پکا حاجی مجید کے سکول میں داخلے کا ایک فائدہ یہ تھا کہ کبھی کبھار سکول جاتے ہوئے یا گھر واپسی کے لیے سواری مل جاتی تھی ۔ میرے والد اور والدہ میاں چنوں شہر جانے کے لیے یہی راستہ اختیار کرتے تھے اور اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ جراحی سے گھراٹ جانے والی بینس کی سروس روڈ میں گڑھے کھدے ہونے کی وجہ سے تانگہ چلانا مشکل ہوتا تھا ۔ اگرچہ ہمارے کوچوان ممّو نے گھوڑے کو گڑھوں پر سے لہرا کر نکل جانے کی مشق کرا رکھّی تھی مگر مسئلہ اُس وقت پیش آتا تھا جب اس سڑک پر کسی کار سے سامنا ہو جاتا تھا ۔ تب کسی ایک سواری کا سڑک چھوڑنا ضروری ہو جاتا تھا اور یہ اس لیے بہت مشکل ہوتا تھا کہ سروس روڈ عام سڑک سے کم وبیش دو فٹ گہری تھی ۔ اس موقع پر سرکاری اہل کاروں سے، جو اس سڑک کو اپنی جاگیر جانتے تھے، تکرار لازمی تھی ۔ خاص طور پر جب میرے والد تانگے پر موجود نہ ہوں ۔ عام سواریاں سروس روڈ کا چناؤ نہیں کرتی تھیں مگر جس سڑک یا سڑک نما راستے پر ان کا راج تھا ۔ وہ گزوں دھول اور مٹّی سے اٹا تھا ۔ اس قدر کہ بعض جگہ پر تانگے کے پہیے آدھے سے زیادہ مٹی میں دھنس جاتے تھے اور راہ میں لگنے والے ہچکولوں سے بدن کئی کئی دن دُکھتا رہتا تھا۔
پکا حاجی مجید کی سڑک بہتر حالت میں تھی ۔ اس راہ سے تلمبہ اور میاں چنوں ایک جیسے فاصلے پر تھے یعنی گاؤں سے پورے سات میل یا گیارہ کلومیٹر اور تانگے یا سائیکل پر یہ فاصلہ ایک گھنٹے میں طے ہوتا تھا ۔ اکثر اوقات جب تانگہ ہمیں سکول اتار کر شہر کا رُخ کرتا تو پیر سوہارے شاہ شہر جانے کے لیے لفٹ لینے کو سڑک پر کھڑے ہوتے تھے ۔ بعض اوقات وہ یہ کرم فرمائی سائیکل سواروں پر بھی کرتے تھے ۔ وہ بہت بڑے زمیندار تھے اور گاڑی رکھنا ان کے لیے کوئی مشکل امر نہیں تھا ۔ مگر انہیں ان علائق سے نفور تھا۔کیوں؟ اس کی کوئی معقول وجہ میری سمجھ میں اب تک نہیں آئی ۔ ہمارے پاس ایک پرائیوٹ پشاوری تانگہ تھا ۔ نہایت اعلیٰ سسپینشن
نفیس چمڑے کی سپرنگوں والی سیٹوں اور پاؤں سے دبا کر بجانے والی پیتل کی گھنٹی والا۔سفید برّاق گھوڑا، جس کے بدن پر کہیں کوئی رنگین دھبہ نہیں تھا ۔ ہماری سواری کی پہچان تھا ۔ سو جب یہ تانگہ ہمیں سکول اتارنے یا لینے آتا تھا تو سب اسے دور سے پہچان لیا کرتے تھے۔
کتابوں اور بچوں کے رسائل سے آشنائی نے ایک مسئلہ یہ پیدا کیا کہ جسمانی کھیل کود میں میری رغبت کم کر دی اور نصابی کتابوں میں بھی ۔ دن میں تو درختوں پر چڑھنے، گلی ڈنڈا اور پٹھو گرم کھیلنے کا سلسلہ جاری رہا مگر رات لیمپ کی خُنک روشنی میں دیر تک پڑھنے کی وجہ سے اب میں چُھپن چھپائی کے ساتھیوں سے کٹ گیا تھا۔ گرمیوں میں کھانا اور سونا صحن میں ہی ہوتا تھا ۔ مچھروں سے بچنے کے لیے جالی لگی بانس کی چھڑیوں والی مچھر دانیاں لگائی جاتی تھیں ۔ لیمپ بجھانے پر لالٹین کو مدھم کر کے برآمدے میں لٹکا دیا جاتا تھا تاکہ رات کو ضرورت پڑنے پر لو بڑھا کر کام میں لائی جا سکے۔
رات پڑنے پر آسمان بہت قریب آ جاتا تھا ۔ ستارے اور ان کے سلسلے جانے پہچانے تھے اور جگہ بدلتے رہتے تھے۔ گھر کی ڈیوڑھی سے باہر پیپل کے چھتنار درخت، درخت کم اور طلسمی پہرے دار زیادہ محسوس ہوتے تھے۔درختوں کی اہمیت کئی وجہ سے تھی ۔ تحفظ کے احساس کے علاوہ چولھا جلانے کی لکڑی انہی سے عطا ہوتی تھی ۔ ہوا کے چلنے کی پہلی گواہی یہی دیتے تھے ۔ مجھے حسینی غلام سمجھا جاتا تھا، اس لیے حبس کے دنوں میں گھر والے مجھے ہوا چلنے کی دعا کرنے کو کہتے تھے ۔ تب میں پیپل کے پتوں پر نظر جما کر جو جی میں آئے بُڑبڑاتا تھا اور حیرت اس بات پر ہوتی تھی کہ میرا دل رکھنے کو ہوا چلنے بھی لگتی تھی ۔ اس کا بڑا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ ملازمین ، میری والدہ اور بہنوں کو ہمیں دستی پنکھوں سے ہوا دینے کے کام سے نجات مل جاتی تھی۔
گھر کے دروازے بھیڑے ضرور جاتے تھے مگر تالابندی کا رواج نہیں تھا ۔ حویلی کا صدر دورازہ بھی ایسی زنجیر سے بند کیا جاتا تھا ، جسے دو انگلیاں ڈال کر آسانی سے کھول لیا جاتا تھا ۔ دیر سے گھر آنے کی مناہی تھی نہ یہ پُرشش کہ اتنی دیر کہاں اور کس کے پاس گزاری ۔ میرے ایک کزن تو اپنی بیگم کے ساتھ اپنے گھر سے باہر کُھلی جگہ پر شب بسری کرتے تھے ۔ مچھردانی لگی چارپائیاں، گھڑونجی پر پانی کا گھڑا، سرہانے میز پر ریڈیو جما ہوا، پائنتی کی طرف ایک آدھ ملازمہ یا کسی بیٹے کا بستر ۔ مجال ہے جو کوئی قریب سے کھانس کر بھی گزر جائے ۔ میں وہاں بھی حاضری دیا کرتا تھا مگر کتابوں میں غرق ہونے کے بعد یہ سلسلہ بڑی حد تک موقوف ہو گیا ۔
میرے سبھی تایا زاد اور دونوں بھائی، عمر میں ہم بہن بھائیوں سے بڑے تھے ۔ وجہ یہ کہ ہم والد کی دوسری بیگم میں سے تھے اور یہ شادی انھوں نے پہلی بیگم کی وفات کے کئی برس بعد کی تھی ۔ دونوں بڑے بھائی شادی شدہ تھے ۔ بلکہ ایک کی شادی تو میری پیدائش سے دس برس قبل ہو چکی تھی اور ان کی مجھ سے نو برس بڑی ایک بیٹی بھی تھی ۔ دونوں سوتیلی بہنیں شادی کے بعد بچوں کو جنم کر فوت ہو چکی تھیں ۔ اس لیے میں وہ ماموں اور چچا تھا، جس کے کئی "بزرگ بھانجے بھتیجے” تھے۔
سو تایا زادوں اور بھائیوں سے جنریشن گیپ کا مسئلہ تھا ۔ زیادہ قربت دور یا نزدیک کے بھتیجوں اور اپنے بھائی بہنوں سے تھی اور اس سے بھی زیادہ کتابوں اور رسائل سے ۔ بچوں کے رسائل کے مطالعے سے پہلی بار مجھ پر یہ راز افشا ہوا کہ عام آدمی کی کہانی بھی لکھی جا سکتی ہے اور اس میں بھی ہماری دل چسپی کا وافر سامان ہو سکتا ہے۔
چوتھی جماعت میں پہنچا تو میرے چھوٹے بھائی کو بھی کچی پہلی جماعت میں داخل کرا دیا گیا مگر اس سے میرے معمول میں کوئی فرق نہیں آیا۔مطالعے کا سلسلہ جاری رہا۔تب تک گھر میں گرانڈک کمپنی کا گراموفون اور فلپس کا بیٹری والا ریڈیو آ گیا تھا،جسے بڑے اہتمام سے شب بسری کے لیے لگی چارپائیوں کے سرہانے میز پر سجایا جاتا تھا۔بی بی سی کی سیربین اور سیلون کی بناکا گیت مالا اہتمام سے سننے کے بعد میڈیم ویوو پر لاہور اسٹیشن لگا دیا جاتا تھا اور الم غلم جو دستیاب ہوا کرتا،بجتا رہتا تھا۔اسی رو میں میں نے اپنی زندگی کا پہلا مشاعرہ سُنا۔تب میں کوئی نو برس کا ہوں گا اور میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک دن اس ریڈیو اسٹیشن سے خود میری آواز اُڑ کر میرے والد کے کانوں تک پہنچے گی اور میرے شاعر ہونے کا راز راز نہیں رہے گا۔
درس گاہ – 6
میں پکا حاجی مجید کے پرائمری سکول میں تیسری جماعت میں داخل ہوا تو میری عمر آٹھ برس کے لگ بھگ تھی ۔ ایک بڑی بہن دس برس بڑی تھی، دوسری ڈھائی برس بڑی اور مجھ سے ڈھائی پونے تین برس چھوٹا بھائی مہر طالب حسین، جب کہ تیسری بہن کے پیدا ہونے میں ابھی دو برس کی دیر تھی ۔ طالب حسین کو ابھی سکول میں داخل نہیں کرایا گیا تھا ۔ اس لیے بستی کے ایک دو اور بچوں کے ساتھ میں اور میری منجھلی بہن ہی سکول جاتے تھے ۔ سکول نو بجے آغاز ہوتا تھا اور چُھٹّی تین بجے ہوا کرتی تھی ۔ اس لیے گھر سے سوا آٹھ بجے تک نکلنا پڑتا تھا ۔ واپسی چار بجے تک ہوتی تھی، مگرکچھ دنوں بعد ماسٹر بشیر کے پیر سوہارے شاہ کے گھر اضافی کلاس شروع کرنے پر گھر لوٹنے کا وقت گھنٹہ بھر اور بڑھ گیا ۔ یہ کلاس کیوں شروع ہوئی اور پیر صاحب کی کوٹھی کے لان یا پورچ میں کیوں ہوتی تھی ۔ یہ راز اب بھی راز ہی ہے ۔ کیوں کہ کھگّوں کے اپنے بچّے عام طور پر صادق پبلک سکول بہاولپور میں داخل کرائے جاتے تھے، جہاں وہ انگریزی پڑھتے اور میموں کے ساتھ ان کے گھروں میں رہتے تھے ۔ اس لیے شاہ صاحب کے یہاں اس کلاس کا ہونا بعید از قیاس تھا مگر یہ کلاس ہوئی اور اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ہم وہاں ان کے بنگلےکی بھول بھلیوں میں کھیل لیتے تھے ۔ کبھی کبھار پیر صاحب کے نیاز بھی حاصل ہو جاتے تھے اور مہر سجاول خاں کی اولاد ہونے کی وجہ سے شاہ صاحب اور بیگم صاحبہ ہماری آؤ بھگت بھی کرتے تھے۔
کلاس سے فارغ ہونے پر ہم سڑک کے بجائے پگڈنڈیوں اور کھیتوں میں سے گھومتے گھماتے جاتے ۔ سکول جاتے ہوئے تو سبھی بہت بیبے ہوا کرتے مگر واپسی پر ہماری جون بدل جاتی ۔ کبھی شرط بِد کر دوڑ لگ رہی ہے تو کبھی گنّے کے کھیت میں گھُسے ہیں ۔ گنّا چوسنے کے ساتھ اسی گنّے سے گتکا بھی کھیل رہے ہیں ۔ شیشم کا کوئی درخت جی کو بھا گیا تو اُس کا قد ناپے بنا آگے چلناحرام ہو جاتا ۔ یہ مقابلہ جلد ازجلد سب سے اونچی شاخ پر پہنچنےکا ہوا کرتا تھا ۔ میں دبلا پتلا اور پُھرتیلا تھا ۔ اس لیے اس مقابلے میں اکثر سُرخ رُو رہتا مگرجیت ہمیشہ میرے حصّے میں نہیں آتی تھی، خاص طور پر جب مقابلے میں گاؤں کے کسی ہم عمر ایالی(چرواہے) کو شامل کر لیاجاتا ۔ وہ لوگ درختوں کے تنوں پر زمین پر چلنے جیسی سہولت سے چلتے تھے اور یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اُن کے لیے درخت درخت نہ ہوں، ہموار سیڑھیوں والے مالے ہوں۔
واپسی کے سفر میں منہ چلانے کا کام موسم سے مشروط تھا ۔ گنا، شلجم، خربوزے، بیر، مالٹے، آم اور گاجریں جو ہاتھ آیا، ہمارے عصرانے کا حصّہ بنا ۔ کبھی چِبھڑ بھی آزما لیے جاتے تھے اور کسی نے منع کیا نہ گھر شکایت کرنے پہنچا ۔ پانی پینے کے لیے کسی نلکے اور ٹیوب ویل پر دھاوا بولا جاتا تھا ۔ سب جانتے تھے کہ ہم کون ہیں اور ہمیں بھی معلوم تھا کہ راہ میں کس کس کی زمین اور بھینیاں پڑتی ہیں ۔ کہیں کسی گھر میں زیادہ دیر رُک گئے تو شکر کے شربت سے تواضع کی جاتی تھی مگر گھر میں روح افزا کا چلن ہونے کی وجہ سے میری عادت بگڑی ہوئی تھی اور مجھے گھڑے کے شکر ملے پانی سے وحشت ہوتی تھی ۔ اس لیے میری کوشش ہوتی تھی کہ معاملہ پھل کھانے سے آگے نہ بڑھے مگر راہ میں ملنے والی مہربان صورتیں روز ہی کچھ نہ کچھ کھلا پلا کر ہی دم لیتی تھیں ۔ یہ کتنی بڑی بات تھی کہ ہم پڑھ رہے تھے اور ان سب سے الگ کسی اور دنیا کی مخلوق تھے۔
موسم کے اثرات ہماری چرنے کی عادت تک ہی محدود نہیں تھے ۔ زمین اور لینڈ سکیپ کے جمال پر بھی مرتب ہوتے تھے ۔ کبھی سرسوں پھول رہی ہے تو کبھی گندم کی سبز اور پھر سنہری بالیاں ہوا کی لہروں کے ساتھ جھوم رہی ہیں ۔ کہیں لوسن، برسیم، چری، دھان، مکئی اور باجرے کی سبز صفیں ایستادہ ہیں تو کہیں سن کی پھلیاں ہوا سے مس ہو کر جلترنگ بجا رہی ہیں ۔ کماد کے پرے جمے ہیں تو کہیں خربوزے کی بیلیں کیکر کے چھاپوں سے محفوظ کی گئی ہیں اور ان سب کے رنگ موسم کے ساتھ بدل رہے ہیں ۔ کبھی کیکر سونے کے جُھمکوں سے بھر جاتے ہیں تو کبھی کھڑکھڑاتی پھلیوں سے ۔ جنڈ پر سنگر کی بہار اور شیشم پھولنے پر رات کی رانی جیسے ننھے پھولوں کی مہک اس پر مستزاد ۔ کپاس کے پودوں کی روز بروز کایا کلپ منظر ہی کو نہیں آنکھوں کو بھی طراوت دیتی تھی اور اپنے وقت پر سفید سونے سے بھر جاتی تھی ۔ ساون بھادوں میں یہ سبھی رنگ یک جا ہو کر دھنک بن جاتے تھے جو کبھی مشرق سے اپنا دیدار دیتی تھی تو کبھی مغرب سے ۔ سُنا تھا اس پینگھ پر پریاں جھولتی ہیں مگر پریوں کو انسانی روپ سے الگ دیکھنے کی مجھے طلب نہیں تھی ۔ اس لیے میں نے اس روایت پر کبھی یقین نہیں کیا۔
