درس گاہ – 28

ایم سی ہائی سکول کے اساتذہ میں شوکت حسین رضوی اور سائنس کے رشید صاحب کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ دونوں نہایت شفیق اور اپنی آبائی روایت کے بہترین نمونے تھے.ایک لکھنؤ کی نستعلیقیت کا مرقع تھے تو دوسرے پنجاب کی اشرافیہ کا اور ان دونوں کی صحبت میں آدمی ان جانے میں بہت کچھ سیکھ جاتا تھا۔
مجھے یہ تسلیم کرنے میں عار نہیں کہ زبان کا خلاقانہ استعمال میں نے رضوی صاحب سے سیکھا تو پرزم سے منعکس ہونے والے رنگوں کی پہچان اور انسانی نفسیات سے اُس کے رشتے کی خبر رشید صاحب نے دی۔
حکیم عصمت اللہ کا،جو ہمارے ہمسائے تھے،ذکر پہلے آچکا۔اُن کے بڑے صاحب زادے صفدر اور چھوٹے سرور سے دوستی ہونا چاہیے تھی اور ہوئی مگر ہم عمر ہونے کے ناتے زیادہ قربت سرور سے تھی۔ڈاکٹر صادق ملہی جو پیپلز پارٹی میں شامل ہونے اور ایم پی اے بننے کے بعد پنجاب کابینہ میں تعمیرات کے وزیر رہے،اُن کے عزیز تھے۔وہ پہلے سول ہسپتال میں انچارج بن کر آئے۔آدمی معقول اور اپنے کام میں ماہر تھے۔اس پر شہر کے پہلے ایم بی بی ایس،سو بہت جلد عوامی ہو گئے اور ملازمت ترک کرکے شہر میں اپنا کلینک کھول کر پریکٹس کرنے لگے۔کسی وجہ سے میرے ابّاجی بھی اُن کے مداحین میں شامل ہو گئے اور بہت جلد انہوں نے ہمارے خاندانی معالج کی حیثیت حاصل کر لی۔وہ گھر پر آ کر بھی علاج کرنے لگے اور کلینک پر تو خصوصی شفقت کیا ہی کرتے تھے۔اُن کی ایک خاص ادا یہ تھی کہ جونہی ہم بھائیوں میں سے کوئی کسی مریض کے ساتھ اُن کے کلینک جاتا،وہ ایک مدور آئینے کا رُخ پھیر کر ہمارے سامنے رکھ دیتے تھے،جس میں شکل بگڑی نظر آتی تھی۔کبھی ماتھا اتنا بڑا ہو جاتا کہ باقی خدوخال اضافی محسوس ہوتے اور کبھی ناک ہر نقش پر حاوی ہو جاتی۔ایسا ہوتے ہی ہم احتیاط سے اس آئینے کو ڈاکٹر صاحب کے نقوش کی تفسیر پر مقّرر کر دیتے اور وہ مسکرا کر اپنے عمل کا اعادہ کرتے۔یہ کشمکش مریض کو دوا دے کر رخصت کرنے تک جاری رہتی اور کسی کے لب پر شکایت کا حرف تک نہیں آتا۔
اُن کی پریکٹس خوب چلی۔اُن کا کلینک ہسپتال میں بدلا اور اُن کے بدخواہوں نے اُن کے کس بل نکالنے کے لیے انہیں پیپلز پارٹی میں شامل کرا دیا۔وہ مسلم لیگ(قیوم)میں جانا چاہتے تھے مگر الیکٹیبل حضرات نے یہ ہونے نہیں دیا۔تب کسی کو کیا خبر تھی کہ الیکشن میں کیا جھاڑو پھرنے والا ہے مگر یہ قصّہ بہت بعد کا ہے اور اس سے بھی دلچسپ حکایت اُن کے وزیر بننے کی ہے۔

کالج میں داخلے کے لیے رزلٹ کارڈ ٹائپ ہو کر تصدیق ہو چکا اور کیمرے نے ہمارے ہوائیاں اُڑے چہرے کے نقش اُتار لیے تو ہم والد صاحب اور ماسٹر مختار احمد کے ساتھ عازم ِساہیوال ہوئے۔ہم نے صبح کی ٹرین لی اور اپنا پسندیدہ عمل دُہراتے یعنی اسٹیشنوں کے نام یاد کرتے(اقبال نگر،کسووال،کوٹلہ جندا رام،چیچہ وطنی،داد فتیانہ،ہڑپہ،میر داد معافی)ڈیڑھ گھنٹے میں ساہیوال پہنچ گئے۔وہاں سے تانگے پر کالج۔جس نے پہلی ہی نظر میں ہمیں موہ لیا۔ہم نئے نئے نسائی حُسن کی قیامت خیزی سے مغلوب ہو رہے تھے۔اس کالج کے جمال نے تو ہر نقش کو دھندلا کر دیا۔مدّتوں بعد(1977ء میں)میری مرتب کردہ کتاب”موسم”کے اوّلیں مسّودے پر نظر ڈال کر جب غلام محمد قاصر نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ میری شاعری میں آنکھوں کا ذکر بے محابہ ہے تو میں نے کہا تھا کہ ہاں ہے اور یہ آنکھیں کسی روپ میں بھی ہوں،میری اس حیرت کی توسیع ہیں جو مجھے حُسن کے ہر پیکر کے حضور سرنگوں کر دیتی ہےاور جس کا اولین نقش گورنمنٹ کالج ساہیوال کی پہلی جھلک سے مرتب ہوا۔
یہاں ہم نے کالج سے پراسپیکٹس لیا اور پری انجینئرنگ کے لیے داخلہ فارم بھرنا شروع کیا ہی تھا کہ ایک گورے چِٹّے نوجوان اپنے والد کے ساتھ ہمارے ساتھ جُڑ بیٹھے۔یہ مدرسہ(بہاول نگر)کے محمد نواز طاہر بھٹّی تھے،جن سے طویل رفاقت کا آغاز ہو رہا تھا اور جن سے ہزاروں ایسی یادیں وابستہ ہیں جو صرف انہی کی ذات سے خاص ہیں۔لا اُبالی پن،جُرأت،طراری اور شرارت کی جیسی پوٹ آپ تھے،اب تک کی زندگی میں کوئی دوسرا نہ ملا۔
ہماری واپسی کی ٹرین دو بجے تھی۔داخلہ فارم جمع کرانے کے بعد ایک خاصے معقول ہوٹل سے کھانا کھا کر اسٹیشن آئے تو جو ٹرین ملتان کا رُخ کر کے سامنے کھڑی دکھائی دی۔مختار صاحب اسی میں گُھس گئے اور وہ چل بھی پڑی۔ہمارے پاس میل گاڑی کے ٹکٹ تھے اور ہمارا خیال تھا کہ ہم ڈیڑھ گھنٹے میں میاں چنوں پہنچ جائیں گے۔وہ اُسی وقت باطل ہو گیا جب وہ دُلکی چال سے نکلی ہی نہیں اور ہماری اصل ٹرین اگلے ہی اسٹیشن پر دھڑ دھڑ کرتی ہمارے ہاتھ سے نکل گئی۔ہم نے آٹھ اسٹیشنوں پر ٹھیکی ہی نہیں لگائی، استراحت اور پلیٹ فارم کی پیمائش کی۔ہر نلکے کا پانی پیا۔ویرانی اور ہمیں پچھاڑتی گاڑیوں کے خواب ہوتے مسافروں کی آرتی اُتاری تب جا کر کہیں چار گھنٹے کے بعد اس وقت میاں چنوں کی صورت دکھائی دی جب مجھے یہ یقین ہو چلا تھا کہ قبض ِمکاں کے بغیر آج گھر پہنچنا ممکن نہیں۔
ہر اُمیدوار کی طرح مجھے بھی یقین تھا کہ میری صورت اور تعلیمی استعداد اس کالج میں داخلے کے لائق نہیں مگر کچھ روز بعد میں جب دوستوں (آصف،محمود وغیرہ)کے ساتھ میرٹ لسٹ دیکھنے گیا تو میرا نام لسٹ میں چودھویں نمبر پر موجود تھا اور یہی میرا رول نمبر قرار پایا۔
میں نے اور میں نے ہی نہیں شہر سے باہر کے ہر طالبِ علم نے ہاسٹل میں داخلے کی درخواست دے رکھی تھی۔وہ بھی منظور ہوئی اور ہم چھے لوگوں کو کالج کے آخری کونے پر واقع (جناح) ہاسٹل میں بائیں ونگ میں ایک ڈارمیٹری الاٹ کر دی گئی۔یہ چھے لوگ،میں،آصف،نواز طاہر،افتخار احمد(گیمبر/اوکاڑہ)،خورشید احمد اور شکور احمد خالد تھے(جو 20/8BR کے رہنے والے تھے)۔ یعنی نواز اور افتخار کے سوا سب کی نسبت میاں چنوں سے تھی۔یہاں ہمیں دو برس گزارنے تھے مگر ابھی تو اُدگھاٹن باقی تھا اور سینئرز کی فولنگ سے جانبر ہونا بھی جسے آج کل ریگنگ کا نام دیا جاتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے