درس گاہ – 46

شہرت بخاری صاحب سے یہ مکالمہ تعلّی کے زُمرے میں آتا تھا مگر اس کے پیچھے کہیں اپنی ذات اور ہنر پر اندھا اعتماد تھا اور یہ اعتماد تلمبے کے دوستوں کا عطا کردہ تھا۔میرے بھیتر میں کہیں آگ کی کوئی لپک تھی جو اب میرے قد کے برابر ہو رہی تھی اور میں زیادہ تر وقت خود اپنے ساتھ گزارنے لگا تھا۔
شہرت صاحب نے اب مجھے میری تمام ترحماقتوں کے ساتھ قبول کر لیا تھا۔مجھے جب فرصت ہوتی میں ان کے پاس حاضر ہو جاتا اور وہ مجھے اپنے ملاقاتیوں سے بھی ملاتے۔ان کے ممدوحین کی اکثریت شاعروں اور ادبی پرچوں کے مدیران کی تھی۔ان میں سے کچھ اس کالج کے پُرانے طالب علم تھے.شہرت صاحب ایسے کسی فرد کی فاران میں کوئی تحریر شامل کرتے وقت اس کے نام کے ساتھ سابق طالب علم کا لاحقہ ضرور چسپاں کرتے اور ایک بار یہ اعزاز مجھے بھی ملا۔
ان دنوں وہ پاک ٹی ہاؤس میں حلقہ اربابِ ذوق (ادبی) چلا رہے تھے
انہوں نے مجھے وہاں آنے کی دعوت دی اور میں علی ظہیر منہاس کے ساتھ وہاں جا پہنچا۔اس سہارے کی ضرورت اس لیے پڑی کہ میں ادبی رسائل میں شائع ہونے کے باوجود لاہور کے کسی شاعر یا ادیب سے بے تکلف تھا نہ لکھنے والوں کی اس بہشت میں داخل ہونے کی ہمت رکھتا تھا۔ہم پاک ٹی ہاؤس میں داخل ہوئے تو شہرت صاحب سامنے کی میز پر انتظارحسین،انجم رومانی،زاہد ڈار،سجّاد باقر رضوی اور احمد مشتاق کے ساتھ بیٹھے تھے۔دائیں طرف سلیم شاہد اور جاوید شاہین اپنے دوستوں کے ساتھ براجمان تھے اور سیڑھیوں کے بغلی سوفے پر اسرار زیدی اور سیف زلفی۔علی ظہیر منہاس غالباً سیف زلفی سے متعارف تھے سو ہم وہاں جا بیٹھے اور مدتوں بیٹھتے رہے۔تب بھی جب میرا حلقہ احباب بالکل بدل کر رہ گیا اور ہم خود ایک میز کی مستقل زینت بن گئے۔
حلقہ اربابِ ذوق اس وقت دو شاخوں میں بٹا ہوا تھا۔ادبی اور سیاسی۔سیاسی حلقے کا اجلاس وائی ایم سی اے کے بورڈ روم اور ادبی کا پاک ٹی ہاؤس کے بالا خانے پر ہوا کرتا۔میں دونوں حلقوں کے اجلاس میں بطور ناظر شرکت کرتا۔ایک حلقہ’ارباب ِقلم’بھی تھاجسے سیف زلفی چلا رہے تھے۔اس کی نشست جمعرات کو منعقد ہوتی۔ ‘پنجابی ادبی سنگت’کے اجلاس بھی وائی ایم سی اے ہی کے ایک کمرے میں ہوتے تھے۔ان سب کے پراگرام ٹی ہاؤس کی ونڈوز کے شیشوں پر چسپاں کر دیے جاتے تھے اور جس کا جدھر جانےکو جی چاہتا تھا چلا جاتا تھا۔اجلاس کا وقت ہونے پر پہلے شہرت صاحب اپنی نشست چھوڑ کر بالاخانے کی سیڑھیاں چڑھ جاتے۔پھر جس کا جی چاہتا ان کی پیروی کرتا۔تنقید کے لیے پیش کئے گئے ادب پارے پر مدلل بحث کی جاتی۔اختلاف کے پہلو بھی نکلتے۔میں نے کبھی کسی کے حق میں یا مخالفت میں ایک جملہ بھی نہیں کہا ہوگا مگر جب بحث کے نکات پر غور کرتا تو اسے اپنے ہی دل کی آواز جانتا۔ایک صاحب بات ختم کرتے تو احساس ہوتا اب مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہیں اور اسی میں سے دوسرے صاحب اختلاف کی صورت نکال لیتے تو میں اپنے آپ کو ان کا ہمنوا محسوس کرتا۔علی ظہیر منہاس اردو بازار چوک کی ایک عمارت کے ایک کمرے میں مقیم تھے۔اس لیے ان کے لیے ہر بار یہاں آنا ممکن نہیں تھا مگر اب اس کی ضرورت بھی نہیں تھی۔اسرار زیدی صاحب سے تعارف کے بعد وہاں تنہا ہونے کا خوف جاتا رہا تھا۔ان کے ساتھ اور بھی کئی دوست اب میری آمد کے منتظر رہتے تھے اور میں نے اتوار کے علاوہ بھی وہاں جانا آغاز کر دیا تھا۔
علی ظہیر منہاس ہی کے کمرے میں اعزاز احمد آذر اور لطیف ساحل سے ملاقات ہوئی اور بہت جلد گہری دوستی میں بدل گئی۔وہ دونوں شاہدرہ میں مقیم تھے،جہاں مکان ایک دوسرے پر امڈے پڑتے تھے۔مجھے کبھی وہم بھی نہیں ہوا تھا کہ شاہدرہ میں کہیں اندرون ِشہر کا منظر بھی دکھائی دے گا۔ظفر رباب کی رہائش بھی شاہدرے میں تھی۔ایک بار ظفر رباب کی طرف جانا ہوا تو اس کا ایک شعر شدّت سے یاد آیا اور اندازہ ہوا کہ ماحول شاعر کے اظہار پر کس طرح کے نقش مرتب کرتا ہے:
ہم وہاں رہتے ہیں جن گلیوں میں گھر
ایک دوجے کے سہارے ہیں کھڑے
یہی وہ فضا تھی جس میں بسر کر کے میں بی-اے کے دوسرے سال میں پہنچا۔اس سے پہلے اسلامک سمٹ کانفرنس ہو چکی تھی۔ہم نے فورٹریس اسٹیڈیم کے عوامی میلہ میں ٹیٹو شو کے ساتھ شہنشاہ ِایران کی جھلک بھی دیکھ لی تھی۔ایشیا کو سرخ اور سبز خانوں میں بٹتے دیکھا تھا۔ہاسٹل کے کامن روم کے ٹی وی پر ضیا محی الدین شو میں ایم اسلم کی درگت بنتے دیکھی تھی اور بہت کچھ جو اب تاریخ کا حصہ ہےمگر اب بنگلہ دیش نامنظور تحریک کا دور تھا۔لاہور کے طلبہ اس ضمن میں بہت فعال تھے۔کالج میں روز ہی ہنگامہ برپا ہوتا۔گیٹ کے سامنے کوتوالی ہونے کی وجہ سے جلوس کو روکنے کے لیے پولیس کو حرکت کرنے میں ذرا سی دیر لگتی۔آنسو گیس کے شیل پھینکے جاتے۔سب سے زیادہ مشکل میں ہم بورڈر ہوتے جو پولیس ریڈ کے ڈر سے اکثر بے گھر ہو جاتے۔یہی صورت طالب حسین کے کالج میں بھی چل رہی تھی۔بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کا غم مجھے بھی تھا مگر دو باتیں میری سمجھ سے بالاتر تھیں۔ایک یہ کہ اسے نامنظور کرنے سے کیا ہم تاریخ کے یک رخی اسراع کو موڑ سکتے ہیں؟اور دوسری یہ کہ احتجاج کرتے ہوئے قومی اثاثوں اور عمارتوں کی بربادی کیا ضروری ہے اور ان راہگیروں،مسافروں اور سفر پر نکلے لوگوں کا کیا قصور ہے،جن کی سواریاں نذرِ آتش کر دی جاتی ہیں۔ایک بار میں نے ایک عورت کو اپنے ہاتھوں سے جلا دی جانے والی ایک
موٹر بائیک کی آگ بجھانے کی کوشش کرتے دیکھا تو میرا جی ظلم اور بے دردی کے خلاف نفرت سے بھر گیا اور میرا دل سیاست دانوں اور ان کے گماشتوں سے ہمیشہ کے لیے کھٹّا ہو گیا۔
ایک دن جب پولیس ہاسٹل پر حملہ آور تھی اور ایک ایک کمرے کی تلاشی لے رہی تھی۔ابّاجی کسی کام سے لاہور آئے اور ہم دونوں بھائیوں کو ملنے کی سبیل پیدا کی۔انہوں نے ہمیں سامان لپیٹنے کا کہا اور لے کر ڈپٹی صاحب کی طرف چلے آئے۔وہ رات ہم نے ان کے یہاں بسر کی۔یہی وہ رات تھی جب بشیر طارق(لبھّا) کو بے قصور گرفتار کیا گیا۔طالب علموں کو کوتوالی میں ننگا کر کے بٹھایا گیااور یہ خبر بی بی سی نے بریک کی۔بنگلہ دیش بن چکا تھا سو منظور ہو کر رہا اور دو قومی نظریہ منہ کے بل آ رہا مگر نہیں یہ تو اسی روز مرحوم ہو گیا تھا جب ہم نے مشرقی پاکستان میں غلامی کا بیج بویا تھا اور ایک عظیم فکری اور سیاسی روایت سے وابستہ قوم کو اس کی زبان سے محروم کر کے گونگا کرنے کی کوشش کی تھی۔
اس بار گاؤں آیا تو تلمبہ اور میاں چنوں کے دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے کے سوا بڑی مصروفیت شاعری کا مطالعہ تھی۔کہیں اندر ایک طاؤس ِخود مست کی خود رفتگی کا غلبہ تھا اور وجہ بخوبی معلوم مگر اسے لکھنے میں جو مزہ تھا وہ کہنے میں تھا نہ بتانے میں۔میری سرمستی کا عالم یہ تھا کہ اپنے کمرے سے نکلتا ہی نہیں تھا،کبھی ڈم ڈم چلا آتا تو کچھ وقت اس کی معصومیت کی بھد اڑانے میں گزر جاتا۔بےچارہ کیسا سادہ اور صاف دل آدمی تھا اور مجھ پر ایسا اعتماد کہ میرے جھوٹ کو بھی سچ مان لیتا۔اُسے ہمارے وسیب کے لوگوں نے بہت لُوٹا مگر اس کے دل کی کشادگی میں کمی نہیں آئی۔

انہی دنوں ایک بار انیس انصاری اور علی ظہیر منہاس ملنے بستی آئے۔ان کی ملاقات حویلی کے دروازے پر پیپل کی چھاؤں میں میرے بڑے بھائی مہر نواب سے ہوئی۔میرے بارے میں استفسار پر بھائی نے میری موجودگی کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا حالانکہ میں مہینے بھر سے بستی میں تھا۔اس میں ان کا کوئی قصور نہیں تھا۔وہ الگ مکان میں رہتے تھے اور میرے کمرہ بند ہونے کی وجہ سے انہیں گمان تھا کہ میں لاہور پلٹ چکا ہوں۔
یہی وہ دن تھے جب میری زبان کی مُہر ٹُوٹی اور میں نے اردو کے ساتھ پنجابی میں بھی لکھنا شروع کیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے