درس گاہ – 39

میں گورنمنٹ کالج ساہیوال میں فرسٹ ائیر میں پڑھتا تھا کہ”برکت منزل”سے چچا(پیر برکت علی شاہ)کی جیپ چوری ہو گئی،جس کا الزام علاقے کے ایک اور زمیندار ناصر دین شاہ پر تھا مگر چچا نے مقدمہ درج کرایا نہ بظاہر کوئی اور کارروائی کی۔اُسی شام ان کی بیگم ملتان کے کسی اور زمیندار کی گاڑی پر میاں چنوں ہمارے گھر تشریف لائیں اور ابّاجی کو شاہ صاحب کا پیغام دیا کہ نئی گاڑی کے لیے پیسوں کا انتظام کریں کہ اس وقت ان کے پاس گاڑی خریدنے کے لیے رقم موجود نہیں اور وہ اس وقت تک کوٹھی سے باہر نہیں نکلیں گے جب تک اُسی رنگ اور کمپنی کی نئی گاڑی دروازے پر نہیں آجائے گی۔
ابّاجی نے ہم بھائیوں کے نام پر دس ہزار روپے فی کس حبیب بنک میں پانچ سال کے لیے فکس کر رکھے تھے۔اُن میں سے معاہدہ شکنی کے جرمانے کی کٹوتی کے بعد اٹھارہ ہزار نکلوائے گئے اور بیس ہزار روپے پورے کر کے شاہ صاحب کو بھجوائے گئے۔مجھے یاد ہے نئی ولز جیپ اس وقت 18365 روپے کی ملی اور بیس ہزار میں شاہ صاحب بڑے کرّوفر سے جراحی پہنچے تھے۔

اس دوران مزے کی بات یہ ہوئی کہ ایوّب خان کی حکومت جاتی رہی۔عنان ِحکومت "My fellow Pakistanies” سے شروع ہونے والے مختصر خطاب کے بعد یحیٰی خان نے سنبھال لی۔مارشل لا لگا تو پیر ظہور حسین قریشی کے ذریعے چچا سے مذاکرات اور صلح کی گئی اور ایک برانڈ نیو ولس جیپ برکت منزل پہنچائی گئی.مارشل لا کے دبدبے کا یہ عالم تھا کہ میاں چنوں کے ہم سب دوست جو اُس وقت ہماری بیٹھک میں گپ شپ کر رہے تھے۔اس خیال سے خوب گلے مل کر رخصت ہوئے کہ دیکھیے اگلی ملاقات کی کیا صورت ہو۔
جیپ کی واپسی کے بعد چچا دونوں جیپیں لے کر ہمارے گھر تشریف لائے اور ابّا جی کو نئی جیپ اپنے لیے رکھنے کو کہا مگر ہماری کم عمری اور اپنی کہولت کی عمر کو پہنچنے کی وجہ سے ابّا نے انکار کر دیا۔اس سے زیادہ تفصیل مجھےمعلوم نہیں مگر اتنا جانتا ہوں کہ میرے والد نے اپنے پیسے کبھی واپس نہیں مانگے۔یہی وہ زمانہ تھا جب ڈپٹی صاحب نے میرے والد کو گلبرگ لاہور میں صرف بتیس ہزار میں ایم ایم عالم روڈ سے متصل غالب مارکیٹ کی طرف گھر لینے کی صلاح دی تھی اور ابّا جی نے اسے بے مصرف جان کر خریدنے سے معذرت کر لی تھی۔

اس سے اگلے برس شاہ صاحب کے سب سے چھوٹے بیٹے مراتب علی شاہ کی شادی تھی۔جس میں میرے والد نے نیگ اور ویل کے علاوہ دو ہزار روپے کی سلامی دی تھی۔بارات شاہ صاحب کے بھائی حسن شاہ کے ہاں گئی تھی اور دولہے کا شہہ بالا یہ احقر تھا۔اس شادی میں میری ملاقات پکا حاجی مجید کے اصغر علی شاہ کھگہ سے ہوئی اور ایک ہی دن میں ہم نے دوستی کی تمام منزلیں طے کر لیں۔مجھے یاد ہے کہ بارات کے ساتھ جاتے ہوئے میں نے دولہا کے ساتھ گاڑی میں براجمان ہونے کی بجائے اصغر کے ساتھ اُس کی ہیوی بائیک (نارٹن 5ہارس پاور)پر جانا پسند کیا تھا۔دلھن کی طرف کی ساری رسموں میں شامل رہا۔دلھن کی سہیلیوں سے لین دین میں معاونت کی۔دولہا کی جوتی اور چُھری کی حفاظت کی اور اگلے روز ماں کے کہنے پر اُس کا دیا ہوا ایک جڑاؤ سونے کا سیٹ لے کر دلھن کی منہ دکھائی کی رسم ادا کرنے پہنچا مگر اس نے سامنے آنے سے انکار کر دیا اور میں سیٹ وہیں چھوڑ کر پلٹ آیا۔شاید اسی واقعے نے مجھے مراتب سے قدرے دور کر دیا اور آہستہ آہستہ وہ میرے چھوٹے بھائی کے قریب ہو گیا۔

خیر یہ تو ایک جُملہء معترضہ تھا۔اس ساری کتھا کے سُنانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ لاہور جانے سے پہلے داخلے کے انتظار کے دن میں نے اصغر شاہ اور مشتاق احمد شاہ کھگہ(بعد میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ممبر صوبائی اسمبلی پنجاب)کے ساتھ کیرم کھیل کر گزارے۔اُن دنوں اصغر شاہ ملتان اور مشتاق احمد شاہ لاہور میں پڑھ رہے تھے اور تعطیلات پر گاؤں آئے ہوئے تھے۔وہ کم وبیش روزانہ میرے ہاں آجاتے تھے۔دوپہر کا کھانا بیٹھک ہی میں کھایا جاتا تھا اور ہم طالب کو ساتھ بٹھا کر دو یا چار کھلاڑیوں کے کمبی نیشن بنا کر کھیلتے تھے۔اس سرگرمی کا فایدہ یہ ہوا کہ ہم سب اس کھیل میں مشّاق ہو گئے۔
اس کے علاوہ حق نواز کے ساتھ شام کی نور شاہ تک سیر اور گاہے بگاہے شکار پر راوی کا جانا بھی برقرار تھا۔راوی یاترا پر جاتے ہوئے چودھری دلدار حسین پاندھا کے ڈیرے پر ٹھیکی لگائی جاتی تھی۔اُن کے صاحب زادے سجّاد سے میری گُوہڑی چھنتی تھی اور اُن کے علاوہ جراحی کے سجّاد حسین شاہ سے بھی جو پیر عاشق حسین کے فرزند تھے اور ہمارے مشترک دوست۔
اسی زمانے میں مجھ پر کچھ رنگ ِمیر بھی چڑھنے لگا تھا۔کبھی چاند میں تو کوئی صورت دکھائی نہیں دی مگر کہیں دو آنکھیں مجھ پر نگراں ضرور تھیں یا شاید میں اُن کا متلاشی تھا۔میری شاعری میں ایک غیر واضح شکل اپنے خدوخال سنوارنے لگی تھی مگر میں اتنا جانتا تھا کہ ایسی کوئی صورت گردونواح میں موجود نہیں اور نہ ہی اس کی غیب سے نمود کا کوئی امکان تھا۔
اس سے قدرے پہلے میں نے اردو ڈائجسٹ میں احمد ندیم قاسمی کا تعارف پڑھا اور حرم گیٹ سے متصل بُک سٹور سے اُن کی اور فراز کی چند کتابیں خریدی تھیں۔فیص سے فرار تک گویا پانی ایک ہی دھارے میں بہہ رہا تھا۔اس لیے میں ترقی پسند ہو گیا اور یہ ٹیڑھ کسی نہ کسی رنگ میں ابھی تک میرے مزاج کا حصّہ ہے۔

ایک بار سجّاد پاندھا کی طرف گیا تو وہ اپنے عزیزوں کے ساتھ میز پر کیرم جمائے کھیلنے میں مصروف تھا۔اتفاق سے انہیں چوتھے کھلاڑی کی تلاش تھی اور وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ یہ سرگرمی میرے گھر پر روز کا معمول ہے۔یوں بھی میں نے میڑک کرنے سے پہلے ہی کیرم خرید لیا تھا اور گھر کے اندر بہن بھائیوں کے میچ بھی ہوتے رہتے تھے۔میں اچھّے کھلاڑیوں میں شمار ہوتا تھا مگر سجّاد کی دعوت پر میں نے اس کھیل سے نابلد ہونے کا تاثر دے کر انکار کر دیا۔اُس کے اصرار اورسِکھا دینےکی آفر پر بیٹھ گیا تو کیرم کھولتے ہی ایک ہی سٹروک میں پانچ گوٹیاں پاکٹ کر دیں،جسے محض اتفاق گردانا گیا۔میں نے لاکھ بُرا کھیلنے کی کوشش کی مگر میدان میں اور میرے ساتھی کے ہاتھ رہا تو میرے ساتھی کو تبدیل کر کے نیا بورڈ لگایا گیا۔نتیجہ اب بھی وہی رہا تو سجاد صاحب ون ٹو ون کا چیلنج کر کے میرے سامنے آ بیٹھے۔اب بھی جیت میری ہوئی تو وہ ہکّا بکّا رہ گئے۔فرمانے لگے”میں نے آج تک کسی شخص کو اس تیزی سے اس کھیل میں مشّاق ہوتے نہیں دیکھا”تو میں نے عرض کیا کہ میں نے بھی کوئی ایسی کرامت نہیں دکھائی۔یہ صرف اس لیے ممکن ہوا ہے کہ میں یہ کھیل کئی برسوں سے کھیل رہا ہوں اور آپ نے بغیر تحقیق کیے مجھے اناڑی سمجھ لیا۔حالاں کہ آپ کو پہلے ہی سٹروک میں سمجھ لینا چاہیے تھا کہ پانچ گوٹیاں پاکٹ کیوں ہوئیں۔
یہ تین ماہ یا اس سے زیادہ کچھ عرصہ میں نے بستی اور میاں چنوں میں گزارا۔پھر حاکم داخلے آغاز ہونے کی خبر لے کر پہنچا۔ساتھ ہی اُس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ داخلہ آئی کام پارٹ سیکنڈ میں ہو گا تاکہ میری سٹڈی کا ایک سال بچایا جا سکے۔ماں باپ نے مجھے ایک ہزار روپے دے کر رخصت کیا۔میرے سامان میں ایک بستر بند اور ایک سیمسونائیٹ کا اٹیچی تھا جو میں نے حرم گیٹ بازار ملتان سے خریدا تھا۔لاہور پہنچنے پر رات ہم ہیلی کالج کے سامنے ایک گلی میں ٹھہرے۔یہ کمرہ حاکم اور نذر کے پاس کرایے پر تھا۔کھانا نابھہ روڈ کے مدینہ ہوٹل سے کھایا گیا جہاں ان دونوں کا حساب چلتا تھا۔صبح کوئینز روڈ پر گنگا رام ہسپتال سے ذرا آگےایک کوٹھی میں واقع اسلامیہ کالج آف کامرس پہنچے۔اس قدر نحیف اور مختصر کالج دیکھنے کا یہ میرا پہلا اتفاق تھا۔بہت مایوسی ہوئی مگر اب لوٹ جانے کی کوئی صورت نہیں تھی۔اُس وقت اس کالج کے پرنسپل رانا شبیر احمد اور ہیڈ کلرک شبیر احمد شاہ تھے جو ایسی آواز کے مالک تھے کہ اوٹ سے اُن کی آواز سننے پر اُن پر عورت ہونے کا قوی گمان گزرتا تھا مگر تھے کمال کے آدمی۔داخلہ ہونے میں چند منٹ لگے اور میں پہلے ہی روز کلاس میں جا بیٹھا۔یہ انگریزی کی کلاس تھی اور پروفیسر صاحب کا نام ریاض حسین تھا۔میری انگریزی اگر اچھی نہیں تھی تو بُری بھی نہیں تھی۔یوں بھی یہ مضمون میں ایف ایس سی میں کلئیر کر چکا تھا۔اردو کے استاد پروفیسر محمد ادریس تھے۔بہت برسوں بعد پتا چلا کہ وہ نقّاد ہیں اور سجّاد حارث کے قلمی نام سے لکھتے ہیں۔ان کی دو معروف کتابیں "ادب اور جدلیاتی عمل ” اور ” ادب اور ریڈیکل جدیدیت”تھیں۔وہاں بھی خیریت ہی گزری۔خرابی تو پرنسپل آف اکاؤنٹنگ کے پیریڈ میں ہوئی،جس کا نام ہی میں پہلی بار سُن رہا تھا مگر یہ خرابی کیمسٹری اور ریاضی کی خرابی کے مقابلے میں بہرحال فروتر تھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے