درس گاہ – 30

جراحی کی طرف سے آنے والا راجباہ ڈپٹیاں والا سے پہلے دو کھالوں میں تقسیم ہو جاتا تھا۔ایک ٹّبّے سے دائیں ہو کر پنج کسّی اور پھر ہمارے گھر کی چاردیواری کو چُوم کر بھاؤ مراد کی بھینی سے آگے نکل جاتا تھا اور دوسرا خان ذوالفقار کے باغ سے مُڑ کر نور شاہ کے قبرستان کی بیرونی حد کو چُھو کر کھگّوں اور ہماری زمین کی سیرابی کا فریضہ ادا کرتا تھا۔اس نالے پر قبرستان کے ماتھے پر سلیم شاہ کا ٹیوب ویل نصب تھا اور پگڈنڈی پر ایک مختصر سا پختہ پُل۔میں اور حق نواز شام کو سیر کرتے گھر سے تین چار مربعے کے فاصلے پر اسی پل پر آ کر بیٹھتے تھے اور وہ باتیں کیا کرتے تھے جو ہمیشہ ادھوری رہتی ہیں اور اب بھی ادھوری ہی ہیں۔حق نواز مجھ سے آٹھ برس بڑے تھے اور کسی فلمی مکالمے سے متاثر ہو کر مجھے ماموں یار کہتے تھے اور میں اُسے عزیزی کہہ کر مخاطب کرتا تھا۔اُس کی رہائش دریا کنارے تھی اور میں ساہیوال جا چکا تھا مگر پھر بھی ہر ہفتے یہ ملاقات ہوا کرتی اور وچار سانجھے کیے جاتے۔
اسی زمانے میں نور شاہ قبرستان میں چڑیل کی موجودگی کی افواہ اُڑی اور آہستہ آہستہ کیفیت یہ ہو گئی کہ پانی کی باری والوں نے کھالے کے ساتھ ساتھ رات کو قبرستان سے گزرنا چھوڑ دیا۔یوں بھی قبرستان کی خستہ حالت،سُنسانی،جابجا ون،کیکر اور جال کے پُر اسرار درخت،بوڑھ کے دو مہان گیانیوں کی وسیع چھایا اور اس پر عاشق چمگادڑوں کے پرّے۔یہ سب مل کر ایسا منظر نامہ تشکیل دیتے تھے جو کسی رات کے راہی کو کم ہی خوش آ سکتا تھا۔
انہی دنوں ایک بار میں ساہیوال سے گھر کے لیے نکلا تو بس کے خراب ہو جانے کی وجہ سے کہیں مغرب کے بعد میاں چنوں پہنچا۔گھر والے گاؤں میں تھے اور مجھے کوشش کے باوجود گاؤں کے لیے کوئی سواری نہیں مل سکی۔ایک تانگے والے سے سالم تانگہ لے جانے کی بات کی مگر وہ لوئر باری دوآب کے کنارے کے کسی گاؤں کا رہنے والا تھا۔اس لیے معقول رقم کی پیشکش کے باوجود بھی راضی نہیں ہوا۔سو میں گھراٹاں پر اُتر گیا اور جراحی بینس پر پیدل ہی گاؤں کی راہ لی۔ ذہن میں گھر کی ہوئی شاعری پڑھتا اور مکیش کے گیت گنگناتا میں ڈپٹیاں والا کے باہر پہنچا تو کُتّوں اور چڑیل میں سے کسی ایک کے انتخاب کا مرحلہ آیا۔مجھے چوں کہ کُتوں کے وجود پر یقین اور چڑیل کے وجود پر شک تھا۔اس لیے پانچ منٹ کے جرنی بریک کے بعد میں نے قبرستان کے پہلو سے ہو کر بوڑھ کے نیچے سے پُل اور کھیتوں میں سے اپنے گھر کو جاتی پگڈنڈی کا رُخ کیا اور تین سے چار منٹ کی اس مسافت کو دھڑکتے دل کے ساتھ طے کرنے لگا۔
اندھیری رات تھی اور بوڑھ کے نیچے اس قدر تاریکی کہ پُل تک کچھ دکھائی ہی نہیں دے رہا تھا۔ہاں چلتے ہوئے پانی کی سرسراہٹ تھی اور اس کی روانی میں خلل ڈالتی کچھ ایسی آواز جیسے کوئی اسے روک کر اُچھالنے کی کوشش میں ہو۔میں نے لاکھ آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کی مگر بے سُود۔میں ایسا گدھا تھا جس کے پاس ماچس تھی نہ ٹارچ۔ سو میں نے تاریکی سے باہر آنے کے لیے چلتے رہنا ہی بہتر سمجھا اور پُل پر پہنچا ہی تھا کہ کوئی شے ٹیوب ویل کے پانی سے بنی تلیا میں سے پانی کی جھالر کے ساتھ اپنے پورے قد کے ساتھ اُٹھی اور ایک غیر انسانی غراہٹ کے ساتھ میری طرف بڑھی ۔معلوم نہیں کیا ہوا مگر کسی غیر ارادی قوّت کے ساتھ میں اُس سایے سے گُتھم گُتھا ہو گیا۔کسی طرح میرے ہاتھ اُس کے بالوں میں الجھ گئے اور میں نے انہیں پوری قوت سے جکڑ کر کھینچ لیا۔اگلے ہی لمحے میں نے اپنے آپ کو ایک ریشمی وجود پر گرا ہوا پایا اور مجھے لگا کہ اس کے بدن پر کسی ملبوس کا ایک تار بھی موجود نہیں۔کچھ نامانوس نشیب و فراز تھے اور ان پر سرکتے پانی کی ہلکی نمی اور میں تھا جو ایک وحشت بھرے اضطراب کے ساتھ اسے زمین پر رگڑے جا رہا تھا اور رگڑے جاتا اگر وہ تاریکی اور ٹھنڈک میں نہایا وجود سسکنے کا آغاز نہ کرتا۔
میں گھبرا کر الگ ہوا اور اُسی تاریکی میں اسے ملبوس میں اترنے کی اجازت دے کر اپنے پسندیدہ پُل پر جا بیٹھا کہ اس خوف سے نکلنے کی ضرورت مجھے بھی تھی۔
لڑکی قریب ہی کے گاؤں کی تھی۔وہی پرانی کہانی۔اولاد نہ ہونے کا مسئلہ۔پیر پرستی۔قبرستان میں چِلّہ اور غُسل۔آج کا واقعہ راز رکھنے کی شرط پر میں نے اُسے اس کام سے باز آنے کا کہا اور ہم دونوں نے اپنا وعدہ پورا کیا۔آج بھی سوچتا ہوں کہ اولاد کی تمنا عورت کو کتنا جری بنا دیتی ہے۔جس علاقے سے مرد دن میں گزرتے گھبراتے ہوں وہ وہاں راتیں بِتانے پر آمادہ ہو جاتی ہے اور ہر خوف کو جُوتی کی نوک پر رکھتی ہے۔
اٗس روز سے میں نے عورت کو کبھی کمزور نہیں سمجھا۔

دسویں جماعت میں تھے جب لاہور سے دو نوجوان جاوید اقبال (ڈم ڈم)اور اجمل ہجرت کر کے ہمارے سیکشن میں آئے۔پہلے ایچی سن کالج کے بھگوڑے تھے اور دوسرے سنٹرل ماڈل سکول کے۔ہم ایک کی ان تھک انگریزی اور دوسرے کی لشٹم پشٹم سے بہت متاثر تھے اور ممکن تھا اُن کے حلقہء ارادت میں شامل ہو لیتے مگر وقت کی تنگی کے باعث بات دوچار ملاقاتوں سے بڑھ نہیں پائی۔اجمل کے والد فیکٹری اونر تھے۔میٹرک کرنے کے بعد وہ شاید اپنے باپ کی مدد کرنے میں جُت گیا اور جاوید صاحب جو غلام حیدر وائیں(بعد میں وزیرِِاعلٰی پنجاب) کے رشتے میں پوتے تھے،ہیوی ویٹ باکسر بننے کی راہ پر چل نکلے۔
کالج کے پہلے برس گرمیوں کی چھٹیوں میں ایک دن میں شہر سے موٹر سائیکل پر گاؤں جاتا تھا کہ میں نے جاوید کو جراحی بَین٘س پر نہر والوں کی بنائی سڑک پر نیکر،شرٹ اور لونگ بُوٹ میں شارٹ گن گلے میں ڈالے اور کمر میں کارتوسوں کی پیٹی اُڑسے مارچ کرتے دیکھا۔میرے استفسار پر موصوف نے بتایا کہ وہ سور کے شکار پر نکلے ہیں،جس کا انہوں نے ایچی سن کی ایک ٹیچر سے وعدہ کیا ہے اور اب راوی کے بیلے کی اور پدھارتے ہیں۔میں انہیں شکار کی حدود و قیود بتا کر گھر لے آیا اور پہلی ہی تفصیلی ملاقات میں مجھ پر یہ بھید کُھل گیا کہ اُن کے تھل تھل کرتے وجود میں مقید روح کسں قدر سادہ اور معصوم ہے۔
وہ اپنے مشن پر ڈٹے ہوئے تھے اور اپنی مراد کو پانے کے لیے انہوں نے ایسے ایسے گُل کھلائے کہ جن کی یاد بے اختیار ہسنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
جنگلی سور پر سواری کا شرف شاید ہی کسی اور کو حاصل ہوا ہو۔(زیر ِنظر تصویر میں دکھائی دینے والی آبادی تب موجود نہیں تھی)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے