انہی دنوں میں ایک عجیب طرح کی مشکل کا شکار ہوا۔اچانک کھجلی شروع ہوتی اور چند لمحوں میں پورے بدن پر جگہ جگہ آبلے سے پڑ جاتے۔نابھہ روڈ کے ایک ڈاکٹر مظفر رندھاوا سے مشورہ کیا تو انہوں نے اینٹی بائٹک اور الرجی کی دوا دی مگر اس سے اتنا ہی فرق پڑتا کہ چند لمحوں کو جلن میں کچھ کمی آ جاتی۔محلّے کے حجام سے بات ہوئی تو انہوں نے شک ظاہر کیا کہ یہ کھٹمل کی کارستانی ہے۔یہ بات اس لیے بھی قرینِ قیاس تھی کہ میرے کمرے میں دھوپ آتی ہی نہیں تھی۔اگلے ہی دن دونوں چارپائیاں گلی میں سارے دن کے لیے دھوپ میں ڈالی گئیں اور سلیم شاد نےجو اوپر دوسرے فلیٹ میں رہتے تھے،دوپہر کو انہیں کپڑے دھونے والے ڈنڈے سے خوب پیٹا تو چارپائیوں کے نیچے کی جگہ سرخ کھٹملوں سے بھر گئی،جسے ہم نے پیروں سے مسلنا شروع کیا تو گلی کا وہ حصہ میرے خون ِناحق سے لال ہو گیا۔کھٹمل دیکھنے اور اس فراوانی سے دیکھنے کا یہ میرا پہلا موقع تھا۔برسوں بعد یہ اسی فراوانی سے شیخ زاید ہسپتال میں دکھائی دیے،جہاں یہ پتھر کے بنچوں پر مستانہ وار دوڑتے پھرتے تھے اور انتظامیہ کو ان سے نجات کی کوئی جلدی نہیں تھی۔
رمضان چل رہا تھا اور ہم سحری کے لیے نابھہ روڈ جاتے تھے۔دن کالج اور آوارہ گردی میں اور رات نومبر آ جانے کی وجہ سے کمرے میں گزرتی تھی۔خارش اور سوجن کا مسئلہ اب بھی تھا مگر پہلے سے کم۔ایک اور طریقۂ علاج کسی ایسے آدمی سے بدن پر ہاتھ پھروانا تھا جس نے کبھی چھپاکی مار کر اس کے خون سے ہاتھ دھوئے ہوں۔اتفاق سے یہ کارنامہ میرے والد صاحب انجام دے چکے تھے اور لوگ اس مرض کے علاج کے لیے جسے مقامی طور پر چھپاکی کہا جاتا تھا،ان سے رجوع بھی کرتے تھے مگر مجھے اس بے تکلفی کی ہمت نہیں ہوئی۔یوں بھی وہ اس کام کے لیے راضی ہوتے ہی نہیں تھے۔تبھی کسی نے مسہل لینے کا مشورہ دیا اور میں نے بلا سوچے سمجھے اسے آزما ڈالا۔حیرت انگیز طور پر اس عمل سے تکلیف اور مرض دونوں جاتے رہے مگر اب میرا دل اس کمرے سے بے زار ہو چکا تھا۔صدر صاحب نے رانی کے بھائی تک رسائی کی کوئی صورت نکال لی تھی اور شنید تھی کہ اب اُن کے ڈرائنگ روم میں پائے جاتے ہیں مگر سلیم شاد کے بقول اس عظیم کامیابی کے باوجود نامراد ہی تھے۔شاد صاحب اب ان کی بجائے میرے وفادار تھے اور اس کا سبب ان کی باہمی رقابت تھی۔مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ شاد جو فلیٹس ہی کی ایک محترمہ سے کامیاب افئیر چلا رہے تھے،رانی کے خواستگار بھی تھے اور صدر کو اپنے علاقے میں درانداز جانتے تھے۔کچھ مارلن برانڈو کی”The bed time story”جیسی کیفیت تھی اور رانی تھی کہ اُسی طرح بے نیازی سے سکول آتی جاتی تھی اور کسی پر نگاہ ِغلط انداز ڈالنے کی بھی رودار نہیں تھی۔
میں نے اپنی اور رانی کی نسبت کسی پر ظاہر نہیں کی۔صدر کی پیش رفت سے مجھے تکلیف تو تھی مگر اس سے بھی زیادہ رنج محلے کے دادا کو پہنچا اور اس کی خبر مجھے تب ہوئی جب حمام پر اس نے مجھ سے صدر کے وئیر اباوٹس کا پوچھا۔شاید میرے اندر کا غضب مجھ پر غالب آ گیا تھا کہ میں نے اس کو صدر کے گھر کا پتا دے دیا اور وہ اسی رات اسے دھمکانے اس کے گھر جا پہنچا۔مجھے پچھتاوا تو ہوا مگر اب تیر کمان سے نکل چکا تھا۔صدر نے آنا ترک نہیں کیا اور اس بارے میں مجھ سے بس سرسری سا شکوہ کیا تو میں نے اپنی ذہنی حالت کھول کر بیان کر دی اور مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ وہ پہلے ہی اس قصے سے آگاہ تھا اور اسے بتانے والا کوئی اور نہیں خود رانی تھی۔
چند روز بعد میں عید کے لیے بستی جانے کو نکلا تو شاد اور صدر
مجھے بند روڈ تک چھوڑنے آئے۔ہم نے گلی اور راستے میں تصاویر بنائیں۔تب گلی کے آخر میں کھیت شروع ہو جاتے تھے اور بند روڈ تک طرح طرح کی سبزیاں بیجی ہوئی تھیں۔ان تصاویر کا تذکرہ اس لیے ضروری ہے کہ یہ مشاق صدر سے میری آخری ملاقات تھی۔میں عید کے بعد واپس آیا تو وہ دوبارہ ترکی چلا گیا تھا اور میری کہانی سے ہمیشہ کے لیے غائب ہو گیا تھا۔سُنا تھا یہ فیصلہ اس کی ماں کا تھاجو لوگوں کے گھر پر آ کر دھمکانے کے بعد اسے لاہور میں رکھنے پر راضی نہیں تھی۔
سلیم شاد فیملی کی مالی حالت پہلے سے پتلی ہو چکی تھی۔ان کے بڑے بھائی اپنی کمپنی کی مارکیٹنگ میں ناکام رہے تھے اور شاد صاحب کو میری مصاحبت سے فرصت نہیں تھی۔حاکم اور نذر کالج میں مست تھے کہ نذر ہیلی کالج سٹوڈنٹس الیکشن میں ترقی پسندوں کی طرف سے صدارت کا امیدوار تھا۔میں بھی کبھی ہلے گلے میں شرکت کے لیے ہیلی کالج چلا جاتا تھا۔یہ الیکشن نذر نے بہت کم ووٹوں سے ہارا۔تالیف ِقلب کے لیے وہ کہیں شمالی علاقوں کی طرف نکل گیا۔وہاں جانے کس سے اور کہاں ملا کہ واپس آیا تو صوفی ہو چکا تھا۔پھر یہ مرض بڑھ کر جنون میں تبدیل ہو گیا اور وحشت اس قدر بڑھ گئی کہ الیکڑک شاکس دینے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا۔تب گھر والوں نے زنجیروں میں جکڑ کر رکھنا شروع کیا اور برسوں بعد میں نے اسے دیکھا تو یقین کرنا مشکل تھا کہ یہ شخص کبھی مباحثے کا دھنی اور ہیلی کالج جیسے ادارے میں صدر کے عہدے کا امیدوار رہا ہو گا۔
اسی رہائش پر ایک بار شکور اور ایک ہی بار گلفام صاحب ملنے آئے۔انہوں نے فون کر کے داتا دربار سےاچار منگوا رکھنے کی فرمائش کی تھی۔مجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ اچار کتنا اور کس چیز کا درکار ہے۔میں نے دربار مارکیٹ جا کر تحقیق کی تو ہر طرح کا اچار دو روپے سیر دستیاب تھا۔میں نے آٹھ طرح کے اچار مکس کرائے اور سولہ سیر کا ایک ڈھکن والا ٹین مع مزدوری کے بتیس روپے میں خرید لایا۔اگلے روز میں نے یہ اچار گلفام کی نذر کیا تو اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔تب پتا چلا کہ انہیں تو صرف دو سیر کا ایک ڈبہ چاہیے تھا۔خیر طے ہوا کہ وہ اسے جاننے والوں کو بھجوا دیں گے وگرنہ یہ نعمت دکاندار کو لوٹانا آسان نہ تھی۔
آئی کام کے امتحان سے پہلے ہی میرے یک ماہی ایف۔اے کا رزلٹ آ گیا تھا۔یہ نتیجہ میاں چنوں کے پتے پر آیا تھا اور اتفاق سے میں اس وقت وہیں موجود تھا۔میں خاصے اچھے نمبروں سے کامیاب ہوا تھا اور اس کامیابی نے ایک ہی لمحے میں میرے اندر کی اداسی اور یاسیت کو دھو ڈالا تھا۔پھر بھی ایک بات میری لیے اچبھنے کا باعث تھی اور وہ یہ کہ میرے نمبر اردو میں بہت کم تھے۔حالاں کہ وہی دو پرچے تھے جو میں نے بہت اعتماد سے حل کیے تھے۔میرا ادعا ہے کہ اردو کے استاد پرچوں پر مہر کی نگاہ کم ہی ڈالتے ہیں۔اگر انہوں نے میرے پرچوں پر نگاہ ِ غلط انداز بھی ڈالی ہوتی تو میرے نمبر ڈیڑھ گنا ضرور ہوتے۔
میرے بڑے بھائی مہر نواب کہا کرتے تھے کہ ان پڑھ امیر والدین کے بچے پڑھ جاتے ہیں کہ ان پر قدغنیں کم ہوتی ہیں اور وہ کہیں نہ کہیں سے کنی کترا کر آگے نکل ہی جاتے ہیں۔مجھے ان کی رائے سے اتفاق نہیں اور میری اور میرے بھائی بہنوں کی اولاد نے ان کے تجزیے کو باطل کر دیا ہے مگر اپنے سلسلے میں میں ان کی رائے سے متفق ہوں۔اگر ابّاجی لکھے پڑھے ہوتے تو مجھے اس نوع کے تجربے نہیں کرنے دیتے اور شاید میں کچھ بھی نہ کر پاتا مگر یہ لکھتے ہوئے اس بات کا دھیان بھی آیا ہے کہ تعلیم یافتہ ہونے کی صورت میں میرے والد میرے رجحان ِطبع کو دیکھتے اور مجھے اس شیطانی چکر میں گھرنے کی زحمت ہی نہیں کرنی پڑتی۔
کئی ماہ پہلے ہی سے میں نے ڈائری لکھنی شروع کر دی تھی۔پہلے انگریزی میں لکھی،پھر ناگفتنی کے اخفا کے لیے کچھ ایسے حروف ایجاد کیے جو کسی زبان میں مروج نہیں تھے اور صرف مجھے معلوم تھا کہ کون سا حرف کس انگریزی حرف کا متبادل ہے۔کہیں ان کی ایک کلید بھی محفوظ کی تاکہ بھول جانے پر اصل حرف تک رسائی ممکن ہو۔کچھ دیر میں نے ایجادِ بندہ رسم الخط کو اپنایا اور اس میں اس قدر مہارت ہو گئی کہ آئی۔کام کا امتحان دیتے ہوئے بعض اوقات اسی خط کا سہارا لیتا۔لکھ لینے کے بعد احساس ہوتا کہ کچھ غلط ہو گیا ہے مگر تب اصلاح کا وقت کہاں تھا اور اب اس قفل کا کھولنا بے سود ہے۔
اسی زمانے میں منٹو پارک میں بھٹو کی وہ تقریر سنی،جس میں مشرقی پاکستان جانے والے منتخب نمائندوں کی ٹانگیں توڑنے کی دھمکی دی گئی تھی۔بھاشانی کی درگت ساہیوال کے اسٹیشن پر کئی برس پہلے دیکھ چکا تھا۔شیخ مجیب الرحمٰن سے نہ معلوم کیوں نفرت کی بجائے ایک خاص طرح کی یگانگت کا احساس غالب تھا اور جی چاہتا تھا کہ جمہوریت کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے اسے حکومت کرنے کا موقع ضرور دینا چاہیے۔بھٹو سے بہت متاثر تھا مگر اس کی تقریر سے کسی غیر معمولی سانحے کے وقوع پذیر ہونے کی بُو آتی تھی۔اب سوچتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ بُو اس دور کے حکمرانوں کو کیوں نہیں آئی اور وہ کیسے آنے والے سانحے کے ادراک سے محروم رہے؟
امتحان کے بعد میں اپنا بستر بند جس میں بستر سے زیادہ کتابیں بندھی تھیں اور اٹیچی لے کر میاں چنوں چلا آیا۔اپنی چارپائیاں،میز اور کرسیاں مع کچھ آرائشی سامان کے حاکم اور نذر کو دے آیا تھا۔ایک رات پہلے رانی کو ملاقات کے لیے آنے کو کہا تھا مگر اس رات شاد صاحب میری ہی طرف ٹک گئے اور میرے لاکھ ٹالنے کے باوجود ٹلے ہی نہیں۔دراصل انہوں نے مجھے بتائے بغیر اپنی فلیٹس والی محبوبہ کو میرے کمرے میں ملاقات پر راضی کیا تھا۔مجھے معلوم ہوتا تو میں رانی کو دعوت نہیں دیتا مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی۔میں نے طے کیا کہ دستک ہونے پر دروازہ میں ہی کھولوں گا اور رانی کو کوریڈور ہی سے لوٹ جانے کو کہہ دوں گا۔اس لیے میں دروازے پر جانے کو اُتاولا رہا مگر ہوا یہ کہ دستک ہونے پر دروازہ کھولا تو باہر اندھیرے کوریڈور میں کوئی اور ہی تھا جو مجھے دیکھتے ہی تیزی سے پلٹ کر سیڑھیوں میں غائب ہو گیا اور میں اس کی صورت دیکھنے کا شرف بھی حاصل نہیں کر پایا۔ میں پلٹا ہی تھا کہ اپنی محبوبہ کی عاجلانہ واپسی کا اندازہ کر کے سلیم شاد نے لپک کر کوریڈور کی لائٹ جلا دی اور یہی وہ لمحہ تھا جب رانی میرے دروازے پر پہنچی۔تب سلیم شاد دروازے میں حق دق کھڑے تھے اور میں ان کے عقب میں اپنی شومئی قسمت پر بےحال۔اس سے پہلے کہ میں شاد صاحب کو دھکیل کر راہ بناتا۔رانی ایک ہی قلانچ بھر کر گلی میں پہنچ گئی تھی اور یہ وہ لمحہ تھا جب میں نے اسے آخری بار دیکھا۔
برسوں بعد میں اپنے سالے کے،جو کھانے کے بہت رسیا ہیں،اصرار پر کرشن نگر کی کسی مشہور حلیم کی دکان کی تلاش میں،ان کی رہنمائی میں،انہیں موٹر سائیکل پر لے کر نکلا تو وہ مجھے عارف چوک لے آئے۔حلیم کی دیگ کے پیچھے صوفی صاحب براجمان تھے جنہوں نے مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا۔گلی میں ٹینٹ لگے تھے اور لوگ آجا رہے تھے۔میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی فرمانے لگے'”اب آ گئے ہیں تو کھانا یہیں کھائیے۔آج رانی کی برات ہے۔آپ کو دیکھ کر سب کو بہت خوشی ہو گی”.
میں نے شکریے کے ساتھ معذرت کی۔ میرے موٹر سائیکل پارک کر کے دکان تک پہنچنے تک نوربھائی اپنی ضرورت کی حلیم پہلے ہی بندھوا چکے تھے۔صوفی صاحب نے لاکھ کوشش کی کہ ہمارے پیسے لوٹا دیں مگر ہم موٹر سائیکل بھگا کر نکل لیے۔شاید میں اپنے آپ سے دور بھاگ رہا تھا مگر آدمی اپنے آپ سے بھاگ کر جائے تو کہاں جائے؟
اب سوچتا ہوں اُس رات میرے کمرے میں سلیم شاد کی موجودگی اس کے اور میرے حق میں کتنی بڑی نعمت تھی۔