گھر آ کر ہم سب کھیلنے کے لیے نکل جاتے تھے ۔ پٹھوگرم میں نر مادہ کی کوئی تفریق تھی نہ چُھپن چُھپائی میں۔کبڈی اور ککلی بالترتیب مردانہ اور زنانہ کھیل تھے اور "کہانی دربار” اپنی اپنی پسند کے ساتھیوں کے ساتھ لگایا جاتا تھا ۔ بستی میں بجلی نہیں تھی اس لیے اندھیرا ہوتے ہی گھر پلٹنا پڑتا ۔ گرمیوں میں صحن میں لالٹین ٹانگ کر چارپائیاں بچھا دی جاتیں ۔ سب چولھے کے چوکے پر بیٹھ کر رات کا کھانا کھاتے، سوائے میرے والد صاحب کے، جن کی چارپائی کے ساتھ میز لگایا جاتا ۔ انہیں سالن سرپوش میں اور روٹی نئے دستر خوان میں لپیٹ کر دی جاتی ۔ ملازمین کی کوشش ہوتی تھی کہ ان کے کھانا کھانے کے دوران میں دور رہیں ۔ بیوی اور اولاد پر ایسی کوئی قدغن نہیں تھی مگر ہم بھی ان کے استغراق کو توڑنے سے احتراز ہی کرتے تھے ۔ وہ خوش خوراک نہیں تھے بلکہ درویشی طعام کے قائل تھے مگر کھانے کے دوران میں سکون اور کسی حد تک تخلیہ کے روادار تھے ۔ کھانے سے پہلے طویل اور کھانے کے بعد شکرانے کی مختصر دُعا ان کا معمول تھی اور وہ اس پر تاحیات قائم رہے ۔
یہی وقت میرے پڑھنے کا ہوا کرتا تھا ۔ میرے سرہانے ایک تپائی پرلیمپ سجا دیا جاتا تھا اور میں سکول کے سبق کی دہرائی کے بعد الف لیلوی داستانوں میں کھو جاتا تھا مگر مجھے شہزادوں کی عدم فعالیت خوش نہیں آتی تھی ۔ مدتوں بعد اردو غزل سے معاملہ کرتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ غزل کے روایتی ہیرو کی تن آسانی، گریہ پسندی، مہجوری، مفعولیت اورطرز ِتجاوز سے پرہیز کی کچھ نسبت ہماری داستانوں کے ان معشوق مزاج شاہزادوں سے ضرور ہے۔
درس گاہ – 5
پکا حاجی مجید کے پرائمری سکول سے ملنے والی کتابوں میں زیادہ تر باتصویر کہانیاں تھیں ۔ یہ عام طور پر اسّی صفحے کی کتاب ہوا کرتی تھی ۔ دائیں صفحے پر قصّے کی عبارت اور بائیں صفحے پر اس صفحے کی مطابقت سے لکیری خاکہ ۔ اس کے لکھنے والے کئی تھے مگر مجھے ندیم صہبائی فیروز پوری کا نام اس لیے یاد ہے کہ ان کی لکھی کتابیں، جو نو لکھّا بازار لاہور سے شائع ہوتی تھیں، میں کبھی کبھار میاں چنوں شہر کا چکر لگنے پر مین بازار میں حقّے، چلم، نڑی وغیرہ اور تمباکو کی ایک دکان سے اپنے والد کی مہربانی سےخریدا کرتا تھا ۔ یہ ہر کتاب بارہ آنے کی ہوا کرتی تھی ۔ یہیں سے میں نے بچوں کی دنیا، کھلونا، پھلواڑی اور نونہال جیسے بچوں کے رسائل بھی خریدے اور ایک آدھ بار کوئی اخبار اور ڈائجسٹ بھی مگر یہ واقعہ قدرے بعد کا ہے۔
یہ سبھی کتابیں پریوں اور مظلوم شہزادیوں کے قصوں پر مشتمل تھیں اور درحقیقت مثنوی سحر البیان کی توسیع تھیں ۔ وہی شہزادے کو بارہ برس تک بھورے میں پالنا ۔ ایک دن کے غلط حساب سےمعصوم شہزادے کا بھورے سے وقت سے پہلے باہر نکلنا اور کسی پری کے ہتھے چڑھ کر پرستان پہنچ جانا ۔ پھر کسی شہزادی یا وزیر زادی کا شہزادے کی تلاش میں نکلنا ۔ جنوں بھوتوں سے مجادلے اور معجزاتی شجاعت کے مظاہرے کے بعد شہزادے کی بازیابی اور ہنسی خوشی عائلی زندگی بسر کرنا ۔ یہ تو بہت بعد میں پتا چلا کہ زندگی کی اصل کہانی تو عائلی زندگی کے آغاز کے بعد شروع ہوتی ہے اور زندگی کی تلخ کامی عشق کی حرارت کو چاٹ لیتی ہے۔
اس مختصر ذخیرے میں کچھ اسلامی حکایتیں بھی تھیں اور بچوں کی نظموں کے دو ایک مجموعے بھی مگر جو بات سبز پری یا لال شہزادی میں تھی وہ شمشیر بکف، پھریرے لہراتے، رہوار کی پشت پر اکڑ کر بیٹھے غیض مآب مجاہد میں کہاں ۔ نظمیں بھی ابھی کچھ گونگی سی تھیں اور ان دونوں نعمتوں کا وقت قدرے بعد میں آنے والا تھا۔
اس سکول میں سب کچھ تھا مگر جمال کی آئس کریم نہیں تھی ۔ وہ تلمبہ سے جراحی آتا تھا اور بعد میں ہماری بستی بھی آنے لگا تھا مگر پکا حاجی مجید سکول کے باہر کبھی دکھائی نہیں دیتا تھا اور اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ وہ میاں چنوں تلمبہ روڈ کے بجائے "ککھاں والی سڑک” استعمال کرتا ہو جو نہر کے ساتھ ساتھ چلتی ہے اور لُہار والی پُل سے جراحی کو مڑ جاتی ہے ۔ اس سڑک سے پکا حاجی مجید دور پڑتا ہے اور ایک سائیکل سوار کے لیے وہاں تک رسائی پانا مشکل ہو جاتا ہے ۔ یوں بھی ایک کپڑے میں لپٹی سیر دو سیر آئس کریم کو کتنے سکولوں میں بیچا جا سکتا تھا۔
جمال کے عدم موجودگی کے باعث ہم آدھی چھُٹّی کے وقت گاؤں کی اکلوتی دکان کا رخ کرتے ۔ یہ ایک ہندو رام کشن کی ملکیت تھی، جس نے قیام ِپاکستان کے بعد یہاں کی سکونت کو ترک نہیں کیا تھا ۔ برسوں بعد غالباً 1965ء میں اسے خُونی موڑ پر قتل کر دیا گیا (اس قصّے کے حوالے سے میری دو پنجابی کہانیاں "نکّے ہندیاں دا پیار” اور "اک ہور سنتالی” چھپ چکی ہیں). کشن کی دکان پر آئسکریم تو نہیں مگر گولیاں، ٹانگری، مرنڈے، مکھانے اور پُھلیاں مل جاتی تھیں اور ان کے گھر کی طاقچی سے میرے اور میری بہن کے لیے شربت بھی آ جاتا تھا ۔ مجھے یہ جان کر کہ اس شربت کو”ہندو پانی” سے بنایا گیا تھا، بڑی عجیب سی کیفیت کا سامنا ہوتا تھا مگر اس سے شربت کی مٹھاس میں کوئی فرق نہیں آتا تھا اور نہ پیاس کی شدت میں کمی آنے کی حقیقت میں۔
ہر سکول کی طرح اس سکول میں بھی سزا دینے کے کلاسیکل طریقے مرّوج تھے۔ مُرغا بنانا، انگلیوں میں پنسل رکھ کر دبانا، مولا بخش کا استعمال اور جہاز بنا کر دھوپ میں کھڑا کرنا۔ نالائق یا قابو نہ آنے والے طلبہ کو باہمی پٹائی کی سہولت بھی فراہم کی جاتی تھی۔ یعنی وہ ایک دوسرے کی اس وقت تک تھپڑوں سے تواضع کرتے تھے جب تک ماسٹر صاحب کا جی بھر نہیں جاتا تھا۔ اس کا ایک ہی فائدہ ہوا اور وہ یہ کہ ان طلبہ کی اکثریت بعد میں کبڈی کی کھلاڑی بنی کہ تھپڑ تھراپی کے ذریعے مخالف کی شکل بگاڑنے میں وہ پہلے ہی طاق ہو چکے تھے۔
ایک بار میرے سوا ساری کلاس کو باہمی پٹائی کی سزا دی گئی۔ مجھے حُکم ہوا کہ میں پہلے طالب علم کو پوری قوت سے تھپڑ رسید کروں اور وہ یہ عمل اگلے لڑکے پر آزمائے اور پھر یہ سلسلہ آخری طالب علم تک جاری رہے۔ یعنی اس مار سے محفوظ اگر کوئی تھا تو صرف میں۔ ماسٹر صاحب نے مجھے یہ سلسلہ آغاز کرنے کا حکم دیا تو مجھے کئی طرح کی ہچکچاہٹ کا سامنا تھا۔ ایک تو کسی بھی دوست کو تھپڑ رسید کرنا کبھی آسان نہیں ہو سکتا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ میرا ہاتھ بہت بھاری تھا اور کھیل کود میں ساتھی اس امر کی شکایت کرتے رہتے تھے اور تیسری وجہ متوقع مضروب کی آنکھوں میں لکھی التجا تھی، سو ماسٹر صاحب کے اصرار پر میرا تھپڑ ایک چٹکولی سے زیادہ نہیں تھا۔ جسے استاد نے اپنی حکم عدولی جانا اور اس طالب علم کو مجھے تھپڑ مارنے کا حکم صادر فرمایا ۔ یہ تھپڑ مجھے پوری قوت سے پڑا اور آج تک پڑ رہا ہے کہ میں اب بھی ملتجی نگاہوں کی تحریر پڑھتا ہوں اور کسی کو تھپڑ مارنے کی ہمت کم ہی جُٹا پاتا ہوں۔
یہ قصّہ میری بہن کے ذریعے میرے والد صاحب تک پہنچا ۔ وہ اگلے روز سکول آئے اور اس ماسڑ صاحب اور طالب علم کو، اپنی سواری سے اترے بغیر دو دو چابک رسید کر کے چلتے بنے۔ تب مجھے اپنے بڑے بھائیوں کے نہ پڑھنے کی وجہ سمجھ میں آئی۔ میں ڈر گیا اور میرا جی گھر جانے کو نہیں چاہتا تھا مگر وہی ماسٹر صاحب مجھے اپنے سائیکل پر بٹھا کر میرے گھر لے گئے۔کچھ دیر ڈیرے میں رُکے۔والد صاحب کے اُونچا بولنے کی آواز سنائی دیتی رہی۔ پھر مجھے بُلا کر خصوصی پیار کیا گیا اور ماسٹر صاحب گندم کا ایک گٹّو لے کر ایسے ہنستے گاتے روانہ ہوئے جیسے کسی پکنک سے گھر پلٹ رہے ہوں۔
اگلے روز سب کچھ معمول کے مطابق تھا مگر میرے دل پر پڑنے والی چوٹ اب بھی تازہ ہے۔
درس گاہ – 4
پکا حاجی مجید اور جراحی کے پرائمری سکولوں میں کوئی فرق نہیں تھا ۔ ایک جیسی عمارتیں اور وہی برآمدے کے بغیر ننگے پجنگے ڈھائی کمرے ۔ پریم اکھشر کی طرح ایک دوسرے میں دھنسے ہوئے ۔ اساتذہ کے لیے اونچی میز اور کرسیاں اور طلبہ کے لیے خواہ وہ کسی طبقے سے ہوں ۔ پٹ سن کے ٹاٹ ۔ گرد سے اٹے ہوئے، جن کی اصلی رنگت شاید اساتذہ کو بھی یاد نہیں ہو گی ۔ یہ ٹاٹ گرمیوں میں کمروں کے اندر اور سردیوں میں باہر دھوپ میں بچھا لیے جاتے تھے ۔ طلبہ کے بستے پرانے اور کبھی نئے کپڑے سے سلے جھولے ہوتے تھے، جس میں تختی کے سوا ہر چیز ٹھونس لی جاتی تھی ۔ کتابیں، سرکنڈے کے قلم، سلیٹ، اس پر لکھنے کے خصوصی چاک، کچّی سیاہی کی دوات جس میں کپڑے کی دھجی ٹھنسی ہوئی اور کسی پرانے سیل سے نکالا ہوا کاربن، تختی پر گل کاری کرنے کے لیے ۔ سب کچھ معمول کے مطابق تھا ۔ اس معمول کے جو اس طرح کے سکولوں کا حصہ ہوا کرتا ہے، جیسے سبق کا رٹا لگوانا، پہاڑوں کی گلہ پھاڑتی دہرائی، تختی لکھنا اور سلیٹ پر سوال حل کر کے ماسٹر صاحب کو دکھا کر تھوک سے معدوم کرنا مگر دو باتیں ایسی تھیں جو شاید میرے لیے انوکھی تھیں ۔ ۔پہلی یہ کہ جراحی کے برعکس یہاں طلبہ نادِ ِعلی سُناتے تھے نہ بارہ امام جو منظوم منقبت ہی کی ایک شکل تھے اور ہر بند "ان شالا امداد کریسی لال خاتون اطہر دا” پر ختم ہوتا تھا ۔ نہ ہی یا علی مدد کے نعرے کی تکرار اور دوسری بات محترم کلاس انچارج کا انڈہ نوشی سے اجتناب تھا ۔ ایک اور بات جس کا احساس مجھے بعد میں ہوا مجھ میں حرفوں کی پہچان اور مطالعہ میں روانی کا پیدا ہونا تھا ۔ اس قدر کہ جب اس سکول میں داخلے کے بعد میرے لیے کورس کی کتابیں خریدی گئیں تو حساب کے سوا باقی مکمل کورس میں نے ایک ہفتے میں پڑھ ڈالا اور پڑھا ہی نہیں اکثر چیزیں حفظ بھی ہو گئیں۔
مجھے تب تک معلوم نہیں تھا کہ جراحی، غازی پاندھا اور بستی سنپالاں کا "سرکاری مزاج” اثنا عشری شیعیت ہےاور ہم ، پکا حاجی مجید اور کوٹ برکت علی والے سُنّی ہیں ۔ ہماری بستی کی مسجد میں آبادی کم ہونے کی وجہ سے جمعہ کی نماز نہیں ہوتی تھی ۔ سو ہم ہر جمعہ کو بن ٹھن کر کوٹ برکت علی کی شاندار مسجد میں جمعہ پڑھنے جاتے تھے ۔ جہاں لاہور سے درآمد کردہ ایک علاّمہ نستعلیق اردو میں مکھنی پنجابی کا تڑکہ لگا کر وعظ دیا کرتے تھے اور مجھے ان کی گفتگو ویسا ہی مزہ دیتی تھی جیسا مزہ ماں کی سُنائی کہانی میں ہوا کرتا ہے ۔ یہ کوٹ برکت علی، لاہور بیرون موچی دروازہ کے برکت علی خاں سے منسوب ہے جو لاہور کے پہلے مئیر تھے اور جن کی وجہ ِ شہرت برکت علی اسلامیہ ہال ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم جراحی کی رسومات سے بے بہرہ تھے ۔ محرم کے آغاز پر ہمارا گھرانہ کم وبیش روزانہ جراحی جاتا تھا ۔ نوحے پڑھے جاتےتھے، مجلس سُنی جاتی تھی مگر ماتم میں ساتھ صرف سینے پر ہلکی علامتی چوٹ سے دیا جاتا تھا ۔ جراحی میں پنگھوڑے، قاسم کی مہندی اور روزِ عاشور پر قیدی بنانے کی رسم بھی ادا کی جاتی تھی ۔ خود مجھے میری ماں کی مانگی ایک منّت کو پورا کرنے کے لیے چودہ برس تک قیدی بنایا جاتا رہا مگر اس سے میرے سمیت کسی کے سُنّی ہونے کا ہرج ہوا نہ کسی پر شیعت کا رنگ چڑھا۔
بات اور طرف نکل گئی، کہنا یہ تھا کہ اس فرق کا اثر طلبہ کے مزاج پر بھی تھا ۔ یہاں طلبہ کو مذہبی حوالے سے کوئی تردد کرنے کی ضرورت نہیں تھی ۔ سکول آؤ، سبق اور پہاڑے سُناو، سلیٹ پر سوال حل کر کے دکھاو، تختی لکھو اور چلتے بنو۔
جسں کمرے میں میری جماعت بیٹھا کرتی تھی، اس کے کونے میں ایک بڑے میز پر ایک صندوق دھرا رہتا تھا ۔ مجھے ہمیشہ تجسّس رہتا کہ اس میں کون سی سوغات چھپا کر رکھّی گئی ہے ۔ پھر بڑی کلاس کے کسی بچّے نے مجھے بتایا کہ اس میں کہانیوں کی کتابیں ہیں ۔ تب تک میں چھپی ہوئی کہانی سے آ گاہ ہو چکا تھا مگر کتابی صورت میں نہیں ۔ میرے والد جب کبھی ضرورت کی کوئی چیز لینے شہر جاتے تھے تو بعض اوقات کوئی شے اخبار میں لپٹی آتی تھی ۔ اگرچہ مجھ سے بڑے دو بھائی (میرے والد کی پہلی بیگم سے) اور بھی تھے اور ان میں سے بڑے مہر نواب میٹرک تک پڑھے بھی تھے مگر وہ سرکاری ملازمت میں تھے اور عموماً گھر سے دور رہتے تھے جب کہ چھوٹے مہر مراد ان پڑھ تھے ۔ یوں بھی وہ دونوں شادی شدہ اور الگ مکان میں رہتے تھے ۔ اس لیے گھر آنے والے اخبار یا اس کے کسی ورق پر صرف میرا تصرف ہوا کرتا تھا ۔ میں اس اخبار کا ایک ایک لفظ پڑھا کرتا تھا اور اسی کوشش کے باعث میں نے شاید بچوں کے صفحے پر کوئی کہانی پڑھی تھی جو سُنی ہوئی کہانیوں جیسی دلچسپ تو نہیں تھی مگر یہ بتانے کے لیے کافی تھی کہ کہانی تحریری شکل میں بھی ہو سکتی ہے ۔ اب جب مجھے سکول میں موجود کہانیوں کی کتابوں کی مخبری ہوئی تو میں نے اُسی روز اپنے والد کو ان کتابوں تک رسائی کی درخواست پہنچا دی ۔ وہ اگلے ہی روز میرے سکول پہنچنے کے کچھ دیر بعد اپنے کمیت گھوڑے پر سوار ہو کر آئے ۔ میرے کلاس انچارج ماسٹر غلام رسول کو بلوا کر گھوڑے سے اُترے بغیر مدعا بیان کیا اور میری کارکردگی کی مختصر رپورٹ لے کر چلتے بنے ۔ اُس روز چُھٹی سے پہلے علی بابا کا وہ خزانہ اس سکول کی تاریخ میں پہلی بار کسی کے لیے کُھلا اور میں اس دنیا میں داخل ہوا جس سے باہر آنے کا کوئی دروازہ نہیں۔

درس گاہ – 3
پکا حاجی مجید کا ظاہری رنگ جراحی سے بالکل مختلف تھا ۔ یہ بھی کوئی ستّر مربعوں کا موضع ہے جو اسی نام کے ایک بزرگ کے نام سے منسوب ہے ۔ روایت ہے کہ میاں چنوں، میاں شینہ اور پکا حاجی مجید بھائی تھے اور ان میں سے میاں چنوں جو پہلے ڈاکو تھے، حضرت بہا الدین زکریا ملتانی کی ایک کرامت( حضرت بہا الدین زکریا نے میاں چنوں سے پینے کے لیے پانی منگوایا تھا ۔ وہ پانی لے کر پلٹا تو حضرت اگلے پڑاؤ کی طرف کوچ کر گئے تھے ۔ وہ پانی لے کر وہاں پہنچا تو آپ ایک ٹیلے پر خیمہ زن تھے اور ٹیلے کے چاروں طرف دریا بہہ رہا
تھا) سے متاثر ہو کر ڈاکہ زنی سے تائب ہو گئے تھے ۔ ان بزرگوں کا تعلق سنپال قبیلے سے تھا جو راقم کا قبیلہ بھی ہے مگر حیرانی اس بات پر ہے کہ یہاں کے قدیم باشندوں کی اکثریت حضرت بہاء الدین زکریا کے سلسلے میں بیعت نہیں بلکہ حضرت موسیٰ پاک شہید کے سلسلے کی بیعت ہے ۔ اس علاقے میں ہر دو خاندانوں کی جاگیریں ہیں اور وہ یہاں کی سیاست پر حاوی ہیں ۔ تاہم یہ ایک الگ موضوع ہے اور اس پر پھر کبھی بات ہو گی۔
موضع پکا حاجی مجید میں ہماری بستی (بستی کبیر سنپال) اور پاندھوں کے دو ایک مربعے نکال کر بقیہ زمین کھگّہ فیملی کی ملکیت ہے اور ایک ہی خاندان کی ۔ اس گاؤں کی ملکیت متعدد بھائیوں پیرسوہارے شاہ، پیرعبدالرحمان شاہ، پیرعبداللہ شاہ، پیرغلام رسول شاہ اور پیرعبدالعزیز شاہ وغیرہ کے نام تھی اور ان میں سب سے زیادہ معروف پیرسوہارے شاہ تھے جو وہنی وال (خانیوال) کے مسلم لیگی رہنما پیر بڈّھن شاہ کے داماد تھے ۔ جراحی کے سیّدوں کے برعکس یہاں سادگی کا راج تھا ۔لشٹم پشٹم نام کو بھی نہیں تھی ۔ ملنے جلنے، کھانے پینے اور لباس میں کوئی ایسی ندرت نہیں تھی جو ان کے بڑے زمیندار ہونے کی علامت ہو اورشرعی عیبوں سے دوری کا رنگ بھی نمایاں تھا ۔ حیرت ہوتی تھی کہ یہ سادگی طبیعت کے استغنا کے باعث بے یا دستِ عطا کی بندش کے نتیجے میں ۔ ایک مدت گزرنے پر مجھے احساس ہوا کہ عوام کی رائے میری بات کے دوسرے حصے کے حق میں ہے۔
پیر سوہارے شاہ کی جہازی کوٹھی گاؤں سے کم و بیش باہر تھی اور اس مزاج اور شہری طرز کا بنگلہ اس پورے علاقے میں کوئی اور نہیں تھا ۔ سُنا تھا کہ یہ بنگلہ دلھن والوں کی شرط پوری کرنے کے لیے تعمیر کیا گیا تھا ۔ اس میں سرونٹ کوارٹرز، گیراج، لان، ڈرائیو تھے اور بیڈ رومز کے مابین لمبی گیلریوں اور غلام گردش کی وجہ سے یہ ہمارے لیے کھیلنے کی جنت تھی ۔ شاہ صاحب کی عنایت تھی کہ انہوں نے ہمیں اپنے یہاں ادھم مچانے سے کبھی روکا نہیں ۔ ان کے ایک ہی صاحب زادے خالد شاہ تھے اور ایک بیٹی مگر انہیں شاید پڑھنے کے لیے کہیں باہر بھیج رکھا تھا۔اس لیے ان کے دیدار کم ہی ہوتے تھے۔
ہم اور گاؤں کے کچھ اور بچے سکول کے بعد شاہ صاحب کے لان میں "ٹیوشن” لیتے تھے اور کبھی کبھار ان کے نیاز بھی حاصل ہو جاتے تھے ۔ وہ میرے والد کے قدردان تھے اور بطور لائی (ستھّی) ان کے کیے فیصلوں کو سراہتے تھے ۔ عجیب بات یہ ہے کہ وہ خود میری تعریف کرنے میں بھی بخیل نہیں تھے ۔ ایک بار ان کے کسی سوال کا جواب دینے پر انہوں نے عجیب حسرت سے کہا تھا "اگر تم میرے بیٹے ہوتے تو میں تمہیں لندن میں پڑھاتا” .یہ بات الگ کہ ان کی یہ بات مجھے اپنے والد کی توہین محسوس ہوئی تھی اور میں نے کہہ بھی دیا تھا کہ یہ کام میرے والد خود بھی کر سکتے ہیں مگر اب سوچتا ہوں کہ شاید اس جملے کے بین السطور معنی کچھ اور تھے۔
خیر گورنمنٹ پرائمری سکول ان کے گھر کے سامنے سے گزر کر گاؤں کے آخر میں تھا ۔ بستی سے یہاں پہنچنے میں آدھا پون گھنٹہ تو لگ ہی جاتا تھا ۔ گھر سے نکل کر پہلے جنوب کی طرف چونہہ سڑکوں تک آتے، وہاں سے مغرب کا رخ کر کے پیر شینے اور پھر پکا حاجی مجید تک جنوب کو اور پیر سوہارے شاہ کی کوٹھی سے دائیں مڑ کر سکول ۔ یہ سڑک کا راستہ تھا ۔ درخت کم تھے اور دھول بہت ۔ اس لیے ہم اس طوالت کو کم کرنے کے لیے گاؤں سے نکلتے ہی کھالے کی پگڈنڈی پکڑ کر بھاؤ مراد کی بھینی پر آتے ، وہاں سے کھیتوں کو بیچ میں سے چیرتے ، پاندھوں اور کھگّوں کے مربعوں میں سے گزر کر پکا حاجی مجید کے پُل پر اور وہاں سے سیدھے سکول ۔ راستے میں باغوں اور جنگلی پودوں کے پھلوں پر منہ مارتے ، موسم آنے پرجنڈ کے سنگر تک کا مزہ لیتے یہ سفر ایک مستی بھری روانی میں جاری رہتا ۔ ہاں اس میں خرابی بارش ہونے پر پیدا ہوتی جب زمین پھسلواں ہو جاتی اور کھیتوں سے گزر کر راستے کو مختصر کرنا ممکن نہ رہتا۔
(جاری ہے)

درس گاہ – 2
جراحی بلکہ موضع جراحی کے نام کی وجہ تسمیہ معلوم نہیں۔یہ، کوٹ برکت علی، پکا حاجی مجید،اور غازی پاندہ ایسے موضعے تھے جن میں بڑے زمینداروں کی اکثریت تھی ۔ جراحی کا موضع کوئی ساٹھ ستّر مربعوں (ایک مربع=پچیس ایکڑ) پر مشتمل ہو گا اور شاید کشنے والے کھوہ(جو اب بودلہ فارم کہلاتا ہے)کے سوا شیرازی سیّدوں کی ملکیت تھا اور ان مالکان میں پیر برکت علی شاہ،غلام رسول شاہ اور محب شاہ خصوصیت سے لائقِ ذکر ہیں۔میرے والد کی ان تینوں خاندانوں سے قربت تھی اور ان کے سبب سب ہم بہن بھائیوں سے اپنے بچوں کا سا سلوک کرتے تھے۔
پیر برکت علی شاہ نسبتاً بڑے زمیندار تھے، شنید تھی کہ وہ موضع میں چالیس مربعوں کے مالک ہیں ۔ ان کی چار بیگمات چار الگ الگ محل نُما کوٹھیوں میں رہتی تھیں اور وہ اپنی تیسری بیگم نوراں (نور جہاں) کے ساتھ رہتے تھے جو جلال وجمال کا مرقع تھیں اور ان کے وقار اور بردباری کو ان کی بادشاہت زیب دیتی تھیں ۔ وہ میری والدہ کے بہت قریب تھیں ۔ اس لیے ہم انہیں ماسی کہتے تھے اور سمجھتے بھی تھے اور وہ بھی ہم بھانجے بھانجیوں کی ضرورت سے زیادہ آؤ بھگت کرتی تھیں ۔ ان کے یا ہمادے گھر دعوتیں اور نشتیں تو خیر ہوتی ہی رہتی تھیں ۔ میرے پاس ہونے پر مجھے سونے کی انگوٹھی تحفے میں دینے کا رواج بھی انھی نے ڈالا ۔شاید اس لیے کہ میں پڑھنے میں جی لگاؤں اور اس کا سبب شاید یہ تھا کہ شاہ صاحب کے پانچ صاحب زادوں (اور یہ پانچوں دوسری بیگمات میں سے تھے) میں سے کسی نے بھی تعلیم میں دل نہیں لگایا تھا ۔ تب وہ سبھی بھرپور جوان تھے ۔ ایک کے سوا سب کنوارے تھے اور ہر اس شغل میں مگن تھے جو کسی جاگیر دار فیملی کی شناخت ہوتا ہے مگر میرے والد کی جی سے عزت کرتے تھے اور ہمیں اپنے بہن بھائیوں سے بڑھ کر چاہتے تھے اور ہمارے لیے بھی وہ نواب ، مراد (میرے بڑے بھائی) سے کم لائقِ عزت نہیں تھے۔
پیر محب شاہ کی بیٹی میری بڑی بہن کی سہیلی تھی اور بیٹا سید حسن شاہ عرف ادّھم شاہ میرا ہم عمر اوربے تکلف دوست ۔ اس لیے گمان تھا کہ میں پانچویں جماعت تک جراحی ہی میں پڑھوں گا ۔ پہلے ہی برس کے اختتام تک وہ انڈہ نوش استادِ محترم، جن کا نام اب میرے ذہن سے اتر گیا ہے(مگر اس آئس کریم والے کا نام مجھے یاد ہے کہ جمال تھا) گرمیوں کی چھٹیوں میں ہمیں گھر پر پڑھانے کے لیے بھی آنے لگے تھے ۔ سب ٹھیک چل رہا تھا اور میری ماں کا ٹبے پر آ کر شربت پلانے کا وظیفہ بھی جاری تھا کہ کسی نامعلوم وجہ سے میرے والد نے مجھے اس سکول سے اٹھا لیا اور مجھے بلکہ ہم دونوں بھائی بہن کو گورنمنٹ پرائمری سکول پکا حاجی مجید میں تیسری جماعت میں داخل کرا دیا۔اب سوچتا ہوں تو اس کی ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ جراحی کے لیے ہماری بستی سے کوئی سیدھی سڑک نہیں تھی اور پکا حاجی مجید تک جانے کی دو کچی مگر باقاعدہ سڑکیں موجود تھیں ۔ یہ الگ بات کہ وہاں پڑھنے والے ہم سب بچے اچھلتے کودتے فاصلہ گھٹانے اور بعض اوقات بڑھانے کے لیے کھیتوں میں سے ہو کر جاتے تھے، جس سے کم ازکم آدھ میل کا فرق تو پڑتا ہی تھا ۔ راہ میں بیریوں سے بیر چُن کر کھانے اور پاندھوں کے ڈیزل انجن والے کُوکُو کرتے ٹیوب ویل پر پانی پینے کا مزہ ہی الگ تھا۔
ہاں اس طرف نکلنے کا نقصان یہ ہوا کہ ماں کے بنائے شربت کی ترسیل رک گئی۔
درس گاہ – 1
گورنمنٹ پرائمری سکول ۔ جراحی
میاں چنوں سے تلمبہ جانے والی سڑک پر ہمارے گاؤں،بستی کبیر سنپال ، جانے کے لیے تین راستے تھے اور تینوں کچّے،ناہموار اور منوں گرد اور گھٹّے سے اٹے ہوئے۔پہلا چونہہ سڑکاں سے دائیں مڑ کر پیر شینے سے بائیں مڑ کر پکا حاجی مجید کی بغل سے نکل کر تلمبہ میاں چنوں روڈ پر جا نکلتا تھا اور اس کی طوالت کم وبیش ڈھائی میل یا چار کلومیٹر رہی ہو گی۔اب یہ سڑک پیر شینے تک پختہ ہے اور چونہہ سڑکاں سے بستی تک سولنگ لگی ہے۔دوسری سڑک ڈپٹیاں والا(کوٹ برکت علی)سے جراحی بینس پر چڑھ کر گھراٹاں کے قریب تلمبہ میاں چنوں پختہ روڈ پر جا نکلتی تھی اور اس کا بستی سے فاصلہ کم و بیش پانچ کلومیٹر تھا۔یہ سڑک کافی چوڑی تھی اور اس کے ایک پہلو میں محکمہ نہر والوں نے اپنے افسران کی گاڑیوں کے لیے دو ڈھائی فٹ گہری ایک نہایت ستھری اور ہموار سڑک بنا رکھّی تھی۔جس کے درمیان میں گڑھے کھودے گئے تھے تاکہ تانگے اور بیل گاڑیوں کا اس پر چلنا ممکن نہ رہے،جب کہ سڑک کا باقی حصہ گھنے درختوں سے ڈھکا اور گُھٹنوں تک پسی مٹی اور گڑھوں سے اٹا تھا۔اس قدر کہ اس پر چلنے والے مسافروں اور جانوروں کے پاؤں بعض اوقات پنڈلیوں تک مٹی میں دھنس جاتے تھےاور تیسری سڑک جو ہمارے کھوہ سے آگے پگڈنڈی کی شکل اختیار کر لیتی تھی،سیدھی چودہ چک کو جاتی تھی اور خُونی موڑ کے پاس پختہ سڑک پر جا نکلتی تھی۔یعنی شہر تک رسائی مشکل تھی۔شہر میاں چنوں ہو یا تلمبہ ذاتی سواری، سائیکل یا تانگہ پر بھی کم ازکم ایک گھنٹے کے فاصلے پر تھا۔ہم کسی باقاعدہ سڑک کے قریب نہیں تھے اور قریب ترین پرائمری سکول جراحی یا پکا حاجی مجید میں تھے جو دو کلومیٹر سے کم فاصلے پر نہیں تھے۔
یوں تو پکا حاجی مجید کے کھگّوں سے ہماری اچھی سنگت تھی مگر زیادہ آنا جانا جراحی کے شیرازی سیّدوں کی طرف تھا۔اس کی ایک وجہ تو میرے والد کی پیر برکت علی شاہ سے اور ان کی بیگم کی میری والدہ سے دوستی تھی۔دوسری وجہ سُنّی ہونے کے باوجود وہاں کی شیعہ تقریبات میں میرے خاندان کی رسمی مگر بھرپور شرکت تھی کہ ایک منّت کو پورا کرنے کے لیے مجھے عاشورہ کے روز سونے کی ہتھکڑی لگا کر قیدی بنایا جاتا تھا۔وہ ہتھکڑی بعد میں امام بارگاہ کو نذر کر دی جاتی تھی اور تیسری وجہ وہاں کے ہیڈ ماسٹر واحد بخش سے میرے والد کی یاد اللّٰہ تھی۔اس لیے اپنی تعلیم کے پہلے دو برس میں نے یہاں گزارے۔
میری پیدائش دسمبر کی ہے مگر میرے والد مجھے اپریل میں داخلے کے لیے لے کر گئے۔تب میں ساڑھے چار سال کا تھا مگر میری تاریخ ِپیدائش دو مئی مقّرر کی گئی اور داخلے کے پانچ برس کی عمر کی شرط پوری کی گئی۔مجھے کچھ روز نُقرے گھوڑے پر سائیس کے ساتھ بھجوایا جاتا رہا۔پھر میں اپنی بڑی بہن(جسے میرے ساتھ ہی یہاں داخل کرایا گیا تھا) اور بستی کے کچھ اور بچّوں کے ساتھ پگڈنڈیوں پر سے ہوتا ہوا پیدل آنے جانے لگا کہ جراحی کے لیے تب کوئی سیدھی سڑک موجود نہیں تھی۔اس راستے میں پہلا پڑاؤ ٹبّہ تھاجو خاں صاحبان کی جاگیر کا حصّہ تھا اور ماضی کی کسی معدوم آبادی کی یادگار۔اس کے پہلو میں بوہڑ کا ایک گیانی درخت آج بھی موجود ہے اور جنوب مشرق کو باغ اور پانی کے کھال کے ساتھ بستی تک جاتی ایک وتر نما پگڈنڈی۔میری کہانی کے اس ٹکڑے کا تعلق اسی ٹبّے اور پگڈنڈی سے ہے۔
سکول سے چھٹی تین بجے سہہ پہر کے بعد ہوا کرتی تھی۔واپسی کا سفر معمول سے زیادہ وقت لیتا تھا کہ راہ کے عجائبات سبھی کو اپنی طرف کھینچتے تھے۔کسی درخت کے تنے کو اپنی چونچ سے ٹھونکتا ہُد ہُد،کہیں آم کے درخت میں کُوکتی کوئل،کہیں سنگترے اور مالٹے کے پھولوں کی ترش رسیلی مہک،کہیں شیشم کی لچکیلی ٹہنیوں کی پکار۔گلہریوں اور حق دق نیولوں کی چِک چِک،فاختاؤں کی "اللہ ہُو،موسیٰ کھوہ”۔جنتر کی پھلیوں کی چھنکار۔کتنے ہی اسرار تھے جو سفر کو لمبا کر دیتے تھے.درختوں پر چڑھنا اور اس عمل کو شرط بِد کر کھیل بنانا بھی معمول کا حصہ تھا مگر راہ میں پڑنے والے ٹبے تک آنے کے بعد ہم سبھی اسی پگڈنڈی کو پکڑتے تھے جو یہاں ٹبے کی بائیں طرف خط ِمستقیم میں کھنچی تھی۔
اس راست روی کی دو وجہیں تھیں۔پہلی یہ کہ ٹبے کی مٹّی بھربھری تھی اور پگڈنڈی کو چھوڑ کر اس پر چلنے سے پاؤں زمین میں دھنسنے لگتے تھے جو جوتوں اور پاجاموں کو گندا کرنے کے علاوہ سفر کو مشکل بھی بناتی تھی اور دوسری وجہ اس ٹبے پر کہیں ایک اندھے کنویں کی موجودگی کی خبر تھی۔جس کی وجہ سے ہمیں ٹبے پر سے گزرنے کی ممانعت تھی۔
ٹبے کی سطح ناہموار تھی اور وہ ایک ننھے دشت کا تاثر دیتی تھی۔بعض اوقات بلندی سے ڈھلوان کی طرف اترتے ہوئے یا ڈھلوان سے بلندی کی طرف جاتے ہوئے سامنے کا منظر نگاہ سے اوجھل ہو جاتا تھا۔یہاں رم نہ کرنے یا کم کم کرنے کی ایک وجہ اس بھربھری مٹی میں نہاں ٹھیکریوں اور ٹوٹے ہوئے برتنوں کی باقیات کی بہتات تھی جو آزادانہ کھیل کود میں رکاوٹ بنتی تھی اور میرے متجسّس ساتھیوں کو منکوں اور سونے چاندی کے سکوں کی موجودگی کی اطلاع کے باوجود اس امر کی حقیقت کو کھولنے سے روکتی تھی۔
پھر بھی اس ننھے صحرا کے اسرار مجھے بلاتے تھے اور میں سونے چاندی کے سکوں اور رنگ برنگے منکوں سے زیادہ اس کنویں کی تلاش میں تھا۔
اپنی بستی کے پہلو میں چلتے کنویں کی گادھی پر میں نے بہت مزے کیے تھے۔پانی سے بھرے ڈولوں کے نسار میں خالی ہوتے سمے،اُن کی گنگناہٹ اور ہنسی کو سُنا تھا اور گھوم کر نیچے کنویں کی تہ میں دمکتے پانی میں ایک آسودہ زمزمے کے ساتھ غوطے لگاتے دیکھا تھا۔لکڑی کے بڑے بڑے پہیوں سے پیدا ہونے والی چرچراہٹ اور کنویں کے کُتّے کی ٹِک ٹِک مجھے خود سے مکالمہ کرتی محسوس ہوتی تھی اور میں نہیں جانتا تھا کہ زندگی کے اس تسلسل میں کہیں رخنہ بھی پڑ سکتا ہے۔
میں نے گاوؤں کے پہلوؤں میں اور مربعوں کے ماتھوں پر کنوؤں کو ہمیشہ گنگناتے ہی دیکھا تھا اور شام کے دھندلکوں میں پانی بھرتی لڑکیوں کو مہین دوپٹوں کا پردہ تان کر نہاتے سمے کھلکھلاتے بھی مگر کوئی اندھا کنواں اب تک میرے تجربے کا حصہ نہیں بنا تھا اور میرے دل میں ایسے کسی کنویں کو دیکھنے کی تمنا بہت طور موجود تھی۔
میں اپنے ساتھیوں اور بڑی بہن کے منع کرنے کے باوجود اور ٹبے پر شیش ناگ کی موجودگی کی افواہ کی پروا کیے بغیر اپنی یہ تمنا کبھی کی پوری کر چکا ہوتا اگر ٹبے پر اور کبھی ٹبے سے اترتے ہی مجھے قریب ہی اپنی ماں کی موجودگی کا یقیں نہ ہوتا۔
میری ماں درختوں اور دیواروں کے ڈھلتے سائے سے ہماری سکول سے چُھٹی ہونے کے وقت کا اندازہ کر لیتی تھی اور مختلف طرح کے شربت گھول کر،گڑوی اور گلاس اٹھائے جراحی کی طرف چلنا شروع کر دیتی تھی۔مجھے،مری بہن اور دوسرے بچوں کو یہ شربت عموماً ٹبے پر یا ٹبے کے اس پاس پہنچ کر پینے کو ملتا تھا۔کیوں کہ ٹبہ سکول اور گھر سے کم وبیش ایک جتنے فاصلے پر تھا۔ہم اپنی تیزروی کے باوجود،سیدھا راستہ نہ پکڑنے کے باعث ماں سے پہلے ٹبے پر کم ہی پہنچتے تھے۔اس لیے مری اندھے کنویں کو دیکھنے کی خواہش دیر تک پوری نہیں ہو سکی اور دن شربت کے رسیلے گھونٹوں کی طرح میرے حلق سے اترتے رہے اور وہ دن بھی آیا جب میری طبیعت شربت دیکھ کر متلانے لگی۔
ہمارا معمول اور لاکھ منع کرنے پر بھی ماں کا شربت لانے کا ورد جاری تھا کہ ایک روز بوندیں پڑیں اور کچے رستے کی مٹی کو گوندھ کر جلد ہی تھم کر آسمان سے امڈتی دھوپ کے مقابل بادل بن کر ٹھہر گئیں۔درختوں اور دیواروں کے سائے غائب ہونے سے شاید ماں کو وقت کا درست اندازہ نہیں رہا اور ہمارے ٹبے پر چڑھتے وقت وہ مجھے ،شربت کی گڑوی پر اپنے آنچل کا سایہ کیے،گھر سے ٹبے کی طرف آنے والی پگڈنڈی پر کہیں مربعے بھر کے فاصلے پر دکھائی دی۔مجھے یقین تھا وہ ٹبے تک اور ہم تک دس منٹ سے پہلے نہیں پہنچ سکتیں اور اس وقت کے غنیمت ہونے کا شعور ہونے تک میں اپنے آپ کو ٹبے کی بھربھری مٹی پر اپنی ان دیکھی منزل کے کھوج میں بگٹٹ بھاگتے دیکھ رہا تھا۔مرے پیچھے مری بہن اور ہم جولیوں کی چیخ پکار تھی اور مٹی میں دھنستے دھپ دھپ کرتے قدموں کا شور۔خود مرے پاؤں کسی ان دیکھے بوجھ سے رستم کے پیروں کی طرح زمین میں پنڈلیوں تک دھنستے تھے مگر میں اپنا اور اپنے ساتھیوں کے بیچ کا فاصلہ کم ہونے نہیں دے رہا تھا۔میں کبھی سیدھا اور کبھی دائرے میں بھاگتا اور ٹبے کی ڈھیہی دیواروں پر چڑھتا اترتا،اندر ہی اندر سانپ اور دوسرے کیڑوں کی دہشت سے کانپتا کنویں کی تلاش میں بھاگتا رہا اور جلد ہی میں نے اپنے آپ کو اس کے کنارے پایا۔
مرے کنویں میں نہ گرنے کی بظاہر کوئی وجہ نہیں تھی۔ڈھلوان سے بلندی کی طرف بھاگتے ہوئے میں نے اسے اچانک اپنے سامنے پایا۔منڈیر کے بغیر،ڈھہے ہوئے کناروں کے ساتھ،ٹبے کے پیٹ میں اترتی گولائی،جس پر جھک کر کہیں نیچے رکے ہوئے پانی کو دیکھنا ممکن نہیں تھا مگر پھپھوندی لگی اینٹوں اور تہ سے امڈتی مردہ مچھلیوں کی ہمک سے مماثل بھاری بُو کہیں دور پانی کی موجودگی کی خبر دیتی تھی۔اندر کہیں سانپ کے سرسرانے اور مٹی کے پھسلنے کی مدہم گونج اٹھتی تھی اور کنویں کی گولائی بہت آہستگی سے اوپر اٹھتی محسوس ہوتی تھی۔مگر نہیں کنویں کی گولائی اپنی جگہ پر تھی اور یہ میں تھا جو اپنے قدموں تلے کی زمین میں دھنس رہا تھا۔آگے کنویں کے اندھیرے کی طرف جھکتا ہوا اور شاید میں نے اسے چھو کر دیکھ ہی لیا ہوتا اگر ایک غیبی ہاتھ نے مجھے کلاوے میں لے کر پیچھے اپنی طرف کھینچ نہ لیا ہوتا۔
مڑ کر دیکھا تو ماں تھی۔چیختے چلاتے ہم جولیوں اور میری بوکھلائی ہوئی بہن سے آگے کنویں کی دھنسی ہوئی منڈیر پر مرے پیچھے ایک فرشتے کی طرح پر پھیلائے وہ مجھے اپنے وجود میں سمیٹتی تھی اور شربت کی گڑوی اور گلاس میرے سامنے کی ڈھلوان سے لڑھکتے ہوئے اس اندھی گہرائی کی طرف جا رہے تھے جہاں مجھے جانا تھا مگر میری ماں کی مشفق باہوں نے جانے نہیں دیا۔
شاید میرے جراحی کو الوداع کہہ کر گورنمنٹ پرائمری سکول پکا حاجی مجید میں داخلے کا سبب یہی واقعہ تھا۔
گورنمنٹ پرائمری سکول جراحی کی یادوں میں پی ٹی(سیدھی اور اُلٹی گنتی کے ساتھ)اور مجھ سے سبق کے بارے میں سوالات کا سلسلہ خاص ہے۔مجھے ہر سوال کے جواب پر نقد انعام سے نوازا جاتا تھا اور شاباش دی جاتی تھی،خواہ میرا جواب درست ہو یا غلط۔یہ راز تو بہت بعد میں مجھ پر کُھلا کہ یہ انعام اس رقم کا ایک معمولی حصہ ہوا کرتا تھا جو میرے والد صاحب اس ماسڑ صاحب کو میری حوصلہ افزائی کے لیے دیا کرتے تھے۔
جیب خرچ اس کے علاوہ تھا۔آدھی چُھٹی کے وقت ہم قلفی اور تلمبہ کے ایک پھیری والے”جمال” کی بنائی آئس کریم کھایا کرتے تھے اور گاؤں کے ان بچوں کو بھی کھلاتے تھے جو خود کچھ خریدنے کے لائق نہیں تھے۔یہ آئس کریم فلالین کے سبز کپڑے سے تہ دار تہ ڈھکی ہوئی ایک تھرماس نُما باکس میں ہوا کرتی تھی اور ایک کُھرپا نُما تیز دھار والے اوزار سے تراش کر بوہڑ کے پتّوں پر رکھ کر کھانے کو دی جاتی تھی،جنہیں چاٹنے کا بھی ایک الگ ہی مزہ تھا۔
ماسٹر واحد بخش تو جراحی ہی کے رہنے والے تھے۔ایک اور ماسٹر صاحب جو مقامی نہیں تھے،انڈے جمع کرنے کے شوقین تھے۔وہ روزانہ درجن بھر انڈے یکجا کر لیتے تھے کہ انہوں نے انڈے پہچانے کے لیے گھروں کی باریاں مقّرر کر رکھی تھیں مگر وہ سارے انڈے گھر کم ہی لے جایا کرتے تھے۔اپنی کرسی پر غنودگی کے عالم میں بچّوں کو سبق کا بلند آہنگ رٹّا لگواتے ہوئے وہ اچانک پینک سے نکلتے تھے اور ایک انڈہ توڑ کر اُسے منہ میں انڈیل لیتے تھے۔خدا جھوٹ نہ بُلوائے تو یہ عمل چار پانچ دفعہ دہرایا جاتا تھا۔وہ اپنی طرز کے اکیلے آدمی تھے کہ اُن کے بعد میں نے کسی کو یہ وظیفہ کرتے نہیں دیکھا۔
کسـی نگاہ کی زد پر ہـے باغِ ســبز مِرا
کسـی نگاہ کی زد پر ہـے باغِ ســبز مِرا
کہ زرد پڑنے لگا ہے چــراغِ ســبز مِرا
سمَجھ میں آ نہ ســکا بھیــد اُس کی آنکھــوں کا
اُلٹ کے رہ گیــا آخِــر دماغِ سـبز مِرا
پلٹ کے آئی نہیں چھاؤں اُس کے کُــوچے سے
دَھرا ہے دُھـوپ میں اب تک ایاغِ سـبز مِرا
یہ معجــزہ ہے زرِ عشــق کی صــداقت کا
کسـی کے دل میں دھـڑَکتا ہے داغِ سـبز مِرا
بدل گئی جو کبھی رنگ و نُور کی تہذیب
نہ مِل سـکے گا کسـی کو سُــراغِ سـبز مِرا
گیــاہ و ســبزہ و گُل سے غــرَض ہو کیوں ســاجِــدؔ
کسـی کو خـوش نہیں آیا فــراغِ سـبز مِرا