درس گاہ – 44

میں1971ء کے وسط میں میاں چنوں پلٹ آیا تھا۔اس بار زیادہ تر نشست اپنے محلّےدار سرور اور جاوید(ڈم ڈم)سے رہی۔اتوار کو اگر میں شہر میں ہوتا تھا تو آصف،جمیل،ضیا،اعجاز،لیاقت،بِلّو اور محمود سے بھی ملاقات ہو جاتی تھی مگر میرے علاوہ سب اپنی تعلیم میں مگن تھے۔ممتاز کے مالی حالات ایسے نہیں تھے کہ تعلیم جاری رکھ سکتا سو اس نے فوج میں کمیشن حاصل کرنے میں ناکام رہنے کے بعد ریلوے میں کوئی معمولی ملازمت کر لی تھی۔
اب مجھے احساس ہو رہا تھا کہ میں نے اپنی زندگی کے دو برس کس بےدردی سے برباد کیے۔سب دوست آگے بڑھ چکے تھے اور میں تھا کہ ابھی اپنی سمتِ سفر کا تعین ہی نہیں کر پایا تھا مگر اب انتظار کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔اس انتظار میں مَیں کبھی گاؤں جا بستا کبھی شہر۔شاعری پڑھ ہی نہیں کر بھی رہا تھا اور رسائل کے مطالعے کا سلسلہ جاری تھا۔مہر فلک شیر سنپال سے ملاقات نسبتاً بڑھ گئی تھی اور انہوں نے’مشاعرہ’کے نام کا ایک کتابچہ مجھے تحفے میں دیا تھا جو تلمبہ میں ہونے والے ایک مشاعرہ کی روداد تھی اور اس کا دیباچہ،جو تلمبہ کی تاریخ اور فکری روایت کا عمدہ محاکمہ کرتا تھا،خادم رزمی کا لکھا ہوا تھا جن کی ایک غزل میں نے تازہ اوراق میں پڑھی تھی اور اس کے دو شعر مجھے ازبر ہو گئے تھے:
میں اکیلے پن کا مارا گھر سے نکلا تھا مگر
رونق ِ بازار تُو نے اور تنہا کر دیا

کس نے لہرائی دریچے سے بدن کی چاندنی
کون تھا میلی گلی کو جس نے اُجلا کر دیا
اتفاق سے اگلے ہی دن سجّاد پاندھا ملنے چلے آئے تو میں نے ان سے رزمی صاحب کے بارے میں بات کی کہ اُن کا تلمبے تواتر سے آنا جانا رہتا تھا۔حُسن ِاتفاق سے وہ رزمی صاحب کو جانتے تھے اور مجھے لےجا کر ملانے پر تیّار ہو گئے۔ان کے پاس موٹرسائیکل تھا۔ہم نے ایک ٹیپ ریکارڈر پکڑا اور رزمی صاحب کے سکول جا پہنچے۔وہ پرائمری کی دو کلاسز کو یک جان کیے کچھ رٹوا رہے تھے اور فارغ ہونے ہی والے تھے۔ابھی تعارف کی رسم ادا ہو رہی تھی کہ چھٹی کی گھنٹی بج گئی اور وہ ہمیں سکول کے دروازے کے سامنے اپنی بیٹھک میں لے آئے۔میں نے محسوس کیا کہ ایک پرستار کی آمد پر وہ مضطربانہ مسرور ہیں اور اس مسرت میں اس وقت دونا اضافہ ہو گیا جب میں نے’اوراق’کا ذکر کر کے وہی غزل سنانے کی فرمائش کی۔پھر ان کی بہت سی غزلیں سُنی اور ریکارڈ کیں۔ان کے اصرار پر ایک اپنی غزل بھی سنائی جو یقیناً اصلاح طلب تھی مگر انہوں نے کُھل کر داد دی اور کسی روز میرے گھر پر آنے کی نوید دے کر ہمیں رخصت کیا۔
رزمی صاحب سے اگلی ملاقات کی نوبت بھی جلد ہی آ گئی۔انہوں نے مجھے خان غضنفر روہتکی سے ملوایا جو بازار میں کریانے کی دکان کرتے تھے اور فی البدیہ شعر کہنے میں یدِطولیٰ رکھتے تھے۔اُسی ہفتے تلمبہ میونسپل کمیٹی کا کوئی مشاعرہ برپا ہونے والا تھا اور خان صاحب ہی اس کی صدارت کر رہے تھے۔انہوں نے مجھے مشاعرہ پڑھنے کی دعوت دی اور میں نے اپنی زندگی کا وہ پہلا مشاعرہ چند مقامی شاعروں پر تفوق پا کر پڑھا۔سب نے میری خوب خوب حوصلہ افزائی کی اور مجھے مبتدی یا اس کُوچے میں نووارد ہونے کا احساس نہیں دلایا۔اسی مشاعرے میں کئی اور شاعروں سے تعارف ہوا جن کا کلام میں نے کتابچے میں پڑھا تھا۔ان میں صادق سرحدی،یعقوب مومن اور ساغر مشہدی خصوصیت سے ذکر کرنے کے قابل ہیں۔خصوصاً ساغر مشہدی صاحب سے طویل رفاقت رہی اور یہ نسبت اب تک برقرار ہے۔

اگلے چند دنوں میں رزمی صاحب اور ساغر مجھے گاؤں ملنے آئے تو رزمی صاحب کے اصرار پر میں نے اپنی بیاض انہیں ملاحظے کے لیے پیش کی۔انہوں نے بہت رغبت سے اسے دیکھا اور چند مقامات کی نشاندہی کر کے بتایا کہ یہاں فلاں لفظ کے درست تلفظ کا استعمال نہ ہونے کے باعث مصرع محل ِنظر ہے مگر انہوں نے قلم لگانے کی بجائے مجھے اساتذہ کے کلام سے سند لانے کی صلاح دی اور میں نے اُن کے مشورے پر صاد کیا۔پھر ان ملاقاتوں میں تسلسل آنے لگا اور ایک دوسرے کا کلام سُنا جانا معمول بن گیا۔میں تسلیم کرتا ہوں کہ کہیں اندر ہی اندر میری تربیت ہو رہی تھی اور مجھے اپنی ذات اور شاعری پر اعتماد ہونے لگا تھا۔اب میں شاعری پڑھتے ہوئے اس کے آہنگ اور الفاظ کے معیاری تلفّظ پر دھیان دینے لگا تھا اور اسی دوران میں میں نے اپنی کچھ غزلیں’نئی قدریں،اوراق،نیا دور اور’افکار’ کو بھجوائیں۔
ادبی پرچوں کے وقت پر شائع ہونے کی روایت تب تھی نہ اب مستحکم ہوئی ہے۔پھر ملکی حالات دگرگوں ہونا بھی ایک وجہ رہی ہو گی یا ممکن ہے بنیادی مسئلہ ایک نئے شاعر کے ظہور کو قدرے مؤخر کرنا ہو۔یہ غزلیں چھپ تو گئیں مگر سقوطِ مشرقی پاکستان کا سانحہ برپا ہونے کے بعد۔تب تک میں دوبارہ لاہور پہنچ چکا تھا اور ڈھاکہ فال کے سانحے سے بہت دل برداشتہ تھا۔19 برس کی عمر تھی مگر لگتا تھا سب کچھ مٹ گیا ہے اور ہمارے قدموں تلے زمین نام کی کسی شے کا وجود نہیں۔ہم کسی نظریے اور سمت کے تعین سے معذور ہیں اور نہیں جانتے کہ اپنی شناخت کے لیے کس تہذیب اور معاشرت کی طرف دیکھیں۔
سب سے پہلے مجھے’نئی قدریں’نے چھاپا،پھر’نیا دور’اور بعد میں ‘اوراق’ نے.بہت دیر بعد اندازہ ہوا کہ’نئی قدریں’،کے ایڈیٹر ہر غزل’جیسا ہے جہاں ہے’کی بنیاد پر شائع کرتے ہیں اور اکثر سالانہ خریدار بنانے کے تنطیمی دورے پر رہتے ہیں۔اس سلسلے میں انہوں نے یہ کمال دکھایا کہ ایک بار میرے گاؤں بھی چلے آئے تھے اور میں نے اپنے متعدد دوست ان کے پرچے کے خریدار بنوا دیے،جنہیں ایک ہی شمارہ خریداری کی مد میں عنایت کیا گیا۔خیر انہیں اس سے زیادہ کی طلب ہی نہیں تھی البتہ ہر شمارے میں میری کوئی تخلیق شامل ہونے کی وجہ سے وہ ایک شمارہ مجھے ضرور بھجوا دیتے تھے اور بعض اوقات میں ‘گوشہء ادب’ سے خرید لیتا تھا۔
افکار کے صہبا لکھنوی صاحب نے کہیں میرا کوئی مزاحیہ مضمون پڑھا تھا اور مصر رہے کہ میں شاعری ترک کر کے مزاح میں نام پیدا کروں۔ان کا ادعا تھا کہ مزاح میں نام پیدا کرنا بہت آسان ہے اور شاعری میں اب کسی طرح کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔انہوں نے اس قدر اصرار کیا اور اپنی تجویز کے حق میں اتنے پوسٹ کارڈ بھجوائے کہ مجھے چڑ سی ہو گئی اور میں نے’افکار’میں لکھنے کا ارادہ ہی ترک
کر دیا۔’افکار’میں چھپنے والی میری اکلوتی تحریر ایک افسانہ’آنے والے کل کی بات’تھا۔یہ ایک علامتی افسانہ تھا اور اس کا پس منظر سقوطِ ڈھاکہ ہی تھا۔بعد میں میں نے اسے پنجابی میں ترجمہ کر لیا اور یہ میری پنجابی کہانیوں کی کتاب’نیندر بِھنّی رات’میں ‘کل تے بھلکے’ کے عنوان سے شامل ہوا۔
تھرڈ ائیر کے داخلے شروع ہوئے تو میں آئی کام میں بھی کامیاب ہو گیا تھا مگر اس سلسلے کو حاکم کے اصرار کے باوجود میں نے وہیں بند کر دیا اور بی۔اے میں داخلے کے لیے گورنمنٹ کالج لاہور میں درخواست جمع کرائی۔اس بار میں لا کالج ہاسٹل میں ٹھہرا جہاں نواز طاہر اب ایم۔اے اردو کا طالب علم تھا۔میرٹ لسٹ دو روز بعد لگی تو اس میں میرا نام موجود نہیں تھا۔دوسری میرٹ لسٹ دوسرے روز آویزاں کی جانا تھی۔میں نے اس کا انتظار ہی نہیں کیا اور اسلامیہ کالج سول لائنز آ کر داخلہ فارم بھر کر جمع کرا دیا۔کلرک نے انتظار کرنے کو کہا اور کوئی پندرہ منٹ کے بعد مجھے پرنسپل خواجہ محمد اسلم کے کمرے میں انٹرویو کے لیے بلا لیا گیا۔کمیٹی نے ایک ہی سوال پوچھا کہ میٹرک اور انٹر میں چار سال کا تفاوت کیوں ہے تو میں نے عرض کیا کہ میری حماقت کی وجہ سے۔داخلہ فارم پر دستخط کر کے مجھے فیس جمع کرانے کو کہا گیا جو میں نے فوراً کالج میں موجود بنک برانچ میں جمع کرا دی۔پھر ہاسٹل داخلے کی کارروائی مکمل کی اور دوپہر تک میں ایک کمرے کا مالک بن چکا تھا،جو مجھے ایک اور طالب علم کے ساتھ شئیر کرنا تھا۔
