Category Archives: درس گاہ

درس گاہ – 13

یہی زمانہ تھا جب مہر طالب حسین کو بھی پکا حاجی مجید کے سکول سے اُٹھا کر ایم سی پرائمری سکول میاں چنوں میں داخل کرایا گیا مگر اس سے پہلے ان کی چڑیا اُڑانے کا اہتمام کیا گیا ۔ اعزّہ اور سنگتیوں کو باقاعدہ نامہ بر بھیج کر سدّا دیا گیا ۔ خواتین بن ٹھن کر بلکہ میری ماں کے بقول ہندنیاں بن کر آئیں ۔ مردوں نے بھی دھوبی کے دُھلے مائع والے کپڑے پہنے اور پگڑیوں کے دو دو طُرّے نکال کر مسجد کے پیچھے کُھلے میدان میں لگی جھولداری میں یک جا ہوئے ۔ چاروں طرف رنگین پایوں والی دوہر سرہانے والی چارپائیوں کا پِڑ بنا کر بیچ میں رنگلے پیڑھے پر موصوف کو بٹھایا گیا تو مرکز ِ نگاہ ہونے کی لذت سے آپ کی باچھیں پھٹی پڑتی تھیں اور کیوں نہ پھٹتیں ۔ ابھی کچھ دیر پہلے تو وہ اپنے رضاعی رشتہ داروں کی سریلی اور رسیلی آواز میں "طالب حسینا پُھلاں دا شونقی،ٹہنی پھڑ کے کھلا رہیا” جیسے مدحیہ گیت سُن کر آئے تھے مگر جب محفل میں رنگین جِھمّی اوڑھا کر نائی نے اپنی رَچھانی کھول کر آلہِ پرواز ِاوسان نکالا تو مہر صاحب نے فرار کی ایک نحیف سی کوشش کی مگر وہ کہتے ہیں نا "پھاہدھی دا کیہ پھٹکن”- دیر ہو گئی تھی اور چڑیا ہی نہیں پورا سیمرغ قریبی جنّات کے قبضے میں تھا ۔ ایک فلک شگاف چیخ سینکڑوں تماشائیوں کے فلک شگاف قہقہے کے حضور سرنگوں ٹھہری اور کافری، سرجن کے ہاتھ میں سر چُھپا کر ہمیشہ کے لیے عنقا ہو گئی۔

ہمارے یہاں کئی اقسام کے میٹھے چاول پکتے تھے مگر پلاؤ خاص مواقع پر ہی بنایا جاتا تھا ۔ اس رسم کی ادائیگی پر مٹن (مگر یہ لفظ تو وہاں کے لوگوں کے لیے آج بھی اجنبی ہے) یعنی بکرے کے گوشت کی دیگیں چڑھیں، پلاؤ اور متنجن بنایا گیا ۔ ناظرین میں باٹنے کے علاوہ گھروں میں بھی مٹھائی بھجوائی گئی ۔ جس کے لیے حلوائی رات ہی کو پہنچ گیا تھا ۔ میسو، عربی توشہ، بوندی، نمک پارے، اندرسے اور جلیبی ہمارے سامنے بنائے گئے ۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ جلیبی میں شیرہ انجکشن کے ذریعے نہیں بھرا جاتا اور یوں بڑے بھائی مہر نواب کی بخشی وِدیا پر مجھے پہلی بار شک ہوا ۔ یہ بات مجھے بہت بعد میں سمجھ آئی کہ وِدیا ہمیشہ شک کی محتاج ہوتی ہے اور کوئی سچ مکمل سچ نہیں ہوا کرتا۔
مہر نواب جس قدر وجیہہ، شگفتہ مزاج، شرارتی اور بہار ایجاد تھے، مہر مراد خاں اتنے ہی خاموش، ذات مست اور لیے دیے رہنے والے تھے ۔ وہ سورج نکلتے ہی دودھ دوہنے کے برتن اُٹھا کر اپنی بھینی کا رُخ کرتے تھے ۔ جہاں انھوں نے اپنی مصروفیت کا وافر انتظام کر رکھا تھا ۔ وہ کھال کمیٹی کے سربراہ تھے سو پانی کی باری اور اس سے وابستہ امور کو نپٹانے کے علاوہ اپنے طرح طرح کے ملاقاتیوں میں گِھرے رہتے تھے ۔ وہ ہر کام کو اپنی بھینی پر ہی نپٹانے کے عادی تھے ۔ شام کو گھر آتے تھے تو وہ ہوتے تھے اور ان کا ریڈیو ۔ جس پر مستقل طور پر "بی بی سی” بجتی رہتی تھی بس لوکل خبروں کے لیے کہیں کہیں لاہور کی باری بھی آ جاتی تھی ۔ میں نے پہلا ٹرانسسٹر ریڈیو انہی کے پاس دیکھا اور اس کے بعد یہ ریڈیو گاؤں سے باہر جانے پر ان کے سائیکل پر ساتھ ہی سفر کرنے لگا ۔ سائیکل سے موٹر سائیکل پر منتقل ہونے پر بھی انہوں نے اس رفاقت کو ترک نہیں کیا۔
وہ ناظرہ قرآن پڑھے تھے ۔ ابّاجی کی طرح بلند آہنگ تلاوت کے عادی تھے اور پنج وقتہ نمازی بھی اور کبھی لہر میں آ جانے پر بالکل ابّاجی کی طرح چہکتے بھی تھے ۔ اس لیے مجھے اُن سے باتیں کرنا اچّھا لگتا تھا ۔ میں بطورِ خاص انھیں ملنے جاتا تھا تو وہ ضرروت سے زیادہ احترام دیتے تھے ۔ "یار ایتھے بہو” کہہ کر اپنی چارپائی پر سُکڑتے جاتے تھے ۔ اس قدر کہ اُن کے گِرنے کا خدشہ پیدا ہو جاتا تھا۔
میں اور طالب نے پہلی بار سنیما انہی کی رفاقت میں دیکھا ۔ سنیما کا ذکر تو مہر نواب کرتے تھے مگر جب ابّا جی سے میرے پانچویں جماعت پاس کرنے پر فلم دیکھنے کی اجازت ملی تو تانگے پر ہمارے ساتھ جانے والے بھاؤ مراد تھے ۔ ہماری پہلی فلم، درپن اور غالباً مسرت نذیر کی "گُلفام” تھی ۔ جس کے ایک گیت کے بول تھے "اُٹھا لے آپ ہی خنجر اُٹھا لے۔۔۔نہ کر بے درد دُنیا کے حوالے” ۔ یہ فلم ہم نے میاں چنوں کے اکلوتے سنیما کے ڈریس سرکل میں دیکھی ۔ ہم آرام دہ کرسیوں پر تھے اور ہم سے آگے لکڑی کے بنچ دھرے تھے جن کی ٹکٹ بارہ آنے تھی سو گمان ہے کہ ہم ڈیڑھ روپے والی کلاس میں تھے۔
فلم سے پہلے انگریزی کی کوئی دستاویزی فلم دکھائی گئی ۔ جس میں شیروں کا ایک جُھنڈ شکار پر نکلا ہوا تھا ۔ اس سے پہلے ہم نے شیر کو صرف تصویروں میں دیکھا تھا اور کہانیوں میں ملاقات کی تھی ۔ اُسے اس قدر بڑی سکرین پر بھاگتے دوڑتے اور جانوروں کا شکار کرتے دیکھنا انوکھا تجربہ تھا۔کچھ کچھ مزہ بھی آیا مگر دل پر ہلکے ہلکے خوف کا غلبہ بھی تھا ۔ اس بیچ خرابی یہ ہوئی کہ ایک ببر شیر نے ناظرین کی طرف منہ کر کے جست بھری ۔ بخدا یوں لگا جیسے وہ سکرین سے نکل کر ہم پر آ گرے گا ۔ میں تو کانپ کر رہ گیا مگر طالب حسین نے چیخنا اور رونا شروع کر دیا سو ہمیں سنیما سے باہر آنا پڑا ۔ باقاعدہ فلم شروع ہونے تک ہم باہر ہی رہے ۔ بھائی نے طالب کو دلاسہ دیا ۔ دل جوئی کی، سوڈا پلایا، پیسٹری کھلائی جو کاغذ کی پھول نما رکابی میں رکھ کر بیچی جاتی تھی، نشاط سنیما کی عمارت گھوم پِھر کر دکھائی اور بڑی مشکل سے طالب کو اصل فلم دیکھنے پر آمادہ کیا ۔ خیر اُس فلم کے دوران میں خیریت گزری ۔ اس لیے کہ اس میں کوئی درندہ نہیں تھا اور جو تھے انہیں ایک دوسرے کی پٹائی ہی سے فرصت نہیں تھی۔
رات کو ہم علیا سُنارے (علی محمد کھرل) کےہاں ٹھہرے ۔ ان صاحب سے ہماری نسبت بھی خوب تھی ۔ یہ میرے والد اور بھائیوں کے مشترکہ دوست تھے اور ہمارے خاندانی زرگر ۔ انہوں نے بلاشبہ ہمارے خاندان کے لیے سیروں سونا گھڑا ہو گا ۔ کٹھ مالا، جُھومر، بلاق، پازیبیں، ٹِکّے، پنجانگلے اور نہ جانے کیا کیا مگر ایک بار ضرورت پڑنے پر کسی زیور کو تڑوانے کی ضرورت پڑی تو پتا چلا ٹھوس سونے کے زیور اصل میں لوہے کے ہیں اور ان پر سونے کی مہین تہ چڑھی ہے ۔ بیسیوں دوسرے رشتہ دار سنّاروں کی موجودگی میں انہوں نے سو تولے سے بھی زائد سونا لوٹا دینے کا وعدہ کیا جو کبھی ایفا نہیں ہوا مگر دوستی برقرار رہی۔ان کی بیگم میری ماں کو”بھین”کہتی رہی اور ہم وقتے کووقتے ان کے یہاں ٹھہرتے رہے۔

طالب حسین کے داخلے کے وقت تک میاں چنوں والا مکان بن گیا تھا ۔ ہماری چھوٹی بہن پیدا ہو کر پاؤں پاؤں چلنے لگی تھی ۔ مکان میں بجلی اور پانی کے کنکشن لگ گئے تھے ۔ چولھا جلانے کے لیے لکڑی کی کمی نہیں تھی کہ ہمارے ماچھی سلطان اور پہلوان ہٹھاڑ سے لئی اور کانہہ کی جھاڑیوں کے بھار اونٹوں پر لاد کر ہمارے مکان پر اتار جاتے تھے ۔ آٹا، چاول، گھی، دودھ، مکھن اور کئی دیگر لوازمات گاؤں سے بھجوا دیے جاتے تھے ۔ ریلوے لائن اور گھر کے بیچ سرکاری اور کہیں ذاتی زمین پر لکڑی کے کئی ٹال تھے، جہاں صبح سے شام تک آرے چلتے رہتے تھے اور لکڑی کا کام ہوتا رہتا تھا ۔ ہمیں "چھوڈوں” کی طلب ہوتی تو چاچا رحیم یا چاچا پہلوان گِل کے ٹال پر پیغام بھجوانا کافی رہتا تھا ۔ وہ منوں بل کہ ٹنوں کے حساب سے لکڑی کے گٹّھے بھجوا دیتے تھے۔
گوشت کے لیے گوشت مارکیٹ میں یوسف قسائی کی دکان پر جانا طے تھا ۔ وہ روزانہ بِن کہے، بکرے کا گول بوٹی والا ایک پاؤ گوشت صاف کرکے اور تول کر ہمارے حوالے کر دیتا ۔ سبزی کے لیے میرے ہم جماعت نذر کے والد کی دکان مقّرر تھی اور یہ ساری خریداری ایک روپے سے زیادہ کی نہیں ہوا کرتی تھی۔
کریانےکا سامان ایک اور ہم جماعت ادریس کے والد کی دکان سے آتا تھا ۔ ان کی پنسار بھی تھی ۔ ان کے روبرو حکیم کمال دین کی دکان تھی جو انگریزی دوائیاں بھی بیچتے تھے ۔ ان کے ایک صاحب زادے سلیم گِل میرے ہم جماعت تھے ۔ بعد میں ان کے بڑے بھائی جمیل اقبال گِل بھی فیل ہو کر میرے ہم جماعت بن گئے، جن کے چچا زاد حفیظ بھی ہمارے دوست بنے ۔ یہ وہی عبدالحفیط ہیں جو جماعتِ اسلامی کے اہم رُکن تھے ۔ اسلامک پبلی کیشنز کے انچارج رہے اور سُنا ہے کہ موجودہ سر براہِ جماعت اسلامی کے انتخاب کے عمل کے بھی انچارج تھے ۔ میں سونے اور چاندی کے ورق حفیظ کے والد کی دکان سے خریدا کرتا تھا جو گھر کی بنی برفی اور سوہن حلوہ پر لگائے جاتے تھے ۔ ان "ورق” کے حوالے سے ایک بار معروف ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر اقبال علی اظہر سے بات ہو رہی تھی تو انہوں نے مجھے یہ بتا کر حیران کر دیا کہ ان کے کرائے کیمیائی ٹیسٹ میں وہ ورق سو فیصد خالص ثابت ہوئے تھے۔
ء1962 اور شاید ستمبر کا آغاز تھا جب میں،میری والدہ،بڑی بہن شمیم اختر اور چھوٹی بہن تسلیم اختر میرے ہم عمر ملازم چراغ کے ساتھ اس گھر میں منتقل ہوئے۔جس کے ماتھے پر دوکمرے، پھر صحن بائیں طرف کچن اور گھوم کر پچھلے حصّے کی چھت پر جانے کے لیے سیڑھیاں تھیں ۔ پچھلے حصّے میں دو کمروں کے سامنے برآمدہ اور بغل میں غسل خانہ تھا۔دس مرلے کا یہ پلاٹ جو وسعت میں لاہور کے بارہ مرلے کے برابر تھا،پورا چھتا نہیں گیا تھا ۔ بغل میں چارمرلے جگہ نیم پختہ تھی اور شاید تانگے گھوڑے کے لیےخالی چھوڑ دی گئی تھی ۔ اس کا ایک دروازہ گلی میں کھلتا تھا اور ایک اندر صحن میں ۔ باہر کے کمروں میں مہمان ہونے کی صورت میں یہ دروازے گھر سے باہر جانے کی سہولت دیتے تھے۔
میرا سکول اور طالب کا سکول ساتھ ساتھ تھے ۔ اس لیے طے تھا کہ ہم ساتھ ہی آیا جایا کریں گے ۔ تب وہ دوسری اور میں چھٹی جماعت میں تھا اور یقین تھا کہ یہ رفاقت کم از کم پانچ برس تو ضرور برقرار رہے گی۔

درس گاہ – 12

تانگے پر روزانہ میاں چنوں آنے کا وظیفہ جاری تھا کہ ابّا جی کو شہر میں گھر بنانے کا خیال آیا ۔ اس لیے بھی کہ روزانہ شہر آنے کی مشقت آسان نہیں تھی اور اس لیے بھی کہ ابا جی کے پاس رہن رکّھی گئی چار ایکڑ زمین پٹواری نے کسی اور کو الاٹ کر دی تھی جس کی ملکیت اور قبضے کا مقدمہ کئی برسوں سے پہلے تحصیل (خانیوال) اور بعد میں ضلع (ملتان) کی دیوانی عدالت میں چل رہا تھا ۔ اسی زمانے میں بڑے بھائی مہر مراد پر قتل کے الزام میں مقدمہ بنا اور وہ خانیوال شیشن جج کی عدالت میں زیر ِسماعت تھا ۔ ان مقدمات کی پیروی کے لیے ابّا جی اکثر ملتان یا خانیوال جاتے رہتے تھے اور مطلوبہ ٹرین پکڑنے کے لیے انہیں رات کو کسی جاننے والے کے ہاں قیام کرنا پڑتا تھا ۔ ایسے بہت سے گھر تھے جو ان کی آمد کے منتظر رہتے تھے، جیسے اسٹیشن کے بالکل مقابل ریاض حسین قریشی کا دولت کدہ، ذرا آگے چل کر معین الاسلام سکول کے پہلو میں حاجی محمد جرولہ کا مکان اور شہر میں پیر ثنا اللہ بودلہ کا گھر اور کھرلوں (جو زرگری کے کام سے وابستہ تھے) کے کئی گھرانے مگر شاید وہ خود اس آئے دن کی مہمانی سے اُکتا گئے تھے کہ بعض اوقات شام کو دیر ہو جانے پر بستی جانے کے لیے کوئی سواری نہ ملنے کی وجہ سے بھی رات کو شہر میں قیام کرنا ضروری ہو جاتا تھا ۔ کرائے پر چلنے والے تانگے مغرب تک اپنی منزل پر پہنچ جاتے تھے کہ شہر سے باہر روشنی کا کوئی انتظام نہیں تھا ۔ آخری بس بھی مغرب کے لگ بھگ نکل جاتی تھی اور اُس سے اپنے اڈّے (جراحی موڑ،خونی موڑ یا موڑ پکا حاجی مجید) پر اترنے کے بعد تاریکی میں کم از کم دو میل کے پیدل سفر کا عذاب الگ ۔ اگرچہ راستے اور سفر محفوظ تھا مگر آخری سواری نکل جانے کے بعد شہر میں رکنا مجبوری تھی کہ چھے میل یا دس کلومیٹر کوئی چلے تو کیسے چلے اور وہ بھی گہرے اندھیرے یا ملگجے چاند کی روشنی میں ۔ سو شہر میں گھر بنانے کا خیال آنا فطری تھا اور یہ کام اس لیے قدرے آسان بھی تھا کہ میری ماں نے اپنے پلّے سے دس مرلے جگہ پہلے ہی خرید رکھی تھی۔
مکان کا نقشہ اور بنانے کا ٹھیکہ تلمبہ کے مستریوں کو دیا گیا ۔ اس سے برسوں پہلے انھی مستریوں نے قیام ِپاکستان سے پہلے غالباً 1940ء میں ہمارا بستی والا گھر تعمیر کیا تھا ۔ اس کارخانہ نما گھر کی لاگت تو مجھے معلوم نہیں مگر میاں چنوں والے مکان کا ٹھیکہ مع میٹریل چھے ہزار روپے تھا اور یہ مجھے اس لیے معلوم ہے کہ جمع بندی پر اس مکان کے اخراجات لکھنے کا کام میرے ذمّے تھا۔
اس مقصد کے لیے ابّا جی کبھی میرے ساتھ ہی شہر آ جاتے تھے پھر مجھے چھٹی ہونے پر ساتھ لیے بستی پلٹ جاتے تھے۔ تانگے پر مجھے سب سے زیادہ دلچسپی پاؤں سے بجانے والی گھنٹی سے تھی جس کی آواز برسوں بعد مجھے میرے دفتر میں پیون کو طلب کرنے والی انگلی کے دباؤ سے بجنے والی گھنٹی سے مماثل لگی ۔ یہ گھنٹی راہ چھوڑنے کی چتاؤنی بھی تھی اور سواری کے شاہی ہونے کا اعلان بھی اور اس آواز پر راہ سے ہٹتے لوگ مجھے اچّھے لگتے تھے۔
اسی زمانے میں بڑے بھائی مہر نواب نے مجھے ایک گھڑی تحفے میں دی ۔ اس سے پہلے ابا جی کے پاس ایک رسٹ واچ تھی مگر وہ اسےکم ہی استعمال کرتے تھے ۔ ان کی پسندیدہ گھڑی ایک ٹیبل کلاک تھی جو نماز کے اوقات کے لیے الارم بجانے کے کام آتا تھا اگرچہ انہیں نماز کے لیے کبھی الارم کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں پڑی۔وہ پنج وقتہ نمازی تھے اور مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے جایا کرتے تھے، جس کا ایک فائدہ یہ تھا کہ بستی کے مردوں کی ایک بڑی تعداد ان کے ساتھ نماز میں شامل ہوتی تھی ۔ وہ ہم بہن بھائیوں کو بھی نماز پڑھنے کی تلقین کرتے تھے مگر کبھی اصرار کر کے مسجد نہیں لے گئے ۔ ہاں جمعے کی نماز کے لیے خصوصی تیاری ہوا کرتی تھی اور ان کے ساتھ کوٹ برکت علی خاں کی جامع مسجد میں جا کر نماز پڑھنا لازم تھا ۔ جس کے بعد کوٹھی پر کسی نہ کسی خاں صاحب سے صاحب سلامت کے لیے رکا جاتا تھا ۔ خاں صاحب خواہ لیاقت علی خاں ہوں یا ڈپٹی عبدالحمید خاں کہ ذوالفقار علی خاں سب بہت آؤ بھگت کرتے تھے ۔ چائے، شربت اور پھل سے تواضع کی جاتی تھی اور وہ بھی باغ سے تازہ چُنے ہوئے ۔ میں آم ، انار، کیلےاور امرود وغیرہ سے تو متعارف تھا مگر انجیر اور بِل میں نے پہلی مرتبہ اس بنگلے سے ملحقہ باغ میں دیکھے ۔ بِل کی سختی اور وزن دیکھ کر پقین نہیں آتا تھا کہ اس کا شمار بھی پھلوں میں کیا جا سکتا ہے ۔ مجھے تو ناریل کی طرح یہ پھل کم اور آلہء ضرب ِ شدید زیادہ لگتا تھا۔
بھاؤ نواب (مہر نواب خاں) نے مجھے جو کلائی کی گھڑی تحفے میں دی وہ چمڑے کے پٹے والی نفیس سنہرے رنگ کی فیور لیوبا تھی ۔ شاید یہ کوئی سوِس کمپنی تھی ۔ گھڑی تو بہت خوب صورت تھی مگر اس میں دو قباحتیں تھیں ۔ پہلی یہ کہ اس پر کندہ ہندسے کسی اور زبان میں تھے ۔ بہت بعد میں معلوم ہوا کہ گنتی کی یہ ادا رومن کہلاتی ہے ۔ میں اس سے پہلے اردو، انگریزی، عربی اور ہندی ہندسوں سے آشنا تھا کہ گھر کی جمع بندیوں، جنتریوں، مذہیی کتابوں کی ورق گردانی کرتے ہوئے اور سکول میں ان ہندسوں کا استعمال دکھائی دیتا تھا مگر یہ ہندسے میرے لیے نئے تھے اور مجھے وقت دیکھنے اور بتانے میں دقت ہوتی تھی اور دوسری دقت یہ کہ میں بھاؤ کی بڑے بڑے انگریزی ہندسوں اور رات کو دمکنے والی ویسٹ اینڈ واچ پر عاشق تھا ۔ اس لیے میں نے ان سے بلا تکلف اپنی ناپسند کا اظہار کر دیا اور انہوں نے نئی گھڑی دینے کا وعدہ پورا ہونے تک مجھے یہ گھڑی پہنے رکھنے کی ہدایت کی ۔ یہ وعدہ پورا ہوا مگر اس سے پہلے مجھے اس گھڑی کے مکینکس سمجھنے کا شوق چرایا کہ میں نے کہیں گھڑیوں کی دکان پر ایک صاحب کو آنکھ پر ڈھکن نما عدسہ لگا کر کسی گھڑی کو مرمت کرتے دیکھا تھا اور مجھے لگتا تھا کہ مجھے بھی اس گھڑی کو کھول کر دوبارہ فٹ کرنا چاہیے سو میں نے قینچی اور بلیڈ کی مدد سے اسے کھولا، اس کی سانس اور دھڑکن ملاحظہ کی اور اسے روک کر دوبارہ بحال بھی کر لیا مگر اس کلنیکل ملاحظے میں اس کی ایک سوئی کہیں کھو گئی اور اب وہ گھنٹوں کی ذیلی تقسیم کرنے سے معذور ہو گئی سو اسے طاق ِنسیاں کے سپرد کرنا پڑا جہاں وہ اکیلی نہیں تھی، ایک گراموفون، ایک ریڈیو اور متعدد چابی والے کھلونے اس کی دل داری کے لیے وہاں پہلے سے موجود تھے۔

بھاؤ نواب اس وقت کوئی چالیس بیالیس کے پیٹے میں تھے ۔ درمیانہ قد، فربہی مائل جسم، دیدہ زیب نقش (سنا تھا کہ جوانی میں لوگ انھیں دلیپ کمار سمجھ لیتے تھے) ،بالوں سے محروم ہوتی چندیا جسں پر وہ نفیس قراقلی ٹوپی پہنتے تھے اور یہ ٹوپیاں لاہور جا کر خریدی جاتی تھیں ۔ میری فیور لیوبا بھی ایسی ہی ایک مہم کے دوران میں آئی تھی ۔ ان کی طبیعت میں شگفتگی تھی اور لبوں پر چوبیس گھنٹے مسکراہٹ کھیلتی رہتی تھی ۔ مجھ سے چھوٹے بھائی مہر طالب حسین کو وہ خوب چڑاتے تھے مگر مجھے نہیں ۔ وہ عام طور پر میری ذہانت کا امتحان چیستانی سوالات سے کیا کرتے تھے۔ان میں سے کئی سوال مجھے آج تک یاد ہیں جیسے
ہم دیکھیں بار بار
بادشہ کبھی کبھی
کیا ہے ایسی چیز
جسے دیکھتا خدا نہیں
ایک سوال سات چار دیواریوں اور ہر چاردیواری کے گیٹ پر متعین نگرانوں والے باغ سے سیب توڑ کر لانے کے بارے میں تھا ۔ اس طرح کہ ہر نگران کو شرط کے مطابق آدھے سیب دینے اور وعدے کے مطابق ایک سیب واپس لینے کے بعد آپ کے توڑے ہوئے سیبوں کی تعداد اتنی ہی رہے ۔ میں اس نوع کے سوالات کے جواب کم ہی دے پاتا تھا مگر مجھےان کے ساتھ مغز ماری میں لطف بہت آتا تھا اور ان سے ملنے کا ہمیشہ متمنی رہتا تھا ۔ یہ بات الگ کہ اپنے ملازمتی امور اور احباب سے انہیں کم ہی فرصت ملتی تھی اور وہ ہر روز کسی نہ کسی افسر یا زمیندار کے یہاں دعوت پر مدعو ہوا کرتے تھے۔

درس گاہ – 11

زندگی کے پہلے دس برس کئی حوالوں سے اہم تھے ۔ اس لیے کہ میری کیفیت "صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پا بہ گِل بھی ہے” جیسی تھی ۔ دونوں سوتیلے بھائی اور تینوں تایا زاد عمر میں پندرہ تا تیس برس بڑے تھے ۔ ایک بھائی اور ایک تایا زاد کبڈی کے معروف کھلاڑی رہ کر اب گھریلو زندگی میں مست تھے ۔ بڑے بھائی قیام پاکستان سے پہلے ایک اہم عہدے سے ترقیءمعکوس کر کے اب قریب کے کسی حلقے میں بہت دانش مند پٹواری تھے (سُنا تھا وہ کسی گیلانی وزیر کی سفارش پر نائب تحصیلدار بھرتی ہوئے تھے مگر پہلے کسی ڈپٹی کمشنر کو تھپڑ مارنے پر نوکری سے نکال دیے گئے اور پھر انہی وزیر کی دوبارہ سفارش پر ملازمت ملنے پر کاٹھیہ فیملی کے ایک بزرگ دوست کے دیوانی مقدمہ میں مدد کے لیے سرکاری ریکارڈ جلانے کے جرم میں معزول کیے گئے تھے اور اب اپنی پٹوار پر قانع تھے) ۔ دو کزنز کو اپنے دوستوں اور اپنی سیلانیء طبع سے فرصت نہیں تھی اور ایک بھائی اور کزن قتل کے الزام میں گرفتار تھےتاہم وہ جلد بری ہو کر آ گئے
سو میری دنیا اپنے ہم عمر بھائی بھتیجوں کے ساتھ کچھ دیر کھیل کود کر اپنی کتابوں تک محدود تھی ۔ گاؤں سے باہر ابھی دوستی کا دائرہ وجود میں نہیں آیا تھا ۔ ماں باپ اور بھائی بہنوں کے ساتھ ارد گرد کی آبادیوں (جراحی، غازی پاندھا، بستی سنپالاں، سات چک اور کوٹ برکت علی وغیرہ) میں شادی بیاہ یا تہواروں کے مواقع پر آنا جانا رہتا تھا ۔ تلمبہ اور میاں چنوں کا چکر بھی لگ جاتا تھا (میاں چنوں کے زیادہ تلمبہ کے کم بہت کم) . میلے ٹھیلوں پر نورشاہ، پیر شینا، بالے بم تک (جدّی ملازم کے ساتھ) جانے کی اجازت بھی تھی، جہاں کبڈی کے میچ دیکھنے کا لطف اب بھی مرے وجود کا حصّہ ہے ۔ ایک آدھ بار حضرت عبدالحکیم کے میلے پر بھی گیا اور عنایت حسین بھٹّی کا تھیٹر دیکھنے کے بعد رات چڑھووں کے ہاں بسر کی تھی (نور شاہ کے میلے پر بھی کئی ٹھیٹر دیکھنے کا موقع ملا کہ وہاں تھیٹر لگانے والوں کی روٹی ہمارے یہاں سے جاتی تھی) مگر بستی میں میں اپنے کمرے تک محدود ہوتا جا رہا تھا اور مجھے اپنی اس تنہائی سے وحشت بھی نہیں ہوتی تھی۔ ہم اور ہمارے ارد گرد کے زمیندار آسودہ حال تھےبلکہ ہم سے زیادہ مگر یہ نمود و نمائش کا زمانہ نہیں تھا ۔ اکثر زمینداروں کے پاس اپنے تانگے تھے۔مشینی سواریاں اتنی کم تھیں کہ مجھے ذہن پر زور دے کر صرف پیر برکت علی شاہ کی جیپ یاد آتی ہے، جسے سٹارٹ کرنے کے لیے پنکھے کے ساتھ ایک ہینڈل فٹ کر کے گھمانا پڑتا تھا اور ردھم پکڑنے کے بعد وہ کچے راستوں اور ندی نالوں کو ناپنے بلکہ ٹاپنے کے لیے تیار ہو جاتی تھی ( کسی کار یا جیپ پر میرا پہلا سفر اسی جیپ پر اپنے کنبے کے ساتھ ملتان گھومنے آنے کا تھا) ۔ کار نہ رکھنے کی ایک وجہ شاید سولنگ یا پختہ سڑکوں کا نہ ہونا بھی تھا ۔ جہاں تانگوں کے جہازی پہیے دھنس کر رہ جائیں وہاں کار کا کیا کام ۔ ہاں جیپ سے کام چل جاتا تھا ۔اس لیے وہ کچھ زمینداروں کے پاس تھی مگر بس گنتی کے دو ایک لوگوں کے پاس۔
ء1962 میں مجھے ایم سی ہائی سکول میاں چنوں داخل کرایا گیا۔اس سکول کی صلاح جراحی کے ماسٹر واحد بخش نے دی تھی اور وہ داخلہ ٹیسٹ کے سلسلے میں میرے ساتھ سکول بھی آئے تھے ۔ یہ ٹیسٹ صرف حساب کے مضمون کا تھا اور پرائمری سکول کے ایک کلاس روم میں لیا گیا تھا ۔ میرا فیل ہونا فطری تھا کہ شاید نصاب کی کتاب ہی مختلف تھی اور اکثر سوال میرے لیے نئے تھے ۔ سو میرے والد صاحب نے اپنے تعلقات کو آزمایا ۔ سکول میں ماسٹر واحد بخش کے ایک دوست ماسٹر عبدالحق تھے، جن کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ہندو سے مسلمان ہوئے تھے، مجھے ان کی کلاس میں بٹھایا گیا اور میں اس سکول کی عمارت، وسعت اور میدان دیکھ کر حیران رہ گیا ۔ یہ عمارت جلال وجمال کا خوبصورت نمونہ تھی اور میں خوش تھا کہ مجھے اگلے پانچ برس یہاں گزارنے ہیں۔

میں گھر سے تانگے پر سکول آتا ۔ سکول کے باہر درختوں کی چھاؤں میں تانگہ کھول دیا جاتا اور ممّو ماچھی جو بطور کوچوان میرے ساتھ آتا تھا، تین بجے سہہ پہر تک وہیں کہیں موجود رہ کر میرا انتظار کرتا ۔ سکول میں شہری پنجابی اور گلابی اردو بولنے کا رواج تھا اور اردو کی بیسیوں زائد از نصاب کتابیں چاٹنے کے باوجود مجھے ہر دو زبانیں بولنے میں جھجک کا سامنا تھا ۔ اس لیے شہری لڑکوں نے جو شرارتوں اور خود پر اعتماد میں مجھ سے بہت آگے تھے ۔ مجھے اپنی ذاتی گفتگو میں "جانگلی” کا لقب دے دیا ۔ میری طرف دوستی کے ہاتھ کم ہی بڑھے اور مجھے بھی کسی سے گھلنے ملنے میں دقت رہی، جب تک پہلے سہہ ماہی امتحان نہیں ہوئے ۔ اس امتحان کا نتیجہ خود میرے لیے حیران کن تھا ۔ میری پوزیشن بری نہیں تھی اور اردو میں تو میں پورے سکول میں اوّل آیا تھا ۔ میں جانگلی تو تب بھی رہا اور اب بھی ہوں مگر تب اساتذہ اور ہم جماعت لڑکوں نے مجھے سنجیدہ لینا آغاز کیا اور میں بھی اپنے احساس ِ کمتری سے نکل کر دوسروں کی برابری کی سطح پر آ کھڑا ہوا۔
سکول میں امیر غریب کی کوئی تفریق نہیں تھی ۔ سکول یونیفارم ملیشیا کا پاجامہ قمیص تھا ۔ سکول لگنے پر اسمبلی ہوتی تھی ۔ تلاوت اور ترجمے کے ساتھ تفسیر کے بعد دعا (لب یہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری..لحن کے ساتھ) اور پی ٹی ہوتی تھی اور پھر کلاسز ۔ وہی جانے پہچانے ٹاٹ، سلیٹ اور تختیاں ۔ ہاں گھر کا کام کرنے کے لیے کاپیوں ، پینسلوں اور رنگوں کا اضافہ ہوا ۔ آدھی چھٹی ہونے پر سکول کے سامنے بیسیوں ریڑھیاں مختلف سوغاتیں لیے لگ جاتی تھیں ۔ موسم کے لحاظ سے زیادہ بِکری قلفی، پکوڑوں اور شربت والوں کی ہوتی تھی ۔ خشک میوے اور پھل بھی خوب بکتے تھے اور اس عیاشی کے لیے دو آنے بہت ہوا کرتے تھے۔
میرے تانگے پر سکول آنے کا فائدہ اٹھانے والے کئی تھے ۔ شہر جانے کے لیے کچھ لوگ میرے منتظر رہتے تھے جن میں پیر سوہارے شاہ خصوصیت سے لائقِ ذکر ہیں ۔ واپسی پر بستی کا کوئی نہ کوئی آدمی ساتھ ہو لیتا تھا اور مجھے اس خدمت میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی تھی ۔ اسی زمانے میں مجھے گھوڑے کی باگیں اپنے ہاتھ میں لینے کا شوق چرایا ۔ ہمارا گھوڑا نازوں پلا اور کافی اتھرا تھا اور وہ باگ پکڑنے والے کے ہاتھ پہچانتا تھا مگر میں نے جلد ہی اس پر قابو پا لیا اور شہر آتے جاتے تانگہ چلانے کا کام خود کرنے لگا۔اس کے باوجود کہ میرے ابّا جی کی طرف سے اس کی ممانعت تھی اور اس سلسلے میں ممّو کو خاص تاکید بھی تھی مگر جب خودسری سر چڑھ کر بول رہی ہو تو بے چارہ ممّو کیا کرتا۔

درس گاہ – 10

میں چوتھی جماعت میں تھا جب میرے چھوٹے بھائی مہر طالب حسین کو اس سکول میں داخل کرایا گیا اور بہن کو اُٹھا لیا گیا ۔ کھیلنے کودنے، لکھنے پڑھنے کے معمولات وہی تھے ۔ میں "خالص” دیہاتی تھا مگر مجھے دودھ، دہی، لسی اور مکھن سے وحشت ہوتی تھی ۔ آخری تین چیزوں کا استعمال میں نے زندگی بھر نہیں کیا ۔ دودھ پی لیتا ہوں مگر صرف دودھ نہیں ۔ رات کو دیسی تافتان کے ساتھ، جو تندور پر آٹے کو مکھن میں گوندھ کر پکایا جاتا ہے اور جسے "موئی روٹی” کہتے ہیں ۔ حالاں کہ وہ عام روٹی سے زیادہ "زندہ” ہوتی ہے ۔ "مو”کی یہ توضیح صرف تفنن ِ طبع کے لیے ہے ۔ اس لفظ کے قریب ترین معنی گداز اور خمیر ہو سکتے ہیں کہ اس میں ایک خاص طرح کی خستگی ہوتی ہے جو لقمہ توڑنے، چبانے اور کھانے میں خطائی جیسا مزہ دیتی ہے اور یہ مزہ شیریں دودھ کے ساتھ مل کر دوبالا ہو جاتا ہے
رات کو کھیل کود کر آنے کے بعد گاڑھے دودھ کا ایک گلاس پینے کی پابندی تھی مگر میں جان بوجھ کر دیر کرتے کرتے سو جاتا تھا ۔ یہ الگ بات کہ وہ اکثر غنودگی کے عالم میں پلا دیا جاتا تھا اور دن میں اس کی ایک دھندلی سی یاد ہی باقی رہ جاتی تھی۔
یہی رویّہ دوسرے بہن بھائیوں کے ساتھ بھی تھا ۔ گھر ماں اور بڑی بہن نے سنبھال رکھا تھا ۔ ان کی مدد کے لیے ایک آدھ نو عمر ملازمہ اور ملازم بھی موجود رہتے تھے ۔ پانی بھرنے اور تندور کا کام ماچھنوں کا تھا ۔ گاؤں میں جولاہے اور کمھار بھی تھے اور لوہار بھی ۔ بعد میں ایک ایک خاندان موچیوں اور شرنائیوں کا بھی آ بسا ۔ کپڑا بُننے، لوہے سے اوزار بنانے، مٹّی سے برتن ڈھالنے اور تلے والی جوتیوں پر تلّا کاڑھنے کا کام اس قدر دل فریب تھا کہ میں اکثر اس صنّاعی کا نظّارہ کرنے جاتا تھا اور مبہوت ہو کر مٹّی اور آگ کے کھیل دیکھتا تھا ۔ گھر میں لاڈلا ہونے کی وجہ سے میں ضدی، غصیلا اور بدتمیز تھا مگر گالی بکنے کی عادت نہیں تھی۔
ماں نے ذہن میں ایک بات ڈال دی تھی کہ کسی کو بددعا نہ دوں ۔ وہ کہتی تھیں "پُتر اساڈا پلوتا لگدا اے” .اس میں کتنی حقیقت تھی معلوم نہیں مگر ایک بار بچپن میں غصّے اور بے بسی کے عالم میں بددعا دی تو واقعی کارگر رہی۔تب متاثرہ خاندان مجھ سے اور میں اپنے آپ سے ڈرنے لگا ۔ یہ تفصیل میری کہانی "تیسرے پلوتے پچھوں ” میں موجود ہے۔
چوتھی اور پانچویں جماعت میں سب کچھ معمول کے مطابق تھا ۔ سال کے اختتام پر پتا چلا کہ امتحان کے لیے سنٹر گورنمنٹ ہائی سکول تلمبہ کو بنایا گیا ہے ۔ اپنے سکول سے اس امتحان کے لیے جانے والا میں اکیلا تھا ۔ مجھے تلمبہ میں رات کو ماسٹر غلام رسول کے گھر پہنچا دیا گیا اور وہ علی الصباح مجھے اپنے سائیکل پر تلمبہ سے کافی باہر میاں چنوں تلمبہ روڈ پر اس سکول میں لے کر گئے اور وہاں مذکورہ امتحان دلوایا ۔ اب یاد نہیں کہ یہ سب ایک دن کا عمل تھا کہ دو کا مگر گھر سے باہر شاید یہ میرا پہلا قیام تھا ۔ سوائے جراحی کے، جہاں ہمارا گھرانہ محرم کے دنوں میں ضروری انتظامات میں مدد کے لیے مدعو کیا جاتا تھا اور کئی بار وہاں رات کو رُکنے کی نوبت بھی آ جاتی تھی ۔ اگرچہ محرم میں وہاں رُکنا مجھے پسند نہیں تھا اور اس کی وجہ رات کو اُلٹی چارپائی پر سونے کی پابندی تھی۔

گورنمنٹ ہائی سکول تلمبہ اب بھی شہر سے کافی فاصلے پر ہے ۔ میں اس سکول میں دو ہی بار گیا ۔ پہلی بار امتحان دینے اور دوسری بار ملتان بورڈ کے انسپکٹر کی حیثیت سے میٹرک کے امتحانی مرکز کا معائنہ کرنے اور میں نے محسوس کیا کہ سکول کے شہر سے باہر ہونے کے باعث امتحان دینے والے بہت فائدے میں ہیں۔
ہم تلمبہ جاتے تھے مگر بہت کم، زیادہ رجحان میاں چنوں جانے کا تھا ۔ یوں بھی مرکزی ریلوے لائن اور لاہور ملتان روڈ پر ہونے کی وجہ سے اس کی ترقی کی رفتار بہت تیز تھی ۔ اس زمانے میں آبادی تو آٹھ دس ہزار سے زائد نہیں تھی مگر شہر کا نقشہ اور بازار بے مثال تھے ۔ تلمبہ روڈ جو ہمارے شہر جانے کا ذریعہ تھی ۔ شہر کے بیچ سے گزر کر ٹی چوک پر ختم ہوتی تھی، جہاں ایک پٹرول پمپ تھا اور لاہور ملتان روٹ پر جانے والی لاریوں کا استراحت کدہ ۔ ملتان براستہ عبدالحکیم کبیر والا کے لیے اڈہ تلمبہ روڈ پر شہر کے آغاز ہی میں تھا اور وہاں ہانسی بس سروس والوں کی اجارہ داری تھی ۔ کچھ بسیں دوست بس کمپنی کی بھی تھیں مگر شاید ان کی نسبت میاں چنوں سے نہیں تھی۔
شہر پہچنے کے بعد تانگے کو ٹی چوک میں کھول دیا جاتا تھا اور ہم لوگ شہر گھومنے کے لیے نکل جاتے تھے۔کپڑوں کی دکانوں پر ششماہی حساب چلتا تھا اور مجھے اس بات پر حیرت ہوتی تھی کہ وہ لوگ نقد رقم وصول کرنے سے کتراتے تھے ۔ ہم عام طور پر چراغ چڑھوئے اور مجید آرائیں کی ہٹّی پر جاتے تھے اور وہ ضرورت سے تین گُنا زائد کپڑے لادے بغیر اُٹھنے نہیں دیتے تھے ۔ وہیں شفیع درزی کی دکان تھی جو کپڑے وصول کرنے دکان پر ہی آ جاتا تھا ۔ اس کے پاس میرا ناپ موجود تھا مگر وہ ہر بار اپنا فیتہ آزماتا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ میں مسلسل بڑا ہو رہا تھا۔
پرائمری پاس کرنے پر مجھے ایم سی ہائی سکول میاں چنوں میں داخل کرایا گیا ۔ مجھ سے پہلے میرے ایک بھانجے مہر احمد نواز وہاں پڑھ رہے تھے اور سکول کے بورڈنگ ہاؤس، جو تلمبہ روڈ پر ھانسی بس کمپنی کے اڈے کے مقابل تھا، میں رہائش پذیر تھے ۔ موصوف مجھ سے چار برس بڑے تھے اور شاید نویں جماعت میں تھے۔ان کے بڑے بھائی مہر حق نواز جو ان سے چار برس بڑے تھے، خانیوال کے اسلامیہ کالج میں زیرِ تعلیم تھے اور سوٹ بوٹ میں ان کی تصویریں اچھی لگتی تھیں ۔ احمد نواز بہت مستقل مزاج طالب علم تھے ۔ ایک ایک جماعت کو خوب پختہ کرتے تھے ۔ اس لیے میٹرک کا امتحان ہم نے ایک ساتھ پاس کیا لیکن اس اجمال کی تفصیل پانچ برسوں پر محیط ہے اور یہ پانچ برس ایک نئی دنیا کی طرف بڑھنے کے لیے میرا پہلا قدم تھے۔

درس گاہ – 9

پکا حاجی مجید کی آبادی ہمارے گاؤں کے مقابلے میں کافی زیادہ تھی اور گلیاں یا سڑکیں کشادہ ۔ سکول گاؤں کے ایک کونے پر تھا مگر نہ معلوم آدھی چھٹی کے وقت یہاں پھیری والے کیوں چکر نہیں لگاتے تھے ۔ شاید اس لیے کہ کھگّوں کی اپنی اولاد اس سکول میں داخل نہیں کرائی جاتی تھی مگر ایسا تو جراحی میں بھی تھا کہ سیّدوں کی نئی نسل بھی گاؤں کے سکول میں داخل نہیں کی جاتی تھی بلکہ وہ تو کسی بھی سکول میں داخلے سے مستشنی تھی ۔ ہاں پیر برکت علی شاہ کے دو پوتے ابنِ حسن اور سبطِ حسن کے بارے میں سُنا تھا کہ "لاسال” ملتان میں پڑھتے ہیں اور بورڈر ہیں ۔
پھیری والوں کی عدم دستیابی کے باعث گاؤں کے لڑکے آدھی چھٹی ہونے پر گھروں کا رخ کرتے تھے اور ہم جیسے دو چار ایلین دکانوں کا ۔ سکول سے دائیں مڑ کر پیر رحیم شاہ کے ڈیرے سے آگے دو ایک دکانیں نسبتاً قریب تھیں مگر ہم عام طور پر کشن کی دکان پر ہی جاتے تھے جو پیر سوہارے شاہ کی کوٹھی کے سامنے سے دائیں مڑ کر بائیں گلی کی بغل میں تھی ۔ اس زمانے میں تمام دیہاتی دکانوں کا ایک ہی نقشہ ہوا کرتا تھا ۔ کوٹھڑی نما کمرہ ۔پیچھے لکڑی کی شیلفوں میں ضرورت کی چیزیں سجی ہوئی ۔ بیچ میں دکاندار کی چوکی ۔ چاروں طرف ٹین کے ڈھکنے والے کنستر اجناس اور دیسی، بناسپتی گھی یا تیل سے بھرے ۔ مٹّی کے تیل کا ڈرم الگ دھرا ہوا اور زیادہ مقدار میں بکنے والی اجناس یا سوغات کی بوریاں جمی ہوئیں ۔ چوں کہ گندم یا کپاس بھی خریدی جاتی تھی ۔ اس لیے عام ترازو کے علاوہ کونے کے شہتیر کے ساتھ ایک بڑا کنڈا مستقل طور پر لٹکا ہوا ۔ بس فرق تھا تو یہ کہ کشن کی دکان کی پچھلی دیوار میں گھر کے اندر کھلنے والی ایک چھوٹی سی کھڑکی بھی تھی ۔ جہاں سے ضرورت پڑنے پر پانی یا شکر کے شربت کی ترسیل آسان تھی اور ہماری یاترا پر یہ کھڑکی ضرور کھلتی تھی۔
لباس، گفتگو، بولی ٹھولی اور شکل وصورت کے لحاظ سے کشن اور گاؤں کے دوسرے باشندوں میں کوئی فرق نہیں تھا ۔ وہ بہت دھیمے مزاج کا آدمی تھا اور ہر آنے جانے والے کا محبت اور احترام سے استقبال کرتا تھا ۔ اسے معلوم تھا کہ ہمیں کیا درکار ہو سکتا ہے ۔ سو ہماری ضرورت کی چیز ہمیں دیکھتے ہی نکال کر ہمارے حوالے کر دیتا تھا ۔ اس لیے پکّا میں پڑھنے کے دوران میں ہمیں کسی اور دکان پر جانے کی حاجت نہیں ہوئی۔
سکول کی تعطیلات کا شیڈول وہی تھا جو سارے ملک میں رائج تھا ۔ تئیس مارچ سے یکم اپریل تک موسم ِبہار کی تعطیلات، پھر نئی کلاسوں کا اجرا، سولہ جون سے اکتیس اگست تک گرمیوں اور چوبیس دسمبر سے اکتیس دسمبر تک سردیوں کی چھٹیاں ۔ ہر تہوار کی تعطیلات اس کے علاوہ تھیں ۔ حتی کہ ہندو اور سکھی تہواروں کی چھٹی بھی دی جاتی تھی ۔ گھروں میں جنتری کا ہونا لازم تھا ۔ سال کے آخری دنوں میں شہروں میں اخبار کے ہاکر جنتری کی مدح میں بھی رطب اللسان رہتے تھے ۔ میں نے اپنی زندگی کی پہلی فحش نظم "کلید ِجنّت” ایسی ہی کسی جنتری میں پڑھی تھی۔
یہ ایوب خانی مارشل لاء کا زمانہ تھا ۔ سنا تھا پاکستان ایشین ٹائیگر بن رہا ہے اور ملک میں سبز انقلاب آیا ہی چاہتا ہے مگر ہمارے علاقے اور سکول ابھی اس انقلاب کی زد میں نہیں آئے تھے ۔ ابھی اعشاری نظام بھی لاگو نہیں ہوا تھا اور اگر تھا تو ہمارے علاقے میں ابھی رائج نہیں ہوا تھا ۔ گندم دس روپے اور کپاس بیس روپے من رہی ہو گی ۔دیسی گھی کے کنستر چونگی بھر کر بکنے کو شہر بھجوائے جاتے تھے تو سولہ سیر کے کنستر کے مشکل سے نوے روپے ملتے تھے مگر یہ نوے روپے بہت معنی رکھتے تھے ۔ چاندی چھے روپے اور سونا ایک سو بیس روپے تولہ تھا اور میاں چنوں شہر میں زمین پچاس سے سو روپے مرلہ ۔ میری والدہ نے ہمارے جدّی سنارے رمضان کو گیارہ سو دیے تو اس نے میرے والد کے علم میں لائے بغیر بورا روڈ پر لائن پار بودلہ ہاؤس کے سامنے دس مرلہ جگہ لے کر رجسٹری کرا دی ۔ جس پر میرے میاں چنوں ایم سی ہائی سکول میں داخل ہونے کے بعد مکان بنایا گیا اور ہم اس گھر میں برسوں مقیم رہے۔
چوری چکاری تھی مگر مال ڈنگر کھول کر لے جانے کی حد تک ۔ گھروں کو سنھ کم ہی لگائی جاتی تھی ۔ یہ چوریاں عام طور پر پکڑی جاتی تھیں اور اس کی پشت پر کوئی نہ کوئی زمیندار ہی ہوا کرتا تھا ۔ چور تلاش کرنے کا کام کھوجی کا تھا اور ان کی نظر، باریک بینی اور قیافہ بے مثل ہوا کرتا تھا ۔ میرے والد صاحب جو لائی(سر پنچ)تھے ۔ چوری کی واردات کی تفصیل اور طریقہء کار جان کر ہی چور بتا دیا کرتے تھے بلکہ اسی وقت کسی دوست کو پیغام بھجواتے تھے کہ چور سے چوری کا مال برآمد کروا دے اور مال برآمد ہو بھی جاتا تھا ۔ بڑی چوریوں کی تلاش اور واپسی کے لیے واہریں نکلتی تھیں، جس کے راستے میں آنے والے گھر ان کی مناسب آؤ بھگت کرتے تھے ۔ یہ واہریں عام طور پر کامیاب لوٹتی تھیں اور ان کے ذریعے”بازوؤں”یعنی اغوا شدہ عورتوں کی واپسی بھی کرائی جاتی تھی مگر یہ قصّہ الگ تفصیل کا مقتضی ہے۔
میری تعطیلات گاؤں ہی میں گزرتی تھیں اور عام طور پر کھیل کود میں ۔ مجھے جب پتا چلتا تھا کہ فلاں لڑکا اپنے رشتہ داروں کے ہاں فلاں شہر یا گاؤں گیا ہے تو مجھے عجیب سی کمی کا احساس ہوتا تھا ۔ وجہ یہ کہ ہمارا کوئی رشتہ دار اس بستی سے باہر تھا ہی نہیں ۔ دادا اکلوتے تھے اور ان کے تین ہی بیٹے تھے، جن کی اولاد اس بستی میں مقیم تھی ۔ رشتوں میں بھی عجیب سی کمی کا سامنا تھا ۔ کوئی پھوپھی تھی نہ ماموں ۔ خالائیں تھیں مگر ہمارے خود کفیل ہونے تک وہاں جانے کا کبھی ذکر ہی نہیں چھڑا ۔ لے دے کر جراحی اور ترتالیس چک میں مہر پہلوان کاٹھیا کی طرف چکر لگ جاتا تھا، جو میرے بڑے بھائی کے ہم عمر تھے مگر میرے والد کے بھی اتنے ہی گہرے دوست تھے ۔ ان کے دو صاحب زادے حق نواز (حاکم علی رضا) اور ریاض تھے اور بالترتیب ہم دونوں بھائیوں کے ہم عمر اور دوست ۔ اس لیے ان کے یہاں جا کر یا ان کے آنے پر مسرت ہوتی تھی مگر یہ مسرت شام تک ہی کھینچی جا سکتی تھی کہ ہر دو مقام اتنے ہی فاصلے پر تھے کہ کھا پی کر اور گپ شپ لگا کر شام تک گھر پلٹ آئیں۔
کھیلوں میں دو اور کھیل گاگریں (کنچے) اور اخروٹ کھیلنا تھے ۔ پہلا بیٹھ کر انگلیوں سے کمان بنا کر اور دوسرے میں کھڑے ہو کر اخروٹ سے اخروٹ کا اس سلیقے سے نشانہ لگانا کہ مضروب کنچا یا اخروٹ کسی اور کنچے یا اخروٹ کے ساتھ مس نہ ہو ۔ چوٹ لگانے والے اخروٹ میں سیسہ بھر کر اسے وزنی بھی کیا جاتا تھا کہ ضرب لگانا آسان ہو ۔ مجھے سیسہ بھرنے اور نشانہ بازی میں بہت مہارت تھی اور میں نے اخروٹ اور کنچے جیت جیت کر دو کنستر بھر رکھے تھے ۔ اس میں فاصلے اور وزن کا اندازہ، نظر کی درستی اور کنچے یا اخروٹ کو درست نشانے پر پھینکنے کی بڑی اہمیت تھی ۔ مدتوں بعد جب ایک بار گورنمنٹ کالج ملتان (اب ایمرسن کالج)کے سالانہ کھیلوں کے چاٹی توڑنے کے مقابلے کی ایک ٹیم میں مجھے شامل کیا گیا تو اسی مہارت کی بنیاد پر ساری چاٹیاں توڑنے کی "سعادت” میرے حصّے میں آئی تھی۔
گرمیوں کی دوپہر میں ساری بستی پیپل کی چھاؤں میں اکٹھی ہو جاتی تھی ۔ چارپائیاں ڈال کر آرام بھی کیا جاتا تھا اور بُننے بٹنے کا کام بھی ۔ میں بھی سکول کا کام کرنے کے بعد بھائی، بہنوں، بھتیجوں اور بھانجوں یا گاؤں کے ہم عمر لڑکے لڑکیوں کے ساتھ بارہ ٹینی، نو گوٹی، اڈا کھڈا یا لڈو کھیلا کرتا ۔ پیپل کے نیچے نہری پانی کا کھال بھی تھا اور ہم نے بڑے مضبوط رسے کی پینگھ بھی ڈال رکھی تھی، جس پر لکڑی کی خاص طور پر بنوائی ہوئی چوکی جما کر پینگھ بھی جھُوٹی جاتی تھی ۔ دن اسی ہنگامے میں گزر جاتا اور رات کہانیاں سننے، پڑھنے اور تاروں سے باتیں کرنے میں ۔ گھر میں ریڈیو تھا اور گراموفون بھی مگر عجیب بات ہے کہ مجھے ان میں زیادہ رغبت نہیں تھی۔
حویلی تین حصوں میں بٹی تھی ۔ ایک ایکڑ ہمارے قبضے میں تھا جس کے آدھے حصے میں گھر اور دیوار کی مغربی سمت آدھی زمین زرعی تھی ۔ جس کے بیچ میں سے اور گھر کے باہر سے نہری پانی کا پیپل کے نیچے سے گزرنے والا کھال تھا ۔ گھر میں سولہ فٹ اونچی چھت اور دو فٹ چوڑی دیواروں والے دو پختہ کمرے، غلام گردش اور وسیع پختہ برامدے، سیڑھیوں، ممٹی اور قد ِآدم فینسی پردے کے ساتھ تھے، اسی طرح کے دو کمرے مکان کے اس حصے میں تھے جو بڑے بھائیوں کے تصرف میں تھا۔ سو چھت اور پردے مشترک تھے اور ایک ننھی فیکٹری جیسی طوالت رکھتے تھے ۔ کمروں کے سامنے صحن دو تختوں میں بٹا ہوا۔پہلا تختہ دوسرے کے مقابلے میں قدرے بلند، بیچ میں پھولوں کی باڑ اور پودے، دوسرے تختے کے اختتام پر ڈیوڑھی اور اس کی بغل میں دو نیم پختہ کمرے، کچن اور بیٹھک ۔ جہاں گرمیوں میں ریت ڈال کر کھڑکیوں پر خس کے چوکھٹے جڑ دیے جاتے تھے ۔ شہتیر پر جھالر والا پنکھا لگا تھا ۔ جسے فرش کی ریت اور خس کو پانی سے تر کرنے کے بعد ان کمروں پر سایہ کرنے والے چھوٹے پیپل کے تلے چارپائی ڈال کر کوئی نہ کوئی ملازم گھنٹوں کھینچتا رہتا تھا ۔ اسی پیپل کے تلے تندور تھا ۔ جہاں دوپہر اور رات کو خوب رونق ہوتی مگر صرف گرمیوں میں۔سردیوں میں توے کی روٹی کا رواج تھا اور شاید اس لیے کہ تب چولھے کے نزدیک رہنا زیادہ مشکل نہیں ہوتا۔
بقیہ حویلی کا آدھا حصہ میرے بھائیوں اور آدھا دو برابر حصوں میں تایا زاد بھائیوں کے پاس تھا ۔ پھر انہوں نے الگ کوٹھیاں بنا لیں تو یہ ساری حویلی ہم بھائیوں کے حصے میں آگئی اور اسے ہم نے اپنی مرضی کی شکل دی مگر یہ قصّہ بہت بعد کا ہے۔

درس گاہ – 8

سکول کا کوئی یونیفارم مقرر نہیں تھا مگر کم وبیش سبھی لڑکے پاجامہ قمیص پہن کر آتے تھے اور لڑکیاں (جو تعداد میں بہت کم تھیں) شلوار قمیص ۔ یوں عام دیہاتیوں کا لباس چادر(دھوتی) اور کُرتا تھا اور سچ پوچھیے تو اس کے پہننے میں کئی آسانیاں تھیں ۔ گھروں میں بھی اسی لباس کا رواج تھا، ہاں اس کے رنگ، کپڑا اور ڈیزائن صنفی لحاظ سے الگ ہوتے تھے ۔ ہماری بستی کی بہار قدرے الگ تھی ۔ یہاں سے ہندوؤں کے ہجرت کرنے کے بعد جو راجبوت خاندان مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے آیا تھا ۔ اُن کی عورتوں اور مردوں کا پہناوا شلوار قمیص تھا ۔ زبان ماجھی اور رسم و رواج، آرائشِ جمال اور فلاحت کے انداز پر سکھ کلچر کے اثرات نمایاں تھے۔ ان کی ایک خاتون میرے ایک تایا زاد کی بیگم اور دو خواتین میری بہن اور چھوٹے بھائی کی رضاعی ماں تھیں ۔ اس لیے ان سے بہت محبت اور احترام کا رشتہ تھا اور ہے ۔ چوں کہ ایک "شلوار قمیص” ہماری حویلی میں بھی مستقل طور پر موجود تھی سو اس کے اثرات نئی نسل خصوصاً خواتین پر بڑی شدت سے مرتب ہوئے اور ایسا ہونا فطری تھا۔
بستی بیسویں صدی کے اوائل میں بسائی گئی اور میرے دادا کے ساتھ جس کسی نے بھی بیٹھ کر”ٹاؤن پلاننگ” کی، خوب کی ۔ یہ مستطیل صورت میں بسائی گئی ۔ جنوب کی طرف ہماری حویلی تین بھائیوں کے مکانوں میں بٹی ہوئی، جس کے مغرب میں مسجد اور حویلی کے سامنے پیپل کے دو درخت جو میرے پیدا ہونے تک چھتنار ہو چکے تھے ۔ ان میں سے ایک پیپل تنے کی موٹائی اور پھیلاؤ میں اس قدر بڑا تھا کہ میں نے اپنی زندگی میں اس سے بڑا پیپل کا درخت نہیں دیکھا اور میں آج تک سوچتا ہوں کہ چِینا کے ایک ذرے برابر بیچ میں قدرت نے اتنا بڑا درخت بننے اور نمو کی اس قدر طاقت کیوں رکھّی ہے تو مجھے دھیان آتا ہے کہ یہی اصول بڑے آدمیوں پر بھی لاگو ہوتا ہے ۔ صفر سے آغاز کرنے والے ہی تاریخ ِعالم پر ان مٹ نقوش چھوڑتے ہیں اور ہمیشہ کے لیے مثال بن جاتے ہیں۔
خیر یہ تو ایک جُملہء معترضہ تھا ۔ ہماری حویلی کی پشت پر دو "محلے” تھے ۔ پہلا ایک کنال کے ایک ہی نقشے پر مشتمل دو رویہ مکانوں والا ۔ دو نیم پختہ کمرے، خوبصورت آدھ ڈھکے برآمدے کے ساتھ، پیچھے بیک یارڈ یا صحن ۔ یہ سب مکان ہندوؤں کے تھے اور تعداد میں دس یا بارہ رہے ہوں گے ۔ ان کی بغل میں ایک پختہ کمرہ جو میری ہوش میں گردوارہ کہلاتا تھا مگر حقیقت میں مندر رہا ہو گا کہ گاؤں میں سکھوں کا کبھی کوئی وجود نہیں رہا تھا ۔ ان سب مکانوں کے سامنے کھلا میدان اور اس میں پانی کے لیے چرخی والا کنواں تھا جہاں ہر وقت رونق رہتی تھی ۔ اس کے سامنے اسی طوالت اور نقشے کا شاگرد پیشہ (کمیوں) کا محلّہ مگر یہ بغیر برآمدے کے ایک نیم پختہ کمرے اور صحن پر مشتمل تھا اور اس کی پشت پر کھیت تھے ۔ ہماری حویلی کوئی دو ایکڑ پر مشتمل تھی ۔ مسجد کے بعد کھلا میدان اور ایک قطار میں لگے شیشم کے درخت، تالاب اور "مسلم کنواں” ۔ اسے میں نے مسلم کنویں کا نام اس لیے دیا کہ ہمارے گھروں کے لیے پانی یہیں سے آتا تھا اور تمام شاگرد پیشہ لوگ بھی یہیں نہاتے دھوتے تھے ۔ شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ یہ ماہل والا کنواں تھا ۔ اسے کھوپے چڑھے بیل چلاتے تھےاور اس سے کھیتوں کو پانی بھی دیا جاتا تھا ۔ گھروں میں غسل خانے تو تھے مگر ٹائلٹ ندارد سو سحر خیزی ایک عادت ہی نہیں فطری ضرورت تھی اور سحر کے وقت دور دور تک سیر کے لیے نکلنا کئی حوالوں سے سود مند تھا۔
میں اور میرے بہن بھائی ہمیشہ تلاوت کی آواز پر بیدار ہوتے تھے جو میرے والد صاحب ہر روز علی الصباح نماز پڑھنے کے بعد ایک خاص لحن میں کرنے کے عادی تھے ۔ ان کی نزدیک کی نظر یقیناً کمزور تھی کہ وہ یہ تلاوت ایک جہازی سائز کے نسخہ سے کیا کرتے تھے ۔ پھر بھی وہ کسی لفظ یا حرف کی شناخت میں شبہ کا شکار ہوتے تھے تو مجھے بلا کر لفظ کے ہجّے کر لیا کرتے تھے اور دوبارہ رواں ہو جاتے تھے ۔ اتنی سی بات سے میری گردن فخر سے اکڑ جاتی تھی اور میں اپنی کمر کو آپ ہی تھاپڑنے لگتا تھا۔
گھر میں بجلی تھی نہ اس سے چلنے والے اپلائنسز سو چولھا تین بار جلتا تھا اور ہر چیز تازہ پکائی جاتی تھی ۔ ہم ڈبل روٹی تو نہیں کھاتے تھے مگر پراٹھے کے ساتھ آملیٹ، فرائڈ اور کبھی خاگینہ ضرور بنایا جاتا تھا ۔ اس مقصد کے لیے گھر میں مرغیاں موجود تھیں ۔ کبھی ضرورت پڑنے پر بستی کے دوسرے گھروں سے بھی انڈے منگوا لیے جاتے تھے ۔ موسم آنے پر مجھے ناشتے میں سبز مرچوں والی بھنڈی کی ترکاری پسند تھی سو اسے گھر کے سامنے کی زمین پر بو لیا جاتا تھا اور میں ضرورت کے مطابق چن لایا کرتا تھا ۔ توری، کدو، کریلے، گاجر مولی، دھنیا، پودینہ، پیاز، لہسن، سونف اور بینگن وغیرہ بھی بوئے جاتے تھے اور فریش فرام دی گارڈن کچن میں آتے اور پکائے جاتے تھے ۔ ذائقے کی وہ بہار اور خدائی نعمتوں کی وہ خوشبو میرے دماغ میں رچی ہے مگر اُسے اب لائے کون اور میرے دماغ سے نکالے کون؟
ڈیرے میں اپنا اور مسجد میں اللّٰہ کا کوئی نہ کوئی مہمان ہر روز موجود ہوتا تھا ۔ ان کے کھانے اور ٹھہرنے کے لیے خاص اہتمام کیا جاتا تھا ۔ ہاتھ دھلانے کے لیے خصوصی چلمچی تھی جس پر بڑا تھال لگا تھا کہ پانی باہر نہ گرے ۔ موسم کے لحاظ سے شربت چائے بھی پیش کی جاتی تھی اور ٹھہرنے کی وجہ کم ہی پوچھی جاتی تھی ۔ کوئی کام سے آیا ہو تو کہہ دیتا تھا وگرنہ کھا پی کر اپنی راہ لیتا تھا ۔ میری تربیت میں یہ چیز شامل تھی کہ ملازم کے ساتھ مہمان کا ہاتھ منہ مَیں دھلواوں ۔ پانی میں ڈالتا تھا جب کہ تولیہ ملازم پیش کرتا تھا۔
سکول سے واپسی پر نہانا لازم تھا ۔ اس لیے کہ راستے کی دھول کھانے اور ساتھیوں کے ساتھ سر پھٹول کے بعد نہانا ضروری ہو جاتا تھا ۔ میری مشکل یہ تھی کہ میں ماں، بڑی بہن یا ملازمہ کے ہاتھوں نہانے سے چڑتا تھا ۔ آم کے درختوں کے تلے نلکے کا پانی گرمیوں میں اس قدر یخ ہوتا تھا کہ وہاں سردیوں میں نہانا زیادہ آسان محسوس ہوتا تھا ۔ اس لیے نہانا ایک مشکل کام تھا ۔ ماں اس معاملے میں رعایت کرتی تو نہانے کے حوالے سے سارے لطیفے مجھ پر صادق اتے۔
سکول کے دونوں استاد شلوار قمیص میں آتے تھے اور اچھے لگتے تھے ۔ میرے مطالعے کا سلسلہ جاری تھا اور والد یا والدہ کے ساتھ شہر جا کر کتابیں اور بچوں کے رسائل لانے کا بھی ۔ کبھی کبھار کوئی موٹر والا کھلونا بھی لے لیتا تھا مگر میری خوشی کتابیں خریدنے ہی میں تھی ۔ ایک بار "اپنا کتاب گھر” پر پینسلیں خریدنے گیا تو نہ معلوم کیوں ایک معمولی لغت بھی خرید لایا ۔ میں نے اسے دیکھنا شروع کیا تو بہت مزہ آیا ۔ میں نے ترتیب سے پڑھنا شروع کی اور کئی روز تک پڑھتا رہا اور مجھے پہلی بار معلوم ہوا کہ کہانیوں سے باہر بھی معلومات کی ایک وسیع دنیا ہے ۔ اس عمل میں مزے کی بات لفظ کے معنی دیکھنے کے بعد ان لفظوں کے معکوس معنی تلاش کرنا تھا ۔ میں ایسا کیوں کر رہا تھا معلوم نہیں مگر اس نے میرے مطالعے کے سلسلے کو اور آسان بنا دیا اور مجھے لگا کہ میں پہلے کے مقابلے میں دور تک دیکھ سکتا ہوں۔

درس گاہ – 7

پکا حاجی مجید کے سکول میں داخلے کا ایک فائدہ یہ تھا کہ کبھی کبھار سکول جاتے ہوئے یا گھر واپسی کے لیے سواری مل جاتی تھی ۔ میرے والد اور والدہ میاں چنوں شہر جانے کے لیے یہی راستہ اختیار کرتے تھے اور اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ جراحی سے گھراٹ جانے والی بینس کی سروس روڈ میں گڑھے کھدے ہونے کی وجہ سے تانگہ چلانا مشکل ہوتا تھا ۔ اگرچہ ہمارے کوچوان ممّو نے گھوڑے کو گڑھوں پر سے لہرا کر نکل جانے کی مشق کرا رکھّی تھی مگر مسئلہ اُس وقت پیش آتا تھا جب اس سڑک پر کسی کار سے سامنا ہو جاتا تھا ۔ تب کسی ایک سواری کا سڑک چھوڑنا ضروری ہو جاتا تھا اور یہ اس لیے بہت مشکل ہوتا تھا کہ سروس روڈ عام سڑک سے کم وبیش دو فٹ گہری تھی ۔ اس موقع پر سرکاری اہل کاروں سے، جو اس سڑک کو اپنی جاگیر جانتے تھے، تکرار لازمی تھی ۔ خاص طور پر جب میرے والد تانگے پر موجود نہ ہوں ۔ عام سواریاں سروس روڈ کا چناؤ نہیں کرتی تھیں مگر جس سڑک یا سڑک نما راستے پر ان کا راج تھا ۔ وہ گزوں دھول اور مٹّی سے اٹا تھا ۔ اس قدر کہ بعض جگہ پر تانگے کے پہیے آدھے سے زیادہ مٹی میں دھنس جاتے تھے اور راہ میں لگنے والے ہچکولوں سے بدن کئی کئی دن دُکھتا رہتا تھا۔
پکا حاجی مجید کی سڑک بہتر حالت میں تھی ۔ اس راہ سے تلمبہ اور میاں چنوں ایک جیسے فاصلے پر تھے یعنی گاؤں سے پورے سات میل یا گیارہ کلومیٹر اور تانگے یا سائیکل پر یہ فاصلہ ایک گھنٹے میں طے ہوتا تھا ۔ اکثر اوقات جب تانگہ ہمیں سکول اتار کر شہر کا رُخ کرتا تو پیر سوہارے شاہ شہر جانے کے لیے لفٹ لینے کو سڑک پر کھڑے ہوتے تھے ۔ بعض اوقات وہ یہ کرم فرمائی سائیکل سواروں پر بھی کرتے تھے ۔ وہ بہت بڑے زمیندار تھے اور گاڑی رکھنا ان کے لیے کوئی مشکل امر نہیں تھا ۔ مگر انہیں ان علائق سے نفور تھا۔کیوں؟ اس کی کوئی معقول وجہ میری سمجھ میں اب تک نہیں آئی ۔ ہمارے پاس ایک پرائیوٹ پشاوری تانگہ تھا ۔ نہایت اعلیٰ سسپینشن
نفیس چمڑے کی سپرنگوں والی سیٹوں اور پاؤں سے دبا کر بجانے والی پیتل کی گھنٹی والا۔سفید برّاق گھوڑا، جس کے بدن پر کہیں کوئی رنگین دھبہ نہیں تھا ۔ ہماری سواری کی پہچان تھا ۔ سو جب یہ تانگہ ہمیں سکول اتارنے یا لینے آتا تھا تو سب اسے دور سے پہچان لیا کرتے تھے۔
کتابوں اور بچوں کے رسائل سے آشنائی نے ایک مسئلہ یہ پیدا کیا کہ جسمانی کھیل کود میں میری رغبت کم کر دی اور نصابی کتابوں میں بھی ۔ دن میں تو درختوں پر چڑھنے، گلی ڈنڈا اور پٹھو گرم کھیلنے کا سلسلہ جاری رہا مگر رات لیمپ کی خُنک روشنی میں دیر تک پڑھنے کی وجہ سے اب میں چُھپن چھپائی کے ساتھیوں سے کٹ گیا تھا۔ گرمیوں میں کھانا اور سونا صحن میں ہی ہوتا تھا ۔ مچھروں سے بچنے کے لیے جالی لگی بانس کی چھڑیوں والی مچھر دانیاں لگائی جاتی تھیں ۔ لیمپ بجھانے پر لالٹین کو مدھم کر کے برآمدے میں لٹکا دیا جاتا تھا تاکہ رات کو ضرورت پڑنے پر لو بڑھا کر کام میں لائی جا سکے۔
رات پڑنے پر آسمان بہت قریب آ جاتا تھا ۔ ستارے اور ان کے سلسلے جانے پہچانے تھے اور جگہ بدلتے رہتے تھے۔ گھر کی ڈیوڑھی سے باہر پیپل کے چھتنار درخت، درخت کم اور طلسمی پہرے دار زیادہ محسوس ہوتے تھے۔درختوں کی اہمیت کئی وجہ سے تھی ۔ تحفظ کے احساس کے علاوہ چولھا جلانے کی لکڑی انہی سے عطا ہوتی تھی ۔ ہوا کے چلنے کی پہلی گواہی یہی دیتے تھے ۔ مجھے حسینی غلام سمجھا جاتا تھا، اس لیے حبس کے دنوں میں گھر والے مجھے ہوا چلنے کی دعا کرنے کو کہتے تھے ۔ تب میں پیپل کے پتوں پر نظر جما کر جو جی میں آئے بُڑبڑاتا تھا اور حیرت اس بات پر ہوتی تھی کہ میرا دل رکھنے کو ہوا چلنے بھی لگتی تھی ۔ اس کا بڑا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ ملازمین ، میری والدہ اور بہنوں کو ہمیں دستی پنکھوں سے ہوا دینے کے کام سے نجات مل جاتی تھی۔
گھر کے دروازے بھیڑے ضرور جاتے تھے مگر تالابندی کا رواج نہیں تھا ۔ حویلی کا صدر دورازہ بھی ایسی زنجیر سے بند کیا جاتا تھا ، جسے دو انگلیاں ڈال کر آسانی سے کھول لیا جاتا تھا ۔ دیر سے گھر آنے کی مناہی تھی نہ یہ پُرشش کہ اتنی دیر کہاں اور کس کے پاس گزاری ۔ میرے ایک کزن تو اپنی بیگم کے ساتھ اپنے گھر سے باہر کُھلی جگہ پر شب بسری کرتے تھے ۔ مچھردانی لگی چارپائیاں، گھڑونجی پر پانی کا گھڑا، سرہانے میز پر ریڈیو جما ہوا، پائنتی کی طرف ایک آدھ ملازمہ یا کسی بیٹے کا بستر ۔ مجال ہے جو کوئی قریب سے کھانس کر بھی گزر جائے ۔ میں وہاں بھی حاضری دیا کرتا تھا مگر کتابوں میں غرق ہونے کے بعد یہ سلسلہ بڑی حد تک موقوف ہو گیا ۔
میرے سبھی تایا زاد اور دونوں بھائی، عمر میں ہم بہن بھائیوں سے بڑے تھے ۔ وجہ یہ کہ ہم والد کی دوسری بیگم میں سے تھے اور یہ شادی انھوں نے پہلی بیگم کی وفات کے کئی برس بعد کی تھی ۔ دونوں بڑے بھائی شادی شدہ تھے ۔ بلکہ ایک کی شادی تو میری پیدائش سے دس برس قبل ہو چکی تھی اور ان کی مجھ سے نو برس بڑی ایک بیٹی بھی تھی ۔ دونوں سوتیلی بہنیں شادی کے بعد بچوں کو جنم کر فوت ہو چکی تھیں ۔ اس لیے میں وہ ماموں اور چچا تھا، جس کے کئی "بزرگ بھانجے بھتیجے” تھے۔
سو تایا زادوں اور بھائیوں سے جنریشن گیپ کا مسئلہ تھا ۔ زیادہ قربت دور یا نزدیک کے بھتیجوں اور اپنے بھائی بہنوں سے تھی اور اس سے بھی زیادہ کتابوں اور رسائل سے ۔ بچوں کے رسائل کے مطالعے سے پہلی بار مجھ پر یہ راز افشا ہوا کہ عام آدمی کی کہانی بھی لکھی جا سکتی ہے اور اس میں بھی ہماری دل چسپی کا وافر سامان ہو سکتا ہے۔
چوتھی جماعت میں پہنچا تو میرے چھوٹے بھائی کو بھی کچی پہلی جماعت میں داخل کرا دیا گیا مگر اس سے میرے معمول میں کوئی فرق نہیں آیا۔مطالعے کا سلسلہ جاری رہا۔تب تک گھر میں گرانڈک کمپنی کا گراموفون اور فلپس کا بیٹری والا ریڈیو آ گیا تھا،جسے بڑے اہتمام سے شب بسری کے لیے لگی چارپائیوں کے سرہانے میز پر سجایا جاتا تھا۔بی بی سی کی سیربین اور سیلون کی بناکا گیت مالا اہتمام سے سننے کے بعد میڈیم ویوو پر لاہور اسٹیشن لگا دیا جاتا تھا اور الم غلم جو دستیاب ہوا کرتا،بجتا رہتا تھا۔اسی رو میں میں نے اپنی زندگی کا پہلا مشاعرہ سُنا۔تب میں کوئی نو برس کا ہوں گا اور میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک دن اس ریڈیو اسٹیشن سے خود میری آواز اُڑ کر میرے والد کے کانوں تک پہنچے گی اور میرے شاعر ہونے کا راز راز نہیں رہے گا۔

درس گاہ – 6

میں پکا حاجی مجید کے پرائمری سکول میں تیسری جماعت میں داخل ہوا تو میری عمر آٹھ برس کے لگ بھگ تھی ۔ ایک بڑی بہن دس برس بڑی تھی، دوسری ڈھائی برس بڑی اور مجھ سے ڈھائی پونے تین برس چھوٹا بھائی مہر طالب حسین، جب کہ تیسری بہن کے پیدا ہونے میں ابھی دو برس کی دیر تھی ۔ طالب حسین کو ابھی سکول میں داخل نہیں کرایا گیا تھا ۔ اس لیے بستی کے ایک دو اور بچوں کے ساتھ میں اور میری منجھلی بہن ہی سکول جاتے تھے ۔ سکول نو بجے آغاز ہوتا تھا اور چُھٹّی تین بجے ہوا کرتی تھی ۔ اس لیے گھر سے سوا آٹھ بجے تک نکلنا پڑتا تھا ۔ واپسی چار بجے تک ہوتی تھی، مگرکچھ دنوں بعد ماسٹر بشیر کے پیر سوہارے شاہ کے گھر اضافی کلاس شروع کرنے پر گھر لوٹنے کا وقت گھنٹہ بھر اور بڑھ گیا ۔ یہ کلاس کیوں شروع ہوئی اور پیر صاحب کی کوٹھی کے لان یا پورچ میں کیوں ہوتی تھی ۔ یہ راز اب بھی راز ہی ہے ۔ کیوں کہ کھگّوں کے اپنے بچّے عام طور پر صادق پبلک سکول بہاولپور میں داخل کرائے جاتے تھے، جہاں وہ انگریزی پڑھتے اور میموں کے ساتھ ان کے گھروں میں رہتے تھے ۔ اس لیے شاہ صاحب کے یہاں اس کلاس کا ہونا بعید از قیاس تھا مگر یہ کلاس ہوئی اور اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ہم وہاں ان کے بنگلےکی بھول بھلیوں میں کھیل لیتے تھے ۔ کبھی کبھار پیر صاحب کے نیاز بھی حاصل ہو جاتے تھے اور مہر سجاول خاں کی اولاد ہونے کی وجہ سے شاہ صاحب اور بیگم صاحبہ ہماری آؤ بھگت بھی کرتے تھے۔

کلاس سے فارغ ہونے پر ہم سڑک کے بجائے پگڈنڈیوں اور کھیتوں میں سے گھومتے گھماتے جاتے ۔ سکول جاتے ہوئے تو سبھی بہت بیبے ہوا کرتے مگر واپسی پر ہماری جون بدل جاتی ۔ کبھی شرط بِد کر دوڑ لگ رہی ہے تو کبھی گنّے کے کھیت میں گھُسے ہیں ۔ گنّا چوسنے کے ساتھ اسی گنّے سے گتکا بھی کھیل رہے ہیں ۔ شیشم کا کوئی درخت جی کو بھا گیا تو اُس کا قد ناپے بنا آگے چلناحرام ہو جاتا ۔ یہ مقابلہ جلد ازجلد سب سے اونچی شاخ پر پہنچنےکا ہوا کرتا تھا ۔ میں دبلا پتلا اور پُھرتیلا تھا ۔ اس لیے اس مقابلے میں اکثر سُرخ رُو رہتا مگرجیت ہمیشہ میرے حصّے میں نہیں آتی تھی، خاص طور پر جب مقابلے میں گاؤں کے کسی ہم عمر ایالی(چرواہے) کو شامل کر لیاجاتا ۔ وہ لوگ درختوں کے تنوں پر زمین پر چلنے جیسی سہولت سے چلتے تھے اور یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اُن کے لیے درخت درخت نہ ہوں، ہموار سیڑھیوں والے مالے ہوں۔
واپسی کے سفر میں منہ چلانے کا کام موسم سے مشروط تھا ۔ گنا، شلجم، خربوزے، بیر، مالٹے، آم اور گاجریں جو ہاتھ آیا، ہمارے عصرانے کا حصّہ بنا ۔ کبھی چِبھڑ بھی آزما لیے جاتے تھے اور کسی نے منع کیا نہ گھر شکایت کرنے پہنچا ۔ پانی پینے کے لیے کسی نلکے اور ٹیوب ویل پر دھاوا بولا جاتا تھا ۔ سب جانتے تھے کہ ہم کون ہیں اور ہمیں بھی معلوم تھا کہ راہ میں کس کس کی زمین اور بھینیاں پڑتی ہیں ۔ کہیں کسی گھر میں زیادہ دیر رُک گئے تو شکر کے شربت سے تواضع کی جاتی تھی مگر گھر میں روح افزا کا چلن ہونے کی وجہ سے میری عادت بگڑی ہوئی تھی اور مجھے گھڑے کے شکر ملے پانی سے وحشت ہوتی تھی ۔ اس لیے میری کوشش ہوتی تھی کہ معاملہ پھل کھانے سے آگے نہ بڑھے مگر راہ میں ملنے والی مہربان صورتیں روز ہی کچھ نہ کچھ کھلا پلا کر ہی دم لیتی تھیں ۔ یہ کتنی بڑی بات تھی کہ ہم پڑھ رہے تھے اور ان سب سے الگ کسی اور دنیا کی مخلوق تھے۔
موسم کے اثرات ہماری چرنے کی عادت تک ہی محدود نہیں تھے ۔ زمین اور لینڈ سکیپ کے جمال پر بھی مرتب ہوتے تھے ۔ کبھی سرسوں پھول رہی ہے تو کبھی گندم کی سبز اور پھر سنہری بالیاں ہوا کی لہروں کے ساتھ جھوم رہی ہیں ۔ کہیں لوسن، برسیم، چری، دھان، مکئی اور باجرے کی سبز صفیں ایستادہ ہیں تو کہیں سن کی پھلیاں ہوا سے مس ہو کر جلترنگ بجا رہی ہیں ۔ کماد کے پرے جمے ہیں تو کہیں خربوزے کی بیلیں کیکر کے چھاپوں سے محفوظ کی گئی ہیں اور ان سب کے رنگ موسم کے ساتھ بدل رہے ہیں ۔ کبھی کیکر سونے کے جُھمکوں سے بھر جاتے ہیں تو کبھی کھڑکھڑاتی پھلیوں سے ۔ جنڈ پر سنگر کی بہار اور شیشم پھولنے پر رات کی رانی جیسے ننھے پھولوں کی مہک اس پر مستزاد ۔ کپاس کے پودوں کی روز بروز کایا کلپ منظر ہی کو نہیں آنکھوں کو بھی طراوت دیتی تھی اور اپنے وقت پر سفید سونے سے بھر جاتی تھی ۔ ساون بھادوں میں یہ سبھی رنگ یک جا ہو کر دھنک بن جاتے تھے جو کبھی مشرق سے اپنا دیدار دیتی تھی تو کبھی مغرب سے ۔ سُنا تھا اس پینگھ پر پریاں جھولتی ہیں مگر پریوں کو انسانی روپ سے الگ دیکھنے کی مجھے طلب نہیں تھی ۔ اس لیے میں نے اس روایت پر کبھی یقین نہیں کیا۔
گھر آ کر ہم سب کھیلنے کے لیے نکل جاتے تھے ۔ پٹھوگرم میں نر مادہ کی کوئی تفریق تھی نہ چُھپن چُھپائی میں۔کبڈی اور ککلی بالترتیب مردانہ اور زنانہ کھیل تھے اور "کہانی دربار” اپنی اپنی پسند کے ساتھیوں کے ساتھ لگایا جاتا تھا ۔ بستی میں بجلی نہیں تھی اس لیے اندھیرا ہوتے ہی گھر پلٹنا پڑتا ۔ گرمیوں میں صحن میں لالٹین ٹانگ کر چارپائیاں بچھا دی جاتیں ۔ سب چولھے کے چوکے پر بیٹھ کر رات کا کھانا کھاتے، سوائے میرے والد صاحب کے، جن کی چارپائی کے ساتھ میز لگایا جاتا ۔ انہیں سالن سرپوش میں اور روٹی نئے دستر خوان میں لپیٹ کر دی جاتی ۔ ملازمین کی کوشش ہوتی تھی کہ ان کے کھانا کھانے کے دوران میں دور رہیں ۔ بیوی اور اولاد پر ایسی کوئی قدغن نہیں تھی مگر ہم بھی ان کے استغراق کو توڑنے سے احتراز ہی کرتے تھے ۔ وہ خوش خوراک نہیں تھے بلکہ درویشی طعام کے قائل تھے مگر کھانے کے دوران میں سکون اور کسی حد تک تخلیہ کے روادار تھے ۔ کھانے سے پہلے طویل اور کھانے کے بعد شکرانے کی مختصر دُعا ان کا معمول تھی اور وہ اس پر تاحیات قائم رہے ۔
یہی وقت میرے پڑھنے کا ہوا کرتا تھا ۔ میرے سرہانے ایک تپائی پرلیمپ سجا دیا جاتا تھا اور میں سکول کے سبق کی دہرائی کے بعد الف لیلوی داستانوں میں کھو جاتا تھا مگر مجھے شہزادوں کی عدم فعالیت خوش نہیں آتی تھی ۔ مدتوں بعد اردو غزل سے معاملہ کرتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ غزل کے روایتی ہیرو کی تن آسانی، گریہ پسندی، مہجوری، مفعولیت اورطرز ِتجاوز سے پرہیز کی کچھ نسبت ہماری داستانوں کے ان معشوق مزاج شاہزادوں سے ضرور ہے۔

درس گاہ – 5

پکا حاجی مجید کے پرائمری سکول سے ملنے والی کتابوں میں زیادہ تر باتصویر کہانیاں تھیں ۔ یہ عام طور پر اسّی صفحے کی کتاب ہوا کرتی تھی ۔ دائیں صفحے پر قصّے کی عبارت اور بائیں صفحے پر اس صفحے کی مطابقت سے لکیری خاکہ ۔ اس کے لکھنے والے کئی تھے مگر مجھے ندیم صہبائی فیروز پوری کا نام اس لیے یاد ہے کہ ان کی لکھی کتابیں، جو نو لکھّا بازار لاہور سے شائع ہوتی تھیں، میں کبھی کبھار میاں چنوں شہر کا چکر لگنے پر مین بازار میں حقّے، چلم، نڑی وغیرہ اور تمباکو کی ایک دکان سے اپنے والد کی مہربانی سےخریدا کرتا تھا ۔ یہ ہر کتاب بارہ آنے کی ہوا کرتی تھی ۔ یہیں سے میں نے بچوں کی دنیا، کھلونا، پھلواڑی اور نونہال جیسے بچوں کے رسائل بھی خریدے اور ایک آدھ بار کوئی اخبار اور ڈائجسٹ بھی مگر یہ واقعہ قدرے بعد کا ہے۔
یہ سبھی کتابیں پریوں اور مظلوم شہزادیوں کے قصوں پر مشتمل تھیں اور درحقیقت مثنوی سحر البیان کی توسیع تھیں ۔ وہی شہزادے کو بارہ برس تک بھورے میں پالنا ۔ ایک دن کے غلط حساب سےمعصوم شہزادے کا بھورے سے وقت سے پہلے باہر نکلنا اور کسی پری کے ہتھے چڑھ کر پرستان پہنچ جانا ۔ پھر کسی شہزادی یا وزیر زادی کا شہزادے کی تلاش میں نکلنا ۔ جنوں بھوتوں سے مجادلے اور معجزاتی شجاعت کے مظاہرے کے بعد شہزادے کی بازیابی اور ہنسی خوشی عائلی زندگی بسر کرنا ۔ یہ تو بہت بعد میں پتا چلا کہ زندگی کی اصل کہانی تو عائلی زندگی کے آغاز کے بعد شروع ہوتی ہے اور زندگی کی تلخ کامی عشق کی حرارت کو چاٹ لیتی ہے۔
اس مختصر ذخیرے میں کچھ اسلامی حکایتیں بھی تھیں اور بچوں کی نظموں کے دو ایک مجموعے بھی مگر جو بات سبز پری یا لال شہزادی میں تھی وہ شمشیر بکف، پھریرے لہراتے، رہوار کی پشت پر اکڑ کر بیٹھے غیض مآب مجاہد میں کہاں ۔ نظمیں بھی ابھی کچھ گونگی سی تھیں اور ان دونوں نعمتوں کا وقت قدرے بعد میں آنے والا تھا۔
اس سکول میں سب کچھ تھا مگر جمال کی آئس کریم نہیں تھی ۔ وہ تلمبہ سے جراحی آتا تھا اور بعد میں ہماری بستی بھی آنے لگا تھا مگر پکا حاجی مجید سکول کے باہر کبھی دکھائی نہیں دیتا تھا اور اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ وہ میاں چنوں تلمبہ روڈ کے بجائے "ککھاں والی سڑک” استعمال کرتا ہو جو نہر کے ساتھ ساتھ چلتی ہے اور لُہار والی پُل سے جراحی کو مڑ جاتی ہے ۔ اس سڑک سے پکا حاجی مجید دور پڑتا ہے اور ایک سائیکل سوار کے لیے وہاں تک رسائی پانا مشکل ہو جاتا ہے ۔ یوں بھی ایک کپڑے میں لپٹی سیر دو سیر آئس کریم کو کتنے سکولوں میں بیچا جا سکتا تھا۔
جمال کے عدم موجودگی کے باعث ہم آدھی چھُٹّی کے وقت گاؤں کی اکلوتی دکان کا رخ کرتے ۔ یہ ایک ہندو رام کشن کی ملکیت تھی، جس نے قیام ِپاکستان کے بعد یہاں کی سکونت کو ترک نہیں کیا تھا ۔ برسوں بعد غالباً 1965ء میں اسے خُونی موڑ پر قتل کر دیا گیا (اس قصّے کے حوالے سے میری دو پنجابی کہانیاں "نکّے ہندیاں دا پیار” اور "اک ہور سنتالی” چھپ چکی ہیں). کشن کی دکان پر آئسکریم تو نہیں مگر گولیاں، ٹانگری، مرنڈے، مکھانے اور پُھلیاں مل جاتی تھیں اور ان کے گھر کی طاقچی سے میرے اور میری بہن کے لیے شربت بھی آ جاتا تھا ۔ مجھے یہ جان کر کہ اس شربت کو”ہندو پانی” سے بنایا گیا تھا، بڑی عجیب سی کیفیت کا سامنا ہوتا تھا مگر اس سے شربت کی مٹھاس میں کوئی فرق نہیں آتا تھا اور نہ پیاس کی شدت میں کمی آنے کی حقیقت میں۔
ہر سکول کی طرح اس سکول میں بھی سزا دینے کے کلاسیکل طریقے مرّوج تھے۔ مُرغا بنانا، انگلیوں میں پنسل رکھ کر دبانا، مولا بخش کا استعمال اور جہاز بنا کر دھوپ میں کھڑا کرنا۔ نالائق یا قابو نہ آنے والے طلبہ کو باہمی پٹائی کی سہولت بھی فراہم کی جاتی تھی۔ یعنی وہ ایک دوسرے کی اس وقت تک تھپڑوں سے تواضع کرتے تھے جب تک ماسٹر صاحب کا جی بھر نہیں جاتا تھا۔ اس کا ایک ہی فائدہ ہوا اور وہ یہ کہ ان طلبہ کی اکثریت بعد میں کبڈی کی کھلاڑی بنی کہ تھپڑ تھراپی کے ذریعے مخالف کی شکل بگاڑنے میں وہ پہلے ہی طاق ہو چکے تھے۔
ایک بار میرے سوا ساری کلاس کو باہمی پٹائی کی سزا دی گئی۔ مجھے حُکم ہوا کہ میں پہلے طالب علم کو پوری قوت سے تھپڑ رسید کروں اور وہ یہ عمل اگلے لڑکے پر آزمائے اور پھر یہ سلسلہ آخری طالب علم تک جاری رہے۔ یعنی اس مار سے محفوظ اگر کوئی تھا تو صرف میں۔ ماسٹر صاحب نے مجھے یہ سلسلہ آغاز کرنے کا حکم دیا تو مجھے کئی طرح کی ہچکچاہٹ کا سامنا تھا۔ ایک تو کسی بھی دوست کو تھپڑ رسید کرنا کبھی آسان نہیں ہو سکتا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ میرا ہاتھ بہت بھاری تھا اور کھیل کود میں ساتھی اس امر کی شکایت کرتے رہتے تھے اور تیسری وجہ متوقع مضروب کی آنکھوں میں لکھی التجا تھی، سو ماسٹر صاحب کے اصرار پر میرا تھپڑ ایک چٹکولی سے زیادہ نہیں تھا۔ جسے استاد نے اپنی حکم عدولی جانا اور اس طالب علم کو مجھے تھپڑ مارنے کا حکم صادر فرمایا ۔ یہ تھپڑ مجھے پوری قوت سے پڑا اور آج تک پڑ رہا ہے کہ میں اب بھی ملتجی نگاہوں کی تحریر پڑھتا ہوں اور کسی کو تھپڑ مارنے کی ہمت کم ہی جُٹا پاتا ہوں۔
یہ قصّہ میری بہن کے ذریعے میرے والد صاحب تک پہنچا ۔ وہ اگلے روز سکول آئے اور اس ماسڑ صاحب اور طالب علم کو، اپنی سواری سے اترے بغیر دو دو چابک رسید کر کے چلتے بنے۔ تب مجھے اپنے بڑے بھائیوں کے نہ پڑھنے کی وجہ سمجھ میں آئی۔ میں ڈر گیا اور میرا جی گھر جانے کو نہیں چاہتا تھا مگر وہی ماسٹر صاحب مجھے اپنے سائیکل پر بٹھا کر میرے گھر لے گئے۔کچھ دیر ڈیرے میں رُکے۔والد صاحب کے اُونچا بولنے کی آواز سنائی دیتی رہی۔ پھر مجھے بُلا کر خصوصی پیار کیا گیا اور ماسٹر صاحب گندم کا ایک گٹّو لے کر ایسے ہنستے گاتے روانہ ہوئے جیسے کسی پکنک سے گھر پلٹ رہے ہوں۔
اگلے روز سب کچھ معمول کے مطابق تھا مگر میرے دل پر پڑنے والی چوٹ اب بھی تازہ ہے۔

درس گاہ – 4

پکا حاجی مجید اور جراحی کے پرائمری سکولوں میں کوئی فرق نہیں تھا ۔ ایک جیسی عمارتیں اور وہی برآمدے کے بغیر ننگے پجنگے ڈھائی کمرے ۔ پریم اکھشر کی طرح ایک دوسرے میں دھنسے ہوئے ۔ اساتذہ کے لیے اونچی میز اور کرسیاں اور طلبہ کے لیے خواہ وہ کسی طبقے سے ہوں ۔ پٹ سن کے ٹاٹ ۔ گرد سے اٹے ہوئے، جن کی اصلی رنگت شاید اساتذہ کو بھی یاد نہیں ہو گی ۔ یہ ٹاٹ گرمیوں میں کمروں کے اندر اور سردیوں میں باہر دھوپ میں بچھا لیے جاتے تھے ۔ طلبہ کے بستے پرانے اور کبھی نئے کپڑے سے سلے جھولے ہوتے تھے، جس میں تختی کے سوا ہر چیز ٹھونس لی جاتی تھی ۔ کتابیں، سرکنڈے کے قلم، سلیٹ، اس پر لکھنے کے خصوصی چاک، کچّی سیاہی کی دوات جس میں کپڑے کی دھجی ٹھنسی ہوئی اور کسی پرانے سیل سے نکالا ہوا کاربن، تختی پر گل کاری کرنے کے لیے ۔ سب کچھ معمول کے مطابق تھا ۔ اس معمول کے جو اس طرح کے سکولوں کا حصہ ہوا کرتا ہے، جیسے سبق کا رٹا لگوانا، پہاڑوں کی گلہ پھاڑتی دہرائی، تختی لکھنا اور سلیٹ پر سوال حل کر کے ماسٹر صاحب کو دکھا کر تھوک سے معدوم کرنا مگر دو باتیں ایسی تھیں جو شاید میرے لیے انوکھی تھیں ۔ ۔پہلی یہ کہ جراحی کے برعکس یہاں طلبہ نادِ ِعلی سُناتے تھے نہ بارہ امام جو منظوم منقبت ہی کی ایک شکل تھے اور ہر بند "ان شالا امداد کریسی لال خاتون اطہر دا” پر ختم ہوتا تھا ۔ نہ ہی یا علی مدد کے نعرے کی تکرار اور دوسری بات محترم کلاس انچارج کا انڈہ نوشی سے اجتناب تھا ۔ ایک اور بات جس کا احساس مجھے بعد میں ہوا مجھ میں حرفوں کی پہچان اور مطالعہ میں روانی کا پیدا ہونا تھا ۔ اس قدر کہ جب اس سکول میں داخلے کے بعد میرے لیے کورس کی کتابیں خریدی گئیں تو حساب کے سوا باقی مکمل کورس میں نے ایک ہفتے میں پڑھ ڈالا اور پڑھا ہی نہیں اکثر چیزیں حفظ بھی ہو گئیں۔
مجھے تب تک معلوم نہیں تھا کہ جراحی، غازی پاندھا اور بستی سنپالاں کا "سرکاری مزاج” اثنا عشری شیعیت ہےاور ہم ، پکا حاجی مجید اور کوٹ برکت علی والے سُنّی ہیں ۔ ہماری بستی کی مسجد میں آبادی کم ہونے کی وجہ سے جمعہ کی نماز نہیں ہوتی تھی ۔ سو ہم ہر جمعہ کو بن ٹھن کر کوٹ برکت علی کی شاندار مسجد میں جمعہ پڑھنے جاتے تھے ۔ جہاں لاہور سے درآمد کردہ ایک علاّمہ نستعلیق اردو میں مکھنی پنجابی کا تڑکہ لگا کر وعظ دیا کرتے تھے اور مجھے ان کی گفتگو ویسا ہی مزہ دیتی تھی جیسا مزہ ماں کی سُنائی کہانی میں ہوا کرتا ہے ۔ یہ کوٹ برکت علی، لاہور بیرون موچی دروازہ کے برکت علی خاں سے منسوب ہے جو لاہور کے پہلے مئیر تھے اور جن کی وجہ ِ شہرت برکت علی اسلامیہ ہال ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم جراحی کی رسومات سے بے بہرہ تھے ۔ محرم کے آغاز پر ہمارا گھرانہ کم وبیش روزانہ جراحی جاتا تھا ۔ نوحے پڑھے جاتےتھے، مجلس سُنی جاتی تھی مگر ماتم میں ساتھ صرف سینے پر ہلکی علامتی چوٹ سے دیا جاتا تھا ۔ جراحی میں پنگھوڑے، قاسم کی مہندی اور روزِ عاشور پر قیدی بنانے کی رسم بھی ادا کی جاتی تھی ۔ خود مجھے میری ماں کی مانگی ایک منّت کو پورا کرنے کے لیے چودہ برس تک قیدی بنایا جاتا رہا مگر اس سے میرے سمیت کسی کے سُنّی ہونے کا ہرج ہوا نہ کسی پر شیعت کا رنگ چڑھا۔
بات اور طرف نکل گئی، کہنا یہ تھا کہ اس فرق کا اثر طلبہ کے مزاج پر بھی تھا ۔ یہاں طلبہ کو مذہبی حوالے سے کوئی تردد کرنے کی ضرورت نہیں تھی ۔ سکول آؤ، سبق اور پہاڑے سُناو، سلیٹ پر سوال حل کر کے دکھاو، تختی لکھو اور چلتے بنو۔
جسں کمرے میں میری جماعت بیٹھا کرتی تھی، اس کے کونے میں ایک بڑے میز پر ایک صندوق دھرا رہتا تھا ۔ مجھے ہمیشہ تجسّس رہتا کہ اس میں کون سی سوغات چھپا کر رکھّی گئی ہے ۔ پھر بڑی کلاس کے کسی بچّے نے مجھے بتایا کہ اس میں کہانیوں کی کتابیں ہیں ۔ تب تک میں چھپی ہوئی کہانی سے آ گاہ ہو چکا تھا مگر کتابی صورت میں نہیں ۔ میرے والد جب کبھی ضرورت کی کوئی چیز لینے شہر جاتے تھے تو بعض اوقات کوئی شے اخبار میں لپٹی آتی تھی ۔ اگرچہ مجھ سے بڑے دو بھائی (میرے والد کی پہلی بیگم سے) اور بھی تھے اور ان میں سے بڑے مہر نواب میٹرک تک پڑھے بھی تھے مگر وہ سرکاری ملازمت میں تھے اور عموماً گھر سے دور رہتے تھے جب کہ چھوٹے مہر مراد ان پڑھ تھے ۔ یوں بھی وہ دونوں شادی شدہ اور الگ مکان میں رہتے تھے ۔ اس لیے گھر آنے والے اخبار یا اس کے کسی ورق پر صرف میرا تصرف ہوا کرتا تھا ۔ میں اس اخبار کا ایک ایک لفظ پڑھا کرتا تھا اور اسی کوشش کے باعث میں نے شاید بچوں کے صفحے پر کوئی کہانی پڑھی تھی جو سُنی ہوئی کہانیوں جیسی دلچسپ تو نہیں تھی مگر یہ بتانے کے لیے کافی تھی کہ کہانی تحریری شکل میں بھی ہو سکتی ہے ۔ اب جب مجھے سکول میں موجود کہانیوں کی کتابوں کی مخبری ہوئی تو میں نے اُسی روز اپنے والد کو ان کتابوں تک رسائی کی درخواست پہنچا دی ۔ وہ اگلے ہی روز میرے سکول پہنچنے کے کچھ دیر بعد اپنے کمیت گھوڑے پر سوار ہو کر آئے ۔ میرے کلاس انچارج ماسٹر غلام رسول کو بلوا کر گھوڑے سے اُترے بغیر مدعا بیان کیا اور میری کارکردگی کی مختصر رپورٹ لے کر چلتے بنے ۔ اُس روز چُھٹی سے پہلے علی بابا کا وہ خزانہ اس سکول کی تاریخ میں پہلی بار کسی کے لیے کُھلا اور میں اس دنیا میں داخل ہوا جس سے باہر آنے کا کوئی دروازہ نہیں۔