درس گاہ – 42

انہی دنوں میں نے حبیب جالب کو سنت نگر چوک میں جاتے دیکھا تو دوڑ کر ساتھ جا ملا اور سلام ِمحبت پیش کیا۔وہ بھی بہت محبت سے ملے۔میری اس محبت کی وجہ ایوبی دور میں ان کی عوامی شاعری بھی تھی اور ان کی کتاب’برگ ِآوارہ’بھی۔جس کی بعض نظمیں مجھے اب بھی یاد ہیں:
‘اردو ادب میں ڈھائی ہیں شاعر میرو غالب آدھا درد
اور اک نظم ہے چوہے پر حامد مدنی کا شہکار۔۔۔۔(نقّاد)
اُسے اک کھلونا لگی ہتھکڑی
مری بچّی مجھے دیکھ کر ہنس پڑی
یہ اور اس نوع کی دیگر نظموں میں متاثر کرنے کی ایک جادوئی طاقت تھی۔شاید اس لیے کہ میں خود شناسی کی منزل سے گزر رہا تھا۔مزاحمت خواہ وہ فادر فگر کے خلاف ہو،مذہب اور معاشرے سے متعلق ہو،زمانے کی استبداد سے وابستہ ہو،فکری استیصال سے منسلک ہو،میرے مزاج کا حصّہ بن رہی تھی۔تب کون سوچ سکتا تھا کہ ایک دن میں خود اس فادر فگر کی ایک ادھوری کل ہوں گا اور ماضی کی معدوم ہوتی صورت کو جسے کبھی مٹا دینے کی حسرت تھی،کہیں غیاب سے امڈ کر ورود کرنے کی آرزو میں مبتلا رہوں گا۔

مشاق احمد صدر افغانستان اور تُرکی گھوم پھر کر واپس آ گئے تھے۔اصل میں ان کے بڑے بھائی سکوارڈن لیڈر تھے اور کسی وجہ سے ترکی میں تعینات تھے بلکہ انہوں نے وہاں شادی بھی کر رکھّی تھی۔ادھر مشاق صاحب کا کام بس جوتیاں چٹخانا تھا اور یہی شغل سلیم شاد کا اور میرا بھی تھا۔اس لیے’ آ ملے ہیں سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک’جیسی صورت کا پیدا ہونا فطری تھا۔میں کالج جاتا تھا۔حاکم اور نذر سے بھی دن رات کی صحبت تھی مگر میرا زیادہ وقت صدر اور شاد کی معیت ہی میں گزر رہا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ دونوں’فُقرے’تھے اور میری مصاحبت کرتے رہتے تھے۔کھانا پینا اور فلم بینی تک میرے پلّے سے ہوتی تھی تو وہ میری آرتی کیوں نہ اُتارتے؟
رانی نے صدر کی واپسی سے پہلے ہی ان کا’خط’ مجھے واپس کر دیا تھا۔پڑھ تو پہلے بھی رکھّا تھا اور میں موصوف کی تحریر کی ادبیت اور جذبے کی شدّت سے متاثر بھی ہوا تھا مگر اسے اب پڑھنے کا مزہ ہی اور تھا۔رس کی ایک ہی پھوار نے میری سوچ کا دھارا بدل دیا تھا۔خط پڑھتے ہوئے میں پہلےجن مقامات پر دُکھی ہوا تھا،وہاں اب ہنسی آتی تھی اور کبھی کبھی طیش مگر صدر کی واپسی پر میں نے کسی ردّ ِعمل کا اظہار کیے بغیر اُس کی امانت اُسے یہ کہہ کر لوٹا دی کہ رانی نے یہ خط لینے سے انکار کر دیا تھا۔جھوٹ بولتے ہوئے مجھے یہ اطمینان تھا کہ خط لیتے ہوئے رانی کو اگر یہ علم ہوتا کہ میری حیثیت صرف پیام بر کی ہے تو وہ یقیناً یہ پلندہ وصول ہی نہیں کرتی۔