اگلے روز میں یونہی گورنمنٹ کالج گیا تو وہاں دوسری لسٹ آویزاں کی جا چکی تھی اور میرا نام سب سے اوپر موجود تھا۔راز یہ کُھلا کہ کل کی لسٹ اولڈ سٹوڈنٹس کی تھی اور آج کی باہر سے داخلہ لینے والے طلبہ کی۔کل میں نے اس نکتے پر غور ہی نہیں کیا تھا۔اب معاملہ کُھلا تو قدرے افسوس تو ہوا مگر اس قدر نہیں کہ میں اسلامیہ کالج میں ادا کی گئی رقم سے درگزر کرتا ۔میں نے اسے اپنی تقدیر سمجھ کر قبول کر لیا اور اسلامیہ کالج ہی کو اپنی اگلی درس گاہ ٹھہرایا۔اس بار میرے مضمون اکنامکس اور پولٹیکل سائنس تھے اور فارسی بطور اختیاری مضمون کے۔نہ معلوم کیوں میں نے اس بار بھی اردو کا انتخاب نہیں کیا۔
کلاسز شروع ہونے تک کا وقت میں نے گاؤں میں گزارا۔اس دوران میں میرا چھوٹا بھائی طالب حسین بھی میڑک کر کے لاہور آ گیا تھا اور اب ایم اے او کالج کا طالب علم تھا اور دلاور ہاسٹل میں قیام پذیر۔زندگی اپنی درست نہج پر چل پڑی تھی۔کریسنٹ ہاسٹل میں مجھے کمرہ نمبر 184 الاٹ کیا گیا اور کوئٹہ کے ایک نوجوان عبدالوحید رشی میرے روم میٹ بنے۔وہ تواضع اور سلیقے کا مرقع تھے۔وہی کمرہ جو رات کو خواب گاہ ہوا کرتا تھا،ان کی سلیقہ مندی سے دن کو ڈرائنگ روم میں بدل جاتا تھا۔دن میں وہ رضائیوں کو اس طرح لپیٹ کر چارپائی پر سجاتے تھے کہ وہ بیٹھنے والوں کا تکیہ بن جاتی تھیں۔سجاوٹ،صفائی ستھرائی اور کمرے سے متعلق ہر کام انہوں نے اپنے ذمے لے کر مجھے آزاد چھوڑ دیا تھا مگر جلد ہی مجھے احساس ہوا کہ وہی سلیقہ مجھ میں بھی پروان چڑھ رہا ہے۔میں تسلیم کرتا ہوں کہ میری ذات کے اثبات میں ان کا حصّہ مجھ سے بڑھ کر ہے۔
کالج پہنچا تو پتا چلا کہ میرے ساہیوال کے دوستوں میں سے شکور اور جاوید منیر احمد اسی ہاسٹل میں رہائش پذیر ہیں۔شکور بی۔ایس۔سی کر رہا تھا اور جاوید بی۔اے،اس لیے اجنبیت کا احساس پہلے ہفتے ہی جاتا رہا اور سب کچھ اپنا اپنا سا لگنے لگا تاہم ملکی حالات دگرگوں ہی تھے۔ایک روز لاہور کی فضاؤں میں توپوں کی دنادن اور طیاروں کی گھن گرج سُنائی دی تو پتا چلا کہ جنگ چھڑ گئی ہے۔لاہوری اس بار بھی یہ مناظر چھتوں پر چڑھ کر دیکھتے تھے کہ کالجز بند کر دیے گئے اور تمام طالب علموں کو گھر جانے کو کہہ دیا گیا۔ہم دونوں بھائی اپنا سامان لیے بادامی باغ بسں اسٹینڈ کو جاتے تھے کہ مینار ِپاکستان کے قریب ہوائی حملے کا سائرن بجا اور سواریاں تانگے سے اتر کر پودوں کی اوٹ میں ادھر ادھر لیٹ گئیں۔تب کسی طیارے سے ایک برسٹ ہماری طرف آیا اور زمین پر جیسے پھول کھلنے لگے۔پل بھر دو طیارے ان کے تعاقب میں آئے اور سب ہماری نظروں سے غائب ہو گئے۔اللہ کا کرم ہوا کہ کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا اور ہم اسی شام خیریت سے اپنے گاؤں پہنچ گئے کہ ہمارے لاہور شفٹ ہونے کے بعد ابّا جی نے میاں چنوں کی رہائش ترک کر دی تھی۔
سقوط ِمشرقی پاکستان کی خبر میں نے اپنی بستی میں سُنی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے