درس گاہ – 40

کالج سے واپسی پر اُسی دن حاکم نے مجھے ساتھ لیا اور ہم سائیکل چلا کر پُرانی انارکلی کے دو ایک گھر رہائش کےلیےدیکھنےگئے۔حاکم،نذر، عامررضاخاں(اداکار یوسف خاں کے قریبی عزیز تھے)اور مجھ سمیت چار افراد کے لیے چار کمروں کا گھر کرایے پر درکار تھا مگر جو گھر ہمیں پسند آتا تھا،اس کے مالک کو ہم پسند نہیں آتےتھے اور جو لوگ ہمیں پسند کرتےتھے،ان کے مکان ہماری ضرورت کے مطابق نہیں تھے۔آخرِکار عارف شاہ سٹریٹ سنت نگر میں جو نہرو پارک سے آگے ابدالی روڈ پر چوہان سٹریٹ سے پہلے اور کرشن نگر چوک سے ترچھی نکلنے والی حیدریہ روڈ کے ادغام کے مقابل تھی اور جس کے دائیں طرف بعد میں سیّد ہاسٹل کی عمارت بنی،پانچ مرلے کا ایک مکان ملا۔ یہ مکان چوک میں گلی کا پہلا مکان تھا اور اس میں بھی تین ہی کمرے تھے مگر اسی مالک کا ایک اور مکان گلی میں ایک مکان کے فاصلے پر اور تھا،جہاں ایک کمرہ مع غسل خانے کے دستیاب تھا۔یہ گھر بھی کرایےپر چڑھانے کی غرض سے بنا تھا۔گلی کے رُخ پر اور اس کے پیچھے گزرگاہ کے رُخ پر کھلنے والا کمرہ ایک یا دو افراد کے رہنے کے لیے تھے۔ان کمروں کے سامنے گزرگاہ تھی اور صحن کے سامنے اوپر تلے چھے مختصر فلیٹس۔اویر والے فلیٹس کی سیڑھیاں بائیں جانب سے تھیں اور اس کی گزرگاہ نیچے والے فلیٹس کے برآمدے کا کام دیتی تھی۔سو کہا جا سکتا ہے کہ ان فلیٹس میں پردے کا انتظام خاصا معقول تھا۔
ہمارے مسئلے کا حل مکان اور مزید ایک کمرہ لینے میں تھا جہاں ہم میں سے کوئی ایک ٹِک جائے اور ہم نے ایسا ہی کیا۔مکان کا کرایہ ایک سو بیس روہےعلاوہ بلز اور کمرے کا کرایہ بیالیس روپے مع یوٹیلٹی بلز تھا اور اس مع کی وجہ یہ تھی کہ مکان کا بل مشترکہ آیا کرتا تھا اور اس میں سے دو چھڑےکمروں کےحصے کےچار روپے مقرر تھے۔یعنی کمرے کا اپنا کرایہ چالیس روپے تھا۔
ہم نے یہ گھر اور کمرہ لینے پر رضامندی ظاہر کی تو گھنٹہ بھر میں چابیاں ہماری جیب میں تھیں۔یہ مہینے کے آخری دن تھے۔حاکم مجھے لے کر اگلے ہی روز بانساں والا بازار گیا۔مجھے اعتراف ہے کہ بانس سے بنی چارپائی میرے لیے نئی دریافت تھی اور اس سے زیادہ بانس کی کرسیاں اور بُک ریک۔کہیں اور سے ہم نے لکڑی کی ایک میزخریدی اور دو چارپائیاں،دو کرسیاں اور ایک سٹڈی چیئر لے کر ہم اپنے سامان کے ساتھ اس گھر میں شفٹ ہو گئے۔پرانی انارکلی والے کمرے کی مالک خاتون ہمارے جانے پر کافی دُکھی تھی مگر شاید حاکم نے یہ فیصلہ میرے لیے کیا تھا اور مجھےاس اعانت کی ضرورت بھی تھی۔
حاکم اور نذر کئی برس سے ساتھ رہ رہے تھے۔اس لیے میں نے کمرے کا انتخاب کیا۔سب کچھ مرتب کرنے میں دس منٹ لگے۔پھر ہم لوگ نابھہ روڈ پر مدینہ ہوٹل پر آئے وہاں پینتالیس روپے ماہانہ پر دو وقت کےکھانےکاطےکیا اور کالج کے قریب حبیب بنک میں اکاؤنٹ کھلوا کر چھے سو روپے ان کے حوالے کیے۔تب بھی میرے پاس اتنی رقم موجود تھی کہ میں ایک سو بیس روپے میں آٹھ تصاویر بنانے والا ایک ایسا کیمرہ خرید سکوں،جس کے فریم کو اوپر سے دیکھا جائے اور تصویر کی کوالٹی بھی بے مثل ہو۔رولی فلیکس کا یہ کیمرہ میں نے نئی انارکلی کی ایک فوٹو شاپ سے خریدا اور ڈاکٹر ریاض حسین بزدارجنہیں میری والدہ نے بیٹا بنا رکھا تھا اور میں بھی اپنا بڑا بھائی جانتا تھا،کے ضبط کر لینے تک میں نے اس سے بیسیوں یادگار تصاویر بنائیں۔
حاکم والے مکان کے سامنے گلی کے دوسرے کونے میں صوفی ٹی سٹال تھا۔ہمارا ناشتا یہیں سے آتا تھا۔کبھی وہیں بیٹھ کر کھا پی لیا کبھی آواز دے کر اپنے کمرے میں منگوا لیا۔ناشتے میں آملیٹ،خاگینہ
،فرائیڈ انڈہ اور پراٹھا مل جاتا تھا اور کپ کیک اور رس بھی۔کمرے میں ناشتا صوفی کی دکان کا چھوٹا پہنچاتا تھا۔کبھی وہ موجود نہ ہوتا تو وہ اپنی نوجوان بیٹی کو بھجوا دیتا جو آتی تو میرا کمرہ بھی صاف کر جاتی۔کبھی کسی نے اعتراض کیا نہ شک۔کمرہ صاف کرنے کا کوئی معاوضہ نہیں تھا اور نہ ہی کبھی مجھے کسی معاوضے کا دھیان آیا۔اب سوچتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ اُن دنوں مجھے اس کے لڑکی ہونے کا دھیان بھی کم ہی آتا تھا۔میرا کمرہ ایسی جگہ پر تھا کہ دھوپ آتی ہی نہیں تھی۔اس لیے سردیوں میں گلی میں دفتر لگا لیتا تھا اور گرمیوں میں ہم سب رات کو باہر پنکھا لگا کر سو جاتے تھے۔کبھی کسی کو اعتراض ہوا نہ سوئے ہوؤں کی کبھی کوئی شے گم ہوئی۔
گلی میں کھلنے والے کمرے میں سیّد وجاہت حسین رہتے تھے۔آپ پنجاب یونیورسٹی میں کیمیکل انجینئرنگ کے استاد تھے اور شاید ابھی ابھی سروس میں آئے تھے۔شرمیلے،کم گو اور بہت نستعلیق آدمی تھے۔مجھ سے جلد ہی گاڑھی چھننے لگی تھی مگر گلی میں بیٹھنے اور سونے پر کبھی آمادہ نہیں ہوئے۔اُن سے اُن کے شعبے میں بھی ملاقاتیں رہیں اورجب امتحان دینے کے لیے میری اسناد کی تصدیق کی ضرورت پڑی تو یہ خدمت بھی انہوں نے انجام دی۔ہمارے بیچ ضرورت پڑنے پر پیسے کا لین دین بھی تھا مگر اس کا طریق ِکار بہت دلچسپ تھا۔ہم اس سلسلے میں آپس میں بات نہیں کرتے تھے۔ہمارے کمرے کے بیچ ایک دروازہ تھا جو دونوں طرف سے بند رکھا جاتا تھا۔ضرورت پڑنے پر اس دروازے کے نیچے سے ایک خط ہلکی سی دستک دے کر روانہ کر دیا جاتا تھا جو مطلوبہ رقم سے بھر کر لوٹ آتا تھا۔ادھار کی واپسی کا پروٹوکول بھی یہی تھا اور یہی رہا۔
اس دوران میں میں نے لاہور کو خوب گھوم پھر کر دیکھا۔کالج کے کسی دوست کو ساتھ لے کر آوارہ گردی کی جاتی۔تصاویر بنتیں۔لاہوری کھانے کھائے جاتے۔پٹھورے،پائے،چانپ اور ٹکاٹک وغیرہ اُسی زمانے میں دریافت کیے۔نہاری اور حلیم شوق سے نہیں کھاتا تھا اور دہی سے نفور کی وجہ سے پیٹھی والے لڈّو اور دہی بھلّے سے کبھی نسبت پیدا نہ ہو سکی۔مدینہ ہوٹل پر پرچی سسٹم تھا۔اس لیے بعض اوقات میرا ایک مہینہ کہیں دو مہینوں میں جا کر پورا ہوتا۔
کالج جاتا تھا مگر کامرس کے مضامین میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی۔یوں بھی پارٹ سیکنڈ کے ایڈمشن نے مشکلات پیدا کر دی تھیں کہ مضمون کی بنیادی اصطلاحات کا مجھے علم ہی نہیں تھا مگر میں کالج جانے میں بے قاعدہ نہیں تھا۔انارکلی اور مال کی کتابوں کی دکانوں پر گھومنے سے بہت سے رسائل سے آگاہ ہو گیا تھا۔فنون کے علاوہ اوراق،نئی قدریں،افکار،سیپ،حرم،زیب النسا،حور وغیرہ میرے مطالعے میں رہنے لگے تھے۔نقوش اور سویرا سے بھی آگاہی تھی مگر کم۔آداب عرض کے مدیر خالد بن حامد کو جا کر ملا تھا اور اس نے آتے رہنے کی صلاح دی تھی مگر ابھی ادیبوں سے میل ملاقات کا سلسلہ آغاز نہیں ہوا تھا۔
انہی دنوں کالج میں طلبہ کو کالج میگزین’المعیشت”کے لیے لکھنے کی دعوت دی گئی۔میں نے انگریزی میں ایک مضمونAtom and the man اور مختصر ڈرامہ Justice of the new king لکھے اور ریاض صاحب کے حوالے کر دیے۔مجھے ان کے مسترد ہونے کا سو فیصد یقین تھا مگر وہ چھپ گئے۔1970 کا سال تھا اور میں اٹھارہ برس کا ہو چکا تھا جب مجھے یہ عزت نصیب ہوئی اور مجھے لگا کہ اب میں کھل کر سانس لے سکتا ہوں۔اسی برس میری کچھ نظمیں ‘آداب عرض’میں شائع ہوئیں اور کچھ مزاحیہ تحریریں کچھ فکاہیہ رسائل میں جو اب میرے پاس محفوظ نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے