آصف،محمود اور ضیا وغیرہ عمر میں بھی مجھ سے بڑے تھے اور قد کاٹھ میں بھی۔آصف گھونگھریالے بالوں،بڑی بڑی اسرار بھری
آنکھوں،نفیس جدّت طراز ملبوس اور لامحدود اعتماد کی وجہ سے نمایاں تھا تو محمود کے گھر کا علمی پس منظر،صوم و صلوٰۃ سے نسبت اور مذہبی مسائل اور معاملات میں قابل ِتقلید پیش رفت اسے تکریم کے قابل بنانے کو کافی تھی۔نواز اپنی معاملہ فہمی اور طراری کے باعث کسی کے قابو آنے والا نہیں تھا اور شکور کے خالص دیہاتی نقوش میں ایسی پختگی تھی جیسے برسوں سے ایک ہی کلاس کو رگڑا دے رہا ہو۔سو ریگنگ کا نشانہ اگر ہو سکتے تھے تو وہ میں اور ضیا ہی تھے وہ گفتگو میں اٹکنے کی قباحت کے باعث اور میں چار فٹ دس انچ کے قد اور نہایت دُبلے وجود کی وجہ سے اور یہی ہوا جب میں تین عدد تھری پیس سوٹ،متعدد کُرتے پاجاموں،کئی پینٹ شرٹس،یونیفارم کے دو جوڑوں اور پنجیری سے بھرے ٹرنک کے ساتھ ہوسٹل پہنچا تو سر منڈاتے ہی اولے پڑے۔سینئیرز کے ایک جمّ ِغفیر نے مجھے گھیر ہی نہیں لیا،ٹرنک کھلوا کر پنجیری بھی لُوٹ لی،جس کے کھانے والوں میں پہلی قطار کے پیچھے نواز اور شکور کے چہرے بھی موجود تھے۔پہلے گانے کا حکم صادر کیا مگر میری آواز کی گڑگڑاہٹ سے گھبرا کر کچھ تحت اللفظ سنانے کی فرمائش کی گئی تو نہ معلوم کہاں سے حضرت ِ غالب میری مدد کو آ پہنچے اور میں نے ان کی غزل:
جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں اِرم دیکھتے ہیں
کے چند شعر سُنائے۔جب مقطع پر پہنچا:
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں
تو ہجوم کا استہزائی رنگ بے ساختہ داد میں بدل گیا اور ہجوم نے میرے ساتھ محبت سے مصافحہ کر کے پنجیری لُوٹنے پر معذرت کر کے اپنے ہمراہ لے لیا اور باقی کی ریگنگ میں مَیں بھی اس ٹولے کا حصہ رہا۔
ہاسٹل میں ناشتے کے لیے کینٹن اور کھانے کے لیے میس موجود تھا۔سینڈوچ،کپ کیک،آملیٹ،فرائیڈ انڈہ،توس اور پراٹھے سب کچھ دستیاب تھا۔سب کچھ ملا کر ماہانہ بِل تیس روپے سے زیادہ نہیں ہوا کرتا تھا۔ایک حاضری دس بارہ پیسے سے زیادہ کی نہیں تھی اور ہر سوغات کی حاضریاں طے شدہ تھیں۔مثلاً دال روٹی تین حاضریاں تو مرغ یا بکرے کے گوشت کا قورمہ روٹی پانچ حاضریاں۔مہینے کے آخر میں کُل حاضریوں کو فی کس حاضری کی رقم سے ضرب دے دی جاتی تھی اور ہر طالبِ علم اپنا بِل خود بنا سکتا تھا۔مجھے گھر سے ڈیڑھ سو روپے ملتے تھے۔کچھ رقم ماں دیتی تھی اور ہر ہفتے واپسی پر ابّا جی بس یا ٹرین کے کرائے کی مد میں عنایت کرتے رہتے تھے۔یہ رقم بھی خاصی ہو جایا کرتی تھی کہ ابّا جی کی شفقت اس کی بڑھوتری کا سبب بنتی۔
بس کا کرایہ ایک روپے دس آنے اور ٹرین کا ڈیڑھ روپیہ تھا۔ابّا جی دس روپے عنایت کر کے پوچھتے:”لے یار کافی ہوسی نا؟” میں کہتا "جی” اور بیگ اُٹھا کر گُھٹنے چُھونے کو جُھک جاتا۔تب وہ دس کا ایک اور نوٹ نکالتے اور کہتے”ایہہ لے۔راہ وچ کجھ کھا پی لویں”.میں کہتا "جی”اور باہر قدم بڑھاتا تو وہ دروازے تک ساتھ چل پڑتے۔میں گلی میں آ کر تعظیم کے لیے جُھکتا تو دس کا ایک اور نوٹ اس ہدایت کے ساتھ عنایت کیا جاتا”اڈے توں کالج کان سالم تانگہ کر لویں”.
یہ سب دس روپے سے زیادہ کا نہیں تھا بلکہ میں اس سے بھی کم میں ہاسٹل پہنچ جاتا مگر یہ عمل اور مکالمہ ہر بار دہرایا جاتا اور میرا مجموعی جیب خرچ اڑھائی سو تک پہنچ جاتا۔میں اگر غلط نہیں ہوں تو اُس زمانے کے اساتذہ اس کے لگ بھگ ہی تنخواہ پاتے تھے۔
کالج کا پہلا دن تعارف کا تھا۔ہمیں مختلف مضامین کے لیےایک کمرے سے دوسرے کمرے میں منتقل ہونا پڑا۔اس لیے پہلا دن کافی ہنگامہ خیز رہا۔اساتذہ میں فزکس کے حفیظ الرٰحمن(تھیٹا)،کیمسڑی کے چودھری عبدالعزیز (لارڈ)،انگلش کے فرخ صاحب اور اردو کے اشرف صاحب مجھے یاد ہیں۔عزیز صاحب کے لارڈ کہلانے کا سبب یہ بنا کہ وہ طلبہ سے تعارف میں ایک سوال ضرور پوچھتے تھے:
"What is your father?”
اتفاق سے طلبہ کی اکثریت آس پاس کے علاقوں کے زمینداروں کے بچوں پر مشتمل تھی سو پہلا ہی جواب آیا:
"Sir!my father is a land lord”
یہ ایک ٹرینڈ سیٹر جواب تھا۔جب مجھ جیسے معمولی کسان کے بیٹے نے بھی سینہ پُھلا کر یہی جواب داغا تو شاید وہ چِڑ گئے اور فرمایا:
"Don’t try to impress me,my father was also a land lord”
اس دن کے بعد وہ لارڈ کہلانے لگے۔حفیظ الرحمٰن صاحب پہلے ہی سے”تِھیٹا”مقرر کیے جا چکے تھے اور سُنا ہے کہ گورنمنٹ کالج لاہور ٹرانسفر ہو بھی کر اس لقب سے پیچھا نہیں چھڑا پائے تھے۔
اس کا ایک دلچسپ تجربہ مجھے ایک بار گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازی خان جانے پر ہوا۔یہ انوار الحکیم عثمانی کا زمانہ تھا۔ اُن کی دعوت پر کالج پہنچا تو سوچا کہ پنجابی شعبے میں اپنے جگری یار اور ہم جماعت محمد بشیر طارق سے بھی مل لُوں۔ہم کالج کے زمانے میں اُسے”لبّھا”اور”بٹھّل”کے القاب سے یاد کرتے تھے سوچا یہاں اصل نام سے یاد کرنا افضل ہو گا سو عثمانی صاحب سے کہا کہ بشیر طارق کو بلوا دیجیے۔انہوں نے چپڑاسی کو بلا کر یہ نام بتایا تو اُس نے لاعلمی کا اظہار کیا۔مجھے گمان گزرا کہ شاید اصل نام طارق بشیر ہو مگر نام اُلٹانے پر بھی چپڑاسی کے چہرے کی کیفیت نہیں بدلی تو میں نے وضاحت کی کہ وہ پنجابی کے پروفیسر ہیں۔
یہ کہنے کی دیر تھی کہ چپڑاسی کے چہرے کا تناؤ ختم ہو گیا۔ایک طمانیت بھری سانس کھینچ کر فرمایا:
"سائیں انج آکھو نا۔لبّھے نوں گِھن آ”
میں آج تک نہیں سمجھ سکا کہ اس نوع کے القاب اگلی منزل تک کا سفر کیسے کرتے ہیں۔
کالج اور ہاسٹل کے معمولات طے شدہ تھے۔فجر کے وقت پرنسپل صاحب دندناتے ہوئے آتے اور طلبہ کی چادریں کھینچ کھینچ کر نماز کے لیے جگاتے۔تاہم ایک بار نواز طاہر کو چادر کے نیچے فطری لباس میں دیکھ کر انہوں نے اپنے آپ کو دروازہ دھڑدھڑانے تک محدود کر لیا تھا۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ نواز کا فطری لباس میں ہونا اتفاقی نہیں تھا۔
نماز کے بعد ہم لوگ جِم جاتے یا سوئمنگ پول کا رُخ کرتے۔مسجد،سوئمنگ پول اور روز گارڈن ایسے جمیل مقام تھے کہ جن کی تصویر اب تک نگاہوں میں تیرتی ہے۔کالج سےہاسٹل کو جاتی سڑک کا اپنا اسرار تھا۔مجھے چیزیں زیادہ خوبصورت نظر آتی تھیں۔ایک بار کسی کی عینک لگائی تو دور کی اشیاء کا رنگ بدل گیا۔تب کُھلا کہ ہم نظر کی کمزوری کا شکار ہیں۔اُسی روز آصف کے ساتھ شہر جا کر ایک آئی سپیشلسٹ سے ملے اور معنک ہو کر پلٹے۔اس پھیرے میں شیونگ کٹ بھی خریدی(آصف نے وہ ساری چیزیں منتخب کیں جو اپنے بڑے بھائی کے پاس دیکھی تھیں۔جلٹ کا سامان،آسٹریا کی کنگھی،
ویسلین ہیر آئل اور دیگر لشٹم پشٹم).یہ اور بات کہ اُس کی ضرورت ایک برس تک پڑی ہی نہیں۔حتّٰی کہ ہم کھنچ کر دس انچ لمبے ہو گئے اور بال ترشوانے کے دوران میں کبھی حجام ہمارے عارضوں پر بھی قینچی آزمانے لگا۔
کون یقین کرے گا کہ تب آسٹریا کی کنگھی ہمارے بالوں میں ٹوٹ جاتی تھی۔معنک ہونے کے بعد ہم انٹلکچوئل لگنے لگے تھے اور ادب سے ہمارا رشتہ قائم ہونے لگا تھا۔
کالج میں فلم کلب بھی قائم کیا گیا تھا اور جمعہ کی شام کو یُو ٹائپ ونگ کے لان میں پروجیکٹر پر کلاسک انگریزی فلمیں دکھائی جاتی تھیں۔”Bridge on the river kiwai”،the great escape”،la miserable”اور”the comedy of error”جیسی فلمیں یہیں دیکھیں۔شہر کے سنیما بھی ہماری دسترس میں تھے۔پہلے تو نگران سے اجازت لینے اور ہاسٹل گیٹ پر موجود رجسٹر میں آنے جانے کے وقت کا اندراج کرنے سے بڑی کوفت ہوئی مگر بعد میں باہر کھیتوں کی طرف کُھلنے والی بغیر گرل کی جالی والی کھڑکی نے بڑی سہولت پیدا کر دی۔دس پیچ کھولنے اور واپس جمانے میں دو منٹ لگتے تھے اور شہر قدموں تلے کھنچ آتا تھا۔
یہیں غالباً آئرس سنیما کے باہر مجید امجد سے ایک ملاقات ہوئی تھی۔
مجھے تب تک شاعری کے آہنگ سے زیادہ شناسائی نہیں تھی۔کالج لائبریری میں”فنون”کا کوئی شمارہ دیکھا تو اس میں مجید امجد کی نظمیں سب سے پہلے چھپی ہوئی تھیں۔مجھے وہ نظمیں بے وزن لگیں اور بہت حیرت ہوئی کہ احمد ندیم قاسمی جیسا ایڈیٹر کسی شخص کے لیے ایسی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیسے کر سکتا ہے؟مجھے اپنے دوستوں میں اپنے مطالعے کے حوالے سے ڈینگیں مارنے کی عادت تھی۔اس روز سینما کے باہر پہلا شو ختم ہونے کے انتظار میں مَیں فنون ہی کی بات کر رہا تھا اور مجید امجد کا نام لیا ہی تھا کہ ایک دبلے پتلے نحیف آدمی نے،جو سائیکل کو بائیں بغل میں دبائے پیدل ہی کہیں جا رہے تھے۔”مجید امجد”کہہ کر ہاتھ بڑھایا اور ہم سب سے مصافحہ کیا۔وہ شاید یہ سمجھے تھے کہ میں اپنے دوستوں کو ان کی طرف متوجہ کر رہا ہوں۔میں نے شرمندہ سا ہو کر ہاتھ ملایا اور ان کے سوال کے جواب میں اپنا مشغلہ لکھنا پڑھنا بتایا تو آپ نے سٹیڈیم ہوٹل آنے اور ملتے رہنے کی ہدایت کی مگر افسوس میری جہالت مجھ پر غالب آئی اور میں ان سے ملنے کے لیے کبھی ہوٹل گیا ہی نہیں۔
ساہیوال آنے کے فوراً بعد ہم دو تین "ہٹّیوں”پر گئے۔جن میں سے ایک "بابے”کی اور ایک”مجید کی ہٹّی”تھی۔یہاں سے میں نے فیض کو خریدا اور اس محبت میں مبتلا ہوا جو آج بھی برقرار ہے۔یاداشت کا یہ عالم تھا کہ برسوں بعد فیض صاحب سے ایک ملاقات میں کچھ سُنانے کی فرمائش کی تو انہوں نے نسیان کا بہانہ بنا کر ٹالنا چاہا۔تب میں نے عرض کی کہ وہ کچھ سُنانا شروع کریں،جہاں بھولیں گے یہ ناچیز یاد دلا دے گا اور یہ دعویٰ کچھ ایسا غلط بھی نہیں تھا۔
ساہیوال سے ہفتے کی سہہ پہر میاں چنوں کے لیے روانگی ہوتی تھی۔عام طور پر گھر والے میاں چنوں میں مل جاتے تھے اور ہم لوگ اکٹھے گاؤں آ جاتے تھے۔کبھی وہ لوگ پہلے نکل لیں تو میں سائیکل یا تانگہ کرایے پر لے کر پہنچ جاتا تھا۔کئی بار ایسا ہوتا تھا کہ دیر ہو جانے پر میں بس کے ذریعے گھراٹ،خُونی یا پکّا موڑ پر اتر کر پیدل ہی گھر آ جاتا تھا۔مجھے سب سے زیادہ جراحی روڈ سے آنا پسند تھا مگر گھنی ٹاہلیوں،چھتنار کیکروں اور سنسانی کی وجہ سے رات کو اس راہ سے آنا غیر محفوظ سمجھا جاتا تھا مگر اس طرف سے آنے میں آسانی یہ تھی کہ "ڈپٹیاں والا” کے سوا کوئی آبادی راہ میں نہیں پڑتی تھی اور آوارہ کُتوں سے کاٹے جانے کا دھڑکا کم ہوتا تھا۔ہاں ڈپٹیاں والا آ کر آبادی سے باہر قبرستان نور شاہ کے پاس سے گزرنا ایک مسئلہ ضرور ہوا کرتا تھا مگر مجھے رات کو اس قبرستان سے گزرنے میں زیادہ خوف نہیں آتا تھا۔اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ اپنے بڑے بھانجے حق نواز سے دوستی کے بعد گاؤں میں ہونے پر ہم دونوں ہر شام سیر کرتے ہوئے اس قبرستان کے سامنے کھالے کے پُل تک آتے تھے اور وہاں بیٹھ کر دُنیا جہان کی باتیں کرتے تھے اور دوسری وجہ یہ کہ کتوں کے مقابلے میں مَیں مُردوں کو زیادہ مہذب جانتا تھا۔پھر یہ سفر کو اور مختصر کرنے کا ذریعہ بھی تھا سو میں وہاں سے بے دھڑک گُزر جاتا تھا۔تب بھی جب وہاں ایک چُڑیل کی موجودگی کا شُہرہ ہوا اور ایک روز اُس سے ملاقات بھی ہو گئی۔