صوفی ٹی سٹال کی دائیں طرف تبسّم لانڈری تھی اور دو تین کریانے وغیرہ کی دکانیں۔یہ تبسّم صاحب وہی ذاتِ شریف تھے جو قریب قریب ہر فلم میں بےبی جُگنو کے نام سے ہیرو اور کبھی ہیروئن کے بچپن کا رول کیا کرتے تھے مگر اب اُن کے تسلط کا سورج گہنا رہا تھا۔وجہ یہ تھی کہ وہ بچپن کی حد سے نکل رہے تھے اور اپنی نسائی آواز اور چہرے کی ملاحت اور معصومیت ہر دو سے محروم ہو رہے تھے۔اُن کی لانڈری بڑی نہیں تھی مگر اچھی چل رہی تھی۔مستقل گاہکوں کے لیے سیکڑہ کا حساب چلتا تھا۔ہر طرح کے کپڑے دھونے کے لیے لےجاتے ہوئے گن لیےجاتے تھے۔ہر ہفتے گھر پر آ کر کپڑے لے جائے اور پہنچائےجاتے تھے۔میں نے ابھی شلوار قمیص پہننا شروع نہیں کی تھی۔دن بھر ڈریس پینٹ اور شرٹ اور سوتے وقت پاجامہ بشرٹ۔سکھ کمیونٹی کی طرح میرا تعصب بھی یہی تھا کہ شلوار قمیص عورتوں کا ملبوس ہے۔
لاہور پہنچتے ہی میں نے حاکم اور نذر کے ساتھ جا کر انارکلی سے لارنس پور سوانا خریدا تھا اور ڈیڑھ سو روپے فی کس سلائی دے کر دو تھری پیس سوٹ اسحاق اور انگلش ٹیلر انارکلی سے سلوائے تھے۔ماوزے تنگ سے متاثر ہو کر میں نے ایک سوٹ کی ویسٹ کوٹ بند گلے والی بنوائی تھی اور سردیوں میں زیادہ تر یہی سوٹ میرے زیرِ استعمال رہتا تھا۔یہی نہیں میرا ٹھکانہ دیکھنے کے لیے لاہور آنے پر ایک ٹوانہ سٹائل کوٹ(یہ کوٹ گھنٹوں تک لمبا اور قدرے گھیرے دار ہوتا تھا)اپنے ابّا جی کے لیے بھی سلوایا تھا۔یہ پیسے مجھے میری ماں سے ملے اور پہلے سے موجود بنک بیلنس کو چھیڑنے کی ضرورت نہیں پڑی۔
کون یقین کرے گا کہ ضرورت پڑنے پر چیک بیس سے پچاس روپے کے مابین لکھا جاتا تھا اور اسے معمولی رقم نہیں سمجھا جاتا تھا۔
کمرے میں ذخیرہ کرنے کے خیال سے ہم نے ٹولنٹن مارکیٹ کے شاندار سٹورز سے مختلف قسم کے جام اور شربت خرید کیے۔سٹرابیری جام شاید ہالینڈ سے بنا آتا تھا اور ومٹو بھی۔اسی مارکیٹ کی ایک بیکری میں پہلی بار ہنٹر بیف چکھنے کا موقع ملا مگر میرے اندر کے دیہاتی کو بھایا نہیں۔سچ ہے کہ ذائقے کی بھی اپنی تہذیب ہوتی ہے اور کسی خاص پکوان کی طرف آپ کا میلان تربیت اور اجتماعی نفسیات کا حصہ ہوتا ہے۔کوئی چالیس برس پہلے میرے امریکہ میں مقیم برادرِنسبتی نےوہاں کے مقبول کھانوں کے حوالے سے کے ایف سی کا ذکر کیا تو میں نے پہلا سوال یہ کیا تھا کہ اُسے کھاتے کس طرح کی روٹی کے ساتھ ہیں؟یہ بات میرے لیے حیران کن تھی کہ پیٹ بھرنے کے لیے صرف گوشت بھی کھانا ممکن ہے.
گلی کی بائیں جانب ایک ہئیر کٹنگ سیلون مع حمام تھا اور دو ایک مختلف نوعیت کے کاریگروں کی دکانیں۔سردیوں میں ہم سب کے نہانے کا ٹھکانہ یہی تھا مگر میری کوشش ہوتی تھی کہ بال میاں چنوں کے محمد منشا سے ترشواؤں جو نفیس ہیر کٹنگ سیلون کے مالک تھے اور میرے قدردان۔انہوں نے جراحی کے ادھم شاہ سے آُن کا شہر والا مکان خریدا تھا۔وہ رقم لے کر قبضے کے سلسلے میں کچھ لیت ولعل کر رہے تھے۔میرے کہنے پر کرم فرما کر قبضے سے تائب ہو گئے۔یہ دوست نوازی اور دیرینہ محبت کا احیا تھا مگر منشا صاحب نے اسے احسان جان لیا اور شہر بھر میں اُس کی تشہیر کرتے پھرے۔میرے دکان میں جانے پر وہ اپنے ہر اسیر کو یہ کتھا سُناتے تھے اور مجھے شرمندگی ہوتی تھی مگر سچ یہ ہے کہ کہیں اندر ہی اندر مجھے یہ سب اچھا بھی لگتا تھا۔اس لیے بھی کہ میرے ایک استاد میری ایف ایس میں ناکامی اور بعد کی جدوجہد سے نالاں تھے اور شہر میں جا بجا میرے حوالے سے اپنی مایوسی کا اظہار کرتے پھرتے تھے۔ایسے میں منشا کا میرے حق میں اس بلند آہنگی سے کلمہءخیر کہنا میرے لیے بڑی نعمت تھی اور شاید یہی کشش مجھے اس کی دکان پر کھینچ لے جاتی تھی۔
اب سوچتا ہوں تو وہ استاد کچھ ایسے غلط بھی نہیں تھے۔میرا مستقبل بظاہر مخدوش تھا اور اُجالے کی کوئی کرن کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی۔شاید اسی نفسیاتی تشنّج کا اثر تھا کہ اُس دور میں لکھی جانے والی میری کہانیوں کے کردار عام طور پر بی۔اے میں پڑھنے والے طالب علم ہوتے تھے۔
فلیٹس میں رہنے والے دو بھائی محمد سلیم شاد اور اشرف شاد تھے۔اشرف بڑے تھے اور کسی فارماسیوٹیکل کمپنی کے ایجنٹ تھے اور شہر شہر گھوم پھر کر دوائیں بیچتے تھے۔سلیم شاد اور ان کے ایک دوست مشتاق احمد صدر دونوں فارغ اور صرف رومانٹک ہیرو تھے اور ان کی نششت و برخاست اور طرز ِاظہار پر فلمی رنگ غالب تھا۔صدر صاحب کی اس گلی میں روزانہ جبہ سائی کی وجہ میٹرک میں زیر تعلیم ایک لڑکی رانی تھی۔یہ اوپر تلے کی چار بہنیں نہیں چار قیامتیں تھیں اور اسی گلی میں مجھ سے چند مکان آگے رہتی تھیں۔ان میں رانی سب سے چھوٹی مگر فتنہ سامانی میں اور حسن وجمال میں بھی سب سے بڑھی ہوئی تھی۔گلی میں آتے جاتے،کبھی نشست جمائےکبھی بستر لگاتے یا سمیٹتے ہم ان بہنوں کی نظر میں ہوتے تھے مگر مشاق احمد صدر کی آمد پر ان سے کبھی سامنا ہوا ہی نہیں۔ مجھ سے متعارف ہونے کے بعد صدر صاحب ہر روز میرے کمرے میں آ کر اپنا درد ِدل کہنے لگے۔خوش کلام تھے اور ان کا سامع ہونا بُرا نہ تھا مگر میں ان کی مدد کرنے سے بہرطور معذور تھا۔
پھر سُنا وہ تُرکی جا رہے ہیں۔رخصت ہونے سے پہلے انہوں نے لگ بھگ دو سو صفحات کی ایک نوٹ بُک میرے حوالے کی کہ کسی طرح میں اسے رانی تک پہنچا دوں۔یہ ایک طویل خط تھا جگہ جگہ خون آلود قلم میں بھیگا ہوا۔صدر کی منت سماجت پر میں نے رکھ تو لیا مگر سمجھ میں نہیں آتا تھا۔یہ مکتوب الیہ تک پہنچے کیسے؟
آخرِکار میں نے سکول جاتے ہوئے رانی کے تعاقب کرنے کا سلسلہ آغاز کیا۔وہ ابدالی روڈ سے سنت نگر چوک کراس کر کے ایک تنگ گلی سے ہو کر دیو سماج روڈ پر نکلتی تھی اور پرانی انارکلی کے لیڈی میکلیگن سکول جاتی تھی مگر اس تمام عرصے میں وہ اکیلی ہوتی تھی نہ مڑ کر دیکھتی تھی۔ہاں میری صبح کی سیر ضرور ہو جاتی تھی۔لیڈی میکلیگن سکول کے قریب سے میں کوئی سواری لے کر کالج چلا جاتا تھا اور اگلے روز یہ بے سود مشقت پھر دہرائی جاتی تھی۔اس سارے عرصے میں میں نے بڑھ کر فاصلے کو کم کیا نہ کبھی اُس نے احساس دلایا کہ وہ اپنے تعاقب کیے جانے کے عمل سے آگاہ ہے۔تین ماہ ہونے کو آئے تھے اور ابھی تک وہ نوٹ بک اُس تک پہنچ نہیں پائی تھی کہ ایک دن اس تنگ گلی کے آتے ہی اُس کی دوسری سہیلیاں اچانک اُسے اکیلا چھوڑ کر دائیں طرف نکلنے والی گلی میں گُھس گئیں اور وہ اکیلی ہی اپنے مقرر کردہ روٹ پر چلتی رہی۔ہمارے بیچ کافی فاصلہ تھا اور میں قدرے تیز ہوا کہ جلد اس کے قریب ہو سکوں تو میں نے دیکھا کہ اس نے اپنی رفتار بہت کم کر دی ہے۔ایک منٹ سے بھی کم وقت میں اُس کے برابر پہنچ گیا تو اس نے بغیر میری طرف دیکھے ایک ہی لفظ کہا”کہو”!
میں نے فوراً نوٹ بک اُس کے ہاتھ میں تھما دی اور مُڑ کر ایک جنونی رفتار سے واپس چل دیا۔کچھ دیر بعد مڑ کر دیکھا تو وہ گلی میں موجود نہیں تھی اور شاید دیو سماج روڈ کی طرف نکل گئی تھی۔
اُس رات’شبِ برات’تھی۔میں سارا دن باہر رہا۔رات کا کھانا کھا کر پلٹا تو صوفی کے ہوٹل پر چائے پینے کے لیے بیٹھ گیا۔گلی میں بڑی رونق تھی۔پٹاخے پھوڑے جا رہے تھے اور بچّے پُھلجھڑیاں لیے ہوا میں روشنی کے دائرے بنا رہے تھے۔لوگ گلی میں اہلے گہلے پھر رہے تھے۔میں یہ سب دیکھنے میں مست تھا کہ کسی نے حلوے کی ایک ننھی پیالی میری ناک کے سامنے لہرائی۔دیکھا تو رانی تھی اور اس کی آنکھوں میں ایک نامانوس سی چمک تھی۔
"حلوہ کھائیے”اُس نے عجب بے تکلفی سے کہا۔
"وہ خط پڑھ لیا تم نے”میں نے پیالی پکڑتے ہوئے اتنے دھیمے لہجے میں کہا کہ جسے شاید میں ہی سُن پایا ہوں گا۔
"ہاں”اس کا جواب بڑا مختصر تھا۔
"پھر؟” میں نے پہلی بار اُسے آنکھ بھر کر دیکھا
"مگر میں تو آپ سے محبت کرتی ہوں”
ابھی میں اس بات کو سمجھنے کی کوشش میں تھا کہ وہ ہوا کے جھونکے کی طرح لہرائی اور محلے کی دوسری لڑکیوں میں گُھل مِل گئی۔
حلوے کی مٹھاس اور چائے کی حلاوت کے علاوہ بھی فضا میں کچھ رس بھرا ترشح تھا جس نے مجھے صوفی کے ہوٹل کی کُرسی سے دیر تک باندھے رکّھا۔