عشق سے اور کار دنیا سے حذر کرتا ہوں میں

عشق سے اور کار دنیا سے حذر کرتا ہوں میں

اب فقط اپنی معیت میں بسر کرتا ہوں میں

اک اندھیرے میں بھٹکتے رہ نہ جایئں میرے خواب

اپنی آنکھوں کو اگر وقف سحر کرتا ہوں میں

وہ نہتا کر نہ پایئں گے سر میداں مجھے

خلق اپنی خاک سے تیغ و سپر کرتا ہوں میں

عکس بن کر کب تلک میں اسکی آنکھوں میں رہوں

آیئنے کو کل سے اپنا مستقر کرتا ہوں میں

راہ میں پڑتا ہے شہر عشق میں دشت جنوں

گاہے اس دنیائے وحشت کا سفر کرتا ہوں میں

کھینچ دیتا ہے کوئی دیوار گریہ بیچ میں

جب پلٹ کر اس دریچے پر نظر کرتا ہوں میں

کیا وہ ملنے کے لئے آ پائے گا ساجد مجھے

اپنے آنے کی اگر اسکو خبر کرتا ہوں

خواب اچّھے ھیں نہ خوابوں کا بیاں اچّھا ھے

خواب اچّھے ھیں نہ خوابوں کا بیاں اچّھا ھے 
جو بھی اچھا ھے حقیقت میں کہاں اچھا ہے

آگ احساس ِتحفظ بھی دیا کرتی ہے
گھر کےچولہے سےجو اٹھتا ہے دھواں اچّھا ہے

دل کوئی باغ نہیں ہے کہ فقط گھوم آئیں 
کوئی تا دیر مکیں هو تو مکا ں اچّھا ہے

بات کرنے کے بھی آداب ہوا کرتے ھیں 
چُپ ھی اچھی ہے نہ یہ زور ِ بیاں اچّھا ھے

ایک سے لوگ ھیں دیوار کی دونوں جانب 
کوئی اچّھا ہے یہاں ، کوئی وہاں اچّھا ہے

میری تنہائی کا آزار بڑھا دیتا ہے
اس کے موجود نہ ھونے کا گماں اچّھا ہے

مجھ کو شرمندہ کیا میری غلط فہمی نے 
میں سمجھتا تھا کہ یہ دور زماں اچھّا ہے

ھجر کا لُطف اٹھا کر یہی جانا ساجد 
راحت ِ وصل کا ھوتا ہے زیاں ، اچّھا ہے

کسـی نگاہ کی زد پر ہـے باغِ ســبز مِرا

کسـی نگاہ کی زد پر ہـے باغِ ســبز مِرا 
کہ زرد پڑنے لگا ہے چــراغِ ســبز مِرا

سمَجھ میں آ نہ ســکا بھیــد اُس کی آنکھــوں کا
اُلٹ کے رہ گیــا آخِــر دماغِ سـبز مِرا

پلٹ کے آئی نہیں چھاؤں اُس کے کُــوچے سے
دَھرا ہے دُھـوپ میں اب تک ایاغِ سـبز مِرا

یہ معجــزہ ہے زرِ عشــق کی صــداقت کا 
کسـی کے دل میں دھـڑَکتا ہے داغِ سـبز مِرا

بدل گئی جو کبھی رنگ و نُور کی تہذیب
نہ مِل سـکے گا کسـی کو سُــراغِ سـبز مِرا

گیــاہ و ســبزہ و گُل سے غــرَض ہو کیوں ســاجِــدؔ
کسـی کو خـوش نہیں آیا فــراغِ سـبز مِرا

اک کڑی دی چیز گواچی

بھریاں ہویئاں اکھاں

گھِر دا جاندا ہانہہ

بھُبھل ہویا سینہ

سِر توں اُچی بانہہ

میں ٹریا تاں آل دوالا

بدلاں وانگ سی تردا

چُپ سی تھل ماڑو دا ریتا

دُھپ دا مینہہ سی وسدا

چار چوفیروں تے اندروں وی

میں ساں اینا اکیا

خبرے اوہ کتھے سی اُسلے

!میں نہیں مڑ کے تکیا 

ہک پرانی تھا ویں

کھنگر اِٹ دی محل ماڑیاں

نہیں پوچے دی لوڑ

سندلے بنھ پِٹیون اوکھا

نہ ہاسے دی تھوڑ

چھت تے ناہری دھپ دی ٹولی

پاندی پھرے دھمال

بھمبنی اتے بُت مور دا

نچے وا دے نال

ساوے پپلاں نال کھلوتے

نِمو جُھون شرینہہ

تس دے مارے رپڑاں اوہلے

میں تے وسدا مینہہ

اینویں آل دوالے وسدے

شک پئے کردے میتھے

ورھیاں پہلاں وی اک واری

میں آیا ساں ایتھے

جہاں بھر میں مرے دل سا کوئی گھر ہو نہیں سکتا

جہاں بھر میں مرے دل سا کوئی گھر ہو نہیں سکتا
کہ ایسی خاک پر ایسا سمندر ہو نہیں سکتا

رواں رہتا ہے کیسے چین سے اپنے کناروں میں
یہ دریا میری بیتابی کا مظہر ہو نہیں سکتا

کسی کی یاد سے دل کا اندھیرا اور بڑھتا ہے
یہ گھر میرے سلگنے سے منور ہو نہیں سکتا

بہت بے تاب ہوتا ہوں میں اس کو دیکھ کر لیکن
ستارہ تیری آنکھوں سے تو بڑھ کر ہو نہیں سکتا

یہ موج عمر ہر شے کو بہت تبدیل کرتی ہے
مگر جو سانس لیتا ہے وہ پتھر ہو نہیں سکتا

میں اس دنیا میں رہتا ہوں کہ جس دنیا کے لوگوں کو
خوشی کا ایک لمحہ بھی میسر ہو نہیں سکتا

اگر فرماں روائی صاحب ِ توقیر کا حق ہے

اگر فرماں روائی صاحب ِ توقیر کا حق ہے
تو مجھ سے بھی زیادہ تخت پر شمشیر کا حق ہے

مجھے خُوش آ نہیں سکتا کسی کا منتظر رہنا
مگر وہ خُوب صورت ہے ، اُسے تاخیر کا حق ہے

دکھائی دے رہی ہے آسماں پر روشنی سی کچھ
اور اس موج ِ مسرت پر کسی دل گیر کا حق ہے

جنون ِ عشق سے دوچار ہوتے ہی یقیں آیا
کہ اس طرز ِ تجاوز پر فقط زنجیر کا حق ہے

بہت کچھ کھو چکا ہوں میں جسے مسمار کرنے میں
مجھے اُس شہر کی بار ِ دگر تعمیر کا حق ہے

بتاتا کیوں نہیں کوئی کہ اِذن ِ باریابی پر
کسے خاموش رہنا ہے ، کسے تقریر کا حق ہے

مجھے یہ دھیان رہتا ہے حضور ِ شاہ میں ساجد
کہ میری قابلیت پر مری جاگیر کا حق ہے

گردش ِ جام کہیں گردش ِ مینا ساکت

گردش ِ جام کہیں گردش ِ مینا ساکت

یعنی کچھ دن سے ہے میخواروں کی دنیا ساکت

صرف چل دینے سے منزل نہیں ملنے والی

صرف رک جانے سے ہوتا نہیں صحرا ساکت

میں اسے دیکھتا رہتا تھا مجھے کیا معلوم

کیا رواں تھا میرے اطراف میں اور کیا ساکت

میں نے اک خواب میں پھر چوم لیں اس کی آنکھیں

میری غفلت سے ہوا نیند کا دریا ساکت

کیا کسی شہر ِ طلسمات میں آ نکلا ہوں ؟

رات ساکت ہے کہیں دن کا اجالا ساکت

آیئنے آب بصارت سے تہی ہیں ساجد

ہو گیا ہو نہ انہیں دیکھنے والا ساکت

رشک اپنوں پر نہ غیروں سے حسد کرتا ہوں میں

رشک اپنوں پر نہ غیروں سے حسد کرتا ہوں میں
یعنی اس کار ِ زیاں کو مُسترد کرتا ہوں میں

ساتھ ہو لیتا ہوں سایے کی طرح ہر ایک کے
بے گھری میں کب خیالِ نیک و بد کرتا ہوں میں

شام ہوتے ہی بنا دیتا ہوں منظر صبح کا
اس طرح اپنے قبیلے کی مدد کرتا ہوں میں

یاد کرتا ہوں کبھی اور بھول جاتا ہوں کبھی
میں اگر کچھ کام کرتا ہوں تو حد کرتا ہوں میں

صرف باتوں پر نہیںں قائم مری دیوانگی
اعتبار ِ راحت ِ عقل و خرد کرتا ہوں میں

اپنی آنکھیں رہن رکھ آیا ہوں اس کے نام پر
اب فقط چھُو کر تمیز ِخال و خد کرتا ہوں میں

کر رہا ہوں آج سے ساجد تکلّف بر طرف
اپنے فرمائے ہوئے کو اب سند کرتا ہوں میں

کبھی چراغ کبھی راستہ بدل کر دیکھ

کبھی چراغ کبھی راستہ بدل کر دیکھ
بہت قریب ہے منزل ذرا سا چل کر دیکھ

ترے حصار سے باہر نہیں زمان و مکاں
تو میری طرح کسی آئنے میں ڈھل کر دیکھ

فقیر بن کے وہ آیا ہے تیری چوکھٹ پر
یہ کوئی اور نہیں ہے ذرا سنبھل کر دیکھ

نگار خانۂ گردوں کو راکھ کرتے ہوئے
ذرا سی دیر کسی طاقچے میں جل کر دیکھ

زمین تنگ ہوئی جا رہی ہے لوگوں پر
حدود قریۂ جاں سے کبھی نکل کر دیکھ

رواں دواں ہیں کسی سمت میں کہ ساکت ہیں
پھر ایک بار ستاروں کی آنکھ مل کر دیکھ

عجیب لطف ہے ترک نشاط میں ساجدؔ
جو ہو سکے تو مری بات پر عمل کر دیکھ