رانی کے اعتراف ِمحبت پر مجھے فخر سے پھول جانا چاہیے تھا مگر کسی باطنی کیفیت نے مجھے عجیب سے خوف میں مبتلا کر دیا۔میں آتے جاتے اور محلے میں گھومتے پھرتے ہوئے پہلے کے مقابلے میں زیادہ محتاط ہو گیا اور میرا زیادہ وقت کمرے میں گزرنے لگا۔اُن دنوں میں نے انگریزی اخبار’پاکستان ٹائمز’لگوا رکھّا تھا جس میں قلمی دوستی کا ایک کالم ہوا کرتا تھا۔میں نے مشغلے کے طور پر ڈکشنری کی مدد سے دو ایک نا کتخداؤں کو نہایت نستعلیق انگریزی میں خط لکھے کہ اپنا حال اُن سے بانٹوں مگر جواب نہایت بدخط اور بازاری اردو میں آئے اور ایسے بدمزہ کہ توبہ کرنے ہی میں بھلائی جانی۔نہ معلوم کیوں میں نے حاکم تک کو اپنے اس معاملے سے الگ رکھا حالاں کہ میں اس کے ہر فعل کا رازداں تھا اور وہ میری زندگی کے ہر پیچ و خم سے آگاہ۔ہم نےاسی دور میں بہت سی اچھی انگریزی فلمیں دیکھیں۔الزبتھ ٹیلر اور رچرڈ برٹن کی’کلو پیٹرا،ٹیمنگ دی شِرو’کے علاوہ صوفیہ لورین کی’سن فلاور’ڈیوڈ لین کی’کسنڈرا کراسنگ’کلارک گیبل کی
‘گون وڈ دی ونڈ’ اور انتھنی کوئین،عمر شریف،گریگری پیک،پیٹرو ٹول،جیری لوئس،اور دیگر بڑے اداکاروں کی بیسیوں خوبصورت فلمیں جو ایک طرح سے گورنمنٹ کالج ساہیوال کے سنیما کلب کا تسلسل تھیں مگر اب ان کے دیکھنے کا مزہ اور تھا۔میرے اور حاکم دونوں کے پاس فلموں سے ابھرنے والی جمالیاتی کیفیت سے ادغام کے لیے اپنی اپنی کہانی تھی مگر عجیب بات یہ تھی کہ میری تخئیلی صباحت کی نسبت لاہور سے نہیں تھی۔

تبھی میں نے کسی اخبار میں’دس سوالات’کے تحت قریشی گیس پیپرز اردو بازار کا اشتہار دیکھا۔کالج کے ہیڈ کلرک سے معلوم ہوا کہ عنقریب ضمنی امتحان ہونے والا ہے۔میں نے امتحان دینے کا ارادہ کیا اور لاہور بورڈ سے معلومات لیں تو پتا چلا مجھے اس مقصد کے لیے ملتان بورڈ سے این او سی کی ضرورت ہے۔میں نے سوا پانچ روپے خرچ کیے اور ملتان آ کر ایک ہی دن میں یہ کام نپٹا لیا۔اس عرصے میں مجھے باقیات ِملتان کے دو ایک خط بذریعہ آصف آئے تھے اور اُن میں فراقیہ اشعار کی بھرمار تھی مگر جب رات بھر کے قیام کے لیے میں برکت منزل پہنچا تو پتا چلا کہ دو دیوؤں نے اس خانۂ خالی کو بھر دیا ہے۔افسوس ان کامران رُستموں میں اسلم میتلا شامل نہیں تھے۔میری آمد پر میری بڑی آؤ بھگت کی گئی۔مجھے میرے ہی کمرے میں ٹھہرایا گیا۔اسلم اور طاہر فاروقی سے بھی ملاقات ہوئی مگر دعوت کے باوجود میں کسی چبارے کی سیڑھیاں چڑھا نہ کسی کو اپنے ٹھکانے کی سیڑھیاں چڑھنے دیا۔

لاہور پلٹ کر میں نے اکنامکس،سوکس اور تاریخ کی کتابیں خریدیں۔اگلے ہی روز ایف۔اے کا داخلہ بھجوایا۔قریشی گیس پیپرز منگوائے۔اپنے آپ کو ایک ماہ کے لیے کمرے میں بند کیا تاہم کالج کے معمولات کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھا۔نہ معلوم کیوں میں نے اپنی اس سرگرمی کو کسی پر ظاہر نہیں کیا سوائے سیّد وجاہت حسین کے جنہیں یہ سب بتانے کی ضرورت اس لیے آ پڑی کہ میرے کاغذات کی تصدیق انھوں نے ہی کی تھی۔میں نے دیو سماج روڈ کے ایک سکول میں پرائیویٹ طالب علم کے طور پر یہ امتحان دیا اور یہ امتحان دینے کے بعد قدرے سنجیدگی سے کامرس پڑھنے میں مگن ہو رہا،جس کے امتحان کوئی چار ماہ میں ہونے والے تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے