اسلامیہ کالج لاہور میں میرے انگریزی کے استاد پروفیسر منہاج الدین،اکنامکس کے پروفیسر فیض الحسن گیلانی،پولیٹیکل سائنس کے سرور صاحب اور فارسی آپشنل کے ثنا اللہ صاحب تھے۔یہ چاروں اساتذہ مزاج کی چار اطراف کے نمائندہ تھے مگر ان کی کلاس میں جانا اور اپنی موجودگی کا احساس دلانا اچھا لگتا تھا۔
اب کی بار میں نے اپنی تعلیم کو سنجیدہ لینا شروع کیا اور اکنامکس کے پہلے ٹیسٹ میں اوّل آ کر خود پر اپنے اعتماد کو بحال کیا۔انگریزی اور دوسرے مضامین میں بھی میری کاکردگی بُری نہیں تھی پھر بھی ایک خاص طرح کا احساس ِزیاں تھا جو روح پر حاوی تھا اور اس کی وجہ اپنی زندگی کے دو قیمتی برسوں کا ضیاع تھا۔میرے ہم جماعتوں میں آصف،محمود اور نواز طاہر پنجاب یونیورسٹی پہنچ چکے تھے اور بالترتیب پبلک ایڈمسٹریشن،کیمسڑی اور اردو کے طالب علم تھے۔شکور اسی کالج میں بی ایس سی کے دوسرے سال میں تھے۔ہاں ایک جاوید منیر احمد تھے جو میری روایت نبھا رہے تھے اور اسی کالج میں میری طرح بی اے کر رہے تھے اور ہاسٹل میں چند کمرے دور رہتے تھے۔
پہلے ہی روز کلاس میں بشیر طارق( لبھّا)سے ملاقات ہوئی اور بہت جلد وہ میرے قریبی دوستوں میں شمار ہونے لگے۔یہ زمانہ میری تخلیقی شگفت کا تھا۔اسے میرے روم میٹ خان عبدالوحید رشی کی محبت اور سلیقے نے خوب پروان چڑھایا۔کمرے کی تزئین و آرائش میں انہیں یدِطولیٰ حاصل تھا۔وہی کمرہ جو شب کو خوابوں کی رہ گزر ٹھہرتا،صبح ہوتے ہی ڈرائنگ روم میں تبدیل ہو جاتا۔رشی صاحب کو بستر لپیٹنے اور اس کی آرائش سے چارپائی کو سوفہ میں بدلنے
میں ایسی مہارت تھی کہ کمرے کی فضا ہی بدل جاتی اور اس ہنر مندی کا اثر میری طبع پر بھی ہو رہا تھا۔وہ خوش لباس ہی نہیں خوش اطوار بھی تھے۔کالج یونیفارم کے علاوہ وہ ہم رنگ شلوار قمیص اور ویسٹ کوٹ میں ملبوس رہتے تھے اور میں نے کبھی انہیں ویسٹ کوٹ کے بغیر نہیں دیکھا۔
میں اور میرے دوستوں نے جلد ہی ہاسٹل میں عوامی مقبولیت حاصل کر لی اور میس مینیجر کے الیکشن میں پرانی انتظامیہ کو شکست دے کر جاوید منیر احمد کو یہ زمہ داری تفویض کی۔کالج کے معاملات میں بھی ہم کافی دخیل تھے اور میری ادبی زندگی بھی پہلے کے مقابلے میں کافی فعال تھی۔میں معقول ادبی پرچوں میں چھپ رہا تھا مگر ابھی کالج میگزین’فاران’میں شائع نہیں ہوا تھا۔نہ معلوم کیوں میں نے اس کے انچارج پروفیسر شہرت بخاری سے ملاقات کی نہ ہی مجلس ِادارت کے ارکان سے تعارف حاصل کیا تاہم فاران کے لیے طلبہ کو لکھنے کی دعوت کا نوٹس پڑھ کر میں نے دو غزلیں،دو نظمیں اور ایک افسانہ’زود پشیماں’جو ممو کے بارے میں لکھے میرے ہی افسانے کا تجدیدی اظہار تھا۔کالج میگزین کے لیے ڈراپ باکس کے حوالے ضرور کیے۔ان کے ساتھ ایک انشائیہ’دشمنی کا سلیقہ’بھی تھا اور مجھے دعویٰ ہے کہ وہ تحریر بُری نہیں تھی۔
تبھی میں نے کالج گزٹ کے انگریزی حصے کے مدیر کے لیے مقابلے میں حصہ لیا اور گزٹ کے انچارج میرے مضمون کی فوقیت کے قائل بھی تھے مگر کالج یونین نے پہلے ہی محمد جہانگیر (بعد میں لاہور کارپوریشن کے رکن اور ایم پی اے) کے حق میں فیصلہ کر رکھا تھا۔میری تالیف ِقلب کے لیے مجھے دوستی کا شرف بخشا گیا اور کامریڈ باقر اور دوسرے کار پردازان مجھے محبت سے ملنے لگے مگر میرے دل سے اپنی حق تلفی کا داغ اب تک نہیں گیا۔
کامریڈ باقر سے نسبت نے ایک بار عجب گل کھلایا۔کالج میں پروفیسر شہرت بخاری نے ایک عظیم مشاعرے کا اہتمام کیا تھا اور وہی اس کے منصرم تھے۔یہ مشاعرہ کالج ہال میں حفیظ جالندھری کی صدارت میں منعقد ہوا اور اس میں ظہیر کاشمیری،پروفیسر قیوم نظر اور انجم رومانی جیسے جید شعرا موجود تھے۔نوجوانوں میں مجھے سلیم شاہد کا نام یاد ہے۔میں اسے اگلی صف کے سامعین میں بیٹھ کر سُن رہا تھا اور شہرت صاحب نے کلام سنانے کے لیے ظہیر کاشمیری صاحب کے نام کا اعلان کیا تھا کہ کامریڈ باقر ہال میں وارد ہوئے اور مجھے سامعین میں دیکھ کر سٹیج پر شہرت صاحب کے پاس جا کر ان کے کان میں کچھ ایسا افسوں پھونکا کہ وہ کچھ پریشان بلکہ بوکھلائے ہوئے محسوس ہوئے۔پتا چلا کہ کامریڈ مشاعرے کے اس مرحلے پر مجھے پڑھوانے کے طلبگار ہیں اور ظاہر ہے شہرت صاحب اس کے لیے راضی نہیں تھے۔ظہیر صاحب نے بد مزگی سے بچنے کے لیے خود مجھے سٹیج پر آنے کی دعوت دی اور میں شرمندگی سے قعر ِمذلت میں دھنس کر رہ گیا مگر طلبہ کے اصرار پر مجھے ایک غزل سنانا ہی پڑی۔یہ الگ بات کہ میں نے کامریڈ باقر کو اور شہرت صاحب نے مجھے ایک مدت تک معاف نہیں کیا اور شاید اسی کا شاخسانہ تھا کہ فاران چھپ کر آیا تو اس میں میری کوئی تخلیق شامل نہیں تھی۔
مجھے فاران کے اگلے پرچے میں بھی شامل نہیں کیا گیا تو میں نے شہرت صاحب کے پاس جا کر اس بات کا شکوہ کیا۔اس پر انہوں نے فرمایا کہ کالج کے چھے ہزار طلبہ میں سے کم وبیش پانچ سو چھپنے کے لیے اپنی شاعری ہی دیتے ہیں اور فاران کے محدود صفحات پر سب کو جگہ دینا ممکن نہیں تو میں نے عرض کی کہ ان پانچ سو میں سے کتنے ایسے ہوں گے جو خود شعر کہتے ہوں۔اب کے پروفیسر صاحب کا جواب تھا’شاید پانچ یا چھ’تو میں نے گزارش کی کہ ان پانچ میں سے ایک میں ہوں اور اسی پر بس نہیں میں اپنی تعلیم مکمل کرنے اور عملی زندگی کا آغاز کرنے کے بعد بھی شعر کہتا رہوں گا اور شاید میں اُن دو لوگوں میں سے ایک ہوں گا جو ہمیشہ اس تخلیقی عمل کو جاری رکھیں گے تو پروفیسر صاحب کے چہرے پر مسکراہٹ کھیل گئی۔شاید وہ اس دعوے کو مجذوب کی بڑ سمجھے تھے مگر حیرت اس بات پر ہے کہ وہ میرے اس دعوے کو کبھی بھولے نہیں۔کوئی بیس برس بعد جب وہ لندن جلا وطنی کے بعد لاہور پلٹے اور محترمہ کشور ناہید نے میری ملتان سے لاہور آمد پر میرے اعزاز میں اپنے گھر پر عشائیہ دیا تو اس میں انتظار حسین،زاہد ڈار،ذوالفقار احمد تابش،جاوید شاہین،اصغر ندیم سیّد اور دوسرے دوستوں کے علاوہ شہرت صاحب بھی موجود تھے۔کشور آپا نے مجھے کلام سنانے کو کہا تو میرے شعر پڑھنے سے پہلے شہرت صاحب نے اپنی گفتگو میں اقرار کیا کہ میں نے برسوں پہلے اپنے کہے کو سچ کر دکھایا ہے اور وہ میری اس مستقل مزاجی پر بہت شادماں ہیں۔
شہرت صاحب سے اس مکالمے کا فائدہ یہ ہوا کہ فاران کے اگلے شمارے میں میری دو نظمیں،دو غزلیں اور انشائیہ موجود تھے۔اسی زمانے میں علی ظہیر منہاس،ظفر رباب،علی نوید بخاری اور انیس انصاری سے بھی تعلق بنا اور ہم سب جلد ہی گہرے دوست بن گئے۔یہ چاروں احباب فاران کی مجلس ِادارت کے رکن تھے اور بلاشبہ ان کے زمانے میں فاران کے شائع ہونے والے شمارے بہت معیاری تھے۔سبطِ حسن کے معروف جریدے’پاکستانی ادب’میں شائع ہونے والی غزل جو میرے کسی مجموعہ کلام میں شامل نہیں کا یہ مقطع اسی نسبت کو ظاہر کرتا ہے۔
خاموش سّنو ساجد و منہاس،ظفر کو
ہم اور ابھی اور ابھی اور کہیں گے
تب دن کالج کے ہنگاموں میں گزر جاتا تھا اور شام کو میں بشیر طارق کو ساتھ لے کر اپنے میاں چنوں اور ساہیوال کالج کے دوستوں کے ساتھ نششت جماتا تھا۔یہ وہ دور تھا جب میں نے پروفیسر علی عباس جلالپوری کی’روح ِعصر’اور ڈاکٹر وزیر آغا کی’تخلیقی عمل’سے آغاز کیا اور پھر خرد افروزی سے متعلق جو دستیاب ہوا،پڑھتا چلا گیا۔کالج ہاسٹل کے سامنے لوئر مال پار کرتے ہی گول باغ اور دائیں گھوم کر میونسپل کارپوریشن کے فوّارے کا اندرونی احاطہ ہماری نشست کا محل ہوا کرتا تھا اور ہم دنیا جہان کی باتیں کیا کرتے تھے۔ایک دن فوارے کے دائرے میں ہمارے مابین روح کی ماہیت پر بحث چل رہی تھی کہ میں نے سیاہ چھڑی تھامے ایک وجیہہ بزرگ کو ہمارے گرد دائرے میں گھومتے دیکھا۔کچھ دیر بعد وہ اجازت لے کر ہمارے درمیان آ بیٹھے اور موضوع سے متعلق بات کر کے ہمارے فکری مغالطوں کو رفع کیا۔ہم نے تعارف چاہا تو انہوں نے’آپ سب کا ایک نوجوان دوست’کہہ کر ٹال دیا۔یہ نوجوان کبھی مجھے پرانی کتابوں کی دکانوں پر گھومتے مل جاتے کبھی مال پر ٹہلتے ہوئے۔دو ایک بار انہیں میں نے کسی کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر جاتے بھی دیکھا مگر میرے قریب کوئی ایسا فرد نہیں تھا جو مجھے ان کے بارے میں کچھ بتا سکتا۔دو یا تین برس کے بعد ایک دن میں نے فٹ پاتھ سے’نقش ِچغتائی’خریدی اور اس کی ورق گردانی کرتے ہوئے مجھ پر یہ بھید کُھلا کہ میرے نوجوان دوست کوئی اور نہیں بذات خود مصور ِمشرق ہیں مگر اس کے بعد وہ مجھے مدتوں دکھائی نہیں دیے اور جب میں ان کے گھر کا کھوج لگا کر ایک مہربان پبلشر اور ادیب دوست کے ساتھ ان کی طرف جانے کا وقت طے کر رہا تھا،پتا چلا کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔باری تعالیٰ کی طرف سے ایسی عنایت اور ایسی محرومی کسی اور کی قسمت میں شاید ہی لکھی گئی ہو۔