رشک اپنوں پر نہ غیروں سے حسد کرتا ہوں میں
یعنی اس کار ِ زیاں کو مُسترد کرتا ہوں میں
ساتھ ہو لیتا ہوں سایے کی طرح ہر ایک کے
بے گھری میں کب خیالِ نیک و بد کرتا ہوں میں
شام ہوتے ہی بنا دیتا ہوں منظر صبح کا
اس طرح اپنے قبیلے کی مدد کرتا ہوں میں
یاد کرتا ہوں کبھی اور بھول جاتا ہوں کبھی
میں اگر کچھ کام کرتا ہوں تو حد کرتا ہوں میں
صرف باتوں پر نہیںں قائم مری دیوانگی
اعتبار ِ راحت ِ عقل و خرد کرتا ہوں میں
اپنی آنکھیں رہن رکھ آیا ہوں اس کے نام پر
اب فقط چھُو کر تمیز ِخال و خد کرتا ہوں میں
کر رہا ہوں آج سے ساجد تکلّف بر طرف
اپنے فرمائے ہوئے کو اب سند کرتا ہوں میں