کسـی نگاہ کی زد پر ہـے باغِ ســبز مِرا

کسـی نگاہ کی زد پر ہـے باغِ ســبز مِرا 
کہ زرد پڑنے لگا ہے چــراغِ ســبز مِرا

سمَجھ میں آ نہ ســکا بھیــد اُس کی آنکھــوں کا
اُلٹ کے رہ گیــا آخِــر دماغِ سـبز مِرا

پلٹ کے آئی نہیں چھاؤں اُس کے کُــوچے سے
دَھرا ہے دُھـوپ میں اب تک ایاغِ سـبز مِرا

یہ معجــزہ ہے زرِ عشــق کی صــداقت کا 
کسـی کے دل میں دھـڑَکتا ہے داغِ سـبز مِرا

بدل گئی جو کبھی رنگ و نُور کی تہذیب
نہ مِل سـکے گا کسـی کو سُــراغِ سـبز مِرا

گیــاہ و ســبزہ و گُل سے غــرَض ہو کیوں ســاجِــدؔ
کسـی کو خـوش نہیں آیا فــراغِ سـبز مِرا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے