درس گاہ – 37

اس دوران میں انٹر کے امتحان شروع ہو گئے اور گورنمنٹ کالج بوسن روڈ کو امتحانی مرکز ٹھہرایا گیا۔میں نے یہ مرحلہ سائیکل چلا کر طے کیا۔سوالیہ پرچہ دیکھ کر ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ ہفت خواں مجھ سے طے ہونے والا نہیں۔میں نے تمام سوالوں کے جواب دیے ضرور مگر وہ جواب ممتحن کی سمجھ میں آنے والے نہیں تھے۔

ملتان سے میرا جی اب اُچاٹ ہونے لگا تھا۔وہاں ہونا ایک لایعنی مشقّت تھی۔اس میں کوئی رنگینی تھی تو طاہر فاروقی اور اسلم میتلا کی شاعری کی وجہ سے یا اُن دُبلی اور بالی عمریا چڑیلوں کی وجہ سے مگر اب تک میری ملاقات صرف گِٹّو(یہ نام ہماری ٹولی کا عنایت کردہ تھا )سے ہوئی تھی۔تاہم اُس کی بڑی بہن کو میں اب پہچاننے لگا تھا کہ کسی کشف سے اُسے نامہ بر کے ناقابلِ اعتبار ہونے کی خبر ہو گئی تھی اور وہ گلی میں میرے آنے جانے کے وقت کہیں غائب سے ورود کر کے دو ایک جملوں کا تبادلہ کر لیتی تھی۔دونوں بہنوں کے قد کاٹھ،جاذبیت اور طراری میں کوئی فرق تھا تو بس اتنا کہ بڑی پاس سے گزرتے ہوئے کبھی کوئی عشقیہ شعر بھی اُچھال جاتی تھی اور ادھر اپنا حال یہ تھا کہ ساحر کی”آپ بے وجہ پریشان سی کیوں ہیں مادام؟” اور فیض کی”مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ”کے سوا زبان پر کچھ چڑھتا ہی نہیں تھا۔

اسلم میتلا کے مکان سے اُن کی باخبری میں کوئی گہرا راز پنہاں نہیں تھا۔میتلے وہاں برسوں سے رہ/آ جا رہے تھے اور لڑکیاں اُسی محلّے میں بڑی ہوئی تھیں اور بچپن سے اس گھر میں آیا جایا کرتی تھیں۔

آخر ِکار میں نے ملتان چھوڑنے اور تعلیم کو الوداع کہہ کر گاؤں آنے کا فیصلہ کیا اور طے کیا کہ دونوں چُڑیلوں سے الوداعی ملاقات کی جائے.سو میں نے اسلم سے اس ضمن میں بات کی۔وہ میرا ہم رنگ اور گُٹھے وجود کا کڑیل جوان تھا مگر میری بات سُن کر حواس باختہ ہو گیا اور اس کا سبب کسی نوعیت کا خوف نہیں،صدمہ تھا۔
نہایت رُندھی ہوئی آواز میں اٹک اٹک کر اُس نے بتایا کہ وہ گِٹّو کے عشق میں مبتلا ہے مگر وہ اس کی بات سُنتی ہی نہیں۔پھر بھی اگر میں اُسے اُس کے یہاں بُلانا چاہوں تو اُسے کوئی اعتراض نہیں۔

