت سے اُس کا رُخ مخالف سمت میں تھا۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ محسوس کر کے مُڑتیں۔جمیل نے لپک کر اُن کے موٹے شیشوں کی عینک اتار کر انہیں قریب قریب اندھا کر دیا اور موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے وہ حسینہ اُڑتی ہوئی مرکزی عمارت کے کسی کمرے میں غائب ہو گئی۔میں پہلے بتا چکا ہوں کہ اس حصّے میں صرف میری رہائش تھی اور دوسرے بیڈ روم اور گول کمرہ خالی پڑے تھے۔
امّاں نے شور مچایا تو دوچار گالیاں کھانے کے بعد اُن کی عینک لوٹا دی گئی اور ہر طرف کا ناقدانہ جائزہ لینے اور ہم سب کو اپنے قریب پا کر وہ اس عمل کو صرف شرارت گردان کر اپنے کمرے میں چلی گئی تو میں نے اپنے کمرے کی راہ لی مگر لڑکی وہاں موجود نہیں تھی۔
دیکھا تو وہ وسیع گول کمرے کی لکڑی کی بھاری الماریوں کے قدِآدم آئینوں میں گھوم گھوم کر اپنا عکس دیکھتی پھر رہی تھی۔میرے قدموں کی چاپ پر مُڑی تو میں اُسے دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا کہ یہ لڑکی کوئی اور نہیں،وہی پیام بر تھی۔کوئی فرق تھا تو بس یہ کہ وہ اس وقت برقعے میں نہیں تھی۔
مجھے دیکھ کر اس نے اپنا رُخ آئینے کے مقابل کیا اور اس میں سے مجھ پر ایک نگاہ ِغلط انداز ڈال کر فرمایا:
"آپ مجھ سے شادی کریں گے نا”؟
"اور تمہاری بہن”؟ میرے منہ سے بے اختیار نکلا
"آپ اُس چڑیل کو جانتے نہیں۔اچھا ہوا میں نے آپ کا پیغام اُسے نہیں پہنچایا ورنہ آپ کے لیے بڑی مشکل ہو جاتی”
مشکل میں تو میں اب بھی تھا مگر یہ چڑیل عمر میں اُس چڑیل سے چھوٹی تھی۔مکھ پر ابھی بچپن کی پھوار پڑتی تھی۔نقوش تیکھے اور نیم بیضوی چہرے پر بھلے لگتے تھے۔آنکھیں،لب اور بال سادگی لیے۔جسم دُبلا اور خُمار کی نشانیوں سے بے نیاز۔کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میرا اگلا قدم کیا ہونا چاہیے مگر اتنا ہوش ضرور تھا کہ بغیر فرنیچر کا گول کمرہ مذاکرات کے لیے مناسب نہیں سو میں نے اُسے اپنے بیڈ روم میں آنے کو کہا اور وہ آ بھی گئی۔
بیڈ روم میں ایک پلنگ اور دو کرسیاں تھیں۔ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ اُسے کہاں بیٹھنے کی دعوت دوں کہ اُس نے خود ہی بڑھ کر ایک کُرسی سنبھال لی۔میں پلنگ پر بیٹھنے کے لیے مڑا تو اتفاقاً میری نظر برآمدے کی چھت پر کُھلتے روشندان پر پڑی،جہاں شیشے کے پیچھے اقبال کلاچی اور جمیل کے چہرے اندر کا منظر دیکھنے کے لیے دھنسے ہوئے تھے اور دوسرے روشندان کے پیچھے آصف اور طاہر فاروقی تھے۔میرے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ اس برآمدے کی دونوں طرف گھوم کر اوپر جاتی سیڑھیوں کا یہ نقصان بھی ہو سکتا ہے۔
ہم کوئی دو گھنٹے تک قید رہے اور ایک دوسرے کو تکتے رہے۔روشندان میں میرے دوستوں کی موجودگی سے وہ بھی باخبر تھی اور اس کے بعد وہی کچھ ہو سکتا تھا جو ہم نے کیا۔
باتیں،باتیں اور باتیں اور چند ادھر ادھر کی کہانیاں
اور لتا کے گائے کچھ گیت جو اُسے گا کر سُنانے کی طلب تھی۔
میں نے دوستوں کو ہاتھ جوڑ کر رخصت ہونے کو کہا مگر وہ جانے کو تیار تھے نہ اندر آنے کو سو یہ ملاقات نشستند،گفتند،برخاستند ہی رہی۔واپسی پر وہ برقع پہننے لگی تو اگلی ملاقات کی جگہ اور وقت کے بارے میں استفسار کیا اور میں نے نہ جانے کس لہر میں اسے اسلم میتلا کے مکان پر ملنے کی صلاح دی۔یہ بات میرے لیے حیرت کا باعث تھی کہ وہ مکان اس کا دیکھا بھالا تھا۔
وقت کے بارے میں کچھ طے نہیں پایا اور ظاہر ہے اسلم سے بات کیے بغیر ایسی کوئی فکسیشن ممکن ہی نہیں تھی۔
جمیل کے لائن کلیر ہونے کی اطلاع پر اسے رخصت کیا تو جاتے ہوئے لپٹنے کا کام بھی اُسی نے نپٹایا۔
بندے نوں اینا پینڈو وی نئیں ہونا چاہی دا۔
اس ملاقات میں اُس نے ایک ہی کام کی بات بتائی کہ اس محلے کا نمبردار اُس کا ماموں ہے۔یہ صاحب کبھی کبھار اماں لیلیٰ سے ملنے آتے تھے اور کبھی ہمارے ساتھ بھی نششت جما لیتے تھے۔ادھیڑ عمر کے خاصے طرار شخص تھے۔آتے تھے تو اُن کی متجسّس آنکھیں ایک بار سارے بنگلے کا سکین کرتی تھیں۔اس لیے اس کوٹھی پر مزید ملاقات کرنا ممکن ہی نہیں تھا کہ وہاں آنے والوں کا کوئی وقت مقرر تھا نہ جانے والوں کا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے