ملتان سے وداع ہونے کا وقت آ گیا تھا مگر اُس روز میاں چنوں کے لیے نکلتے ہوئے میں ابھی کسی فیصلے پر نہیں پہنچا تھا۔غالب خیال یہی تھا کہ دو ایک روز شہر اور گاؤں میں رہ کر واپس آ جاؤں گا اور "ماموں” کو ماموں بناؤں گا مگر جب میں گھر پہنچا اور ماں سے اپنی صحت کا خیال نہ رکھنے پر ڈانٹ سہہ چکا تو اُسی شام لاہور سے حاکم علی رضا ملنےچلے آئے۔یہ ملاقات طے شدہ نہیں تھی اور وہ میاں چنوں آ کر اتفاقا ً ادھر چلے آئےتھے،گو اُن دنوں ہماری خط کتابت زوروں پر تھی اور میں اُن کی داستان ِعشق کا مستقل قاری تھا۔وہ اپنے ہر خط میں”پیاسا”کے گرودت محسوس ہوتے تھے ۔لاہور کے ماہر عکس پردازوں سے نہایت یاسیت زدہ تصویریں کھنچوا کر بھیجتے تھے اور مجھے حیرت ہوتی تھی کہ بیوی کے ہوتے ہوئے کوئی کسی لڑکی کے لیے ایسا پاگل بھی ہو سکتا ہے؟
حاکم سے دوستی مجھے ورثے میں ملی تھی۔میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ اُن کے والد میرے والد اور بڑے بھائی مہر نواب کے بیک وقت دوست تھے۔وہ جب کبھی کسی کام سے یا ویسے ہی ملنے کو بستی آتے تھے۔میاں چنوں سے ہو کر آتے تھے اور نہایت اعلیٰ درجے کا گوشت اور ترکاری پکڑے آتے تھے۔اُن کو گوشت کی اس قدر پہچان تھی کہ سیخ کباب کھاتے ہوئے بتا دیتے تھے کہ اس میں کس جانور کے کس حصے کا گوشت استعمال ہوا ہے۔اس کا دو ایک بار میں نے خود امتحان لیا اور کباںیے نے حیرت انگیز طور پر اُن کی تجزیے کی تائید کی۔شاید یہی وجہ تھی کہ شادی بیاہ کے موقع پر بکرے خریدنے سے لے کر کھانا پکوانے تک کی ذمہ داری اُن کے سر ہوتی تھی اور تقسیم کی میرے بھائی مہر مراد کے،جو کفایت شعاری میں اس حد کو پہنچے ہوئے تھے کہ دوسری بار سالن مانگنے والوں سے ضرور پوچھ لیتے تھے کہ بھئی کیوں اور کس لیے؟
تواضع کی یہ صفت حاکم اور اس کے چھوٹے بھائی ریاض میں بھی تھی اور ان کا آنا سب کو اچھّا لگتا تھا۔اس بار حاکم کا اتفاقی پھیرا اس لیے بھی خوش کُن تھا کہ اب اسے سُنانے کو میرے پاس بھی اک کہانی تھی۔سب سے مل جل کر ہم الگ ہو بیٹھے تو ہم دونوں نے اپنی کہانیوں کا تبادلہ کیا۔
ہماری پچھلی ملاقات کے بیچ ایک واقعہ ایسا پیش آیا تھا کہ جس کے باعث موصوف کو مجھ سے معمولی سا گلہ تھا کہ موصوف کی محبوبہ میرے موسمی بخار کی خبر پا کر عیادت کے لیے میرے گھر دوڑی آئی تھی اور اپنی بڑی بہن کے استفسار پر اپنی جان بچانے کے لیے میں نے کہہ دیا کہ وہ حاکم کی بیگم ہیں۔تب مجھے اس بات کا خیال ہی نہیں رہا کہ میری بہن اور ماں نہ صرف حاکم کی بیگم کو جانتی ہیں بلکہ متعدد بار مل بھی چکی ہیں۔
مگر حاکم کی آمد پر گھر کے کسی فرد نے اس مسئلے کو نہیں چھیڑا اور نہ چھیڑنے کی وجہ شاید یہ تھی کہ اس بلا کو وہ مجھ سے منسوب جانتے تھے۔اُن دنوں میری بڑی بہن کے مجھ پر عدم اعتماد کی کیفیت یہ تھی کہ عیادت کے واقعے کے بعد ایک بار جب ہم دوست ہنسی مذاق میں لاڈو کی کوئی بات کر بیٹھے تو میری بہن کو اُس وقت تک ہم سب پر شک ہی رہا،جب تک وہ لاڈو سے مل نہیں لیں جو ہمارے ہی ایک دوست کا اُس کی عدم موجودگی میں لیا جانے والا صفاتی نام تھا۔
سب اچھا محسوس کرنے پر حاکم نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں ملتان کی بلاؤں میں خود بھی دلچسپی رکھتا ہوں۔میرے پاس اس کا کوئی واضح جواب نہیں تھا مگر میں نے یہ ضرور واضح کر دیا کہ میں اب ایف ایس سی کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا اور ممکن ہو تو اس کا کوئی حل نکالا جائے۔اُن دنوں حاکم اور نذر اسلامیہ کالج آف کامرس لاہور سے آئی کام کرنے کے بعد ہیلی کالج آف کامرس میں بی کام میں پڑھ رہے تھے سو حاکم نے مجھے فوراً آئی کام میں داخلے کی صلاح دی اور اس سلسلے میں میرے والد سے بات کر کے مجھے لاہور لے جانے کا ذِمّہ بھی اُٹھایا تو میں نے بلا سوچے سمجھے اس کی تجویز پر لبیک کہا۔
حاکم نے اگلے ہی روز میرے ابّاجی سے بات کی اور مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ دیرینہ تعلق کی وجہ سے میرے والد اُسے میرے سب دوستوں میں افضل جانتے تھے۔وہ ذرا سی پس وپیش کے بعد راضی ہو گئے اور میں اگلے ہی روز ملتان جا کر اپنا بوریا بستر لے آیا۔