1985ء میں جب میری شاعری کی کتاب "موسم” شائع ہوئی تو ثروت حسین نے اپنے حلقۂ احباب کے جن لوگوں کو اس کتاب کا حق دار قرار دیا۔ان میں ایک نام عتیق احمد جیلانی کا بھی تھا۔کچھ دنوں بعد میں نے عتیق احمد جیلانی کا نام حیدرآباد سے شائع ہونے والے ایک ادبی جریدے کی مجلس ِادارت میں دیکھا،جس میں میری بھی ایک غزل شائع کی گئی تھی تو ان کی ادب سے وابستگی پر میرا یقین پختہ ہوا اور ان کی شاعری کے مطالعے سے اس یقین کو اور تقویت ملی کہ ان کی غزل نئی پاکستانی غزل کی ہر لحاظ سے ہم سر تھی۔
اب 2019ء میں مکتبہ ارتفاع حیدرآباد نے ان کی شاعری کا مجموعہ”روز بناتا ہوں پُل”شائع کیا ہے جو ان کے شاگرد محمد علی منظر نے مجھے بھجوایا ہے۔اس کتاب میں ان کی چھیاسٹھ غزلیں شامل ہیں جو 1974ء سے 2018ء کے مابین کہی گئی ہیں۔اب معلوم نہیں کہ یہ ان کا کُل کلام ہے یا کلام کا انتخاب مگر پینتالیس برس میں ایک شعری مجموعہ شائع کر کے انہوں نے اپنی بے نیازی کا ثبوت ضرور دیا ہے۔یہ اور بات کہ اس استغنا میں وہ ہمارے دوست محمد خالد کو نہیں پچھاڑ سکے جن کا ساٹھ سالہ شعری سفر ابھی تک کتابی شکل اختیار نہیں کر پایا مگر اس کی غریب و سادہ و رنگیں داستان الگ مضمون کی مقتضئ ہے۔
عتیق احمد جیلانی نے اپنی کتاب کو کسی بھی قسم کے رسمی تبصرے کے لیے ناموزوں قرار دیا ہے اور یہ ان کا حق ہے مگر میں اس کتاب کو اردو غزل کا ایک اہم مجموعہ جانتا ہوں۔اس لیے اس پر اپنی رائے دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔یوں بھی میں کوئی پیشہ ور نقّاد نہیں ہوں اور میری رائے ایک قاری کی رائے سے زیادہ کچھ اہمیت نہیں رکھتی۔
"روز بناتا ہوں پُل” کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے دو باتوں کا احساس شدت سے ہوا۔پہلی بات یہ کہ وہ ایک قادرالکلام شاعر ہیں اور غزل کی روایت کو جذب کر کے نیا شعری آہنگ وضع کرنے پر قادر ہیں اور دوسری بات یہ کہ وہ اپنے شعری وفور کو تادیر برقرار رکھتے اور اس کے طلسم سے مضامینِ نو کے انبار لگانے میں کسی ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہوتے۔اسی لیے ان کی اکثر غزلیں طویل ہیں اور ایک دل کش روانی میں تکمیل پاتی ہیں۔وہ قافیہ پیمائی نہیں کرتے،اس کا خلاقانہ استعمال کرتے ہیں اور کچھ ایسی غیر متوقع جہتیں آشکار کرتے ہیں جو ان کے اسلوب کے طلسم سے قطعاً اجنبی اور انوکھی محسوس نہیں ہوتیں۔شاید اس لیے کہ ایسی نادر شے یا کیفیت ہمارے پاس ہی موجود ہوتی ہے مگر عتیق احمد جیلانی کے منور کرنے سے پہلے وہ ہماری نظر سے اوجھل رہی ہوتی ہے۔
یوں عتیق احمد جیلانی موجود کے غیاب کے شاعر ہیں اور ان کے مکاشفے اس روشنی کی مثال ہیں جو گہری تاریکی سے دمک کر کسی منظر کو امر کر دے۔”روز بناتا ہوں پُل”تاریکی سے روشنی میں آئے ایسے ہی نادر مناظر کا سلسلہ ہے جو ہر قدم پر پہلے سے زیادہ انوکھا اور دل پذیر ہے۔
"روز بناتا ہوں پُل”ایک مختلف شاعر کی مختلف کتاب ہے۔اس عہد میں جب اردو غزل ایک مشترکہ آہنگ بن چکی ہے اور لہجے کی یکسانیت اسے ناقابل ِشناخت لحن بنانے پر تلی ہے۔ایک مختلف شاعر کا ظہور خوش کن ہے کہ آج بڑا شاعر ہونے سے زیادہ اہمیت مختلف ہونے کی ہے اور یہی ادا اردو غزل کی روایت کو آگے بڑھا سکتی ہے۔کچھ شعر دیکھیے:
یقین کیوں نہیں کرتے ہیں یہ در و دیوار
انھیں بتاؤ اسی گھر کا آدمی تھا میں
رات اک خواب کو مہمان بنایا میں نے
کبھی تکیہ،کبھی چادر کبھی بستر ہوا میں
نا خدائی تمھیں مبارک ہو
اب تو دریا اتر رہا ہے میاں
خامشی سے کلام کرنے کو
شور سن کر گلی میں آتا ہوں
مسافت کی تھکن بھی ساتھ آئی
مرے ہم راہ گھر سے واپسی پر
قبائے وقت مجھ پر تنگ ہوتی جا رہی ہے
سو یہ پوشاک آئندہ نہ پہنی جا سکے گی
کوئی سادہ سا ورق ڈھونڈ رہا تھا کل شام
ایک دفتر نکل آیا مری الماری سے
اب کوئی راز نہیں کوچہ نوردی میری
سب کو معلوم ہے کس کام سے نکلا ہوا ہوں
یہ ضروری تو نہیں ہے کہ نظر بھی آئے
فرق ہوتا ہے جو ہونے میں نظر آنے میں
گزرتے موسموں کی انگلیوں پر
بس اپنے آپ کو گنتا رہا میں
کس قدر شور ہے مرے اندر
چائے خانہ بنا ہوا ہوں میں
ابھی تو یہیں تھا جہان ِ خراب
خدا جانے میں نے کہاں رکھ دیا
سُنا ہے یاد کرتا ہے سمندر
تو کیا لے جائے گا دریا مجھے بھی
کوئی حد ہی نہیں سمجھنے کی
کوئی کتنا سمجھ میں آئے گا
اے صبح مجھے آئینہ دے
میں تیرا عکس بناتا ہوں
تحریر: غلام حسین ساجد
روز بناتا ہوں پُل/عتیق احمد جیلانی 1985ء میں جب میری شاعری کی کتاب "موسم" شائع ہوئی تو ثروت حسین نے اپنے حلقۂ احباب کے…
Posted by Ghulam Hussain Sajid on Friday, March 27, 2020