Category Archives: درس گاہ

درس گاہ – 43

انہی دنوں میں ایک عجیب طرح کی مشکل کا شکار ہوا۔اچانک کھجلی شروع ہوتی اور چند لمحوں میں پورے بدن پر جگہ جگہ آبلے سے پڑ جاتے۔نابھہ روڈ کے ایک ڈاکٹر مظفر رندھاوا سے مشورہ کیا تو انہوں نے اینٹی بائٹک اور الرجی کی دوا دی مگر اس سے اتنا ہی فرق پڑتا کہ چند لمحوں کو جلن میں کچھ کمی آ جاتی۔محلّے کے حجام سے بات ہوئی تو انہوں نے شک ظاہر کیا کہ یہ کھٹمل کی کارستانی ہے۔یہ بات اس لیے بھی قرینِ قیاس تھی کہ میرے کمرے میں دھوپ آتی ہی نہیں تھی۔اگلے ہی دن دونوں چارپائیاں گلی میں سارے دن کے لیے دھوپ میں ڈالی گئیں اور سلیم شاد نےجو اوپر دوسرے فلیٹ میں رہتے تھے،دوپہر کو انہیں کپڑے دھونے والے ڈنڈے سے خوب پیٹا تو چارپائیوں کے نیچے کی جگہ سرخ کھٹملوں سے بھر گئی،جسے ہم نے پیروں سے مسلنا شروع کیا تو گلی کا وہ حصہ میرے خون ِناحق سے لال ہو گیا۔کھٹمل دیکھنے اور اس فراوانی سے دیکھنے کا یہ میرا پہلا موقع تھا۔برسوں بعد یہ اسی فراوانی سے شیخ زاید ہسپتال میں دکھائی دیے،جہاں یہ پتھر کے بنچوں پر مستانہ وار دوڑتے پھرتے تھے اور انتظامیہ کو ان سے نجات کی کوئی جلدی نہیں تھی۔
رمضان چل رہا تھا اور ہم سحری کے لیے نابھہ روڈ جاتے تھے۔دن کالج اور آوارہ گردی میں اور رات نومبر آ جانے کی وجہ سے کمرے میں گزرتی تھی۔خارش اور سوجن کا مسئلہ اب بھی تھا مگر پہلے سے کم۔ایک اور طریقۂ علاج کسی ایسے آدمی سے بدن پر ہاتھ پھروانا تھا جس نے کبھی چھپاکی مار کر اس کے خون سے ہاتھ دھوئے ہوں۔اتفاق سے یہ کارنامہ میرے والد صاحب انجام دے چکے تھے اور لوگ اس مرض کے علاج کے لیے جسے مقامی طور پر چھپاکی کہا جاتا تھا،ان سے رجوع بھی کرتے تھے مگر مجھے اس بے تکلفی کی ہمت نہیں ہوئی۔یوں بھی وہ اس کام کے لیے راضی ہوتے ہی نہیں تھے۔تبھی کسی نے مسہل لینے کا مشورہ دیا اور میں نے بلا سوچے سمجھے اسے آزما ڈالا۔حیرت انگیز طور پر اس عمل سے تکلیف اور مرض دونوں جاتے رہے مگر اب میرا دل اس کمرے سے بے زار ہو چکا تھا۔صدر صاحب نے رانی کے بھائی تک رسائی کی کوئی صورت نکال لی تھی اور شنید تھی کہ اب اُن کے ڈرائنگ روم میں پائے جاتے ہیں مگر سلیم شاد کے بقول اس عظیم کامیابی کے باوجود نامراد ہی تھے۔شاد صاحب اب ان کی بجائے میرے وفادار تھے اور اس کا سبب ان کی باہمی رقابت تھی۔مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ شاد جو فلیٹس ہی کی ایک محترمہ سے کامیاب افئیر چلا رہے تھے،رانی کے خواستگار بھی تھے اور صدر کو اپنے علاقے میں درانداز جانتے تھے۔کچھ مارلن برانڈو کی”The bed time story”جیسی کیفیت تھی اور رانی تھی کہ اُسی طرح بے نیازی سے سکول آتی جاتی تھی اور کسی پر نگاہ ِغلط انداز ڈالنے کی بھی رودار نہیں تھی۔
میں نے اپنی اور رانی کی نسبت کسی پر ظاہر نہیں کی۔صدر کی پیش رفت سے مجھے تکلیف تو تھی مگر اس سے بھی زیادہ رنج محلے کے دادا کو پہنچا اور اس کی خبر مجھے تب ہوئی جب حمام پر اس نے مجھ سے صدر کے وئیر اباوٹس کا پوچھا۔شاید میرے اندر کا غضب مجھ پر غالب آ گیا تھا کہ میں نے اس کو صدر کے گھر کا پتا دے دیا اور وہ اسی رات اسے دھمکانے اس کے گھر جا پہنچا۔مجھے پچھتاوا تو ہوا مگر اب تیر کمان سے نکل چکا تھا۔صدر نے آنا ترک نہیں کیا اور اس بارے میں مجھ سے بس سرسری سا شکوہ کیا تو میں نے اپنی ذہنی حالت کھول کر بیان کر دی اور مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ وہ پہلے ہی اس قصے سے آگاہ تھا اور اسے بتانے والا کوئی اور نہیں خود رانی تھی۔
چند روز بعد میں عید کے لیے بستی جانے کو نکلا تو شاد اور صدر
مجھے بند روڈ تک چھوڑنے آئے۔ہم نے گلی اور راستے میں تصاویر بنائیں۔تب گلی کے آخر میں کھیت شروع ہو جاتے تھے اور بند روڈ تک طرح طرح کی سبزیاں بیجی ہوئی تھیں۔ان تصاویر کا تذکرہ اس لیے ضروری ہے کہ یہ مشاق صدر سے میری آخری ملاقات تھی۔میں عید کے بعد واپس آیا تو وہ دوبارہ ترکی چلا گیا تھا اور میری کہانی سے ہمیشہ کے لیے غائب ہو گیا تھا۔سُنا تھا یہ فیصلہ اس کی ماں کا تھاجو لوگوں کے گھر پر آ کر دھمکانے کے بعد اسے لاہور میں رکھنے پر راضی نہیں تھی۔
سلیم شاد فیملی کی مالی حالت پہلے سے پتلی ہو چکی تھی۔ان کے بڑے بھائی اپنی کمپنی کی مارکیٹنگ میں ناکام رہے تھے اور شاد صاحب کو میری مصاحبت سے فرصت نہیں تھی۔حاکم اور نذر کالج میں مست تھے کہ نذر ہیلی کالج سٹوڈنٹس الیکشن میں ترقی پسندوں کی طرف سے صدارت کا امیدوار تھا۔میں بھی کبھی ہلے گلے میں شرکت کے لیے ہیلی کالج چلا جاتا تھا۔یہ الیکشن نذر نے بہت کم ووٹوں سے ہارا۔تالیف ِقلب کے لیے وہ کہیں شمالی علاقوں کی طرف نکل گیا۔وہاں جانے کس سے اور کہاں ملا کہ واپس آیا تو صوفی ہو چکا تھا۔پھر یہ مرض بڑھ کر جنون میں تبدیل ہو گیا اور وحشت اس قدر بڑھ گئی کہ الیکڑک شاکس دینے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا۔تب گھر والوں نے زنجیروں میں جکڑ کر رکھنا شروع کیا اور برسوں بعد میں نے اسے دیکھا تو یقین کرنا مشکل تھا کہ یہ شخص کبھی مباحثے کا دھنی اور ہیلی کالج جیسے ادارے میں صدر کے عہدے کا امیدوار رہا ہو گا۔
اسی رہائش پر ایک بار شکور اور ایک ہی بار گلفام صاحب ملنے آئے۔انہوں نے فون کر کے داتا دربار سےاچار منگوا رکھنے کی فرمائش کی تھی۔مجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ اچار کتنا اور کس چیز کا درکار ہے۔میں نے دربار مارکیٹ جا کر تحقیق کی تو ہر طرح کا اچار دو روپے سیر دستیاب تھا۔میں نے آٹھ طرح کے اچار مکس کرائے اور سولہ سیر کا ایک ڈھکن والا ٹین مع مزدوری کے بتیس روپے میں خرید لایا۔اگلے روز میں نے یہ اچار گلفام کی نذر کیا تو اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔تب پتا چلا کہ انہیں تو صرف دو سیر کا ایک ڈبہ چاہیے تھا۔خیر طے ہوا کہ وہ اسے جاننے والوں کو بھجوا دیں گے وگرنہ یہ نعمت دکاندار کو لوٹانا آسان نہ تھی۔

آئی کام کے امتحان سے پہلے ہی میرے یک ماہی ایف۔اے کا رزلٹ آ گیا تھا۔یہ نتیجہ میاں چنوں کے پتے پر آیا تھا اور اتفاق سے میں اس وقت وہیں موجود تھا۔میں خاصے اچھے نمبروں سے کامیاب ہوا تھا اور اس کامیابی نے ایک ہی لمحے میں میرے اندر کی اداسی اور یاسیت کو دھو ڈالا تھا۔پھر بھی ایک بات میری لیے اچبھنے کا باعث تھی اور وہ یہ کہ میرے نمبر اردو میں بہت کم تھے۔حالاں کہ وہی دو پرچے تھے جو میں نے بہت اعتماد سے حل کیے تھے۔میرا ادعا ہے کہ اردو کے استاد پرچوں پر مہر کی نگاہ کم ہی ڈالتے ہیں۔اگر انہوں نے میرے پرچوں پر نگاہ ِ غلط انداز بھی ڈالی ہوتی تو میرے نمبر ڈیڑھ گنا ضرور ہوتے۔
میرے بڑے بھائی مہر نواب کہا کرتے تھے کہ ان پڑھ امیر والدین کے بچے پڑھ جاتے ہیں کہ ان پر قدغنیں کم ہوتی ہیں اور وہ کہیں نہ کہیں سے کنی کترا کر آگے نکل ہی جاتے ہیں۔مجھے ان کی رائے سے اتفاق نہیں اور میری اور میرے بھائی بہنوں کی اولاد نے ان کے تجزیے کو باطل کر دیا ہے مگر اپنے سلسلے میں میں ان کی رائے سے متفق ہوں۔اگر ابّاجی لکھے پڑھے ہوتے تو مجھے اس نوع کے تجربے نہیں کرنے دیتے اور شاید میں کچھ بھی نہ کر پاتا مگر یہ لکھتے ہوئے اس بات کا دھیان بھی آیا ہے کہ تعلیم یافتہ ہونے کی صورت میں میرے والد میرے رجحان ِطبع کو دیکھتے اور مجھے اس شیطانی چکر میں گھرنے کی زحمت ہی نہیں کرنی پڑتی۔
کئی ماہ پہلے ہی سے میں نے ڈائری لکھنی شروع کر دی تھی۔پہلے انگریزی میں لکھی،پھر ناگفتنی کے اخفا کے لیے کچھ ایسے حروف ایجاد کیے جو کسی زبان میں مروج نہیں تھے اور صرف مجھے معلوم تھا کہ کون سا حرف کس انگریزی حرف کا متبادل ہے۔کہیں ان کی ایک کلید بھی محفوظ کی تاکہ بھول جانے پر اصل حرف تک رسائی ممکن ہو۔کچھ دیر میں نے ایجادِ بندہ رسم الخط کو اپنایا اور اس میں اس قدر مہارت ہو گئی کہ آئی۔کام کا امتحان دیتے ہوئے بعض اوقات اسی خط کا سہارا لیتا۔لکھ لینے کے بعد احساس ہوتا کہ کچھ غلط ہو گیا ہے مگر تب اصلاح کا وقت کہاں تھا اور اب اس قفل کا کھولنا بے سود ہے۔
اسی زمانے میں منٹو پارک میں بھٹو کی وہ تقریر سنی،جس میں مشرقی پاکستان جانے والے منتخب نمائندوں کی ٹانگیں توڑنے کی دھمکی دی گئی تھی۔بھاشانی کی درگت ساہیوال کے اسٹیشن پر کئی برس پہلے دیکھ چکا تھا۔شیخ مجیب الرحمٰن سے نہ معلوم کیوں نفرت کی بجائے ایک خاص طرح کی یگانگت کا احساس غالب تھا اور جی چاہتا تھا کہ جمہوریت کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے اسے حکومت کرنے کا موقع ضرور دینا چاہیے۔بھٹو سے بہت متاثر تھا مگر اس کی تقریر سے کسی غیر معمولی سانحے کے وقوع پذیر ہونے کی بُو آتی تھی۔اب سوچتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ بُو اس دور کے حکمرانوں کو کیوں نہیں آئی اور وہ کیسے آنے والے سانحے کے ادراک سے محروم رہے؟
امتحان کے بعد میں اپنا بستر بند جس میں بستر سے زیادہ کتابیں بندھی تھیں اور اٹیچی لے کر میاں چنوں چلا آیا۔اپنی چارپائیاں،میز اور کرسیاں مع کچھ آرائشی سامان کے حاکم اور نذر کو دے آیا تھا۔ایک رات پہلے رانی کو ملاقات کے لیے آنے کو کہا تھا مگر اس رات شاد صاحب میری ہی طرف ٹک گئے اور میرے لاکھ ٹالنے کے باوجود ٹلے ہی نہیں۔دراصل انہوں نے مجھے بتائے بغیر اپنی فلیٹس والی محبوبہ کو میرے کمرے میں ملاقات پر راضی کیا تھا۔مجھے معلوم ہوتا تو میں رانی کو دعوت نہیں دیتا مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی۔میں نے طے کیا کہ دستک ہونے پر دروازہ میں ہی کھولوں گا اور رانی کو کوریڈور ہی سے لوٹ جانے کو کہہ دوں گا۔اس لیے میں دروازے پر جانے کو اُتاولا رہا مگر ہوا یہ کہ دستک ہونے پر دروازہ کھولا تو باہر اندھیرے کوریڈور میں کوئی اور ہی تھا جو مجھے دیکھتے ہی تیزی سے پلٹ کر سیڑھیوں میں غائب ہو گیا اور میں اس کی صورت دیکھنے کا شرف بھی حاصل نہیں کر پایا۔ میں پلٹا ہی تھا کہ اپنی محبوبہ کی عاجلانہ واپسی کا اندازہ کر کے سلیم شاد نے لپک کر کوریڈور کی لائٹ جلا دی اور یہی وہ لمحہ تھا جب رانی میرے دروازے پر پہنچی۔تب سلیم شاد دروازے میں حق دق کھڑے تھے اور میں ان کے عقب میں اپنی شومئی قسمت پر بےحال۔اس سے پہلے کہ میں شاد صاحب کو دھکیل کر راہ بناتا۔رانی ایک ہی قلانچ بھر کر گلی میں پہنچ گئی تھی اور یہ وہ لمحہ تھا جب میں نے اسے آخری بار دیکھا۔
برسوں بعد میں اپنے سالے کے،جو کھانے کے بہت رسیا ہیں،اصرار پر کرشن نگر کی کسی مشہور حلیم کی دکان کی تلاش میں،ان کی رہنمائی میں،انہیں موٹر سائیکل پر لے کر نکلا تو وہ مجھے عارف چوک لے آئے۔حلیم کی دیگ کے پیچھے صوفی صاحب براجمان تھے جنہوں نے مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا۔گلی میں ٹینٹ لگے تھے اور لوگ آجا رہے تھے۔میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی فرمانے لگے'”اب آ گئے ہیں تو کھانا یہیں کھائیے۔آج رانی کی برات ہے۔آپ کو دیکھ کر سب کو بہت خوشی ہو گی”.
میں نے شکریے کے ساتھ معذرت کی۔ میرے موٹر سائیکل پارک کر کے دکان تک پہنچنے تک نوربھائی اپنی ضرورت کی حلیم پہلے ہی بندھوا چکے تھے۔صوفی صاحب نے لاکھ کوشش کی کہ ہمارے پیسے لوٹا دیں مگر ہم موٹر سائیکل بھگا کر نکل لیے۔شاید میں اپنے آپ سے دور بھاگ رہا تھا مگر آدمی اپنے آپ سے بھاگ کر جائے تو کہاں جائے؟
اب سوچتا ہوں اُس رات میرے کمرے میں سلیم شاد کی موجودگی اس کے اور میرے حق میں کتنی بڑی نعمت تھی۔

درس گاہ – 42

انہی دنوں میں نے حبیب جالب کو سنت نگر چوک میں جاتے دیکھا تو دوڑ کر ساتھ جا ملا اور سلام ِمحبت پیش کیا۔وہ بھی بہت محبت سے ملے۔میری اس محبت کی وجہ ایوبی دور میں ان کی عوامی شاعری بھی تھی اور ان کی کتاب’برگ ِآوارہ’بھی۔جس کی بعض نظمیں مجھے اب بھی یاد ہیں:
‘اردو ادب میں ڈھائی ہیں شاعر میرو غالب آدھا درد
اور اک نظم ہے چوہے پر حامد مدنی کا شہکار۔۔۔۔(نقّاد)
اُسے اک کھلونا لگی ہتھکڑی
مری بچّی مجھے دیکھ کر ہنس پڑی
یہ اور اس نوع کی دیگر نظموں میں متاثر کرنے کی ایک جادوئی طاقت تھی۔شاید اس لیے کہ میں خود شناسی کی منزل سے گزر رہا تھا۔مزاحمت خواہ وہ فادر فگر کے خلاف ہو،مذہب اور معاشرے سے متعلق ہو،زمانے کی استبداد سے وابستہ ہو،فکری استیصال سے منسلک ہو،میرے مزاج کا حصّہ بن رہی تھی۔تب کون سوچ سکتا تھا کہ ایک دن میں خود اس فادر فگر کی ایک ادھوری کل ہوں گا اور ماضی کی معدوم ہوتی صورت کو جسے کبھی مٹا دینے کی حسرت تھی،کہیں غیاب سے امڈ کر ورود کرنے کی آرزو میں مبتلا رہوں گا۔

مشاق احمد صدر افغانستان اور تُرکی گھوم پھر کر واپس آ گئے تھے۔اصل میں ان کے بڑے بھائی سکوارڈن لیڈر تھے اور کسی وجہ سے ترکی میں تعینات تھے بلکہ انہوں نے وہاں شادی بھی کر رکھّی تھی۔ادھر مشاق صاحب کا کام بس جوتیاں چٹخانا تھا اور یہی شغل سلیم شاد کا اور میرا بھی تھا۔اس لیے’ آ ملے ہیں سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک’جیسی صورت کا پیدا ہونا فطری تھا۔میں کالج جاتا تھا۔حاکم اور نذر سے بھی دن رات کی صحبت تھی مگر میرا زیادہ وقت صدر اور شاد کی معیت ہی میں گزر رہا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ دونوں’فُقرے’تھے اور میری مصاحبت کرتے رہتے تھے۔کھانا پینا اور فلم بینی تک میرے پلّے سے ہوتی تھی تو وہ میری آرتی کیوں نہ اُتارتے؟
رانی نے صدر کی واپسی سے پہلے ہی ان کا’خط’ مجھے واپس کر دیا تھا۔پڑھ تو پہلے بھی رکھّا تھا اور میں موصوف کی تحریر کی ادبیت اور جذبے کی شدّت سے متاثر بھی ہوا تھا مگر اسے اب پڑھنے کا مزہ ہی اور تھا۔رس کی ایک ہی پھوار نے میری سوچ کا دھارا بدل دیا تھا۔خط پڑھتے ہوئے میں پہلےجن مقامات پر دُکھی ہوا تھا،وہاں اب ہنسی آتی تھی اور کبھی کبھی طیش مگر صدر کی واپسی پر میں نے کسی ردّ ِعمل کا اظہار کیے بغیر اُس کی امانت اُسے یہ کہہ کر لوٹا دی کہ رانی نے یہ خط لینے سے انکار کر دیا تھا۔جھوٹ بولتے ہوئے مجھے یہ اطمینان تھا کہ خط لیتے ہوئے رانی کو اگر یہ علم ہوتا کہ میری حیثیت صرف پیام بر کی ہے تو وہ یقیناً یہ پلندہ وصول ہی نہیں کرتی۔

رانی کے اعتراف ِمحبت پر مجھے فخر سے پھول جانا چاہیے تھا مگر کسی باطنی کیفیت نے مجھے عجیب سے خوف میں مبتلا کر دیا۔میں آتے جاتے اور محلے میں گھومتے پھرتے ہوئے پہلے کے مقابلے میں زیادہ محتاط ہو گیا اور میرا زیادہ وقت کمرے میں گزرنے لگا۔اُن دنوں میں نے انگریزی اخبار’پاکستان ٹائمز’لگوا رکھّا تھا جس میں قلمی دوستی کا ایک کالم ہوا کرتا تھا۔میں نے مشغلے کے طور پر ڈکشنری کی مدد سے دو ایک نا کتخداؤں کو نہایت نستعلیق انگریزی میں خط لکھے کہ اپنا حال اُن سے بانٹوں مگر جواب نہایت بدخط اور بازاری اردو میں آئے اور ایسے بدمزہ کہ توبہ کرنے ہی میں بھلائی جانی۔نہ معلوم کیوں میں نے حاکم تک کو اپنے اس معاملے سے الگ رکھا حالاں کہ میں اس کے ہر فعل کا رازداں تھا اور وہ میری زندگی کے ہر پیچ و خم سے آگاہ۔ہم نےاسی دور میں بہت سی اچھی انگریزی فلمیں دیکھیں۔الزبتھ ٹیلر اور رچرڈ برٹن کی’کلو پیٹرا،ٹیمنگ دی شِرو’کے علاوہ صوفیہ لورین کی’سن فلاور’ڈیوڈ لین کی’کسنڈرا کراسنگ’کلارک گیبل کی
‘گون وڈ دی ونڈ’ اور انتھنی کوئین،عمر شریف،گریگری پیک،پیٹرو ٹول،جیری لوئس،اور دیگر بڑے اداکاروں کی بیسیوں خوبصورت فلمیں جو ایک طرح سے گورنمنٹ کالج ساہیوال کے سنیما کلب کا تسلسل تھیں مگر اب ان کے دیکھنے کا مزہ اور تھا۔میرے اور حاکم دونوں کے پاس فلموں سے ابھرنے والی جمالیاتی کیفیت سے ادغام کے لیے اپنی اپنی کہانی تھی مگر عجیب بات یہ تھی کہ میری تخئیلی صباحت کی نسبت لاہور سے نہیں تھی۔

تبھی میں نے کسی اخبار میں’دس سوالات’کے تحت قریشی گیس پیپرز اردو بازار کا اشتہار دیکھا۔کالج کے ہیڈ کلرک سے معلوم ہوا کہ عنقریب ضمنی امتحان ہونے والا ہے۔میں نے امتحان دینے کا ارادہ کیا اور لاہور بورڈ سے معلومات لیں تو پتا چلا مجھے اس مقصد کے لیے ملتان بورڈ سے این او سی کی ضرورت ہے۔میں نے سوا پانچ روپے خرچ کیے اور ملتان آ کر ایک ہی دن میں یہ کام نپٹا لیا۔اس عرصے میں مجھے باقیات ِملتان کے دو ایک خط بذریعہ آصف آئے تھے اور اُن میں فراقیہ اشعار کی بھرمار تھی مگر جب رات بھر کے قیام کے لیے میں برکت منزل پہنچا تو پتا چلا کہ دو دیوؤں نے اس خانۂ خالی کو بھر دیا ہے۔افسوس ان کامران رُستموں میں اسلم میتلا شامل نہیں تھے۔میری آمد پر میری بڑی آؤ بھگت کی گئی۔مجھے میرے ہی کمرے میں ٹھہرایا گیا۔اسلم اور طاہر فاروقی سے بھی ملاقات ہوئی مگر دعوت کے باوجود میں کسی چبارے کی سیڑھیاں چڑھا نہ کسی کو اپنے ٹھکانے کی سیڑھیاں چڑھنے دیا۔

لاہور پلٹ کر میں نے اکنامکس،سوکس اور تاریخ کی کتابیں خریدیں۔اگلے ہی روز ایف۔اے کا داخلہ بھجوایا۔قریشی گیس پیپرز منگوائے۔اپنے آپ کو ایک ماہ کے لیے کمرے میں بند کیا تاہم کالج کے معمولات کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھا۔نہ معلوم کیوں میں نے اپنی اس سرگرمی کو کسی پر ظاہر نہیں کیا سوائے سیّد وجاہت حسین کے جنہیں یہ سب بتانے کی ضرورت اس لیے آ پڑی کہ میرے کاغذات کی تصدیق انھوں نے ہی کی تھی۔میں نے دیو سماج روڈ کے ایک سکول میں پرائیویٹ طالب علم کے طور پر یہ امتحان دیا اور یہ امتحان دینے کے بعد قدرے سنجیدگی سے کامرس پڑھنے میں مگن ہو رہا،جس کے امتحان کوئی چار ماہ میں ہونے والے تھے۔

درس گاہ – 41

صوفی ٹی سٹال کی دائیں طرف تبسّم لانڈری تھی اور دو تین کریانے وغیرہ کی دکانیں۔یہ تبسّم صاحب وہی ذاتِ شریف تھے جو قریب قریب ہر فلم میں بےبی جُگنو کے نام سے ہیرو اور کبھی ہیروئن کے بچپن کا رول کیا کرتے تھے مگر اب اُن کے تسلط کا سورج گہنا رہا تھا۔وجہ یہ تھی کہ وہ بچپن کی حد سے نکل رہے تھے اور اپنی نسائی آواز اور چہرے کی ملاحت اور معصومیت ہر دو سے محروم ہو رہے تھے۔اُن کی لانڈری بڑی نہیں تھی مگر اچھی چل رہی تھی۔مستقل گاہکوں کے لیے سیکڑہ کا حساب چلتا تھا۔ہر طرح کے کپڑے دھونے کے لیے لےجاتے ہوئے گن لیےجاتے تھے۔ہر ہفتے گھر پر آ کر کپڑے لے جائے اور پہنچائےجاتے تھے۔میں نے ابھی شلوار قمیص پہننا شروع نہیں کی تھی۔دن بھر ڈریس پینٹ اور شرٹ اور سوتے وقت پاجامہ بشرٹ۔سکھ کمیونٹی کی طرح میرا تعصب بھی یہی تھا کہ شلوار قمیص عورتوں کا ملبوس ہے۔
لاہور پہنچتے ہی میں نے حاکم اور نذر کے ساتھ جا کر انارکلی سے لارنس پور سوانا خریدا تھا اور ڈیڑھ سو روپے فی کس سلائی دے کر دو تھری پیس سوٹ اسحاق اور انگلش ٹیلر انارکلی سے سلوائے تھے۔ماوزے تنگ سے متاثر ہو کر میں نے ایک سوٹ کی ویسٹ کوٹ بند گلے والی بنوائی تھی اور سردیوں میں زیادہ تر یہی سوٹ میرے زیرِ استعمال رہتا تھا۔یہی نہیں میرا ٹھکانہ دیکھنے کے لیے لاہور آنے پر ایک ٹوانہ سٹائل کوٹ(یہ کوٹ گھنٹوں تک لمبا اور قدرے گھیرے دار ہوتا تھا)اپنے ابّا جی کے لیے بھی سلوایا تھا۔یہ پیسے مجھے میری ماں سے ملے اور پہلے سے موجود بنک بیلنس کو چھیڑنے کی ضرورت نہیں پڑی۔
کون یقین کرے گا کہ ضرورت پڑنے پر چیک بیس سے پچاس روپے کے مابین لکھا جاتا تھا اور اسے معمولی رقم نہیں سمجھا جاتا تھا۔

کمرے میں ذخیرہ کرنے کے خیال سے ہم نے ٹولنٹن مارکیٹ کے شاندار سٹورز سے مختلف قسم کے جام اور شربت خرید کیے۔سٹرابیری جام شاید ہالینڈ سے بنا آتا تھا اور ومٹو بھی۔اسی مارکیٹ کی ایک بیکری میں پہلی بار ہنٹر بیف چکھنے کا موقع ملا مگر میرے اندر کے دیہاتی کو بھایا نہیں۔سچ ہے کہ ذائقے کی بھی اپنی تہذیب ہوتی ہے اور کسی خاص پکوان کی طرف آپ کا میلان تربیت اور اجتماعی نفسیات کا حصہ ہوتا ہے۔کوئی چالیس برس پہلے میرے امریکہ میں مقیم برادرِنسبتی نےوہاں کے مقبول کھانوں کے حوالے سے کے ایف سی کا ذکر کیا تو میں نے پہلا سوال یہ کیا تھا کہ اُسے کھاتے کس طرح کی روٹی کے ساتھ ہیں؟یہ بات میرے لیے حیران کن تھی کہ پیٹ بھرنے کے لیے صرف گوشت بھی کھانا ممکن ہے.

گلی کی بائیں جانب ایک ہئیر کٹنگ سیلون مع حمام تھا اور دو ایک مختلف نوعیت کے کاریگروں کی دکانیں۔سردیوں میں ہم سب کے نہانے کا ٹھکانہ یہی تھا مگر میری کوشش ہوتی تھی کہ بال میاں چنوں کے محمد منشا سے ترشواؤں جو نفیس ہیر کٹنگ سیلون کے مالک تھے اور میرے قدردان۔انہوں نے جراحی کے ادھم شاہ سے آُن کا شہر والا مکان خریدا تھا۔وہ رقم لے کر قبضے کے سلسلے میں کچھ لیت ولعل کر رہے تھے۔میرے کہنے پر کرم فرما کر قبضے سے تائب ہو گئے۔یہ دوست نوازی اور دیرینہ محبت کا احیا تھا مگر منشا صاحب نے اسے احسان جان لیا اور شہر بھر میں اُس کی تشہیر کرتے پھرے۔میرے دکان میں جانے پر وہ اپنے ہر اسیر کو یہ کتھا سُناتے تھے اور مجھے شرمندگی ہوتی تھی مگر سچ یہ ہے کہ کہیں اندر ہی اندر مجھے یہ سب اچھا بھی لگتا تھا۔اس لیے بھی کہ میرے ایک استاد میری ایف ایس میں ناکامی اور بعد کی جدوجہد سے نالاں تھے اور شہر میں جا بجا میرے حوالے سے اپنی مایوسی کا اظہار کرتے پھرتے تھے۔ایسے میں منشا کا میرے حق میں اس بلند آہنگی سے کلمہءخیر کہنا میرے لیے بڑی نعمت تھی اور شاید یہی کشش مجھے اس کی دکان پر کھینچ لے جاتی تھی۔
اب سوچتا ہوں تو وہ استاد کچھ ایسے غلط بھی نہیں تھے۔میرا مستقبل بظاہر مخدوش تھا اور اُجالے کی کوئی کرن کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی۔شاید اسی نفسیاتی تشنّج کا اثر تھا کہ اُس دور میں لکھی جانے والی میری کہانیوں کے کردار عام طور پر بی۔اے میں پڑھنے والے طالب علم ہوتے تھے۔

فلیٹس میں رہنے والے دو بھائی محمد سلیم شاد اور اشرف شاد تھے۔اشرف بڑے تھے اور کسی فارماسیوٹیکل کمپنی کے ایجنٹ تھے اور شہر شہر گھوم پھر کر دوائیں بیچتے تھے۔سلیم شاد اور ان کے ایک دوست مشتاق احمد صدر دونوں فارغ اور صرف رومانٹک ہیرو تھے اور ان کی نششت و برخاست اور طرز ِاظہار پر فلمی رنگ غالب تھا۔صدر صاحب کی اس گلی میں روزانہ جبہ سائی کی وجہ میٹرک میں زیر تعلیم ایک لڑکی رانی تھی۔یہ اوپر تلے کی چار بہنیں نہیں چار قیامتیں تھیں اور اسی گلی میں مجھ سے چند مکان آگے رہتی تھیں۔ان میں رانی سب سے چھوٹی مگر فتنہ سامانی میں اور حسن وجمال میں بھی سب سے بڑھی ہوئی تھی۔گلی میں آتے جاتے،کبھی نشست جمائےکبھی بستر لگاتے یا سمیٹتے ہم ان بہنوں کی نظر میں ہوتے تھے مگر مشاق احمد صدر کی آمد پر ان سے کبھی سامنا ہوا ہی نہیں۔ مجھ سے متعارف ہونے کے بعد صدر صاحب ہر روز میرے کمرے میں آ کر اپنا درد ِدل کہنے لگے۔خوش کلام تھے اور ان کا سامع ہونا بُرا نہ تھا مگر میں ان کی مدد کرنے سے بہرطور معذور تھا۔
پھر سُنا وہ تُرکی جا رہے ہیں۔رخصت ہونے سے پہلے انہوں نے لگ بھگ دو سو صفحات کی ایک نوٹ بُک میرے حوالے کی کہ کسی طرح میں اسے رانی تک پہنچا دوں۔یہ ایک طویل خط تھا جگہ جگہ خون آلود قلم میں بھیگا ہوا۔صدر کی منت سماجت پر میں نے رکھ تو لیا مگر سمجھ میں نہیں آتا تھا۔یہ مکتوب الیہ تک پہنچے کیسے؟
آخرِکار میں نے سکول جاتے ہوئے رانی کے تعاقب کرنے کا سلسلہ آغاز کیا۔وہ ابدالی روڈ سے سنت نگر چوک کراس کر کے ایک تنگ گلی سے ہو کر دیو سماج روڈ پر نکلتی تھی اور پرانی انارکلی کے لیڈی میکلیگن سکول جاتی تھی مگر اس تمام عرصے میں وہ اکیلی ہوتی تھی نہ مڑ کر دیکھتی تھی۔ہاں میری صبح کی سیر ضرور ہو جاتی تھی۔لیڈی میکلیگن سکول کے قریب سے میں کوئی سواری لے کر کالج چلا جاتا تھا اور اگلے روز یہ بے سود مشقت پھر دہرائی جاتی تھی۔اس سارے عرصے میں میں نے بڑھ کر فاصلے کو کم کیا نہ کبھی اُس نے احساس دلایا کہ وہ اپنے تعاقب کیے جانے کے عمل سے آگاہ ہے۔تین ماہ ہونے کو آئے تھے اور ابھی تک وہ نوٹ بک اُس تک پہنچ نہیں پائی تھی کہ ایک دن اس تنگ گلی کے آتے ہی اُس کی دوسری سہیلیاں اچانک اُسے اکیلا چھوڑ کر دائیں طرف نکلنے والی گلی میں گُھس گئیں اور وہ اکیلی ہی اپنے مقرر کردہ روٹ پر چلتی رہی۔ہمارے بیچ کافی فاصلہ تھا اور میں قدرے تیز ہوا کہ جلد اس کے قریب ہو سکوں تو میں نے دیکھا کہ اس نے اپنی رفتار بہت کم کر دی ہے۔ایک منٹ سے بھی کم وقت میں اُس کے برابر پہنچ گیا تو اس نے بغیر میری طرف دیکھے ایک ہی لفظ کہا”کہو”!
میں نے فوراً نوٹ بک اُس کے ہاتھ میں تھما دی اور مُڑ کر ایک جنونی رفتار سے واپس چل دیا۔کچھ دیر بعد مڑ کر دیکھا تو وہ گلی میں موجود نہیں تھی اور شاید دیو سماج روڈ کی طرف نکل گئی تھی۔

اُس رات’شبِ برات’تھی۔میں سارا دن باہر رہا۔رات کا کھانا کھا کر پلٹا تو صوفی کے ہوٹل پر چائے پینے کے لیے بیٹھ گیا۔گلی میں بڑی رونق تھی۔پٹاخے پھوڑے جا رہے تھے اور بچّے پُھلجھڑیاں لیے ہوا میں روشنی کے دائرے بنا رہے تھے۔لوگ گلی میں اہلے گہلے پھر رہے تھے۔میں یہ سب دیکھنے میں مست تھا کہ کسی نے حلوے کی ایک ننھی پیالی میری ناک کے سامنے لہرائی۔دیکھا تو رانی تھی اور اس کی آنکھوں میں ایک نامانوس سی چمک تھی۔
"حلوہ کھائیے”اُس نے عجب بے تکلفی سے کہا۔
"وہ خط پڑھ لیا تم نے”میں نے پیالی پکڑتے ہوئے اتنے دھیمے لہجے میں کہا کہ جسے شاید میں ہی سُن پایا ہوں گا۔
"ہاں”اس کا جواب بڑا مختصر تھا۔
"پھر؟” میں نے پہلی بار اُسے آنکھ بھر کر دیکھا
"مگر میں تو آپ سے محبت کرتی ہوں”
ابھی میں اس بات کو سمجھنے کی کوشش میں تھا کہ وہ ہوا کے جھونکے کی طرح لہرائی اور محلے کی دوسری لڑکیوں میں گُھل مِل گئی۔
حلوے کی مٹھاس اور چائے کی حلاوت کے علاوہ بھی فضا میں کچھ رس بھرا ترشح تھا جس نے مجھے صوفی کے ہوٹل کی کُرسی سے دیر تک باندھے رکّھا۔

درس گاہ – 40

کالج سے واپسی پر اُسی دن حاکم نے مجھے ساتھ لیا اور ہم سائیکل چلا کر پُرانی انارکلی کے دو ایک گھر رہائش کےلیےدیکھنےگئے۔حاکم،نذر، عامررضاخاں(اداکار یوسف خاں کے قریبی عزیز تھے)اور مجھ سمیت چار افراد کے لیے چار کمروں کا گھر کرایے پر درکار تھا مگر جو گھر ہمیں پسند آتا تھا،اس کے مالک کو ہم پسند نہیں آتےتھے اور جو لوگ ہمیں پسند کرتےتھے،ان کے مکان ہماری ضرورت کے مطابق نہیں تھے۔آخرِکار عارف شاہ سٹریٹ سنت نگر میں جو نہرو پارک سے آگے ابدالی روڈ پر چوہان سٹریٹ سے پہلے اور کرشن نگر چوک سے ترچھی نکلنے والی حیدریہ روڈ کے ادغام کے مقابل تھی اور جس کے دائیں طرف بعد میں سیّد ہاسٹل کی عمارت بنی،پانچ مرلے کا ایک مکان ملا۔ یہ مکان چوک میں گلی کا پہلا مکان تھا اور اس میں بھی تین ہی کمرے تھے مگر اسی مالک کا ایک اور مکان گلی میں ایک مکان کے فاصلے پر اور تھا،جہاں ایک کمرہ مع غسل خانے کے دستیاب تھا۔یہ گھر بھی کرایےپر چڑھانے کی غرض سے بنا تھا۔گلی کے رُخ پر اور اس کے پیچھے گزرگاہ کے رُخ پر کھلنے والا کمرہ ایک یا دو افراد کے رہنے کے لیے تھے۔ان کمروں کے سامنے گزرگاہ تھی اور صحن کے سامنے اوپر تلے چھے مختصر فلیٹس۔اویر والے فلیٹس کی سیڑھیاں بائیں جانب سے تھیں اور اس کی گزرگاہ نیچے والے فلیٹس کے برآمدے کا کام دیتی تھی۔سو کہا جا سکتا ہے کہ ان فلیٹس میں پردے کا انتظام خاصا معقول تھا۔
ہمارے مسئلے کا حل مکان اور مزید ایک کمرہ لینے میں تھا جہاں ہم میں سے کوئی ایک ٹِک جائے اور ہم نے ایسا ہی کیا۔مکان کا کرایہ ایک سو بیس روہےعلاوہ بلز اور کمرے کا کرایہ بیالیس روپے مع یوٹیلٹی بلز تھا اور اس مع کی وجہ یہ تھی کہ مکان کا بل مشترکہ آیا کرتا تھا اور اس میں سے دو چھڑےکمروں کےحصے کےچار روپے مقرر تھے۔یعنی کمرے کا اپنا کرایہ چالیس روپے تھا۔
ہم نے یہ گھر اور کمرہ لینے پر رضامندی ظاہر کی تو گھنٹہ بھر میں چابیاں ہماری جیب میں تھیں۔یہ مہینے کے آخری دن تھے۔حاکم مجھے لے کر اگلے ہی روز بانساں والا بازار گیا۔مجھے اعتراف ہے کہ بانس سے بنی چارپائی میرے لیے نئی دریافت تھی اور اس سے زیادہ بانس کی کرسیاں اور بُک ریک۔کہیں اور سے ہم نے لکڑی کی ایک میزخریدی اور دو چارپائیاں،دو کرسیاں اور ایک سٹڈی چیئر لے کر ہم اپنے سامان کے ساتھ اس گھر میں شفٹ ہو گئے۔پرانی انارکلی والے کمرے کی مالک خاتون ہمارے جانے پر کافی دُکھی تھی مگر شاید حاکم نے یہ فیصلہ میرے لیے کیا تھا اور مجھےاس اعانت کی ضرورت بھی تھی۔
حاکم اور نذر کئی برس سے ساتھ رہ رہے تھے۔اس لیے میں نے کمرے کا انتخاب کیا۔سب کچھ مرتب کرنے میں دس منٹ لگے۔پھر ہم لوگ نابھہ روڈ پر مدینہ ہوٹل پر آئے وہاں پینتالیس روپے ماہانہ پر دو وقت کےکھانےکاطےکیا اور کالج کے قریب حبیب بنک میں اکاؤنٹ کھلوا کر چھے سو روپے ان کے حوالے کیے۔تب بھی میرے پاس اتنی رقم موجود تھی کہ میں ایک سو بیس روپے میں آٹھ تصاویر بنانے والا ایک ایسا کیمرہ خرید سکوں،جس کے فریم کو اوپر سے دیکھا جائے اور تصویر کی کوالٹی بھی بے مثل ہو۔رولی فلیکس کا یہ کیمرہ میں نے نئی انارکلی کی ایک فوٹو شاپ سے خریدا اور ڈاکٹر ریاض حسین بزدارجنہیں میری والدہ نے بیٹا بنا رکھا تھا اور میں بھی اپنا بڑا بھائی جانتا تھا،کے ضبط کر لینے تک میں نے اس سے بیسیوں یادگار تصاویر بنائیں۔
حاکم والے مکان کے سامنے گلی کے دوسرے کونے میں صوفی ٹی سٹال تھا۔ہمارا ناشتا یہیں سے آتا تھا۔کبھی وہیں بیٹھ کر کھا پی لیا کبھی آواز دے کر اپنے کمرے میں منگوا لیا۔ناشتے میں آملیٹ،خاگینہ
،فرائیڈ انڈہ اور پراٹھا مل جاتا تھا اور کپ کیک اور رس بھی۔کمرے میں ناشتا صوفی کی دکان کا چھوٹا پہنچاتا تھا۔کبھی وہ موجود نہ ہوتا تو وہ اپنی نوجوان بیٹی کو بھجوا دیتا جو آتی تو میرا کمرہ بھی صاف کر جاتی۔کبھی کسی نے اعتراض کیا نہ شک۔کمرہ صاف کرنے کا کوئی معاوضہ نہیں تھا اور نہ ہی کبھی مجھے کسی معاوضے کا دھیان آیا۔اب سوچتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ اُن دنوں مجھے اس کے لڑکی ہونے کا دھیان بھی کم ہی آتا تھا۔میرا کمرہ ایسی جگہ پر تھا کہ دھوپ آتی ہی نہیں تھی۔اس لیے سردیوں میں گلی میں دفتر لگا لیتا تھا اور گرمیوں میں ہم سب رات کو باہر پنکھا لگا کر سو جاتے تھے۔کبھی کسی کو اعتراض ہوا نہ سوئے ہوؤں کی کبھی کوئی شے گم ہوئی۔
گلی میں کھلنے والے کمرے میں سیّد وجاہت حسین رہتے تھے۔آپ پنجاب یونیورسٹی میں کیمیکل انجینئرنگ کے استاد تھے اور شاید ابھی ابھی سروس میں آئے تھے۔شرمیلے،کم گو اور بہت نستعلیق آدمی تھے۔مجھ سے جلد ہی گاڑھی چھننے لگی تھی مگر گلی میں بیٹھنے اور سونے پر کبھی آمادہ نہیں ہوئے۔اُن سے اُن کے شعبے میں بھی ملاقاتیں رہیں اورجب امتحان دینے کے لیے میری اسناد کی تصدیق کی ضرورت پڑی تو یہ خدمت بھی انہوں نے انجام دی۔ہمارے بیچ ضرورت پڑنے پر پیسے کا لین دین بھی تھا مگر اس کا طریق ِکار بہت دلچسپ تھا۔ہم اس سلسلے میں آپس میں بات نہیں کرتے تھے۔ہمارے کمرے کے بیچ ایک دروازہ تھا جو دونوں طرف سے بند رکھا جاتا تھا۔ضرورت پڑنے پر اس دروازے کے نیچے سے ایک خط ہلکی سی دستک دے کر روانہ کر دیا جاتا تھا جو مطلوبہ رقم سے بھر کر لوٹ آتا تھا۔ادھار کی واپسی کا پروٹوکول بھی یہی تھا اور یہی رہا۔
اس دوران میں میں نے لاہور کو خوب گھوم پھر کر دیکھا۔کالج کے کسی دوست کو ساتھ لے کر آوارہ گردی کی جاتی۔تصاویر بنتیں۔لاہوری کھانے کھائے جاتے۔پٹھورے،پائے،چانپ اور ٹکاٹک وغیرہ اُسی زمانے میں دریافت کیے۔نہاری اور حلیم شوق سے نہیں کھاتا تھا اور دہی سے نفور کی وجہ سے پیٹھی والے لڈّو اور دہی بھلّے سے کبھی نسبت پیدا نہ ہو سکی۔مدینہ ہوٹل پر پرچی سسٹم تھا۔اس لیے بعض اوقات میرا ایک مہینہ کہیں دو مہینوں میں جا کر پورا ہوتا۔
کالج جاتا تھا مگر کامرس کے مضامین میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی۔یوں بھی پارٹ سیکنڈ کے ایڈمشن نے مشکلات پیدا کر دی تھیں کہ مضمون کی بنیادی اصطلاحات کا مجھے علم ہی نہیں تھا مگر میں کالج جانے میں بے قاعدہ نہیں تھا۔انارکلی اور مال کی کتابوں کی دکانوں پر گھومنے سے بہت سے رسائل سے آگاہ ہو گیا تھا۔فنون کے علاوہ اوراق،نئی قدریں،افکار،سیپ،حرم،زیب النسا،حور وغیرہ میرے مطالعے میں رہنے لگے تھے۔نقوش اور سویرا سے بھی آگاہی تھی مگر کم۔آداب عرض کے مدیر خالد بن حامد کو جا کر ملا تھا اور اس نے آتے رہنے کی صلاح دی تھی مگر ابھی ادیبوں سے میل ملاقات کا سلسلہ آغاز نہیں ہوا تھا۔
انہی دنوں کالج میں طلبہ کو کالج میگزین’المعیشت”کے لیے لکھنے کی دعوت دی گئی۔میں نے انگریزی میں ایک مضمونAtom and the man اور مختصر ڈرامہ Justice of the new king لکھے اور ریاض صاحب کے حوالے کر دیے۔مجھے ان کے مسترد ہونے کا سو فیصد یقین تھا مگر وہ چھپ گئے۔1970 کا سال تھا اور میں اٹھارہ برس کا ہو چکا تھا جب مجھے یہ عزت نصیب ہوئی اور مجھے لگا کہ اب میں کھل کر سانس لے سکتا ہوں۔اسی برس میری کچھ نظمیں ‘آداب عرض’میں شائع ہوئیں اور کچھ مزاحیہ تحریریں کچھ فکاہیہ رسائل میں جو اب میرے پاس محفوظ نہیں۔

درس گاہ – 39

میں گورنمنٹ کالج ساہیوال میں فرسٹ ائیر میں پڑھتا تھا کہ”برکت منزل”سے چچا(پیر برکت علی شاہ)کی جیپ چوری ہو گئی،جس کا الزام علاقے کے ایک اور زمیندار ناصر دین شاہ پر تھا مگر چچا نے مقدمہ درج کرایا نہ بظاہر کوئی اور کارروائی کی۔اُسی شام ان کی بیگم ملتان کے کسی اور زمیندار کی گاڑی پر میاں چنوں ہمارے گھر تشریف لائیں اور ابّاجی کو شاہ صاحب کا پیغام دیا کہ نئی گاڑی کے لیے پیسوں کا انتظام کریں کہ اس وقت ان کے پاس گاڑی خریدنے کے لیے رقم موجود نہیں اور وہ اس وقت تک کوٹھی سے باہر نہیں نکلیں گے جب تک اُسی رنگ اور کمپنی کی نئی گاڑی دروازے پر نہیں آجائے گی۔
ابّاجی نے ہم بھائیوں کے نام پر دس ہزار روپے فی کس حبیب بنک میں پانچ سال کے لیے فکس کر رکھے تھے۔اُن میں سے معاہدہ شکنی کے جرمانے کی کٹوتی کے بعد اٹھارہ ہزار نکلوائے گئے اور بیس ہزار روپے پورے کر کے شاہ صاحب کو بھجوائے گئے۔مجھے یاد ہے نئی ولز جیپ اس وقت 18365 روپے کی ملی اور بیس ہزار میں شاہ صاحب بڑے کرّوفر سے جراحی پہنچے تھے۔

اس دوران مزے کی بات یہ ہوئی کہ ایوّب خان کی حکومت جاتی رہی۔عنان ِحکومت "My fellow Pakistanies” سے شروع ہونے والے مختصر خطاب کے بعد یحیٰی خان نے سنبھال لی۔مارشل لا لگا تو پیر ظہور حسین قریشی کے ذریعے چچا سے مذاکرات اور صلح کی گئی اور ایک برانڈ نیو ولس جیپ برکت منزل پہنچائی گئی.مارشل لا کے دبدبے کا یہ عالم تھا کہ میاں چنوں کے ہم سب دوست جو اُس وقت ہماری بیٹھک میں گپ شپ کر رہے تھے۔اس خیال سے خوب گلے مل کر رخصت ہوئے کہ دیکھیے اگلی ملاقات کی کیا صورت ہو۔
جیپ کی واپسی کے بعد چچا دونوں جیپیں لے کر ہمارے گھر تشریف لائے اور ابّا جی کو نئی جیپ اپنے لیے رکھنے کو کہا مگر ہماری کم عمری اور اپنی کہولت کی عمر کو پہنچنے کی وجہ سے ابّا نے انکار کر دیا۔اس سے زیادہ تفصیل مجھےمعلوم نہیں مگر اتنا جانتا ہوں کہ میرے والد نے اپنے پیسے کبھی واپس نہیں مانگے۔یہی وہ زمانہ تھا جب ڈپٹی صاحب نے میرے والد کو گلبرگ لاہور میں صرف بتیس ہزار میں ایم ایم عالم روڈ سے متصل غالب مارکیٹ کی طرف گھر لینے کی صلاح دی تھی اور ابّا جی نے اسے بے مصرف جان کر خریدنے سے معذرت کر لی تھی۔

اس سے اگلے برس شاہ صاحب کے سب سے چھوٹے بیٹے مراتب علی شاہ کی شادی تھی۔جس میں میرے والد نے نیگ اور ویل کے علاوہ دو ہزار روپے کی سلامی دی تھی۔بارات شاہ صاحب کے بھائی حسن شاہ کے ہاں گئی تھی اور دولہے کا شہہ بالا یہ احقر تھا۔اس شادی میں میری ملاقات پکا حاجی مجید کے اصغر علی شاہ کھگہ سے ہوئی اور ایک ہی دن میں ہم نے دوستی کی تمام منزلیں طے کر لیں۔مجھے یاد ہے کہ بارات کے ساتھ جاتے ہوئے میں نے دولہا کے ساتھ گاڑی میں براجمان ہونے کی بجائے اصغر کے ساتھ اُس کی ہیوی بائیک (نارٹن 5ہارس پاور)پر جانا پسند کیا تھا۔دلھن کی طرف کی ساری رسموں میں شامل رہا۔دلھن کی سہیلیوں سے لین دین میں معاونت کی۔دولہا کی جوتی اور چُھری کی حفاظت کی اور اگلے روز ماں کے کہنے پر اُس کا دیا ہوا ایک جڑاؤ سونے کا سیٹ لے کر دلھن کی منہ دکھائی کی رسم ادا کرنے پہنچا مگر اس نے سامنے آنے سے انکار کر دیا اور میں سیٹ وہیں چھوڑ کر پلٹ آیا۔شاید اسی واقعے نے مجھے مراتب سے قدرے دور کر دیا اور آہستہ آہستہ وہ میرے چھوٹے بھائی کے قریب ہو گیا۔

خیر یہ تو ایک جُملہء معترضہ تھا۔اس ساری کتھا کے سُنانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ لاہور جانے سے پہلے داخلے کے انتظار کے دن میں نے اصغر شاہ اور مشتاق احمد شاہ کھگہ(بعد میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ممبر صوبائی اسمبلی پنجاب)کے ساتھ کیرم کھیل کر گزارے۔اُن دنوں اصغر شاہ ملتان اور مشتاق احمد شاہ لاہور میں پڑھ رہے تھے اور تعطیلات پر گاؤں آئے ہوئے تھے۔وہ کم وبیش روزانہ میرے ہاں آجاتے تھے۔دوپہر کا کھانا بیٹھک ہی میں کھایا جاتا تھا اور ہم طالب کو ساتھ بٹھا کر دو یا چار کھلاڑیوں کے کمبی نیشن بنا کر کھیلتے تھے۔اس سرگرمی کا فایدہ یہ ہوا کہ ہم سب اس کھیل میں مشّاق ہو گئے۔
اس کے علاوہ حق نواز کے ساتھ شام کی نور شاہ تک سیر اور گاہے بگاہے شکار پر راوی کا جانا بھی برقرار تھا۔راوی یاترا پر جاتے ہوئے چودھری دلدار حسین پاندھا کے ڈیرے پر ٹھیکی لگائی جاتی تھی۔اُن کے صاحب زادے سجّاد سے میری گُوہڑی چھنتی تھی اور اُن کے علاوہ جراحی کے سجّاد حسین شاہ سے بھی جو پیر عاشق حسین کے فرزند تھے اور ہمارے مشترک دوست۔
اسی زمانے میں مجھ پر کچھ رنگ ِمیر بھی چڑھنے لگا تھا۔کبھی چاند میں تو کوئی صورت دکھائی نہیں دی مگر کہیں دو آنکھیں مجھ پر نگراں ضرور تھیں یا شاید میں اُن کا متلاشی تھا۔میری شاعری میں ایک غیر واضح شکل اپنے خدوخال سنوارنے لگی تھی مگر میں اتنا جانتا تھا کہ ایسی کوئی صورت گردونواح میں موجود نہیں اور نہ ہی اس کی غیب سے نمود کا کوئی امکان تھا۔
اس سے قدرے پہلے میں نے اردو ڈائجسٹ میں احمد ندیم قاسمی کا تعارف پڑھا اور حرم گیٹ سے متصل بُک سٹور سے اُن کی اور فراز کی چند کتابیں خریدی تھیں۔فیص سے فرار تک گویا پانی ایک ہی دھارے میں بہہ رہا تھا۔اس لیے میں ترقی پسند ہو گیا اور یہ ٹیڑھ کسی نہ کسی رنگ میں ابھی تک میرے مزاج کا حصّہ ہے۔

ایک بار سجّاد پاندھا کی طرف گیا تو وہ اپنے عزیزوں کے ساتھ میز پر کیرم جمائے کھیلنے میں مصروف تھا۔اتفاق سے انہیں چوتھے کھلاڑی کی تلاش تھی اور وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ یہ سرگرمی میرے گھر پر روز کا معمول ہے۔یوں بھی میں نے میڑک کرنے سے پہلے ہی کیرم خرید لیا تھا اور گھر کے اندر بہن بھائیوں کے میچ بھی ہوتے رہتے تھے۔میں اچھّے کھلاڑیوں میں شمار ہوتا تھا مگر سجّاد کی دعوت پر میں نے اس کھیل سے نابلد ہونے کا تاثر دے کر انکار کر دیا۔اُس کے اصرار اورسِکھا دینےکی آفر پر بیٹھ گیا تو کیرم کھولتے ہی ایک ہی سٹروک میں پانچ گوٹیاں پاکٹ کر دیں،جسے محض اتفاق گردانا گیا۔میں نے لاکھ بُرا کھیلنے کی کوشش کی مگر میدان میں اور میرے ساتھی کے ہاتھ رہا تو میرے ساتھی کو تبدیل کر کے نیا بورڈ لگایا گیا۔نتیجہ اب بھی وہی رہا تو سجاد صاحب ون ٹو ون کا چیلنج کر کے میرے سامنے آ بیٹھے۔اب بھی جیت میری ہوئی تو وہ ہکّا بکّا رہ گئے۔فرمانے لگے”میں نے آج تک کسی شخص کو اس تیزی سے اس کھیل میں مشّاق ہوتے نہیں دیکھا”تو میں نے عرض کیا کہ میں نے بھی کوئی ایسی کرامت نہیں دکھائی۔یہ صرف اس لیے ممکن ہوا ہے کہ میں یہ کھیل کئی برسوں سے کھیل رہا ہوں اور آپ نے بغیر تحقیق کیے مجھے اناڑی سمجھ لیا۔حالاں کہ آپ کو پہلے ہی سٹروک میں سمجھ لینا چاہیے تھا کہ پانچ گوٹیاں پاکٹ کیوں ہوئیں۔
یہ تین ماہ یا اس سے زیادہ کچھ عرصہ میں نے بستی اور میاں چنوں میں گزارا۔پھر حاکم داخلے آغاز ہونے کی خبر لے کر پہنچا۔ساتھ ہی اُس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ داخلہ آئی کام پارٹ سیکنڈ میں ہو گا تاکہ میری سٹڈی کا ایک سال بچایا جا سکے۔ماں باپ نے مجھے ایک ہزار روپے دے کر رخصت کیا۔میرے سامان میں ایک بستر بند اور ایک سیمسونائیٹ کا اٹیچی تھا جو میں نے حرم گیٹ بازار ملتان سے خریدا تھا۔لاہور پہنچنے پر رات ہم ہیلی کالج کے سامنے ایک گلی میں ٹھہرے۔یہ کمرہ حاکم اور نذر کے پاس کرایے پر تھا۔کھانا نابھہ روڈ کے مدینہ ہوٹل سے کھایا گیا جہاں ان دونوں کا حساب چلتا تھا۔صبح کوئینز روڈ پر گنگا رام ہسپتال سے ذرا آگےایک کوٹھی میں واقع اسلامیہ کالج آف کامرس پہنچے۔اس قدر نحیف اور مختصر کالج دیکھنے کا یہ میرا پہلا اتفاق تھا۔بہت مایوسی ہوئی مگر اب لوٹ جانے کی کوئی صورت نہیں تھی۔اُس وقت اس کالج کے پرنسپل رانا شبیر احمد اور ہیڈ کلرک شبیر احمد شاہ تھے جو ایسی آواز کے مالک تھے کہ اوٹ سے اُن کی آواز سننے پر اُن پر عورت ہونے کا قوی گمان گزرتا تھا مگر تھے کمال کے آدمی۔داخلہ ہونے میں چند منٹ لگے اور میں پہلے ہی روز کلاس میں جا بیٹھا۔یہ انگریزی کی کلاس تھی اور پروفیسر صاحب کا نام ریاض حسین تھا۔میری انگریزی اگر اچھی نہیں تھی تو بُری بھی نہیں تھی۔یوں بھی یہ مضمون میں ایف ایس سی میں کلئیر کر چکا تھا۔اردو کے استاد پروفیسر محمد ادریس تھے۔بہت برسوں بعد پتا چلا کہ وہ نقّاد ہیں اور سجّاد حارث کے قلمی نام سے لکھتے ہیں۔ان کی دو معروف کتابیں "ادب اور جدلیاتی عمل ” اور ” ادب اور ریڈیکل جدیدیت”تھیں۔وہاں بھی خیریت ہی گزری۔خرابی تو پرنسپل آف اکاؤنٹنگ کے پیریڈ میں ہوئی،جس کا نام ہی میں پہلی بار سُن رہا تھا مگر یہ خرابی کیمسٹری اور ریاضی کی خرابی کے مقابلے میں بہرحال فروتر تھی۔

درس گاہ – 38

ملتان سے وداع ہونے کا وقت آ گیا تھا مگر اُس روز میاں چنوں کے لیے نکلتے ہوئے میں ابھی کسی فیصلے پر نہیں پہنچا تھا۔غالب خیال یہی تھا کہ دو ایک روز شہر اور گاؤں میں رہ کر واپس آ جاؤں گا اور "ماموں” کو ماموں بناؤں گا مگر جب میں گھر پہنچا اور ماں سے اپنی صحت کا خیال نہ رکھنے پر ڈانٹ سہہ چکا تو اُسی شام لاہور سے حاکم علی رضا ملنےچلے آئے۔یہ ملاقات طے شدہ نہیں تھی اور وہ میاں چنوں آ کر اتفاقا ً ادھر چلے آئےتھے،گو اُن دنوں ہماری خط کتابت زوروں پر تھی اور میں اُن کی داستان ِعشق کا مستقل قاری تھا۔وہ اپنے ہر خط میں”پیاسا”کے گرودت محسوس ہوتے تھے ۔لاہور کے ماہر عکس پردازوں سے نہایت یاسیت زدہ تصویریں کھنچوا کر بھیجتے تھے اور مجھے حیرت ہوتی تھی کہ بیوی کے ہوتے ہوئے کوئی کسی لڑکی کے لیے ایسا پاگل بھی ہو سکتا ہے؟
حاکم سے دوستی مجھے ورثے میں ملی تھی۔میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ اُن کے والد میرے والد اور بڑے بھائی مہر نواب کے بیک وقت دوست تھے۔وہ جب کبھی کسی کام سے یا ویسے ہی ملنے کو بستی آتے تھے۔میاں چنوں سے ہو کر آتے تھے اور نہایت اعلیٰ درجے کا گوشت اور ترکاری پکڑے آتے تھے۔اُن کو گوشت کی اس قدر پہچان تھی کہ سیخ کباب کھاتے ہوئے بتا دیتے تھے کہ اس میں کس جانور کے کس حصے کا گوشت استعمال ہوا ہے۔اس کا دو ایک بار میں نے خود امتحان لیا اور کباںیے نے حیرت انگیز طور پر اُن کی تجزیے کی تائید کی۔شاید یہی وجہ تھی کہ شادی بیاہ کے موقع پر بکرے خریدنے سے لے کر کھانا پکوانے تک کی ذمہ داری اُن کے سر ہوتی تھی اور تقسیم کی میرے بھائی مہر مراد کے،جو کفایت شعاری میں اس حد کو پہنچے ہوئے تھے کہ دوسری بار سالن مانگنے والوں سے ضرور پوچھ لیتے تھے کہ بھئی کیوں اور کس لیے؟
تواضع کی یہ صفت حاکم اور اس کے چھوٹے بھائی ریاض میں بھی تھی اور ان کا آنا سب کو اچھّا لگتا تھا۔اس بار حاکم کا اتفاقی پھیرا اس لیے بھی خوش کُن تھا کہ اب اسے سُنانے کو میرے پاس بھی اک کہانی تھی۔سب سے مل جل کر ہم الگ ہو بیٹھے تو ہم دونوں نے اپنی کہانیوں کا تبادلہ کیا۔
ہماری پچھلی ملاقات کے بیچ ایک واقعہ ایسا پیش آیا تھا کہ جس کے باعث موصوف کو مجھ سے معمولی سا گلہ تھا کہ موصوف کی محبوبہ میرے موسمی بخار کی خبر پا کر عیادت کے لیے میرے گھر دوڑی آئی تھی اور اپنی بڑی بہن کے استفسار پر اپنی جان بچانے کے لیے میں نے کہہ دیا کہ وہ حاکم کی بیگم ہیں۔تب مجھے اس بات کا خیال ہی نہیں رہا کہ میری بہن اور ماں نہ صرف حاکم کی بیگم کو جانتی ہیں بلکہ متعدد بار مل بھی چکی ہیں۔
مگر حاکم کی آمد پر گھر کے کسی فرد نے اس مسئلے کو نہیں چھیڑا اور نہ چھیڑنے کی وجہ شاید یہ تھی کہ اس بلا کو وہ مجھ سے منسوب جانتے تھے۔اُن دنوں میری بڑی بہن کے مجھ پر عدم اعتماد کی کیفیت یہ تھی کہ عیادت کے واقعے کے بعد ایک بار جب ہم دوست ہنسی مذاق میں لاڈو کی کوئی بات کر بیٹھے تو میری بہن کو اُس وقت تک ہم سب پر شک ہی رہا،جب تک وہ لاڈو سے مل نہیں لیں جو ہمارے ہی ایک دوست کا اُس کی عدم موجودگی میں لیا جانے والا صفاتی نام تھا۔
سب اچھا محسوس کرنے پر حاکم نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں ملتان کی بلاؤں میں خود بھی دلچسپی رکھتا ہوں۔میرے پاس اس کا کوئی واضح جواب نہیں تھا مگر میں نے یہ ضرور واضح کر دیا کہ میں اب ایف ایس سی کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا اور ممکن ہو تو اس کا کوئی حل نکالا جائے۔اُن دنوں حاکم اور نذر اسلامیہ کالج آف کامرس لاہور سے آئی کام کرنے کے بعد ہیلی کالج آف کامرس میں بی کام میں پڑھ رہے تھے سو حاکم نے مجھے فوراً آئی کام میں داخلے کی صلاح دی اور اس سلسلے میں میرے والد سے بات کر کے مجھے لاہور لے جانے کا ذِمّہ بھی اُٹھایا تو میں نے بلا سوچے سمجھے اس کی تجویز پر لبیک کہا۔
حاکم نے اگلے ہی روز میرے ابّاجی سے بات کی اور مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ دیرینہ تعلق کی وجہ سے میرے والد اُسے میرے سب دوستوں میں افضل جانتے تھے۔وہ ذرا سی پس وپیش کے بعد راضی ہو گئے اور میں اگلے ہی روز ملتان جا کر اپنا بوریا بستر لے آیا۔

درس گاہ – 37

اس دوران میں انٹر کے امتحان شروع ہو گئے اور گورنمنٹ کالج بوسن روڈ کو امتحانی مرکز ٹھہرایا گیا۔میں نے یہ مرحلہ سائیکل چلا کر طے کیا۔سوالیہ پرچہ دیکھ کر ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ ہفت خواں مجھ سے طے ہونے والا نہیں۔میں نے تمام سوالوں کے جواب دیے ضرور مگر وہ جواب ممتحن کی سمجھ میں آنے والے نہیں تھے۔

ملتان سے میرا جی اب اُچاٹ ہونے لگا تھا۔وہاں ہونا ایک لایعنی مشقّت تھی۔اس میں کوئی رنگینی تھی تو طاہر فاروقی اور اسلم میتلا کی شاعری کی وجہ سے یا اُن دُبلی اور بالی عمریا چڑیلوں کی وجہ سے مگر اب تک میری ملاقات صرف گِٹّو(یہ نام ہماری ٹولی کا عنایت کردہ تھا )سے ہوئی تھی۔تاہم اُس کی بڑی بہن کو میں اب پہچاننے لگا تھا کہ کسی کشف سے اُسے نامہ بر کے ناقابلِ اعتبار ہونے کی خبر ہو گئی تھی اور وہ گلی میں میرے آنے جانے کے وقت کہیں غائب سے ورود کر کے دو ایک جملوں کا تبادلہ کر لیتی تھی۔دونوں بہنوں کے قد کاٹھ،جاذبیت اور طراری میں کوئی فرق تھا تو بس اتنا کہ بڑی پاس سے گزرتے ہوئے کبھی کوئی عشقیہ شعر بھی اُچھال جاتی تھی اور ادھر اپنا حال یہ تھا کہ ساحر کی”آپ بے وجہ پریشان سی کیوں ہیں مادام؟” اور فیض کی”مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ”کے سوا زبان پر کچھ چڑھتا ہی نہیں تھا۔

اسلم میتلا کے مکان سے اُن کی باخبری میں کوئی گہرا راز پنہاں نہیں تھا۔میتلے وہاں برسوں سے رہ/آ جا رہے تھے اور لڑکیاں اُسی محلّے میں بڑی ہوئی تھیں اور بچپن سے اس گھر میں آیا جایا کرتی تھیں۔

آخر ِکار میں نے ملتان چھوڑنے اور تعلیم کو الوداع کہہ کر گاؤں آنے کا فیصلہ کیا اور طے کیا کہ دونوں چُڑیلوں سے الوداعی ملاقات کی جائے.سو میں نے اسلم سے اس ضمن میں بات کی۔وہ میرا ہم رنگ اور گُٹھے وجود کا کڑیل جوان تھا مگر میری بات سُن کر حواس باختہ ہو گیا اور اس کا سبب کسی نوعیت کا خوف نہیں،صدمہ تھا۔
نہایت رُندھی ہوئی آواز میں اٹک اٹک کر اُس نے بتایا کہ وہ گِٹّو کے عشق میں مبتلا ہے مگر وہ اس کی بات سُنتی ہی نہیں۔پھر بھی اگر میں اُسے اُس کے یہاں بُلانا چاہوں تو اُسے کوئی اعتراض نہیں۔

اسلم کے مکان میں ورق کُوٹنے والوں اور داخلے کے دروازے کے بیچ برآمدے میں بھاری چِک پڑی تھیں۔اس لیے آنے جانے والوں کے لیے پردے کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔میں نے نامہ بر کو اور نامہ بر کا سہارا لیے بغیر بڑی کو گلی میں سامنا ہونے پر ایک ہی دن اور ایک ہی وقت پر اسلم کے ہاں پہنچنے کو کہا اور ضروری انتظامات کے لیے اس کی اطلاع اسلم کو بھی کر دی۔
میرے ارادے اگر نیک نہیں تو بُرے بھی نہیں تھے۔گِٹّو کے آنے کی صورت میں میرا ارادہ اُسے سمجھا بُجھا کر اُس کا”ہاتھ”اسلم کے ہاتھ میں دینے کا تھا اور”حسینہ”کی پہلے آمد کی صورت میں گِٹّو کو اختلاط کا منظر دکھا کر بددل کرنے کا۔
میں وقت ِمقررہ پر اسلم کی طرف پہنچا تو اس نے آنکھ کے اشارے سے مجھے کمرے میں جانے کو کہا۔یہ کمرہ دو کمروں کے بیچ میں تھا اور دروازہ کھولتے ہی میں نے حسینہ کو دروازے کی طرف منہ کیے بیڈ پر بیٹھے دیکھا۔اُس نے نقاب اُلٹ رکھّا تھا مگر وہ ابھی برقعے میں تھی اور ایک پاؤں سے فرش کو دھیرے دھیرے کرید رہی تھی۔
میں اندر داخل ہوا تو وہ کچھ مضطرب سی ہو کر کھڑی ہوگئی مگر میرے بیٹھے رہنے کا اشارہ سمجھ کر دوبارہ بیٹھ گئی۔
میں بڑھ کر ساتھ جا بیٹھا اور یوں ہی بات شروع کرنے کو کہا:”کیسی ہو؟”
"بُری!”
جواب میری توقع کے برعکس تھا۔
"کیوں؟”… شاید پوچھنا ضروری ہو گیا تھا۔
"آپ میری بات مانتے ہی نہیں۔میں نے گھر آنے کو کہا۔آپ آئے ہی نہیں اور اس چھنال گِٹّو سے مل لیے”.
"گھر کیسے آتا؟پکڑا جاتا تو دونوں جان سے جاتے اور تمہاری بہن نے تمہارے ساتھ دھوکا کیا تھا”.
"وہ ایسی ہی ہے مگر آپ کو اُسے نکال باہر کرنا چاہیے تھا”
"یہ غلطی ضرور ہوئی مگر ہمارے بیچ ایسا کچھ نہیں ہے”
"اچھّا ٹھیک ہے۔اب بلاؤں تو چلے آئیے گا۔میرا کمرہ سیڑھیوں کی دائیں طرف ہے۔ابّا پان کی دُکان کرتے ہیں اور رات دو بجے تک آتے ہیں۔امّاں کو سب معلوم ہے،اُسے اعتراض نہیں ہوگا”.
"اچّھا دیکھوں گا”میں نے کہا اور سوچنے لگا کہ اب اگلا قدم کیا ہو کہ برآمدے میں ہلکی سی چاپ سنائی دی۔مجھے یقین تھا گِٹّو ہو گی۔معلوم نہیں کیا کرنا چاہیے تھا مگر چاپ دروازے تک آئی تو میں نے ایک اضطراری کیفیت میں حسینہ کو برقعے سمیت اپنی آغوش میں لے لیا۔شاید میں گِٹّو کو اختلاط کا یہ منظر دیکھا کر صدمہ پہچانے کی کوشش میں تھا۔
مگر آنے والا گِٹّو نہیں۔لڑکیوں کا ماموں اور محلّے کا وہی نمبردار تھا،جس کے شر سے بچنے کے لیے میں نے اسلم کا احسان اُٹھایا تھا۔
مجھے یہ سمجھنے میں ایک ہی پل لگا کہ میری کہانی کا یہ انجام اسلم کا سوچا ہوا ہے۔کمرے میں ہلکی سی تاریکی تھی مگر اتنی زیادہ بھی نہیں کہ وہ دو ہم آغوش وجودوں کو الگ ہوتا نہ دیکھ سکتا۔ایک لمحہ ٹھٹھک کر اُس نے باہر کی راہ لی۔لڑکی کب نکلی اور عنقا ہوئی،مجھے خبر ہی نہیں ہو پائی۔میں اُلجھے ہوئے دماغ کے ساتھ اُٹھا اور پچاس گز کے فاصلے پر واقع "برکت منزل”چلا آیا۔اسلم کے مکان میں ورق کُوٹے جا رہے تھے مگر وہ ہتھوڑے مجھے اپنے سر پر بجتے محسوس ہو رہے تھے۔
مجھے طوفان کے جلد آنے کی توقّع تھی اور ایسا ہی ہوا۔
کچھ دیر بعد گیٹ دھڑدھڑانے پر سینا نے دروازہ کھولا تو باہر ماموں کھڑے دکھائی دیے۔مجھے محّلے کے لونڈوں لپاڈوں کے اُس کے ساتھ ہونے کی توقّع تھی مگر”ماموں صاحب”اکیلے ہی تھے۔
سینا نے انہیں میرے کمرے کی طرف روانہ کیا تو میں سر پر پڑی ہر مصیبت سہنے کے لیے سنبھل کر بیٹھ گیا۔معلوم نہیں اُس وقت میرے دوست اپنے شیش محل میں تھے یا نہیں؟
میں پلنگ پر بیٹھا تھا،بیٹھا رہا۔ماموں آ کر کُرسی پر بیٹھ گئے۔
کچھ دیر خاموشی رہی۔
"آج سب ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا”وہ گویا ہوئے
میں نے چُپ رہنا ہی بہتر سمجھا.
"آپ بڑے آدمی ہیں مگر یہ بہت زیادتی ہے۔ہماری بھی کوئی عزّت ہے”وہ پھر گویا ہوئے۔
میں نے خاموشی کو برقرار رکھنا مناسب جانا۔
"دیکھیے اگر آپ کا لونڈیا پر دل آ گیا تھا تو مجھے بتاتے۔میں آپ کو یہیں کوٹھی پر لا دیتا۔پر یہ آپ نے اچھّا نہیں کیا”.
یہ سُننا تھا کہ میں نے اپنے آپ کو آک کے پھول کی طرح ہلکا پھلکا اور ہوا میں تیرتا محسوس کیا مگر کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں کہوں تو کیا کہوں؟
"آپ کو معلوم ہے۔آج شاہ شمس کا میلہ لگا ہے؟”میں نے ماموں کو کہتے سُنا۔
"جی”
"تو کیوں نہ ہم ایک ساتھ میلہ گھومنے چلیں”.
"نہیں!میں گھر پر رہوں گا”۔میں نے کہا۔شاید مجھے اس دعوت سے خطرے کی بُو آ رہی تھی۔
"تو تیس روپے دے دیجیے تا کہ ہم میلہ گھوم آئیں.”
میرے پاس تیس روپے نہ دینے کی کوئی وجہ نہیں تھی مگر اس ملاقات کا صدمہ اسلم کے پہنچائے صدمے سے بڑا تھا۔

درس گاہ – 36

ملتان میں قیام کو چھے ماہ ہونے کو تھے۔کالج جاتا تھا مگر ابھی تک ایف ایس سی میں اٹکے ہونے کے باعث تھرڈ ائیر کی پڑھائی میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی۔کالج آنے جانے میں باقاعدگی تھی نہ ہی کبھی کسی نے اس سلسلے میں خلل آنے پر تادیب کی تھی۔عجیب بددلی کی فضا تھی اور میں اس سے نکل پانے کی راہ تلاش نہیں کر پا رہا تھا۔
اسلم میتلا کے مکان پر طاہرفاروقی سے ملاقات کے بعد وہ ہماری طرف بھی آنے لگے تھے۔کبھی اسلم کے ساتھ کبھی اکیلے۔وہ شاید گورنمنٹ کالج بوسن روڈ سے ایم۔اے(اردو)کر رہے تھے اور ادبی میدان میں اپنی کامیابیوں کی خبر دیتے رہتے تھے۔طرح مصرع پر کہی اُن کی دو ایک غزلیں مجھے بہت پسند آئی تھیں اور یاد بھی ہو گئی تھیں۔شعر اسلم میتلا بھی کہتے تھے اور بعد میں انہوں نے اردو اور سرائیکی زبان میں اپنے کلام کے کئی مجموعے یادگار چھوڑے مگر اس وقت وہ زیادہ فعال نہیں تھے اور اُن کی توجہ اپنی تعلیم پر مرکوز تھی۔
طاہرفاروقی کے اصرار پر میں نے اپنا رطب و یابس انہیں دکھایا۔اُن کے خیال میں کہیں کہیں قلم لگانے کی ضرورت تھی مگر میں نے اس کے لیے اپنی رغبت ظاہر نہیں کی تو انہوں نے بھی اصرار نہیں کیا اور جب بھی آتے،گپ لگا کر رخصت ہو جاتے۔
وہ خادم کیتھلی کے فرزند تھے اور حرم گیٹ کے دروازے کی بغل کی ایک گلی میں رہتے تھے۔ان کی نیم پلیٹ کی تخصیص یہ تھی کہ وہ گھر میں ان کی موجودگی یا عدم موجودگی کی غمازی کرتی تھی۔نام کے نیچے دو سلائڈنگ تختیوں پر”اِن”اور”آؤٹ”لکھا تھا۔گھنٹی بجانے سے پہلے اُن پر نظر ڈال لیں تو اُن کے ہونے نہ ہونے کی خبر ہو جاتی تھی۔
ہماری گلی کی دُبلی قیامتیں میرے گاؤں آنے کے بعد میرے دوستوں سے میری خبر لیتی رہی تھیں۔میں پلٹا تو نامہ بری کا سلسلہ پھر آغاز ہو گیا۔اصرار اُن کے گھر کا زینہ ناپنے پر تھا مگر مجھے خودکشی کا شوق نہیں تھا سو میں بلا توقف معذرت کر لیتا تھا۔اس مسلسل نامہ بری،جو ایک ہی جملے”نہیں!کوٹھی پر”پر مشتمل ہوا کرتی تھی،کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب پیام بر نے بھی مجھ پر فدا ہونے کا تاثر دینا شروع کر دیا۔یہ بھید میں نے اپنے دوستوں پر افشا کیا تو انہوں نے اس”گرمی”کا سبب اُس گھرانے کی پان خوری کی عادت کو ٹھہرایا۔

کچھ دن بعد جب ملاقات پر مصر پہلی دُبلی قیامت کوٹھی پر آنے پر تیار ہو گئی تو طے پایا کہ یہ ملاقات دوپہر کے کھانے کے بعد ہوگی۔اس میں سہولت یہ تھی کہ اُس وقت سینا غائب رہتا تھا اور امّاں لیلیٰ اپنے کمرے میں ہوتی تھی۔ہاں یہ مشکل ضرور تھی کہ گیٹ سے میرے کمرے کے بیچ وسیع صحن تھا اور اس ایک کنال سے زیادہ رقبے کو طے کرنے میں اماں لیلیٰ کے کمرے سے دیکھ لیے جانے کا واضح امکان تھا کہ اب وہ ہماری ہلچل پر خصوصی نظر رکھتی تھی۔
طے پایا کہ اس خطرے سے نپٹنے کے لیے طاہرفاروقی سمیت سبھی دوست برآمدے میں موجود رہیں گے اور حسینہ کے بھاگ کر منزلِ مقصود تک پہنچنے تک اماں لیلیٰ کے دروازے کے سامنے کھڑے رہیں گے اور ایسا ہی کچھ واپسی کے لمحات میں کِیا جائے گا۔
وقتِ مقررہ پر گیٹ کو کُھلا رکھا گیا اور حسینہ نے وقت کی پابندی مغربی روایت کے تحت کی مگر مشکل یہ ہوئی کہ اُس وقت اماں لیلیٰ ابھی داخلے کی عمارت کے برآمدے میں براجمان تھی۔خوبیٔ قسمت سے اُس کا رُخ مخالف سمت میں تھا۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ محسوس کر کے مُڑتیں۔جمیل نے لپک کر اُن کے موٹے شیشوں کی عینک اتار کر انہیں قریب قریب اندھا کر دیا اور موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے وہ حسینہ اُڑتی ہوئی مرکزی عمارت کے کسی کمرے میں غائب ہو گئی۔میں پہلے بتا چکا ہوں کہ اس حصّے میں صرف میری رہائش تھی اور دوسرے بیڈ روم اور گول کمرہ خالی پڑے تھے۔
امّاں نے شور مچایا تو دوچار گالیاں کھانے کے بعد اُن کی عینک لوٹا دی گئی اور ہر طرف کا ناقدانہ جائزہ لینے اور ہم سب کو اپنے قریب پا کر وہ اس عمل کو صرف شرارت گردان کر اپنے کمرے میں چلی گئی تو میں نے اپنے کمرے کی راہ لی مگر لڑکی وہاں موجود نہیں تھی۔
دیکھا تو وہ وسیع گول کمرے کی لکڑی کی بھاری الماریوں کے قدِآدم آئینوں میں گھوم گھوم کر اپنا عکس دیکھتی پھر رہی تھی۔میرے قدموں کی چاپ پر مُڑی تو میں اُسے دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا کہ یہ لڑکی کوئی اور نہیں،وہی پیام بر تھی۔کوئی فرق تھا تو بس یہ کہ وہ اس وقت برقعے میں نہیں تھی۔
مجھے دیکھ کر اس نے اپنا رُخ آئینے کے مقابل کیا اور اس میں سے مجھ پر ایک نگاہ ِغلط انداز ڈال کر فرمایا:
"آپ مجھ سے شادی کریں گے نا”؟
"اور تمہاری بہن”؟ میرے منہ سے بے اختیار نکلا
"آپ اُس چڑیل کو جانتے نہیں۔اچھا ہوا میں نے آپ کا پیغام اُسے نہیں پہنچایا ورنہ آپ کے لیے بڑی مشکل ہو جاتی”
مشکل میں تو میں اب بھی تھا مگر یہ چڑیل عمر میں اُس چڑیل سے چھوٹی تھی۔مکھ پر ابھی بچپن کی پھوار پڑتی تھی۔نقوش تیکھے اور نیم بیضوی چہرے پر بھلے لگتے تھے۔آنکھیں،لب اور بال سادگی لیے۔جسم دُبلا اور خُمار کی نشانیوں سے بے نیاز۔کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میرا اگلا قدم کیا ہونا چاہیے مگر اتنا ہوش ضرور تھا کہ بغیر فرنیچر کا گول کمرہ مذاکرات کے لیے مناسب نہیں سو میں نے اُسے اپنے بیڈ روم میں آنے کو کہا اور وہ آ بھی گئی۔
بیڈ روم میں ایک پلنگ اور دو کرسیاں تھیں۔ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ اُسے کہاں بیٹھنے کی دعوت دوں کہ اُس نے خود ہی بڑھ کر ایک کُرسی سنبھال لی۔میں پلنگ پر بیٹھنے کے لیے مڑا تو اتفاقاً میری نظر برآمدے کی چھت پر کُھلتے روشندان پر پڑی،جہاں شیشے کے پیچھے اقبال کلاچی اور جمیل کے چہرے اندر کا منظر دیکھنے کے لیے دھنسے ہوئے تھے اور دوسرے روشندان کے پیچھے آصف اور طاہر فاروقی تھے۔میرے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ اس برآمدے کی دونوں طرف گھوم کر اوپر جاتی سیڑھیوں کا یہ نقصان بھی ہو سکتا ہے۔
ہم کوئی دو گھنٹے تک قید رہے اور ایک دوسرے کو تکتے رہے۔روشندان میں میرے دوستوں کی موجودگی سے وہ بھی باخبر تھی اور اس کے بعد وہی کچھ ہو سکتا تھا جو ہم نے کیا۔
باتیں،باتیں اور باتیں اور چند ادھر ادھر کی کہانیاں
اور لتا کے گائے کچھ گیت جو اُسے گا کر سُنانے کی طلب تھی۔
میں نے دوستوں کو ہاتھ جوڑ کر رخصت ہونے کو کہا مگر وہ جانے کو تیار تھے نہ اندر آنے کو سو یہ ملاقات نشستند،گفتند،برخاستند ہی رہی۔واپسی پر وہ برقع پہننے لگی تو اگلی ملاقات کی جگہ اور وقت کے بارے میں استفسار کیا اور میں نے نہ جانے کس لہر میں اسے اسلم میتلا کے مکان پر ملنے کی صلاح دی۔یہ بات میرے لیے حیرت کا باعث تھی کہ وہ مکان اس کا دیکھا بھالا تھا۔
وقت کے بارے میں کچھ طے نہیں پایا اور ظاہر ہے اسلم سے بات کیے بغیر ایسی کوئی فکسیشن ممکن ہی نہیں تھی۔
جمیل کے لائن کلیر ہونے کی اطلاع پر اسے رخصت کیا تو جاتے ہوئے لپٹنے کا کام بھی اُسی نے نپٹایا۔
بندے نوں اینا پینڈو وی نئیں ہونا چاہی دا۔
اس ملاقات میں اُس نے ایک ہی کام کی بات بتائی کہ اس محلے کا نمبردار اُس کا ماموں ہے۔یہ صاحب کبھی کبھار اماں لیلیٰ سے ملنے آتے تھے اور کبھی ہمارے ساتھ بھی نششت جما لیتے تھے۔ادھیڑ عمر کے خاصے طرار شخص تھے۔آتے تھے تو اُن کی متجسّس آنکھیں ایک بار سارے بنگلے کا سکین کرتی تھیں۔اس لیے اس کوٹھی پر مزید ملاقات کرنا ممکن ہی نہیں تھا کہ وہاں آنے والوں کا کوئی وقت مقرر تھا نہ جانے والوں کا۔

درس گاہ – 35

یہ گلی سات آٹھ فٹ سے زیادہ چوڑی نہیں تھی اور مکانوں کے دروازے اور زینے گلی میں اُمڈے پڑتے تھے۔دھڑ سے کُھلنے والے دروازے کے مقابل کی ننھی سی مسجد عشا کے بعد بند کر دی جاتی تھی اور ہم نے رات کے کھانے سے واپسی پر اُس پر ہمیشہ تالا پڑا دیکھا تھا۔ اسے آج بھی مقّفل ہونا چاہیے تھا مگر اس کا خیال مجھے بہت بعد میں آیا۔ایک برق رفتار سیاہ برقعے میں لپٹے ہوئے وجود نے لپک کر میرا ہاتھ پکڑا اور اگلے ہی لمحے میں نے اپنے آپ کو سُنسان مسجد کے احاطے کے اندر پایا۔
لڑکی چودہ پندرہ برس سے بڑی نہیں تھی۔ضرورت سے زیادہ دُبلی اور شاید ابھی سن ِبلوغت کو بھی نہیں پُہنچی تھی۔میں ابھی اپنے حواس بحال کر رہا تھا کہ اس نے تیز لہجے میں قدرے نامانوس اردو بولتے ہوئے یہ اطلاع دی کہ اُس کی باجی مجھ سے ملنے کی خواہاں ہے۔ اگر میں رات بارہ بجے کے بعد آ جاؤں تو وہ سیڑھیوں کے ساتھ والے کمرے میں میری منتظر ہوں گی۔
اردو ادب اور خاص طور پر غزلیہ شاعری کے مطالعے نے مجھے کئی معاملات میں متجسس ضرور کر رکھا تھا اور مَیں اُن دنوں فراز کی "تنہا تنہا”کے:
جسم بِلّور سا نازک ہے جوانی بھرپور
اب کے انگڑائی نہ ٹُوٹی تو بدن ٹُوٹے گا
جیسے اشعار سےحظ بھی کشید کرنے لگا تھا مگر اتنا احمق نہیں تھا کہ اس اندھی دعوت پر لبیک کہتا سو میں نے معذرت کے ساتھ واضح کر دیا کہ یہ ممکن نہیں اور گلی کی طرف لپکا ہی تھا کہ اُس ننھی چڑیل نے لپک کر میرا بالغانہ بوسہ لیا اور گلی پھلانگ کر سیڑھیوں میں غائب ہو گی۔
اوسان بحال ہونے پر میں مسجد کی کُنڈی لگا کر گلی میں نکلا تو وہ ہمیشہ کی طرح سُنسان پڑی تھی۔جمیل وغیرہ جا چکے تھے اور گلی میں چلتے ہوئے مجھے اپنے پیچھے قدموں کی آواز سنائی دے رہی تھی۔دو ایک بار مُڑ کر بھی دیکھا مگر کوئی نہیں تھا سوائے میرے سایے کے جو روشنی کے رُخ سے کبھی میرے ساتھ چلتا تھا اور کبھی آگے پیچھے۔
دوسرے روز خیریت رہی۔گلی میں چلتے ہوئے میں دوستوں کے حصار میں رہا۔جمیل نے جو عمر اور تجربے دونوں میں بڑا تھا،مسجد کا احوال سُننے کے بعد واضح کر دیا تھا کہ اُسے کوٹھی پر آنے کی صلاح دینے کے سوا کوئی آپشن قبول نہ کروں کہ ان سانپ جیسی گلیوں سے واپسی کی راہ تلاش کرنا ہمارے بس کی بات نہیں اور یہ بات ایسی گنجلک نہیں تھی کہ میری سمجھ میں نہیں آتی۔
اگلے دن سہہ پہر کو میں کہیں جانے کے لیے گلی میں نکلا ہی تھا کہ سامنے سے آتی دو ایک ہی عمر اور وجود کی برقع پوش لڑکیاں پل بھر میرے قریب رُکیں۔اس سے پہلے کہ میں کسی کو پہچانتا۔خوشبو میں بسا ایک خط میرے ہاتھ میں تھا۔یہ اُسی دعوت کا اعادہ تھا اور مثبت جواب کے لیے مغرب تک کا وقت دیا گیا تھا۔
میں نے جمیل کی ہدایت کو پیشِ نظر رکھ کر دو سطری جواب لکھ رکھّا۔مجھے یقین تھا کہ امّاں لیلیٰ کی موجودگی میں محلّے کا کوئی فرد اس کوٹھی کے احاطے میں قدم بھی نہیں رکھ سکتا۔کتنی عجیب بات ہے کہ اس وقت وصال کی آرزو ںسے زیادہ مجھے اپنے تحفظ کے احساس سے مسرت ہو رہی تھی؟
ابھی مغرب کا وقت نہیں ہوا تھا اور میں نیچے شاگرد پیشہ کمروں میں سے کسی ایک میں کسی کام سے موجود تھا کہ بغیر جالی اور گرل کی کُھلی ونڈو کے قریب میں نے مسجد والی لڑکی کا سایہ دیکھا اور اس نے منہ اندر کر کے ایک ہی لفظ کہا:
"جواب”؟
میں نے اپنی جوابی چِٹ اُسے تھما دی اور وہ اس سُرعت سے غائب ہوئی کہ مجھےاُس کا پل بھر پہلے کھڑکی میں موجود ہونا وہم ہی لگا۔
اُس رات ہم کھانے کے بعد فلم دیکھنے چلے گئے۔رات بارہ بجے کے بعد پلٹےتو امّاں لیلیٰ خلاف ِمعمول جاگ رہی تھیں۔صرف جاگ ہی نہیں رہی تھیں،غیر معمولی طیش میں بھی تھیں اور اس طیش کا نشانہ کوئی اور نہیں میری ذات تھی اور کیوں نہ ہوتی؟معاملہ تھا ہی کچھ ایسا سنگین۔
جب ہم کھانے کے لیے نکلے تو ساتھ والے گھر میں کسی تقریب کا اہتمام تھا۔یہ گھر کافی بڑا تھا اور کُھلے گیٹ سے اندر صحن میں رکھی دیگیں دکھائی دی تھیں۔اُس گھر اور ہماری کوٹھی کے درمیان کم وبیش نو فٹ اونچی دیوار تھی اور تقریب میں موجود ایک لڑکی سیڑھیوں کی طرف سے اسے پھلانگ کر ادھر آنے کی کوشش میں تھی کہ کسی کی نظر پڑ گئی اور پکڑی گئی۔
تفشیش پر میرا نام سامنے آیا مگر خیریت گُزری کہ ہم سب گھر پر موجود ہی نہیں تھے اور اُس گھر کے بڑے یہ جان کر کہ میں کس کا بیٹا ہوں یہ ماننے میں متأمل تھے کہ میں ایسی کوئی حرکت کر سکتا ہوں۔وہ میرے والد کو جانتے تھے اور میرے والد کی نیک نامی اس حال میں بھی میری حفاظت کر رہی تھی۔
اماں لیلیٰ نے ہم سب کو خوب لعن طن کی پھر دو ایک مناسب دھمکیاں دے کر آئندہ کے لیے باز رہنے کی ہدایت کی۔حالاں کہ اس تکلف کی ضرورت نہیں تھی۔میں تو خود اس فکر میں تھا کہ ایسی بلوان حسینہ سے امان پاؤں تو کیسے؟
فوری طور پر میری سمجھ میں یہی آیا کہ میں کچھ روز کے لیے گاؤں چلا آؤں اور اگلی ہی صبح میں نے اس فیصلے پر عمل بھی کیا۔

درس گاہ – 34

ایف ایس سی کے امتحان کا وہی نتیجہ نکلا جس کی توّقع تھی۔دو مضامین،کیمسٹری اور میتھ،میں سپلی جسے کلئیر کرنے کے تین چانسز تھے۔کسی مضمون میں کچھ ایسا ہی شاید اقبال کلاچی کے ساتھ ہوا تھا جو ہمارے ڈرائنگ ماسٹر اللّٰہ بخش کے صاحب زادے تھے سو والدین کی ڈانٹ ڈپٹ سہنے کے بعد طے پایا کہ اقبال کے یہاں مل کر تیاری کی جائے۔ہم نے موجودہ لاری اڈّے کے قریب ان کی بیٹھک میں پڑھنا شروع کیا مگر چند منٹ بعد ہی بم کُھلی کھڑکیوں سے کتابیں باہر گلی میں تیرانے لگتے اور توسنِ تخیل کو پرواز کی کُھلی اجازت دے کر چاند میں نظر آنے والی صورتوں کے گُریز اور تجاوز کی ادا پر گفتگو کرنے لگتے۔ہم دونوں کو یقین تھا کہ شہر بھر میں ہم سے زیادہ پُرکشش اور صاحب ِجمال کوئی اور نہیں اور زہرہ جبینوں کو(جن کا شہر میں کہیں اگر وجود تھا تو پردے میں تھا) ہم پر مرنے میں تأمل ہے تو وہ اس شہر کی تنگ نظری اور روایت پرستی کی وجہ سے ہے۔
اقبال کی حد تک تو شاید یہ بات درست تھی کہ موصوف آرین بلکہ رومن خدوخال کے شاہکار تھے مگر میں تو ہمیشہ کا تخّیل پرست ہوں۔اس لیے اپنے دراوڑی نقوش اور رنگ کے باعث کہیں کچھ گمان سا تھا کہ اس نوع کا ہر خیال باطل ہے اور باطل تھا بھی مگر نوجوانی کے طائر ِخوش پرواز کو کوئی پنجرے میں بند کرے تو کیسے؟
ابّاجی میرے بارے میں کافی خوش گمان تھے مگر یہ نتیجہ اُن کو بددل کرنے کو کافی تھا۔اس پر میری غفلت کا در بند ہونے کے بجائے اور کُشادہ ہو رہا تھا۔معلوم نہیں کیسے انہیں کشف ہوا کہ اقبال اور میرا گٹھ جوڑ درست نہیں سو انہوں نے مجھے ملتان بھجوانے کا فیصلہ کیا اور اگلے ہی روز وہ مجھے لے کر پیر شوکت حسین گیلانی کے پاس ملتان آ پہنچے۔جنہوں نے ولایت حسین اسلامیہ کالج کے پرنسپل کو فون کر کے مجھے تھرڈ ائیر میں داخل کرنے کا حکم دیا کہ ابھی کالجز نیشنلائزڈ نہیں ہوئے تھے اور پیر صاحب ایک لحاظ سے کالج کے بلا شرکت ِغیرے مالک تھے۔یہ بات پھر بھی کسی کے ذہن میں نہیں آئی کہ میرے کالج میں داخلے کی فکر کرنے کے بجائے ان مضامین کی تیاری کے لیے کسی ٹیوٹر کا انتظام کیا جاتا۔
تب میرے دوستوں میں سے آصف،جمیل اور اقبال کلاچی بھی اسی کالج میں داخلہ لے چکے تھے اور رہائش کے لیے جگہ کی تلاش میں تھے۔میں اگلے روز پیر صاحب کی سفارشی چِٹ کے ساتھ پرنسپل صاحب سے ملا مگر بات بنی نہیں۔پرنسپل صاحب نے بہت لجاجت بھرے لہجے میں معذرت کرتے ہوئے واضح کیا کہ بورڈ/یونیورسٹی کی طرف سے کسی ایک مضمون میں کمپارٹمنٹ والے کو داخل کرنے کی اجازت ہے۔ہاں میں چاہوں تو کسی بھی کلاس میں بیٹھ سکتا ہوں مگر داخلہ کمپارٹمنٹ کلئیر کرنے کے بعد ہی ہو گا۔
اس سے بڑھ کر احمقانہ اقدام کیا ہوگا کہ میں نے اس دعوت کو قبول کر لیا۔اب رہائش کا مسئلہ درپیش ہوا تو اس کے لیے پیر برکت علی شاہ کی نشاط روڈ پر ملتان سٹی اسٹیشن کے سامنے والی کوٹھی "برکت منزل” کا انتخاب ہوا۔شاہ صاحب کو بتانے کے بعد میں کوٹھی کے ماسٹر بیڈ روم پر قابض ہوگیا اور آصف وغیرہ کو شاگرد پیشہ کے بالا خانے پر نہایت نفیس شیش محل الاٹ کیا۔صبح کالج جانے کے لیے ہم سب سائیکل سوار نشاط روڈ سے حرم گیٹ میں داخل ہو کر چوک حسین آگاہی جا نکلتے تھے اور پھر دولت گیٹ سے کالج۔واپسی النگ کے ساتھ ساتھ دلّی دروازے سے ہوتی تھی۔کھانے کے لیے حرم گیٹ کے سامنے ایک ہوٹل کا انتخاب کیا گیا۔جہاں کھانے کے لیے ماہانہ حساب مقرر کرنے کی گنجائش بھی تھی مگر میں نے روز کا بل روز ادا کرنے کو ترجیح دی۔
یہ کوٹھی چار کنال رقبے پر محیط ہو گی اور اس کی مکانیت کا ذکر پہلے آچکا۔یہاں شاہ صاحب کے ایک قدیمی ملازم کی بیوہ اور اس کا بیٹا غلام حسین نگران تھے۔بڑھیا اپنے مرحوم شوہر کے لقب”مجنوں” کی نسبت سے لیلیٰ کہلاتی تھی اور لڑکا”سینا”جو عمر میں ہم سب سے کوئی پندرہ برس بڑا تھا۔بڑھیا کا کالابھجنگ رنگ اورموٹے شیشوں کی عینک میں آگ برساتی آنکھیں تو رُعب دار تھیں ہی۔پِیر برکت علی اور میرے والد کی برسوں پرانی خادمہ ہونے کا اعزاز گویا سونے پر سہاگا تھا۔پہلے ہی دن انہوں نے کڑک مرغی کی طرح ہم سب کو اپنے پروں میں لے لیا اور واضح کر دیا کہ ان کے ساتھ ملازمہ کی طرح برتاؤ کرنا ہمارے خلاف جائے گا۔اس سے بڑھ کر ستم ظریفی اور کیا ہوگی کہ عشقیہ روایت کی سرتاج لیلیٰ ہماری امّاں ٹھہری۔
علاقے بھر کے زمیندار کام سے یا داد ِعیش دینے یہاں پدھارتے رہتے تھے اور کسی بھی کمرے پر قابض ہو کر ملتان کی معروف طوائفوں اور مغنّیاؤں کے ساتھ وقت گزارتے تھے،جس کی ایک جھلک”آداب عرض”میں شائع ہونے والی میری ایک کہانی”شہناز”میں دیکھی جا سکتی ہے۔ان مہمانوں میں سے اکثر سے میں واقف تھا اور وہ میرے والد کا بہت احترام کرتے تھے۔اس لیے وہ ہم سب کو اپنی محفلوں سے دور رکھتے تھے۔یہ لوگ آتے ہی کوٹھی کا نظام سنبھال لیتے تھے۔مہینے بھر کا راشن ساتھ لاتے اور لیلیٰ اور سینا اُن کے خدمت گزاروں کے ساتھ مل کر طرح طرح کے پکوان بناتے۔اس لیے ہمیں رات کے کھانے پر باہر جانے کی ضرورت کم ہی پڑتی تھی۔یہاں تواتر سے آنے والوں میں گھمن ماڑی کے نہایت نفیس اور بردبار انسان میاں منظور کاٹھیا بھی تھے جنہیں میں چچا کہتا تھا۔یہ وہی صاحب تھے،جن کی خاطر بھاؤ نواب نے محکمہ مال کا ریکارڈ جلایا تھا۔
یہ لوگ آتے تھے تو میں عام طور پر شیش محل میں دوستوں کے پاس منتقل ہو جاتا تھا تا کہ کوٹھی کی مرکزی عمارت سے نسبت نہ رہے اور کسی کو بھی اپنا کام نپٹانے میں دشواری نہ ہو۔
محل ِوقوع کے لحاظ سے یہ کوٹھی کچھ شتر گربہ کا شکار تھی۔یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ اس طرح کے عسرت زدہ محلّے میں یہ جہازی گھر بنانے کی ضرورت کیا تھی۔بہت بعد میں پتا چلا کہ اسی سڑک پر اس گھر کے پیچھے اس سے بھی کئی گُنا بڑے رقبے پر نواب عاشق حسین قریشی کا بنگلہ تھا مگر وہ اسے بیچ کر کہیں اور منتقل ہو چکے تھے اور اس زمین کو مرلوں میں بانٹ کر نئے گھر بنا دیے گئے تھے۔میرا گمان ہے کہ جب یہ بنگلے تعمیر کیے گئے تھے تو اس وقت باقی آبادی کا وجود ہی نہیں ہو گا۔
یہ محلہ”پیر پراٹھی شاہ”شہر کے اسٹیشن کے سامنے نشاط روڈ پر تھا۔یہ سڑک حرم گیٹ سے شروع ہو کر اسٹیشن کے مقابل گھومتی ہوئی چوک شہیداں کو نکل جاتی تھی۔تمام آبادی تنگ گلیوں اور روہتکی مہاجرین کے مختصر مکانوں پر مشتمل تھی۔بس ہمسائے میں موجود اور اگلی گلی کی بغل میں ایک گھر قدرے معقول تھے۔پہلا گھر تو اب یاد نہیں کس کا تھا مگر دوسرا مکان جہانیاں کے میتلوں کا تھا اور وہاں اسلم میتلا قیام پذیر تھے جو ولایت حسین اسلامیہ کالج ہی میں پڑھ رہے تھے اور بی۔اے کے دوسرے سال میں تھے۔اُن سے ایک بار سرسری تعارف ہوا تو وہ ہماری طرف آنے جانے لگے اور ہم بھی اُن کے در ِدولت پر سیس نِوانے جاتے تھے،جہاں صحن میں کچھ لوگ ایک ردھم کے ساتھ انسانی جبڑوں سے ملتے جلتے موٹے چمڑے کی دو تہوں کو لکڑی کے ہتھوڑوں سے کُوٹنے میں مگن ہوتے تھے۔کئی دن بعد جا کر یہ بھید کُھلا کہ وہاں سونے چاندی کے ورق تیّار کیے جاتے تھے مگر یہ راز راز ہی رہا کہ کیوں اور کس کے لیے؟طاہر فاروقی سے پہلی ملاقات اسی مکان میں ہوئی۔اسلم اور طاہر دونوں شاعر تھے اور اس طرح کسی ہم مزاج سے ملنے کا میرا یہ پہلا اتفاق تھا۔
اس رہائش گاہ پر ناشتا امّاں لیلیٰ بناتی تھیں اور اس سے ان کا اپنا بھلا ہو جاتا تھا کہ ہمارے گھروں سے اس مقصد کے لیے وافر راشن بھجوایا جاتا تھا۔دوپہر کا کھانا ہم کالج سے واپسی پر کھا آتے تھے اور ضرورت پڑنے پر مغرب کے وقت گھر کی بغل سے نکلتی پتلی گلی پکڑ کر نشاط روڈ سے ہو کر ہوٹل پہنچتے تھے۔جہاں کبھی ماسٹر عبدالحق کے چھوٹے صاحب زادے گلفام سے بھی ملاقات ہو جاتی تھی جو ڈاک خانے کی ملازمت میں آنے کے بعد ملتان میں شاید کوئی ٹریننگ کر رہے تھے۔
کھانے کے لیے جاتے ہوئے مجھے دوستوں کے درمیان چلنے کی عادت تھی۔یہ عدم تحفظ کا احساس تھا یا چودھراہٹ؟معلوم نہیں مگر اس ترتیب میں خلل کم ہی پڑتا تھا۔ایک روز جاتے تھے کہ پیچھے کسی کنکر کے گرنے کی آواز آئی۔مجھے تو کچھ دکھائی نہیں دیا مگر جمیل مڑا اور لپک کر کاغذ میں لپٹا ایک کنکر اٹھا لایا۔مغرب کے بعد کا وقت تھا اور گلی نیم روشن۔اس لیے اُسے وہیں پڑھ لینا ممکن نہیں تھا سو ہوٹل پہنچنے تک مجبوراً صبر کا دامن تھامے رکھا اور کھانا آرڈر کرنے کے بعد اسے جمیل نے سب کو پڑھ کر سُنایا۔
بدخطی اور اظہار کی کجی سے مملو یہ نامہ میرے لیے تھا۔معلومات خاصی برحق اور تعریف میں غلو کا پہلو ضرورت سے زیادہ در آیا تھا۔شاید ہمارے بارے میں خاصی تحقیق کی گئی تھی مگر مشکل یہ تھی کہ ہمیں سرے سے خبر ہی نہیں تھی کہ ہماری خوش خرامی کا گھائل ہے کون؟
واپسی گھنٹہ بھر کے بعد اُسی راستے سے ہوئی۔اس وقت گلی سنسان تھی اور روشنیاں پہلے سے بھی کم۔ابھی”پتھریلے مقام”تک پہنچے ہی تھے کہ بائیں ہاتھ کے ایک مکان کا دروازہ،جس کے سامنے ایک ننھی مسجد کا احاطہ تھا،دھڑ سے کُھلا۔