اسلم کے مکان میں ورق کُوٹنے والوں اور داخلے کے دروازے کے بیچ برآمدے میں بھاری چِک پڑی تھیں۔اس لیے آنے جانے والوں کے لیے پردے کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔میں نے نامہ بر کو اور نامہ بر کا سہارا لیے بغیر بڑی کو گلی میں سامنا ہونے پر ایک ہی دن اور ایک ہی وقت پر اسلم کے ہاں پہنچنے کو کہا اور ضروری انتظامات کے لیے اس کی اطلاع اسلم کو بھی کر دی۔
میرے ارادے اگر نیک نہیں تو بُرے بھی نہیں تھے۔گِٹّو کے آنے کی صورت میں میرا ارادہ اُسے سمجھا بُجھا کر اُس کا”ہاتھ”اسلم کے ہاتھ میں دینے کا تھا اور”حسینہ”کی پہلے آمد کی صورت میں گِٹّو کو اختلاط کا منظر دکھا کر بددل کرنے کا۔
میں وقت ِمقررہ پر اسلم کی طرف پہنچا تو اس نے آنکھ کے اشارے سے مجھے کمرے میں جانے کو کہا۔یہ کمرہ دو کمروں کے بیچ میں تھا اور دروازہ کھولتے ہی میں نے حسینہ کو دروازے کی طرف منہ کیے بیڈ پر بیٹھے دیکھا۔اُس نے نقاب اُلٹ رکھّا تھا مگر وہ ابھی برقعے میں تھی اور ایک پاؤں سے فرش کو دھیرے دھیرے کرید رہی تھی۔
میں اندر داخل ہوا تو وہ کچھ مضطرب سی ہو کر کھڑی ہوگئی مگر میرے بیٹھے رہنے کا اشارہ سمجھ کر دوبارہ بیٹھ گئی۔
میں بڑھ کر ساتھ جا بیٹھا اور یوں ہی بات شروع کرنے کو کہا:”کیسی ہو؟”
"بُری!”
جواب میری توقع کے برعکس تھا۔
"کیوں؟”… شاید پوچھنا ضروری ہو گیا تھا۔
"آپ میری بات مانتے ہی نہیں۔میں نے گھر آنے کو کہا۔آپ آئے ہی نہیں اور اس چھنال گِٹّو سے مل لیے”.
"گھر کیسے آتا؟پکڑا جاتا تو دونوں جان سے جاتے اور تمہاری بہن نے تمہارے ساتھ دھوکا کیا تھا”.
"وہ ایسی ہی ہے مگر آپ کو اُسے نکال باہر کرنا چاہیے تھا”
"یہ غلطی ضرور ہوئی مگر ہمارے بیچ ایسا کچھ نہیں ہے”
"اچھّا ٹھیک ہے۔اب بلاؤں تو چلے آئیے گا۔میرا کمرہ سیڑھیوں کی دائیں طرف ہے۔ابّا پان کی دُکان کرتے ہیں اور رات دو بجے تک آتے ہیں۔امّاں کو سب معلوم ہے،اُسے اعتراض نہیں ہوگا”.
"اچّھا دیکھوں گا”میں نے کہا اور سوچنے لگا کہ اب اگلا قدم کیا ہو کہ برآمدے میں ہلکی سی چاپ سنائی دی۔مجھے یقین تھا گِٹّو ہو گی۔معلوم نہیں کیا کرنا چاہیے تھا مگر چاپ دروازے تک آئی تو میں نے ایک اضطراری کیفیت میں حسینہ کو برقعے سمیت اپنی آغوش میں لے لیا۔شاید میں گِٹّو کو اختلاط کا یہ منظر دیکھا کر صدمہ پہچانے کی کوشش میں تھا۔
مگر آنے والا گِٹّو نہیں۔لڑکیوں کا ماموں اور محلّے کا وہی نمبردار تھا،جس کے شر سے بچنے کے لیے میں نے اسلم کا احسان اُٹھایا تھا۔
مجھے یہ سمجھنے میں ایک ہی پل لگا کہ میری کہانی کا یہ انجام اسلم کا سوچا ہوا ہے۔کمرے میں ہلکی سی تاریکی تھی مگر اتنی زیادہ بھی نہیں کہ وہ دو ہم آغوش وجودوں کو الگ ہوتا نہ دیکھ سکتا۔ایک لمحہ ٹھٹھک کر اُس نے باہر کی راہ لی۔لڑکی کب نکلی اور عنقا ہوئی،مجھے خبر ہی نہیں ہو پائی۔میں اُلجھے ہوئے دماغ کے ساتھ اُٹھا اور پچاس گز کے فاصلے پر واقع "برکت منزل”چلا آیا۔اسلم کے مکان میں ورق کُوٹے جا رہے تھے مگر وہ ہتھوڑے مجھے اپنے سر پر بجتے محسوس ہو رہے تھے۔
مجھے طوفان کے جلد آنے کی توقّع تھی اور ایسا ہی ہوا۔
کچھ دیر بعد گیٹ دھڑدھڑانے پر سینا نے دروازہ کھولا تو باہر ماموں کھڑے دکھائی دیے۔مجھے محّلے کے لونڈوں لپاڈوں کے اُس کے ساتھ ہونے کی توقّع تھی مگر”ماموں صاحب”اکیلے ہی تھے۔
سینا نے انہیں میرے کمرے کی طرف روانہ کیا تو میں سر پر پڑی ہر مصیبت سہنے کے لیے سنبھل کر بیٹھ گیا۔معلوم نہیں اُس وقت میرے دوست اپنے شیش محل میں تھے یا نہیں؟
میں پلنگ پر بیٹھا تھا،بیٹھا رہا۔ماموں آ کر کُرسی پر بیٹھ گئے۔
کچھ دیر خاموشی رہی۔
"آج سب ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا”وہ گویا ہوئے
میں نے چُپ رہنا ہی بہتر سمجھا.
"آپ بڑے آدمی ہیں مگر یہ بہت زیادتی ہے۔ہماری بھی کوئی عزّت ہے”وہ پھر گویا ہوئے۔
میں نے خاموشی کو برقرار رکھنا مناسب جانا۔
"دیکھیے اگر آپ کا لونڈیا پر دل آ گیا تھا تو مجھے بتاتے۔میں آپ کو یہیں کوٹھی پر لا دیتا۔پر یہ آپ نے اچھّا نہیں کیا”.
یہ سُننا تھا کہ میں نے اپنے آپ کو آک کے پھول کی طرح ہلکا پھلکا اور ہوا میں تیرتا محسوس کیا مگر کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں کہوں تو کیا کہوں؟
"آپ کو معلوم ہے۔آج شاہ شمس کا میلہ لگا ہے؟”میں نے ماموں کو کہتے سُنا۔
"جی”
"تو کیوں نہ ہم ایک ساتھ میلہ گھومنے چلیں”.
"نہیں!میں گھر پر رہوں گا”۔میں نے کہا۔شاید مجھے اس دعوت سے خطرے کی بُو آ رہی تھی۔
"تو تیس روپے دے دیجیے تا کہ ہم میلہ گھوم آئیں.”
میرے پاس تیس روپے نہ دینے کی کوئی وجہ نہیں تھی مگر اس ملاقات کا صدمہ اسلم کے پہنچائے صدمے سے بڑا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے