میرے ساہیوال چلے جانے کے باوجود میاں چنوں کی اقامت برقرار تھی۔طالب حسین ساتویں میں پڑھ رہا تھا اور اب تو تسلیم بھی ایم سی گرلز پرائمری سکول جانے لگی تھی۔معلوم نہیں کیسے اس کے سکول کی استانیوں کو ہمارے والد کی ثنا اللہ بودلہ صاحب اور غلام حیدر وائیں سے قربت کی خبر ہو گئی تھی اور کم وبیش ہر روز اس کے بستے سے سکول سے متعلق کسی نہ کسی معاملے کی درخواست نکلنے لگی تھی اور میرے والد بہت خلوص کے ساتھ ہر مسئلے کے حل کی سعی کرتے تھے۔
میں ساہیوال میں مگن تھا۔سنیما جانا بڑھ گیا تھا اور اس کی ایک آدھ جذباتی وجہ بھی تھی۔پڑھنے کی رفتار کم اور دوستوں سے مل بیٹھنے اور گپ ہانکنے کی شرح بڑھ گئی تھی۔خاص طور پر شکور کی ذاتی کتھائیں کئی کئی دن چلتی تھیں۔میں بہت شرمیلا اور کم گو تھا مگر دوستوں میں خوب چہکتا تھا۔کبھی کیفیت طاری ہوتی تو ایسی ساحرانہ گفتگو کرتا کہ ٹرانس سے نکل کر خود بھی دنگ رہ جاتا۔پھر بھی لکھنا موقوف تھا اور کم و بیش پڑھنا بھی۔
نواز سے قربت بہت بڑھ گئی تھی اور اس کے پاس کرنے کو ہزار کام تھے۔وہ نچلا بیٹھنا جانتا ہی نہیں تھا۔پرنسپل صاحب نے اُسی کے دھڑکے سے فجر کی نماز کے لیے خوابیدہ طلبہ پر سے چادریں کھنچنا موقوف کر دی تھیں۔ڈارمیٹری کی کھڑکی کی جالی اتارنے اور نصب کرنے کی راہ بھی اُسی نے نکالی تھی اور بس کے سفر میں نوجوان لڑکیوں والے خاندان میں گھل مل جانا بھی اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا بل کہ وہ اس قربت کو بڑھانے کے لیے بریک جرنی کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا تھا۔
وہ کئی بار میرے ساتھ ہماری بستی آیا اور میں بھی اس کو ملنے مدرسہ گیا۔وہ ریلوے پھاٹک کے سامنے ایک چھوٹی سی بستی نجمہ آباد میں رہتا تھا۔شنید تھی کہ یہ بستی اس کی بہن کے نام پر ہے۔اس کے والد،بھائی اور بہنیں مجھے اپنے خاندان کے ہم زاد لگے۔شاید ہماری گہری دوستی کی ایک وجہ یہ بھی ہو۔
ہم سب دوست ہفتے کو گھروں کے لیے نکل پڑتے تھے۔عام طور پر میں اپنے گھر والوں کے ساتھ بستی آ جاتا تھا۔ہاں زیادہ دیر ہونے پر سالم تانگہ کرا لیا کرتا تھا۔کئی بار بات نہ بننے پر بس لے کر کسی بھی موڑ پر اتر کر پیدل گھر آ جاتا تھا اور ہر بار واپسی اگلے دن عصر کے بعد ہوا کرتی تھی۔
میرے ساتھ کے سبھی ساتھی اب بڑے ہو چکے تھے۔لڑکے اپنے بزرگوں کے ساتھ کھیتوں میں کام کرنے لگے تھے اور لڑکیاں بیاہنے لگی تھی۔ہماری ملازمہ منظوراں جو مجھ سے دو برس بڑی تھی اور میرے گاؤں میں ہونے پر ہر رات میرے پاؤں دباتی تھی اب تاڑ کا درخت بن گئی تھی۔جسم بھر ہی نہیں آیا تھا،پھٹنے پر آمادہ تھا۔قد،بُت،کاٹھ ایسا تھا کہ فلمی ہیروئنوں کو نصیب نہ ہوا تھا۔اس پر کسی نے اس کے دماغ میں یہ بات ڈال دی کہ اُسے فلموں میں کام کرنا چاہیے سو ہر بار میری آمد پر وہ مجھ سے مدد کرنے کا وعدہ لیتی تھی اور دو ایک بار اس سلسلے میں اپنی تیاری بھی دکھائی۔وہ اسے رقص کہتی تھی مگر ایسا بے ہنگم رقص تو آج کل ڈسکو کی محفلوں میں بھی نہیں ہوتا۔اس لیے میں نے اپنی والدہ کو کہہ کر اس کی شادی کرا دی۔اس نے دو چار بار رسّہ تڑانے کی کوشش کی مگر پھر کھونٹے سے بندھ گئی۔مدتوں بعد ایک بار حاکم علی رضا کے ساتھ اس کی طرف پھیرا لگایا تو پہچان نہیں پایا۔چالیس برس کی عمر میں وہ دادی بن چکی تھی۔منہ میں دانت تھے نہ پیٹ میں آنت۔اور تو اور اُس نے مجھے پہچانا ہی نہیں۔حاکم کے بہت اصرار پر نام لیا بھی تو میرے چھوٹے بھائی کا۔
راجا راؤ کی طویل کہانی”ساونی”کی کتھا بھی یہی ہے۔حُسن و جمال کی برقراری اور ثبات میں آسودگی کا حصہ سب سے زیادہ ہوا کرتا ہے۔جہالت،غربت اور ناداری وجود کو دیمک کی طرح کھا جاتے ہیں۔میرے جاننے والوں میں ایک معمولی شکل و صورت کی لڑکی لاکھوں دلوں کی دھڑکن رہی۔کیوں کہ اُس نےکامیابی پائی اور اپنے لباس، حُلیے،برتاؤ اور محفل آرائی کی ادا کو نہایت سلیقے سے برت کر اپنی شائستگی اور جمال کی دھاک بٹھا دی مگر مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اس میں اس کی مالی آسودگی کا حصہ سب سے زیادہ تھا۔
منظوراں کا چھوٹا بھائی لال عرف لالُو ہمارے پاس شہر میں ملازم تھا۔اُس کی زندگی کی سب سے بڑی تمنّا شہر میں رہ کر میری خدمت کرنا تھی مگر میں خواہش کے باوجود اُسے اپنے ساتھ نہیں رکھ سکا اور اب تو یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہے اور کس حال میں ہے؟
1967ء کے آخر میں بھٹو صاحب کے ساہیوال آنے کی افواہ اُڑی۔وہ ہمارے ایک ہم جماعت عامر کہ جس کے والد شاید ریٹائرڈ آرمی آفیسر تھے،کے ہاں فرید ٹاؤن آ رہے تھے اور پیپلز پارٹی کی شاخ قائم کرنے یا اُس کے عہدے داروں کے تقرر کی تقریب میں شرکت کرنے۔اگلے ہی روز مظفر قادر جو اس زمانے میں ساہیوال کے ڈپٹی کمشنر تھے،کا نزول ہوا اور بھٹو کے آنے کے روز کی کالج میں تعطیل کا اعلان کر کے چلتے بنے۔ہاسٹل کے طلبہ کو اس اچانک افتاد سے نپٹنے کا کوئی حل نہیں مل رہا تھا۔کوئی بھی گھر جانے پر آمادہ نہیں تھا کہ کم وبیش سبھی ایک دن پہلے ہی گھر سے ہاسٹل پلٹے تھے۔سو پرنسپل صاحب نے چھانگا مانگا کے ہنگامی ٹور کا انتظام کر دیا۔ یہ ٹور اس لحاظ سے انتظامیہ کے لیے نقصان دہ رہا کہ طلبہ سارے راستے پیپلز پارٹی اور بھٹو کے حق میں نعرے لگاتے گئے اور آئے۔اُسی رات عامر کے یہاں کھانے پر ہم چند دوستوں کی بھٹو صاحب سے ملاقات ہوئی اور میرے گھر کے پیپل پر پیپلز پارٹی کا جھنڈا لگ گیا۔اس کے باوجود کہ میرے والد پیر ثنا اللہ بودلہ اور کھگّوں کی محبت میں مسلم لیگ کے حمایتی تھے اور ستّر کے الیکشن میں انہوں نے مسلم لیگ کا ساتھ بھی دیا
میں پیپلز پارٹی کا کبھی رکن نہیں رہا نہ ہی ہمارے خاندان نے کبھی اس نسبت سے کوئی فایدہ اٗٹھایا مگر یہ جھنڈا برسوں لہراتا رہا اور علاقے کے سب سیاستدان اس حوالے سے میرے کنسرن کو جانتے تھے۔
اب پلٹ کر دیکھتا ہوں تو کسی شاعر سے پہلی ملاقات مجید امجد سے تھی اور کسی ادبی رسالے سے پہلا تعارف”فنون”سے۔بطور قاری نثر سے میری نسبت پرانی تھی مگر شاعری سے نئی نئی۔شکور میری تحریری صلاحیت سے مرعوب تھا سو اس نے راوی بن کر مجھے ایک ناول ڈکٹیٹ کرانا شروع کیا اور میں اسے اپنے رنگ میں لکھتا چلا گیا۔یہ ایک عشقیہ داستان تھی اور مجھے یقین ہے کہ اگر اسے رضیہ بٹ یا سلمیٰ کنول کے نام سے چھاپ دیا جاتا تو خوب پڑھی جاتی مگر میرے یا شکور کے نام سے اسے چھاپنے کے لیے پبلشر کا ملنا محال تھا۔ناول مکمل کرنے کے بعد میں نے حاکم علی رضا کو جو لاہور اسلامیہ کالج آف کامرس میں پڑھ رہا تھا،اس کی اشاعت میں اعانت کے لیے خط لکھا اور اس نے اردو بازار کے پبلشرز سے معاملہ طے کرنے کے لیے مجھے لاہور آنے کی دعوت دی بلکہ لے جانے کے لیے ساہیوال آ پہنچا۔
حاکم کی نویں جماعت میں شادی کر دی گئی تھی،جسے وہ اپنی شخصیت کی کجی کی بنیاد جانتا تھا اور اس ٹیڑھ کو نکالنے کے لیے ان دنوں ایک اور لڑکی کے عشق میں مبتلا تھا ۔اس معاملے میں اُس نے مجھے رازدار بنا رکھا تھا۔اس لیے اُس کے نزدیک میرے کسی کام کی اہمیت معمول سے بڑھ کر تھی۔
ہم ایک بار پھر "نیا ادارہ”پر آئے۔ناول اُن کے حوالے کیا اور ہر وہ کتاب خرید لی جو انہوں نے خریدنے کے لیے تجویز کی۔اس میں ضیا جالندھری کی”نارسا”سے باری کی”کمپنی کی حکومت”تک بہت کچھ تھا اور میں تسلیم کرتا ہوں کہ اس علمی خزانے نے مجھے بدل کر رکھ دیا۔
میرے لکھے ناول کو چھپنا تھا نہ چھپا۔میں نے اسے غلام حسین سیفی کے نام سے لکھا تھا۔اس نام کی کوئی وجہ تسمیہ نہ تھی۔کچھ عرصہ "داغ "بھی رہا مگر بڑی حد تک بے داغ۔افسانے لکھ اور شاعری کر رہا تھا مگر اسے کسی کے ساتھ سانجھا نہیں کرتا تھا۔معلوم تھا میری ہر تحریر ناپختہ اور اصلاح طلب ہے اور ابھی اتنی ہمّت نہیں تھی کہ اپنا بستہ اُٹھا کر کسی کے چرنوں میں جا بیٹھوں۔
مجید امجد کی”شب ِرفتہ”اسی زمانے میں پڑھی مگر اس نے وہ اثر نہیں کیا جو ساحر کی”تلخیاں” اور فیض کی "نقش فریادی”نے دکھایا تھا۔
میں نے پہلا سٹیج ڈرامے اپنے کالج کے ہال میں دیکھا،جس کا مرکزی کردار ایک سیکشن آفیسر تھا۔اب یاد نہیں یہ کس نے لکھا اور ڈائریکٹ کیا تھا مگر ڈرامہ خوب تھا اور تا دیر میرے حواس پر سوار رہا۔