Category Archives: درس گاہ

درس گاہ – 23

اسی زمانے میں میرے بھانجے مہر حق نواز،جو عمر میں مجھ سے آٹھ برس بڑے تھے،کالج کی بے ثمر زندگی سے اُکتا کر گاؤں واپس چلے آئے اور دریائے راوی کے کنارے ہماری زمین کو آباد کرنے کے کام پر لگ گئے۔اُن کے چھوٹے بھائی مہر احمد نواز،جو مجھ سے چار برس بڑے ہیں،میرے جماعت تھے۔سکول میں ہماری روز کی ملاقات طے شدہ تھی۔کبھی ہم گھر پر یا اُن کے بورڈنگ ہاؤس میں بھی مل لیا کرتے تھے تاہم وہ میرے دوستوں کے حلقے کا حصّہ نہیں تھے اور اس کی وجہ عمر کے فرق سے زیادہ مزاج کی عدم مطابقت تھی۔
کنارِ راوی کے علاوہ ہماری دو مربعے زمین چک 3/8 آر میں بھی تھی مگر میں کبھی اس طرف نکلا ہی نہیں تھا۔اب جو حق نواز نے دریا پر ڈیرہ جمایا اور ماسی اللّٰہ جوائی( جو حقیقت میں میری چچی تھیں)اُس کی اور کام پیشہ لوگوں کی روٹیاں تھاپنے کو اس کے ساتھ ہٹھاڑ رہنے لگی تو میں بھی احمد نواز کے ساتھ پروگرام بنا کر اپنی زمین اور دریا دیکھنے کے لیے اپنی آبائی جُوہ پر جا پہنچا۔”لُہار والی پُل”اور اس سے دائیں خان لیاقت علی خان کی رہائش تک اور بائیں "غازی پاندہ”،”ست چک”,”نواب والا”،”بستی سنپالاں” اور تلمبہ سے ملتان تک کا علاقہ میرا دیکھا ہوا تھا مگر لہار والی پُل سے نیچے دریا کے بیٹ کی طرف جانے کا یہ میرا پہلا موقع تھا۔
سب کچھ ویسا ہی تھا۔وہی درخت،چھاڑیاں،فصلیں،گھاس پھوس اور پرندے مگر دریا کی بار بار کی رم خوردگی اور طالع آزمائی کے باعث مٹّی میں نمی کی آمیزش تھی اور اٹ کی زیادتی کے باعث پھسلواں گداز۔یہاں چلنا اور سائیکل چلانا ہماری بستی کی مٹّی پر سفر کرنے سے کہیں دشوار تھا۔بہر صورت کوئی تین میل کے سفر کے بعد ہم کھکّھوں کے ڈیرے پر پہنچے،وہاں سے گڈگوروں کی بھینی اور پھر اپنی جھلار پر۔ دریا سے چند ایکڑ کے فاصلے پر ایک چھوٹی سی بھینی پر دو تین گھر آباد تھے۔کچھ آباد کی گئی زمین کے بعد دونوں طرف بیلا تھا۔کری،لئی،کانہہ،کیکر اور سرکنڈے کی خود رو جھاڑیوں اور ان دیکھے اسرار سے بھرا۔اس سے گزر کر میں نے راوی سے ملاقات کی جو اپنی آبائی مٹّی پر میری اس دریا سے پہلی ملاقات تھی۔
کہتے ہیں راوی کا پانی پارس ہے۔روایت کے مطابق سلطان سکندر کے پاس پارس پتھر تھا اور وہ اس سے اشیاء کو سونے میں ڈھال دیتا تھا۔جب یہ خبر اس کے دشمنوں کو پہنچی تو وہ فوج لے کر اس پر چڑھ دوڑے اور غالب آ گئے۔جب سلطان کو اپنی گرفتاری یقینی لگی تو اس نے راہ ِ فرار اختیار کی اور راوی پر آ کر پارس پتھر کو چڑھے دریا میں پھینک دیا۔فاتحین نے بہت تلاش کرائی،ہاتھیوں کے پیروں میں زنجیریں ڈال کر کھنگالا۔زنجیریں سونے میں تبدیل ہو جاتیں مگر پارس نہیں ملا اور بالآخر دریائی ریت میں گُھل کر دریا کے وجود کا حصّہ بن گیا۔
حقیقت اس کتھا کی یہ ہے کہ راوی اپنے ساتھ زرخیز علاقوں کی مٹّی کھینچ لاتا ہے جو سیلاب آنے پر ارد گرد کی زمین پر اٹ کی صورت میں چڑھ جاتی ہے۔وہاں کاشت کی گئی فصل دوگنا کن دیتی ہے۔سو لوگ دریا کے گدلے پانی کو پارس جانتے ہیں۔
مگر اب وہ پارس سردی کی دھوپ میں نڈھال دو نحیف چادروں میں ڈھلا بہت دھیرے سے بہتا تھا اور دریا کے دونوں کناروں تک ریت کی پٹڑیاں دمکتی تھیں۔ہاں ان نحیف نیلی چادروں پر اجنبی پرندے تھے اور جھاڑیوں میں نَہرے جانور۔جن کا شکار تو کیا جاتا تھا مگر کھانے کے لیے بہت کچھ بدلنے کی ضرورت تھی۔جن میں اوّلیت مذہب اور طرز ِحیات کو تھی۔
راوی میری پنجابی شاعری کا مستقل کردار ہے۔میری کتاب”سرسوتی توں راوی تائیں”ان دونوں دریاؤں کی پیاس سے جنمی ہے۔اُس وقت کسے معلوم تھا کہ میں یہاں بار بار آؤں گا اور ہر بار یہ دریا پہلے سے بھی زیادہ توانائی کے ساتھ میرے اندر میرے وجود میں اور گہرا اتر جائے گا اور اس کی روانی میرے قلم سے ہم آہنگ ہو جائے گی۔
دیکھیے ایک وائی جسے راوی کا جَس کہنا زیادہ مناسب ہوگا:
"راوی دے سپ لہریے
بُوٹے جُھمّر جُھوٹے
ساڈی جِند سائیں
اساڈی جِند سائیں

راوی دے اٹ اندروں
پُھلّن عشق دے بُوٹے
ساڈی جِند سائیں
اساڈی جِند سائیں

راوی دے سب شہر نیں
بدلاں وانگ ملُوٹے
ساڈی جِند سائیں
اساڈی جِند سائیں

راوی من وچ لہردا
مار بِرہوں دے سُوٹے
ساڈی جِند سائیں
اساڈی جِند سائیں

راوی روپ انوکھڑا
نین کدی نہ نُوٹے
ساڈی جِند سائیں
اساڈی جِند سائیں

راوی دے سُر جاگدے
دِل نوں مار جھمُوٹے
ساڈی جِند سائیں
اساڈی جِند سائیں
(کتاب:پانی رمز بھرے)

درس گاہ – 22

دیہات کا رہنے والا آدمی لاکھ شہر میں جا بسے۔اُس کا دیہاتی پن رخصت ہوتا ہے نہ بتیاں دیکھنے کا شوق مدھم پڑتا ہے اور میں تو آج بھی ایک ان گھڑ جانگلی ہوں۔میلے ٹھیلے مجھے تب بھی اپنی طرف بلاتے تھے اور اب بھی ڈھول بجنے پر میرے من میں دھمال مچنے لگتی ہے۔یہ اور بات میں نے کبھی رقص کی کوئی تال نہیں آزمائی۔جھومر نہیں کھیلی۔لُڈی نہیں ڈالی۔یہ سب کرنے کی خواہش ضرور رہی مگر تمام عمر عقل پاسبان ِدل رہی اور میں اندر سے آدھا ادھورا ہی رہا۔
ہماری بستی کے آس پاس کے معروف میلوں میں نور شاہ،پیرشینا،بالے
بم اور سنگ یعنی سخی سرور کا تلمبہ میں لگنے والا میلہ اہم تھے اور میں ان چاروں ہی کی سیر کو جاتا تھا۔مجھے فالودہ،پکوڑے اور مٹھائی کھانے کی ہُڑک تو کم ہی ہوتی تھی۔زیادہ دلچسپی قصےکہانیوں کے سٹالز،موت کےکنویں،سرکس اور عجائبات ِعالم میں تھی ۔کُشتی،کبڈّی،کُتوں کی لڑائی یا بلوان بیلوں سے ہل کشی کے مقابلوں میں میری دلچسپی صرف کبڈی میں تھی۔تھیٹر لگتا ضرور تھا مگرمیں نے ایک ہی بار دیکھنے کی زحمت کی اور خاصا بدمزہ ہوا۔
ایک دلچسپ کھیل پانی کی بالٹی کی تہ میں شیشے کی پیالی رکھ کر اس میں سکّہ ڈالنا تھا۔کامیابی کی صورت میں دُگنی رقم پیش کی جاتی تھی۔پیالی میں ڈالے جانے والے سکّے فرکشن کی وجہ سے رخ بدلتے تھے اور عمودی سفر نہیں کرتےتھے۔اس لیے پیالی میں کم ہی گرتے تھے۔دو ایک بار میں نے اپنا سکہ ضائع کر،سِکّے کے وزن،فرکشن کی شرح،سمت کی تبدیلی اور اسراع کا اندازہ کر کے پیالی پر کئی درست نشانے لگائے تو دو ایک روپے ہارنے کے بعد اس کھیل کے موجد نے مجھے کِھلانے سے انکار کر دیا۔
"عجائبات ِعالم” کی صورت بھی عجیب مضحکہ خیز ہوا کرتی تھی۔بالے بم کے میلے میں ایک بار بانس کی مچان پر چڑھے منادی والے کی باتوں میں آ کر ہاتھی،شیر اور مچھلی کے دھڑ والی لڑکی کو دیکھنے گیا تو عجیب تجربہ ہوا۔بانسوں سے بنی راہداری کو طے کرکے جھولداری کے دروازے میں داخل ہوا تو ایک شخص کٹے ہوئے آدھے ڈھول پر مڑھی کھال کے وسط میں سوراخ میں سے لکڑی کا ایک گز کھال کو مس کرتا ہوا اس مہارت سے گزار رہا تھا کہ اس سے ایک خاص طرح کی گونج پیدا ہوتی تھی جو شیر کی دھاڑ سے ملتی جلتی تھی۔جھولداری کے باہر لٹکتے پردوں پر بنے شیروں اور لاؤڈ سپیکر پر ان کے جھولداری میں موجود ہونے کی حقیقت بس اتنی تھی۔میں نے زندگی میں پہلی بار دھوکا کھایا اور ایک خاص طرح کے صدمے سے بھی دوچار ہوا مگر دو ایک پنجرے میں بند گیدڑوں اور ایک آدھ اجنبی پرندے کے پنجرے کو آگے بڑھتی راہداری میں رکھا دیکھ کر مچھلی کے دھڑ والی لڑکی کو دیکھنے کی امید برقرار رہی اور میں رسیوں سے بنے راستے کی حد بندی کے ساتھ گھومتا ہوا ادھر بڑھنے لگا،جہاں مجھ سے آگے چلنے والے لوگ جا رہے تھے۔
دوچار قدم کے بعد میں نے اپنے آپ کو ایک بڑے سے پانی بھرے ٹب کے سامنے پایا جہاں میری مقصود ِنظر موجود تھی۔لمبے،کُھلے اور بدن پر کمر بلکہ اس سے بھی پیچھے تک پھیلے ہوئے بالوں والی ایک لڑکی کمر سے نیچے کسی شے میں دھنسی ہوئی تھی جو کسی بڑی مردہ مچھلی کے نچلے دھڑ سے مثابہ تھی اور جس کے فلس اپنی دمک کھو چکے تھے۔اسے بدبو اور تعفن کے باعث غور اور توجہ سے دیکھنا ممکن نہیں تھا۔لمبے،گھنے اور وجود پر مہارت سے پھیلائے بالوں کے باعث ایک نظر میں یہ ادراک کرنا ممکن نہیں تھا کہ اُس کا اپنا دھڑ مچھلی کے دھڑ سے کہاں اور کس طور جُڑا ہوا ہے اور کیا اُس کے بدن کے نیچے اس کی اپنی ٹانگیں موجود ہیں بھی یا نہیں؟اب خیال آتا ہے کہ شاید وہ پیدائشی طور پر معذور رہی ہو اور اس کے دھڑ کو مچھلی کے دھڑ سے مثابہ دھڑ میں پھنسا کر ایسا لباس پہنا دیا جاتا ہو جو ان دونوں دھڑوں کے مقام ِاتصال کی پردہ پوشی کر سکے۔
بہر صورت وہ لڑکی اس وضع کے ساتھ وہاں موجود تھی اور اپنے وجود پر نگراں لوگوں کو ایک خاص طرح کی اداسی سے تک رہی تھی۔اُس کے چہرے پر غم،خوشی،حیرت یا خوف کا کوئی تاثر نہیں تھا اور مجھے آج اسے یاد کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی اگر ایک پل کے لیے اُس کی بھیگی ہوئی آنکھیں میری آنکھوں سے نہ ملی ہوتیں۔پانی پر تیرتے ہوئے بُلبُلوں جیسی وہ آنکھیں ایک بد رنگ اداسی سے بھری تھیں اور اُن کی ملگجی سیاہی میں کہیں احتجاج کی ہلکی سی روشنی تھی۔جیسی روشنی مرتے ہوئے انسان کی آنکھوں میں ہوتی ہے۔کچھ کہتی ہوئی مگر کہہ نہ پاتی ہوئی۔اپنی بے بسی پر نالاں مگر اُس کے اظہار کی خواہش سے پہلو بچاتی ہوئی۔اُن آنکھوں میں کوئی ایسی بات تھی جو اس لمحے مجھے اپنے لہو میں تیرتی محسوس ہوئی اور جسے میں آج بھی اپنے لہو میں تیرتے محسوس کرتا ہوں۔اسے میں نے ایک نظم میں یوں بیان کیا ہے۔
"مچّھی دے دھڑ والا جاتک
مینوں بِٹ بِٹ ویکھے
میریاں اکھّاں اندروں اوہنوں خبرے کیہ کجھ دِسیا
اوہدی روح دا ہِک ہِک چھالا چشماں تھانیں پِھسیا

مچّھی نوں میں روندیاں ویکھ کے آپ وی روون لگیا
میرے اندر دیوے وانگ سی کوئی تارا جگیا
مچّھی دے روون تے مینوں بڑی نموشی ہوئی
جُثّے دے پھٹ روحوں سِمدے جانے کوئی کوئی
(بالےبم دے میلے اندر/کتاب:”بیلے وچ چڑیاں”)
افسوس میں ساون کےحبس زدہ موسم میں مصنوعی مچھلی کے وجود میں دھنسی،مجھے دیکھ کر آب دیدہ ہونے والی اُس لڑکی کو
آزاد نہیں کرا سکا مگر یہ ضرور جان گیا کہ پیٹ کی آگ آنسوؤں سے نہیں بُجھتی اور بھوک ہر حس ِلطافت کو مِٹا دیتی ہے۔
میری شاعری میں در آنے والی اداسی کی مقدار زیادہ نہیں مگر اس کی ڈور کہیں نہ کہیں اس واقعے سے جُڑی ہے۔کیوں کہ زندگی میں آگے چل کر کھلنے والی حقیقتوں کا بیج کہیں بہت پہلے پڑ چکا ہوتا ہے جو اکھوا بن کر پھوٹنے کے بعد کہیں سالوں اور دھائیوں کے بعد دھیرے دھیرے ایک بڑے تجربے کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔
میری اداسی اور میری خوشی کی بنیاد بھی ایسے ہی بے خیالی میں کاشت کیے بیجوں پر ہے۔

نویں میں اساتذہ نے میرے لیے سائنس کا انتخاب کیا۔میرا بھانجا احمد نواز اب میرا ہم جماعت تھا مگر وہ آرٹس سیکشن میں تھا اور اس سے ملاقات اردو اور انگریزی کے پیریڈ ہی میں ہوتی تھی۔ان دو برسوں کے اساتذہ میں اردو کے غلام ربّانی،حساب کے شوکت حسین رضوی اور انگریزی کے مختار احمد صاحب سے زیادہ قربت رہی۔مختار صاحب بی۔اے،بی۔ایڈ کرنے کے بعد پہلے دن سب سے پہلے ہماری کلاس میں پڑھانے آئے تھے اور اپنے تعارف کے دوران میں گھبرا کر بے سُدھ ہو گئے تھے مگر بعد میں وہ اچھے ٹیچر ثابت ہوئے اور گرمیوں کی تعطیلات میں ہم سب دوستوں کو ہماری بیٹھک میں ٹیوشن پڑھاتے رہے۔ہم نے بیٹھک میں صرف چارپائیاں ڈال رکھی تھیں۔ماسٹر صاحب کی روز آمد اور قدرافزائی کے خیال سےمیری ماں نے مجھے پیسے دے کر دوستوں کے ہمراہ کُرسیاں خرید لانے کو ٹی چوک بھجوایا،جہاں دو ایک دکانیں فرنیچر کی بھی تھیں اور ہم سو روپے میں لکڑی کی چھ آرام کُرسیاں اور ایک سنٹر ٹیبل خرید کر اپنے سروں پر لاد کر گھر لے آئے۔ان میں سے کچھ کُرسیاں اب بھی سلامت ہیں اور بستی والے گھر میں موجود ہیں۔

پڑھنا جاری تھا اور جاری رہا۔”تلخیاں”پڑھی تو حافظے کا حصہ بن گئی۔ایک ایک مصرع ذہن پر نقش ہو کر رہ گیا۔میں اس کتاب کے اُسلوب اور موضوع سےاس قدر متاثر ہوا کہ اُس کے تتّبع میں نظموں کی ایک کتاب گھسیٹ ڈالی جو نہ معلوم کہاں کھو گئی وگرنہ میری درد مندی،خرد افروزی اور روشن خیالی کی اب بھی بھرپور نمائندگی کرتی۔
لاہور سے لائی ہوئی کتابوں میں زیادہ تر کُتب افسانہ نگاروں کی تھیں۔کرشن چندر کے”ان داتا”سے”کچرا بابا”،بیدی کے "گرہن” سے "سونفیا”،عصمت کے”لحاف” سے”دوزخی”،بلونت سنگھ کے”جگّا”اور ندیم کے”رئیس ِخانہ”سے انتظار کے”آنجنہاری کی گھریا”غلام عباس کے”آنندی”سے”سایہ”اور منٹو کے”تماشا”سے”پُھندنے” تک کا سفر سیدھا تو نہیں تھا مگر انہی دو برسوں میں مکمل ہوا۔یہ افسانے اور ان کے کردار میرے ذہن سے اس طرح چمٹ گئے کہ لاکھ کُھرچنے پر بھی اُن کے نقوش مدھم نہیں ہوتے۔منٹو پر قائم کئے گئے مقدمات کی روداد اور منٹو کے موقف پر مبنی کتاب”لذّت ِسنگ” نے مجھے سب سے زیادہ مزا دیا۔
اس زمانے میں پڑھنے کی ہوس اس قدر زیادہ تھی کہ میں مختصر فاصلے کے سفر میں بھی کتاب نکال لیا کرتا تھا۔ایک بار کسی کام سے اکیلے ہی گاؤں جانا پڑا۔بس سے جراحی موڑ پر اُتر کر میں شیشم کے دیو آسا درختوں کے سائے میں اس طرح چلنے لگا کہ میری نگاہ راہ سے زیادہ کتاب پر تھی۔ایک دو بار کسی جملے کی بہ آوازِ بلند داد دی۔کہیں کسی جملے کی شگفتگی پر ہنسا اور ایک آدھ بار رُک کرکسی منظر کی نُدرت اور فطری نمو پر اپنا ماتھا پیٹا تو قریب ہی اِجڑ چراتے ایک چرواہے نے یہ منظر دیکھ کر اپنے ہاتھ بلند کیے اور "ربّا!ایس بال نوں رنگ لا”اس خلوص اور رقّت سے کہا کہ اُس کی آواز کی نمی مجھے آج بھی اپنے وجود کو بھگوتی محسوس ہوتی ہے۔

آپ بتائیے اس کے بعد بھی اگر میں شعر نہ کہتا تو اور کیا کرتا؟

درس گاہ – 21

سعادت حسن منٹو تک رسائی پاتے میں نے مڈل پاس کر لیا تھا۔مجھ سمیت سکول کےمنتخب لڑکوں کو لاہور ڈائریکٹوریٹ کے امتحان میں بٹھایا گیا۔اس امتحان کو بورڈ امتحان کی طرز پر لیا گیا اور اسے فرسٹ کلاس میں پاس کرنے کی باقاعدہ سند جاری کی گئی۔مجھ سے پہلے مڈل تو میرے بڑے بھائی نے بھی کر رکھا تھا مگر گاؤں میں والد صاحب کے کمرے میں فریم ہو کر آویزاں ہونے کا اعزاز میری سند کو ملا۔
عصمت چغتائی از بے چادری تو نہیں تھیں مگر چادر میں کھیلے جانے والے کھیل نے مجھے بوکھلا دیا۔اس پر”منٹو کے افسانے”۔۔۔یوں کہیے ہم ایک ہی کتاب میں بڑے ہو گئے مگر بہت بڑے نہیں ہو پائے کہ ان کی اور کوئی کتاب کہیں مل نہیں سکی۔ملی تو عصمت چغتائی بھی نہیں مگر ان کی کتب کی عدم دستیابی جان کا روگ نہیں بنی۔اس کمی کو ہم نے مرزا عظیم بیگ چغتائی کی”شریر بیوی”اور "سوانہ کی روحیں”جیسی کتابوں سے پورا کیا۔آنہ لائبریری والوں کے اکسانے پر چوگنے کرایے پر دو تین کتابیں”و۔و” کی بھی پڑھ ڈالیں مگر اس سے معلومات میں اضافہ ہوا نہ تجربے میں کہ یہ شعبہ ابھی ہمارے مزاج کو خوش نہیں آیا تھا۔برسوں بعد عزیز دوست سعید مرتضیٰ زیدی نے شوکت تھانوی پر تحقیق کی تو پتا چلا کہ”و۔و”انہی کا قلمی نام تھا اس انکشاف پر مجھے حیرت نہیں ہوئی کہ پیٹ کا تنّور ہر طرح کی اخلاقیات کو چاٹ جاتا ہے۔اگر صاحبان ِعلم و دانش بُرا نہیں منائیں تو میں یہ کہنے کی جسارت کروں گا کہ جنسی اخلاقیات صرف اور صرف مڈل کلاس کا مسئلہ ہے۔
منٹو کی یہ کتاب”نیا ادارہ”سے شائع ہوئی تھی۔اس کتاب کے آخر میں اس ادارےسے شائع کی گئی کتابوں کی فہرست بھی تھی۔یہ سبھی کتابیں دل لبھانے والی تھیں مگر ان میں سے کوئی بھی کسی آنہ لائبریری میں موجود نہیں تھی اور وجہ یہ کہ وہ لوگ ایسی کتابیں خرید کرتے تھے جو ہاٹ کیک کی طرح ہاتھوں ہاتھ لی جائیں سو اولیت جاسوسی سیریز اور رومانی ناولوں کو حاصل تھی۔زندگی کی حقیقت اور انسانی نفسیات کی بوقلمونی سے آگاہی کی طلب کسی کو نہیں تھی۔منٹو،بیدی،عصمت اور غلام عباس اس معاشرت کے لیے اجنبی تھے اور میرا مسئلہ یہ تھا کہ میری دلچسپی کا مرکز اب یہی نام تھے۔
اسی زمانے میں جمیل اقبال کے بڑے بھائی مجید گِل نے اپنے سٹور
میں ایک آنہ لائبریری کی بنیاد رکھی۔انہوں نے میری پسند کی کتابیں بغیر کرایے پر فراہم کرنے کی آفر اس شرط پر دی کہ میں اپنے پاس موجود کاٹھ کباڑ ان کی لائبریری کے لیے عاریتا ً ان کے حوالے کر دوں۔میں نے ایسا ہی کیا اور وہ خانیوال اسٹیشن کے سٹال اور منٹگمری کی ہٹّیوں سے دو تین کتابیں لائے بھی مگر بات بنی نہیں اور یہ سلسلہ میری کتابوں کی ضبطی پر منتج ہوا۔میں چاہتا تو شاید وہ کتابیں واپس لے سکتا تھا مگر اندر ہی اندر کہیں میں ان کتابوں سے بھر پایا تھا۔اس لیے میں نے بھرپور احتجاج بھی ریکارڈ نہیں کرایا۔ہاں اس واقعے کے بعد آنہ لائبریریوں سے استفادے کا سلسلہ انجام کو پہنچا اور میں اپنے ذوق ِمطالعہ کی دل داری کی کوئی اور راہ نکالنے کے بارے میں سوچنے لگا۔
اس دوران میں ایوب خانی الیکشن ہوئے۔میاں چنوں اسٹیشن پر ایک ریلوے بوگی کے دروازے سے لگ کر محترمہ فاطمہ جناح کی تقریر سُنی جو سمجھ میں آئی نہ کانوں تک پہنچ پائی۔ان کی تصویر دیکھ کر مجھے ہمیشہ چاند کی بڑھیا یاد آتی تھی۔انہیں دیکھ کر یقین ہو گیا کہ میرا تاثر غلط نہیں تھا۔
اسی زمانے میں اسی اسٹیشن پر ایوب خان کو بھی دیکھا۔اس کی تقریر سنی اور وجاہت سے اس قدر متاثر ہوا کہ خلقت کی ٹانگوں سے گھسر کر ان کے اس قدر نزدیک جا پہنچا کہ میرے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھانے پر وہ میرا ہاتھ تھامنے پر مجبور ہو گئے۔افسوس وہ سیلفی کا زمانہ نہیں تھا وگرنہ آج فیس بک پر وہ میرے تھوبڑے کے سائے میں سمٹے دکھائی دیتے اور اچھّے لگتے۔
اسی دوران میں کہیں پاکستان نے خانہ کعبہ کے لیے غلاف بھجوایا تھا۔اس کی زیارت بھی اسی اسٹیشن پر ہوئی۔1965ء کی جنگ کا سامان بھی اسی اسٹیشن سے آتے جاتے دیکھا۔ایک پیسہ ایک ٹینک مہم میں بھرپور حصہ ڈالا اور دوستوں کے ساتھ گھر گھر جا کر سینکڑوں روپے اکٹھے کیے اور وار فنڈ میں جمع کرائے۔

میرے دوست حق نواز کاٹھیا کے ایک کزن نذر حسین لاہور میں پڑھ رہے تھے۔اُن سے صلاح مشورے کے بعد ہم دونوں موسم ِبہار کی تعطیلات میں اپنے ماں باپ سے اجازت لے کر بذریعہ بس لاہور کے لیے نکلے۔سن 1966ء تھا اور مارچ کے آخری دن جب ہم سمن آباد چوک پر اُترے۔بس تب ملتان روڈ سے براستہ سیکریٹریٹ بادامی باغ جاتی تھی۔اس لیے نیو مزنگ جانے کے لیے چوبرجی یا سمن آباد موڑ پر اترنا ہی سود مند تھا۔حق نواز مجھ سے عمر اور تجربے میں بڑا تھا(اُس کی نئی نئی شادی ہوئی تھی)اور پہلے بھی نذر کے پاس لاہور آچکا تھا۔اس لیے رکشا لےکر ہمیں گھر تلاش کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی۔سمن آباد دوسرے گول چکر کی بغل میں یہ گھر دس مرلوں پر محیط تھا اور چھے طلبہ کے تصرف میں تھا۔سب نے ہمیں بہت محبت سے خوش آمدید کہا اور دوپہر کے کھانے کے بعد ہم اومنی بس پکڑ کر اردو بازار جا پہنچے تاکہ لاہور کی باقاعدہ سیر سے پہلے”نیا ادارہ”کا کام نپٹا لیں۔
وہاں چودھری برادران موجود تھے۔شاید ریاض چودھری ہی تھے۔جنہوں نے ہمارا مطالبہ سُنا اور مطلوبہ کتابیں نکال کر دینے کے بعد اپنی پسند کی کتابیں بھی شامل کیں۔اسی پر بس نہیں مکتبہ پاکستان،البیان اور مکتبہءجدید سے انتظارحسین،احمد ندیم قاسمی اور غلام عباس کے مجموعے بھی منگوا دیے۔انہوں نے تو فراق اور مجاز کو بیچنے کی سعی بھی کی مگر تب تک ہم بوکھلا چکے تھے۔سو کرشن سے انتظار حسین تک ہی محدود رہے۔ساحر لدھیانوی کی”تلخیاں”انہوں نے زبردستی شامل کر دی اور یہ اردو شاعری کی پہلی باقاعدہ کتاب تھی جو میرے مطالعے میں آئی۔اس کتاب نےاور ترقی پسند ادب کی نمائندہ کچھ اور کتابوں نے میرے سوچنے کا ڈھنگ ہی بدل دیا۔
ہماری پسندیدہ کتابیں تو پندرہ بیس سے زیادہ نہیں تھیں مگر ریاض صاحب کی توسیع پسندی نے یہ تعداد سو تک بڑھا دی۔زیادہ کتابیں پیپر بیک تھیں اور کافی سستی اس لیے بل دو سو سے زیادہ نہیں بنا۔میں نے بل کو توقع سے کم محسوس کرنے پر مکرر تصدیق چاہی تو ریاض صاحب نے خوش خبری دی کہ وہ اس پر تیس فیصد رعایت بھی دیں گے۔اس ادا کا تو ہمیں وہم و گمان بھی نہیں تھا۔میں ماں اور ابّا کو الگ الگ جذباتی”سیاہ خط”کر کے پانچ سو اینٹھ لایا تھا۔اس لیے اس رقم کی ادائیگی مشکل نہ تھی اور نہ یہ لاہور کی جی بھر کر سیر کرنے میں مانع ہو سکتی تھی۔سو رقم ادا کی۔کتابیں بندھوائیں،چائے پی اور مزنگ پلٹ آئے تا کہ اگلی منزل کے لیےکشادہ دست ہو سکیں۔
تب کون جانتا تھا کہ اسی ادارے پر محمد سلیم الرٰحمن،ریاض چودھری،انور سجاد،مستنصر حسین تارڑ،صلاح الدین محمود،احمد مشتاق،اختر حسین جعفری،سہیل احمد خان اور دیگر نابغوں کے ساتھ میں برسوں بیٹھتا رہوں گا اور کسی کو یاد بھی نہیں ہو گا کہ میں کبھی اس دکان پر صرف گاہک بن کر بھی آیا تھا۔

درس گاہ – 20

اسی دوران میں مجھے اپنے محلّے میں اسٹیشن کے نزدیک ایک آنہ لائبریری کے وجود کی خبر ملی۔شہر کی دکّانوں پر ادبی کتابیں اوّل تو تھی ہی نہیں اور اگر تھیں تو انہی مقبول مصنّفین کی جو جناح میونسپل لائبریری میں بھی موجود تھے اور ان میں سے بیشتر کتب کو میں نے پڑھ لیا تھا۔مذہبی کتابوں اور علمی کتابوں سے مجھے رغبت نہیں تھی اور نہ ہی تاریخ اور علوم شرقیہ و غربیہ سے۔انگریزی سیکھتے دو ہی برس ہوئے تھے اور عربی فارسی کا تو سرے سے شعور ہی نہیں تھا سو ان زبانوں کی کتب میرے لیے اجنبی تھیں اور یہ کچھ نئے کی تلاش تھی جو مجھے اس آنہ لائبریری تک کھینچ لےگئی۔وہاں دو روپے زر ِضمانت جمع کرانےپر ایک آنہ فی کتاب کرایہ کےحساب سے بیک وقت دو کتابیں لی جا سکتی تھیں۔دکان دار کے مشورے سے میں نے ابن ِصفی کی جاسوسی دنیا کے دو ناول کرائے پر لیے اور جیسے ایک بار پھر خان اور بالے کی اسرار بھری دنیا میں داخل ہو گیا۔کیپٹن حمید،قاسم اور تنویر وغیرہ کے متنوع کردار،بیک وقت زیرکی شگفتگی اور قہر سے بھرے۔حماقت اور دانش کے مرقعے اور اس پر کرنل فریدی کا مثالی کردار۔متانت،دانش،حُب ِوطن اور استقلال سے بھرا۔میں نے پہلے بے ترتیبی اور پھر ترتیب سے ہر دستیاب ناول پڑھ ڈالا۔اسی سیریز کے مطالعے کے دوران میں کہیں "عمران”کا تعارف ہوا اور اب عمران سیریز کی طرف ایسا راغب ہوا کہ دو ایک ماہ میں دستیاب ساری کتب پڑھ ڈالیں اور صرف ابن ِصفی کی نہیں این صفی،نجمہ صفی اور نہ جانے کس کس کی مگر ان میں وہ مولوی”مدن”والی بات مفقود تھی۔
میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ ناول مجھے اپنے ساتھ بہا کر لے گئے اور میں اپنے آپ کو ان کرداروں جیسا ایک کردار ہی سمجھنے لگا۔ان کی تکلیف مجھے اپنی تکلیف محسوس ہوتی اور خوشی اپنی خوشی۔میں نے انہیں بیٹھ کر،لیٹ کر اور رضائی میں چُھپ کر پڑھا اور ایک دن میں پانچ پانچ ناول بھی پڑھ ڈالے اور اسی سال گرمیوں کی تعطیلات میں "عمران سیریز”کا ایک ناول خود بھی گھسیٹنے کی کوشش کی مگر بیس پچیس صفحوں کے بعد تخلیقی بصیرت ساتھ چھوڑ گئی اور میں”حسین صفی”بنتے بنتے رہ گیا۔
اسی برس یا اس سے پہلے میں نے سکول گراؤنڈ میں قینچی سائیکل چلانا سیکھا۔میں اس کوشش میں کئی بار گرا اور میرے قد بت کے لڑکےکا سائیکل کی مثلث میں گھس کر اس ہوا سے گِر پڑنے والی سواری کو سِدھانا آسان نہیں تھا مگر یہ ہوا اور میری مہارت کو دیکھ کر میرے ابّا جی مجھے سائیکل لے کر دینے پر راضی بھی ہو گئے۔ٹی چوک کے قریب ایک دکان سے”رستم سائیکل”مع کیرئیر،بیڑی سیل والے ہارن اور سرچ لائٹ کے ایک سو بیس روپے میں ملا اور میں اسے لے کر آس پاس کے علاقے میں گھومنے لگا۔
میں بارہ تیرہ برس کا ہو چلا تھا مگر میرا وزن اور قد سب ہم جماعتوں کے مقابلے میں کم تھا۔میری ماں کو وہم ہو چلا تھا کہ میں کہیں بونا ہی نہ رہ جاؤں۔اس لیے بادام،کشمش اور نامعلوم میوہ جات کے عجیب و غریب مرکبات بنا بنا کر ہم بہن بھائیوں کو کھلانے کی کوشش کرتی رہتی تھیں۔ان کا دل رکھنے کو کبھی میں وہ مرکبات کھا بھی لیتا تھا مگر عام طور پر انہیں دھونس سے کبھی ملازم اور گاؤں میں ہونے پر ملازمہ کو کھلا دیا کرتا تھا۔میٹرک کے امتحان کے قریب کی ایک تصویر میں میں سب ہم جماعتوں کے مقابلے میں پستہ قد آور کم عمر لگ رہا ہوں مگر فرسٹ ائیر میں آتے ہی میں نے چھ ماہ میں دس انچ قد نکالا اور سب کے درمیان مناسب منصب پر بحال ہو گیا اور میری ماں نے اسے اپنے خلق کیے مفرحات کا نتیجہ جان کر حقیقی خوشی منائی۔
جاسوسی ناول پڑھنے کا شوق دو ایک دوستوں کو بھی تھا۔آصف کے ایک ہمسائے اور ہم سے عمر میں دو ایک برس بڑے اعجاز ہاشمی عرف بِڈّو نے قرت العین حیدر کے”آگ کے دریا”کا ذکر کیا تو میں نے پبلک اور سکول لائبریری کے علاوہ تمام آنہ لائبریریاں چھان ڈالیں مگر وہ ناول نہیں مل سکا۔ہاں کرشن چندر کا ناول”شکست”مل گیا اور میں اس کی منظر نگاری،زبان کی چاشنی اور رومانوی نثر سے اس قدر متاثر ہوا کہ برسوں تک میں اُس کی کتابیں ڈھونڈ کر پڑھتا رہا۔متعدد افسانے اس کے اسلوب میں لکھ کر نہایت خوبصورت نوٹ بکس میں محفوظ کیے،جو بُرے نہیں تھے۔وہ شاید اب بھی کہیں موجود ہوں مگر مجھے انہیں چھپوانے کی جسارت نہیں ہوئی۔
کرشن چندر سے عشق کا عالم یہ تھا کہ کسی کتاب کو پڑھنے کے لیے اس پر ان کا نام ہی کافی ہوتا تھا۔ان کی متعدد کتابیں پبلشر مختلف ناموں سے شائع کر لیا کرتے تھے۔ایک بار ان کی ایک کتاب”میری یادوں کے چنار”(جو ان کی زندگی کے پہلے اٹھارہ برس کی کہانی ہے) کے اگلے حصے کے بارے میں استفسار کے لیے انہیں ان کی کتابوں کی فہرست بھجوا کر رہنمائی چاہی تو انہوں نے اس فہرست کی متعدد کتابوں کے بارے میں اپنی لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔
مڈل کرنے کے دوران ہی میں پہلی بار اردو ڈائجسٹ پڑھنے کو ملا۔پھر میں اسے ہر ماہ خریدنے لگا۔اسے پہلی بار پڑھا تو اس رسالے نے مجھے مبہوت کر دیا۔خاص طور پر دوسری جنگ ِعظیم اور شکاریات سے متعلق کہانیوں نے۔اس رسالے کے خریدنے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ اب میں نے ہر طرح کی تحریر پڑھنے کی عادت اپنا لی۔اسی بیچ میں کہیں بلونت سنگھ اور بیدی آ دھمکے اور پھر منٹو اور عصمت چغتائی۔

درس گاہ – 19

گاؤں کے کھیل بھی جاری تھے اور شہر کے معمولات بھی۔دوستوں کا ایک حلقہ وجود میں آرہا تھا۔باہر کے کام کاج کے لیے میرا ہم عمرملازم چراغ موجود تھا۔کریانے،کنجڑے,قسائی،دھوبی،درزی،حلوائی اور
دودھ والے کی ہٹّیاں مقرر تھیں۔ڈاکٹر اور دواخانہ بھی طےشدہ تھا اور بزاز اور سُنار بھی۔رسوئی میں ماں کی مدد کے لیے محلے ہی کی ایک بزرگ خاتون جنّت جنھیں ہم نانی کہنے لگے تھے،بن کہے روز ہی چلی آتی تھیں۔اس کے علاؤہ مجھ سے بڑی بہن بھی کھانا بنانا سیکھنےکے لیے ماں کےآس پاس ہی رہتی تھی۔سب کچھ بہت سادہ اور خانوں میں بٹا ہوا تھا۔وہی چھ دن شہر میں اور ایک دن گاؤں میں ادھم مچاتے گزرتا۔
شہر میں ہر شام دوستوں کے ساتھ نششت جمائی جاتی۔شاکر،محمود
،جمیل اور آصف کے گھر قریب قریب تھے مگر نششت آصف کے گھر ہی میں ہوتی تھی یا کبھی کبھار میرے یہاں۔تاہم اس کی نوبت کم آتی تھی کہ ایک تو ہمارےگھر میں کوئی باقاعدہ ڈرائنگ روم تھا ہی نہیں اور دوسری وجہ یہ کہ میرے اور ممتاز کے گھر کو شہر سے باہر جانا جاتا تھا۔
آصف کے ماں باپ اور بہن بھائی کمال کے خوش مزاج اور متواضع طبع تھے۔شربت،چائے بسکٹ اور چائے سے تواضع بھی کی جاتی تھی اور کئی بار زبردستی کھانے کے لیے بھی روک لیا جاتا تھا۔آصف کے والد،الیاس صاحب جنھیں ہم اور خود ان کی اولاد چچا کہہ کر بلاتی تھی۔ہم سب کا بڑی بڑی مسکاتی آنکھوں اور کھلے ہوئے چہرے کے ساتھ استقبال کرتے تھے اور انھوں نے ہم سب کی کوئی نہ کوئی چھیڑ مقرر کر رکھّی تھی جو تعلق کی ذاتی نسبت کو مضبوط کرتی تھی۔
آصف کے بڑے بھائی فیاض تو کیمسٹ تھے اور کابل کی کسی فیکٹری میں ملازم تھے۔منجھلے ریاض اور چھوٹی دونوں بہنوں سے ہم بالکل آصف ہی کی طرح بے تکلف تھے۔اس لیے ان کے ڈرائنگ روم پر قابض ہونے کے لیے آصف کا گھر میں ہونا ضروری نہیں تھا۔
ہماری نششت کے موضوعات مذہب،کتابیں اور سکول کے معمولات ہوا کرتے تھے۔اب اتنے برسوں بعد یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ ہم نے مل کر کبھی کوئی کھیل ایک ساتھ نہیں کھیلا۔سنیما نہیں گئے۔آوارہ گردی نہیں کی اور نہ ہی کسی کی غیبت۔ہم بس بے سروپا مباحث میں الجھے رہتے تھے اور شاید اس کی وجہ ہمارے مابین دو ایک ایسے دوستوں کا وجود تھا جو دینی گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے اور مذہب و ملت کے حوالے سے غیر معمولی دانش کے حامل تھے۔ان سب میں میری حیثیت سامع کی ہوتی تھی اور اب بھی ہے۔
ہاں میں کبھی کبھی اپنے بھانجے احمد نواز سے ملنے بورڈنگ ہاؤس چلا جاتا تھا۔وہ لوگ پہلی منزل پر رہتے تھے اور ایک بڑے سے کمرے میں مل جل کر بسر کرتے تھے۔وہیں ایک نیم مغدور طالب علم تھےجو دونوں ہاتھوں سےخطاطی کرتے تھے۔بخدا اس عمر میں میں نے ان سے بڑھ کر کسی کا خط اس قدر اُجلا نہیں دیکھا۔
ماسٹر عبدالحق کے یہاں کلاس ششم کے بعد موقوف ہو گئی تھی۔وہ اب کلاس انچارج بھی نہیں تھے مگر ان کے یہاں آنا جانا رہتا تھا۔کئی بار وہ بھی اہل وعیال سمیت ہمارے ہاں چلے آتے تھے۔ان کے بڑے صاحب زادے پولیس انسپکٹر تھے اور شہر کے جید عالم مولوی ہدایت اللہ کے داماد۔ان کی پوسٹنگ کہیں باہر تھی۔دوسرے صاحب زادے گلفام میاں بھی عمر میں ہم سے بڑے تھے اور اپنی ذات میں مست تھے۔اس لیے ماسٹر صاحب کی تشریف آوری اہلیہ اور بچیوں کے ساتھ ہی ہوتی تھی۔جن میں سے ایک مجھ سے دو برس بڑی تھی تو دوسری دو ڈھائی برس چھوٹی۔
ساتویں جماعت ہی میں میں نےسکول کی مرکزی عمارت سےجُڑی، کوئی دس سیڑھیوں کے چبوترے پر واقع نہایت پُرجمال لائبریری
تک رسائی حاصل کر لی تھی۔یہاں سے ایشو ہونے والی پہلی کتاب
"او ہنری کے افسانے”تھی جو مختصر افسانے سے میرا پہلا تعارف تھا۔
مجھے مترجم کا نام تو یاد نہیں مگر اس کتاب نے میرے اندر کے رومانی مجاہد کا گلہ گھونٹ دیا۔میں نے نسیم حجازی اور اس کے کُٹم کے ناول نگاروں کو پڑھنا ترک تو نہیں کیا مگر افسانے کا جادو گہرا ہوتا چلا گیا۔میرے اندر ایک رومانوی ہیرو کی تشکیل ہونے لگی۔اس کو مزید تقویت اے آر خاتون اور اس کی چیلیوں کے ناولوں نے دی۔میں جن سے جلد ہی بھر پایا مگر ان سے مکمل نجات پانے میں برس دو برس تو لگے ہی ہوں گے۔
اسی زمانے میں ایک واقعے نے ہماری برادری میں میری دھوم مچا دی۔ہوا یوں کہ ماں،بہنیں اور بھائی کسی وجہ سے بستی گئے ہوئے تھے اور گھر پر صرف میں اور ملازم(چراغ)تھے کہ شام کو برادری (بستی سنپالاں)کے کوئی پندرہ لوگ رات کو ٹکنے کے لیے چلے آئے۔انہیں صبح کسی گاڑی سے غالباً لاہور جانا تھا۔ہمارے گھر میں اس وقت نہ اتنی چارپائیاں تھیں نہ بستر نہ کھانا۔سو ان کو دستیاب چارپائیوں پر ٹکا کر میں نے نانی جنت کو بلایا۔بازار جا کر سبزی،گوشت،برف اور دودھ لایا۔اس عالم میں کہ میری جیب میں کوئی پیسہ نہیں تھا۔محلے میں گھوم کر بستر اور چارپائیاں اکٹھی کیں۔سالن نانی نے پکایا اور روٹیاں تندور سے لگ کر آئیں۔اس کام میں نانی کے بیٹے نے بڑی مدد کی۔سب کی مقدور بھر تواضع کے بعد خواتین کو صحن اور مردوں کو کچے حصے میں پیڈسٹل فین لگا کر بستر لگوا دیے اور خود ملازم کے ساتھ چھت پر سویا۔ یہ سب کیسے ممکن ہوا معلوم نہیں مگر ہوا اور اس کی وجہ شاید وہ تربیت تھی جو گاؤں میں آنے والے مہمانوں کی تواضع کرنے سے پائی تھی مگر اس سے اپنی واہوا بلے بلے ہو گئی اور ابّا،اماں کی شاباش نے تو ہمیشہ کے لیے نہال کر دیا۔گو شاباش کے اصل مستحق وہ دکان دار اور محلے دار تھے جنہوں نے کوئی سوال پوچھے بغیر وہ سب کچھ فراہم کیا جو میں نے چاہا۔یقیناً میرے ابّا جی نے ان کا حق ادا کرنے میں کوتاہی نہیں کی ہو گی۔

سب ٹھیک چل رہا تھا اور میں جو مل رہا تھا،پڑھے جا رہا تھا۔بچوں کے رسائل اب مزہ نہیں دیتے تھے گو ان میں”ہمدرد نونہال”اور”تعلیم و تربیت”کا اضافہ ہو گیا تھا۔اب میں”قہقہہ”،چاند”اور”آداب عرض”
بھی پڑھنے لگا تھا۔”چاند”میں معروف گیتوں کی پیروڈی شائع کی جاتی تھی۔ایڈیٹر پیرجنگلی علیہ ماعلیہ تھے جن کا دوسرا نام وحشی مارہروی تھا۔اس کی”سچّی کہانیوں”پر وقت ِمطالعہ”درج کیا جاتا تھا۔شاید یہ ایجاد مصروف لوگوں کی اعانت کے لیے تھی کہ مجھ جیسا فارغ تو ان کہانیوں کو اس سے چوتھائی وقت میں نمٹا لیا کرتا تھا۔یہ کہانیاں عام طور پر ناکام عشّاق اور مجبور لڑکیوں کی
داستان ِحیات سے معاملہ رکھتی تھیں۔بہت بعد میں، میں نے اس سلسلے کی چند کہانیاں لکھی اور طبع کرائیں تو ان کی جذباتیت بھی خاصے کی چیز تھی اور بیسیوں تعریفی مراسلوں کی موصولی کا سبب بنی۔یہ بات میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ اس زمانے میں خط کتابت کے لیے میں آصف کے گھر کا پتا دیا کرتا تھا۔آداب عرض میں بھی میں یہی پتا چھپواتا رہا۔
نصاب کی کتابوں کے علاوہ شاعری کی مختلف صورتیں انہی رسائل میں دیکھیں۔ایم اسلم کے ناولوں کے ہر باب کے آغاز میں بھی شاعری پڑھنے کو ملتی تھی اور مجھے یاد ہو جاتی تھی۔کبھی کسی گیت کی پیروڈی کی سوجھتی تھی تو دل ہی دل میں گنگنا کر آزما لیتا تھا۔با آواز ِبلند گانے کی ہمّت اس لیے نہیں تھی کہ غسل خانے میں گاتے ہوئے بھی اپنی آواز بھدی ہی محسوس ہوتی تھی۔پھر کس بِرتے پر تتّا پانی۔تب اوزان و اوسان دونوں خطا رہتے تھے مگر ایک بار ہمت کرکے”چاند”کو مکیش کے ایک گیت”چل اکیلا”کی پیروڈی بھجوائی تو وہ چھپ گئی مگر اسے میں نے اپنے لیے مثال نہیں بنایا اور نہ اس عمل کا اعادہ کیا۔پڑھنے اور قدرے بعد میں لکھنے کے سلسلے میں نثر ہی کو ترجیح دی اور شاعری سے وہی نسبت رہی جو چرخے کو چرخِ ِادب سے ہے۔

درس گاہ – 18

تانگہ پورے خاندان کے استعمال کی سواری تھی۔والد صاحب کو اکیلے کہیں قریب جانا ہوتا تھا تو کسی ملازم کے ساتھ پیدل ہی چلے جاتے تھے یا گھوڑے پر زین ڈال خود ہی چکّر لگا آتے تھے۔گرمیوں میں جانوروں کو آرام کا موقع دیا جاتا تھا۔خاص طور پر برسات اور حبس کے موسم میں تو تانگہ جوتنے یا گھوڑے کی سواری سے پرہیز کرنے کی تاکید تھی۔روایت تھی کہ اس موسم میں کاغذ کے ساز( چمڑے کا سینہ بند اور پٹیاں جو تانگہ جوتنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں)اور زین بنا کر اپنے رہوار کو دکھا کر اُس کی آنکھوں کے سامنے جلا دیے جاتے تھے جو اس امر کا اشارہ ہوتا تھا کہ اس موسم میں جانور کو جوتنے کی تکلیف نہیں دی جائے گی،سو برسات میں باہر نکلنےکی شرح کم ہو جاتی تھی اور یہ اس لحاظ سے اچھا تھا کہ اس موسم میں دن بھر پسینہ بہنے کی وجہ سے ڈی ہائیڈریشن کا خطرہ بڑھ جاتا تھا۔موسمی پھلوں اور نمکین کچّی لسّی کا استعمال بڑھا دیا جاتا تھا اور مسافروں کی تواضع شِکونجی یعنی شکنجبین سے کی جاتی تھی۔
فصلوں کے ساتھ کیا جانے والا سلوک بھی بہت مزے کا تھا۔ابّاجی فجر کی نماز کے فورا بعد اپنے کُھوہ پر چلے جاتے تھے۔تمام کاشت شدہ رقبے کا دورہ کرتے،با آواز ِبلند فصلوں سے ہمکلام ہوتےاور ان کی تعریف کرتے۔کہا کرتے تھے کہ فصل مالک کو دیکھ کر خوش ہوتی ہے۔مدتوں بعد میں نے ایک سائنس میگزین میں کسی جاپانی بائیو سائنسٹسٹ کی تحقیق پڑھی۔انہوں نے کسی اناج کے دو یکساں قطعے پانی،کھاد اور ضروری ادویات کے ایک جیسے اور بروقت استعمال کے ساتھ کاشت کیے مگر ایک کھیت کی پرورش موسیقی سُنا کر اور تعریفوں کے پُل باندھ کر کی اور دوسرے کھیت کی بدکلامی اور بد دماغی کے ساتھ۔موصوف کی تحقیق کا تت یہ تھا کہ پہلے کھیت کی فصل معیار،وزن اور یافت میں دوسرے کھیت کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی۔
میرے ابّاجی سائنس دان تو نہیں تھے مگر صدیوں سے چلی آتی لوک دانش کے امین ضرور تھے۔گندم کے موسم میں فروری کے آخر یا مارچ میں ہونے والی ہلکی بارش ہر کسان کو عزیز تھی اور اس کی بوندوں کو”سونے دی کنی”کہا جاتا تھا۔برسات میں معاملہ اگرحد سے نہیں بڑھے تو یہ بارشیں حبس پیدا کرنے کے باوجود پسندیدہ تھیں۔
اس سلسلے کے ایک واقعے کا تعلق خشک سالی سے ہے۔ساون بھادوں کا زمانہ تھا اور بادل تھے کہ دھوپ میں نہا کر آتے تھے اور زمین کی طرف دیکھے بغیر گزر جاتے تھے۔لوگ دن چڑھے درختوں کےنیچے آ جاتے تھے کہ اس موسم میں کمروں میں رُکنا ناممکن ہو جاتا ہے۔جب موسم ختم ہونے پر آ گیا اور پانی کی ایک چھینٹ بھی نہیں پڑی تو بارش کے لیے کئی ٹوٹکے کیے گئے۔بے دھیانی میں بچوں کے منہ کالے کئے گئے۔نمازیں پڑھی گئیں۔اذانیں دی گئیں اور ایک روز جب میرے والد گھر کے سامنے کھال پر دھرا شہتیری پُل پار کر رہے تھے۔گاؤں کی کُنواریوں نےاچانک اپنے پانی سے بھرے گھڑے اُن پر خالی کر دیے۔وہ بہت خفا ہوئے کہ روایت کے مطابق یہ ٹوٹکہ اُس آدمی پر آزمایا جاتا ہے جو جتی ستی(پاکباز)ہو اور اب اگر بارش نہیں ہوتی تو اُن کی عزت پر حرف آنا لازم تھا مگر اللّٰہ نے اُن کی لاج رکھ لی۔کچھ ہی دیر میں بادل گھر آئے اور کُھل کر برسے۔
بہت بعد میں اُن سے ایک ملاقات کے بعد سرّاج منیر نے مجھےکہا تھا "غلام حسین ساجد!تمہارے والد ولی ہیں” تو میں نے اُس کی بات پر کوئی توجہ نہیں دی تھی۔اس لیے کہ میرے لیے اُن کا انسان ہونا اُن کے ولی ہونے سے اہم تھا اور ہے۔
دوسرا واقعہ غیر معمولی بارش کے ہونے سے متعلق ہے۔بادل ظہر کے بعد ٹُوٹ کر برسنا شروع ہوا،پہلے اخروٹ کے سائز کے ان گھڑے اولے پڑے،پھر طوفانی ہوا اور بارش جو رات بھر جاری رہی۔ہوا اتنی تیز تھی کہ بیسیوں درخت زمیں بوس ہو گئے۔کھیت پانی سے بھرے،پھر گذرگاہیں اور سڑکیں اور پھر صحن۔مشرق سے سیلابی ریلہ چلا اور جراحی،ڈپیٹیاں والا،بستی کبیر سنپال کی فصلوں پر رواں آئینے کی تہ جماتا پکا حاجی مجید کو نگل کر آگے بڑھ گیا۔صبح ہونے پر بارش کی چھماچھم جاری تھی گو رات کے مقابلے میں ہلکی تھی۔میں باہر کا جائزہ لینے کو باہر نکلا تو گرے ہوئے پیڑوں اور کھڑے ٹُنڈ مُنڈ درختوں پر سینکڑوں پرندے اس حالت میں بھیگےبیٹھے تھے کہ ان میں دوسری ٹہنی تک اُڑ کر جانے کی سکت نہیں تھی۔بے شمار فاختائیں پانی میں پھڑپھڑاتی تھیں مگر کسی محفوظ جگہ تک پہنچنے سے معذور تھیں۔اتفاق سے ہمارے بیلنے کا کڑاہ گھر میں دھرا تھا۔میں نے اور میرے چھوٹے بھائی نے ماں کی اجازت سے اسے پانی میں ڈالا تو وہ تیرنے لگا۔ہم نے اس "کشتی”کے ذریعے پچاسوں فاختاؤں کو ریسکیو کیا۔اپنے گھر کے برآمدے میں لا کر رکھّا اورموسم کُھلنے پر اُڑا دیں تو یوں لگاجیسے کسی اپنے کو آزادی کا تحفہ دیا ہو۔
اب دھیان آیا ہے کہ یہ شعر غالباً اسی واقعے کا پرتو ہیں:
ہمارے دل غموں میں یُوں گِھرے ہیں
کہ جیسے بارشوں میں فاختائیں

درختوں پر فقط اب ڈھیر ہیں ٹوٹے پروں کے
پرندے کون سی دُنیا میں ضم ہونے لگے ہیں

افسوس کہ زندگی کے پہلے گہرے دکھ کی یاد بھی ایک پرندے ہی سے جُڑی ہے۔
اس واقعے سے کوئی برس دو برس پہلے اپنے گاؤں کے ہم جولیوں کے ساتھ کھیل کود کے دوران میں نہ معلوم کیسے یہ بات ہم لوگوں پر اپنے آپ کُھل گئی کہ ایک خاص موسم میں زرد یا سُرخ بِھڑیں سُست اور نڈھال پڑ کر ڈسنےسے گریز کرتی ہیں اور اُن کو پکڑ کر اور اُن کا ڈنک نکال کر اُن سے کھیلنا ممکن ہوتا ہے سو ایسے موسم میں جو غالباً آمد ِسرما کے نزدیک کا ہوا کرتا تھا،ہم کسی نہ کسی طرح ان بِھڑوں کو پکڑ کر اور ان سے کسی بے جان شے کو ڈسوا کر بے ضرر بنا دیتے تھے اور ان کے پاؤں میں مشینی دھاگہ باندھ کر انہیں اُڑنے کے لیے چھوڑ دیتے تھے۔اس مقابلے میں ہماری ہارجیت کا فیصلہ ہماری بِھڑ کے اُڑنے کی بلندی سے ہوتا تھا۔پاؤں میں بندھے دھاگے کے بوجھ کو اُٹھا کر اُڑنے والی بِھڑ ایک خاص بُلندی اور فاصلے تک جا کر جیسے فضا میں ساکت ہو جاتی تھی اور دھاگے کو تھام کر بِھڑ کو کسی خاص علاقے میں محدود رکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ایسی بِھڑیں فضا میں ایک مخصوص بلندی پر پھڑپھڑاتی تھیں اور بالآخر تھک کر کسی نزدیک کی شے پر بیٹھ جاتی تھیں۔یہی وقت،فاصلہ اور بلندی ہماری ہار جیت کی میزان تھی۔
ان بِھڑوں کا اُڑنا اور ہوا میں ساکت ہو کر پھڑپھڑانا ایک پُرلطف اور قابلِ دید نظارہ تھا اور اس سے کسی پچھتاوے کا وابستہ ہونا ممکن نہیں تھا کہ بِھڑوں اور ڈسنے والے دیگر زہریلے بُھنگوں کو مار ڈالنا کارِ ِثواب گردانا جاتا تھا۔پچھتاوے کا مرحلہ تو اس سے تجاوز کرنے کے نتیجے میں آیا اور بقول ِمنیر نیازی میری ساری زندگی کو بے ثمر کر گیا۔
ہُوا یوں کہ ہماری ٹولی نے اس تجربےکو چِڑیوں تک پھیلانے کا سوچا اور ہم بہت جلد مختلف طریقوں سے چڑیاں پکڑ کر اور اُن کے پاؤں میں بندھے دھاگے کے سرے کو اپنی انگلی پر لپیٹ کر ان کی محدود پروازوں کے دورانیے سے اپنی ہار جیت کا فیصلہ کرنے لگے۔بھڑوں کی طرح چڑیاں بھی اپنے آپ کو آزاد سمجھ کر اڑتی تھیں اور دھاگے کی لمبائی کی حد پر جا کر ایک ہی جگہ ساکت ہیلی کاپٹر کی طرح پھڑپھڑانے لگتی تھیں۔اُن کے پروں کی جھنکار ایک خاص ردھم کے ساتھ ہمارے کانوں تک آتی تھی جیسے کوئی تیزی سے پنکھا جھل رہا ہو مگر اس کی ہوا کسی تک پہنچ نہ پا رہی ہو۔
دھاگے سے بندھی ہوئی چڑیاں ہوا میں پھڑپھڑاتے ہوئے کچھ دیر پکڑنے والی کی انگلی پر اپنی قوتِ پرواز کا دباؤ برقرار رکھتی تھیں مگر اس قدر نہیں کہ دھاگہ ٹوٹنے کی نوبت آئے یا چڑیوں کے فضا میں نکلنے اور مختلف سمتوں میں اڑنے کی کوشش کے تناؤ سے کسی کھلاڑی کی انگلی پر کوئی نشان پڑ جائے۔بھڑوں کی طرح ان چڑیوں کا بھی ہوا میں ساکت ہو کر پھڑپھڑانے کا منظر بہت پُرلطف ہوتا تھا اور شاید مجبوری و مختاری یعنی جبر و قدر کے مسئلے کو سمجھنے میں بہت معاون ہو سکتا تھا اگر اُس روز میری انگلی سے لپٹے دھاگے کا سرا پھسل کر میری انگلی سے بندھی چڑیا کو آزاد نہ کر دیتا۔
نہیں معلوم یہ کیسے ہوا مگر ہوا اور میری انگلی سے بندھی،دھاگے کے دوسرے سرے پر فضا میں تیرتی چڑیا کو اچانک افق کے کھلتے چلے جانے اور اپنے پروں کی طاقت کے کارگر ہونے کا ایسا احساس ہوا کہ وہ ایک لمبی اڑان کے ساتھ میرے ہاتھ کی رسائی سے دور ہوگئی۔کچّی زمین پر دُھول اُڑا کر اس کے پیچھے بھاگ کر،جلانے کے لیے رکھی لکڑیوں کے ڈھیروں پر چڑھ کر اور راہ میں حائل گھروں کی کچی داؤدی دیواروں کو پھلانگ کر بھی میں زمین سے ایک خاص بلندی پر لٹکتے دھاگے کے سرے کو پھر پکڑ نہیں پایا اور اپنی آزادی کے نشّے میں مست مگر اپنے تعاقب میں مری موجودگی سے باخبر چڑیا چھوٹی چھوٹی اڑانیں بھرتی بالآخر ہماری چھوٹی سی بستی سے باہر کھیتوں کی طرف پرواز کر گئی اور میں ایک غیر واضح احساس ِزیاں کے ساتھ گھر پلٹ آیا۔
گھر پلٹنے کے کئی روز بعد تک مجھے اندر ہی اندر کسی ان ہونی کے وقوع پذیر ہونے کا ڈر رہا جس کی وجہ میری سمجھ میں نہیں آتی تھی۔شاید یہ اپنے ہم جولیوں کے کھیل سے باہر ہونے کا رنج تھا مگر اس میں شمولیت کے لیے تو بس ایک اور چڑیا پکڑنا کافی تھی اور چڑیوں کی گاؤں کے درختوں اور گھروں کے چھپروں میں کوئی کمی نہیں تھی۔پھر بھی میں نے کوئی نئی چڑیا نہیں پکڑی اور میرا جی چاہتا تھا کہ کہیں سے اچانک وہی رہا ہو کر معدوم ہونے والی میری اپنی چڑیا پلٹ آئے اور میں اسے دوبارہ اڑانے سے پہلے اس کے پاؤں میں بندھے دھاگے کو کھول دوں۔
میں نے کوئی چڑیا پکڑی نہ ہی میری اپنی چڑیا پلٹ کر آئی اور دن پرندوں کی طرح پھڑپھڑاتے گزرتے رہے۔دن بھر گھر میں،سکول میں اور ہم جولیوں کے ساتھ میں ہر طرح کے معمول میں شریک رہا مگر کئی دنوں سے ایک اضافی کام میرے معمول کا حصہ بن گیا تھا اور اس کام کے لیے میں نے کسی کو ساتھ رکھنے کی ضرورت نہیں جانی۔
یہ کام تھا ظہر کے بعد بستی کے ارد گرد کے درختوں کے جھنڈوں میں جا کر آوارہ گھومنا،پیلے پھولوں سے بھرے کیکروں کو جھومتے دیکھنا،شیشم کے لدے درختوں کی بوجھل مہک سے سرشار ہو کر اپنی تنہائی کا مزہ لیتے ہوئے،لو دیتے پتّوں کی سرسراہٹ سے مس ہوکر چھنتی کرنوں کا شمار کرنا اور ایک محسوس نہ ہونے والی بے چینی کے ساتھ اپنی کھوئی ہوئی چڑیا کو تلاش کرنا۔کیوں کہ کہیں اندر ہی اندر مجھے معلوم تھا کہ اس رس بھری دنیا کو چھوڑ کر وہ کہیں دور بہت دور نہیں گئی ہو گی۔
میں اس وقت بہت چھوٹا تھا اور اپنے روحانی اضطراب سے بڑی حد تک انجان مگر میرا احساس برحق تھا اور میرا یہ گمان بھی کہ میری گرفت سے نکلنے والی چڑیا کہیں دور نہیں جا سکتی۔واقعی اس کو کہیں دور جانا نصیب نہیں ہوا۔بہت دنوں بعد وہ مجھے ایک کیکر پر ملی۔اس کا سوکھا ہوا پنجر اسی دھاگے سے بندھا ہوا زمین سے چند فٹ کی بلندی پر لٹکتا تھا۔دھاگے کا دوسرا سرا کیکر کی شاخوں میں الجھا ہوا تھا۔وہ شاخیں کسی بچے کی انگلی جیسی پھسلواں نہیں تھیں اور چڑیا کے لیے موت کی اس زنجیر کو توڑ کر نکلنا ممکن نہیں ہو سکا تھا۔ایک بچے کی حماقت سے کھینچے ہوئے اس دائرے میں اس کی بھوک اور پیاس بجھانے کی کوئی صورت نہیں ہو سکتی تھی اور اس کی آزادی اس کے لیے موت کا پروانہ بن گئی تھی۔کب؟مجھے معلوم نہیں مگر مری تلاش ختم ہونے تک اس کے پنجوں اور گوشت سے خالی ڈھانچے پر تھکے ہوئے پروں کا ایک ننھا سا ڈھیر ہی باقی تھا جسے میری روح،میرے احساس میں بھی باقی رہنا تھا۔
آج اپنے پاؤں کی زنجیر کو دیکھتے ہوئے مجھے یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگتی کہ میری آزادی کی حد کیا ہے اور میری زندگی کا انجام کیا ہوگا؟
کاش میں نے اُس چڑیا کو پہلے ہی روز ڈھونڈ لیا ہوتا تو اپنے اندر کی اس گھٹن اور پچھتاوے سے آزاد ہوتا مگر ِ تقدیر نے جو کمی کسی کی قسمت میں لکھ دی ہو،اسے کوئی کس طرح دور کر سکتا ہے؟

درس گاہ – 17

میاں چنوں کی رہائش سے پہلے میں نے مغرب کی جانب تو سفر کیا تھا کہ میرے والد اور والدہ اپنے مرشد سے ملاقات کے لیے ملتان جاتے رہتے تھے اور کئی بار ہم دونوں بھائیوں کو بھی ساتھ لے لیتے تھے۔تب ہم لوگ ٹرین کے ذریعے کینٹ اسٹیشن پر اترتے تھے اور تانگہ لے کر پاک دروازےآجاتےتھے جہاں سے صرافہ بازار میں داخل ہو کر سونے کی دکّانوں کی سیر کرتے اور کم وبیش ہر ہٹّی میں آغا خان کی تصویر دیکھتےدربار موسیٰ پاک پر آ کر پیر شوکت حسین گیلانی سے ملاقات کرتے تھے جو بہت شفقت سے پیش آتے تھے۔میری والدہ اندر زنان خانے میں چلی جاتی تھی اور ہم مہمان خانے میں۔شربت اور طعام کے بعد خصوصی دعا کی جاتی تھی اور پھر دیگر کام کاج کرنے یا واپسی کی اجازت ملتی تھی۔اس خصوصی سلوک کی وجہ یہ تھی کہ میرے والد حقیقت میں گیلانی صاحب کے والد کے مرید تھے اور موجودہ گدّی نشین انھیں اپنے بزرگ جیسا احترام دیتے تھے مگر جب ہم بیگم پیر برکت علی شاہ کے ساتھ آتے تھے تو مقصد صرف اور صرف تفریح ہوتا تھا۔کبھی ملتان کی سوغاتیں چکھی جاتی تھیں، کبھی کسی سنیما کا رُخ کیا جاتا اور کبھی شاہ صاحب کے کسی سجّن کی مہمانداری کا لطف اُٹھایا جاتا۔اس ٹور میں شاہ صاحب ہمارے ساتھ ہوتے تھے نہ میرے والد۔عام طور پر عشا تک واپسی ہو جایا کرتی تھی تاہم قیام کے ارادے یا قیام کرنے کی کوئی مجبوری ہونےکی صورت میں شہر کے اسٹیشن کے بالمقابل شاہ صاحب کی اپنی کوٹھی کا رُخ کیا جاتا تھا جو”برکت منزل” کہلاتی تھی اور شاگرد پیشہ کمروں،وسیع برامدے۔اوپر شیش محل اور برساتی اور برآمدے سے آگے کوئی ایک کنال کے وسیع صحن کے بعد اصل بنگلے پر مشتمل تھی جو سطح ِزمیں سے نو سیڑھیاں بلند تھا۔اس میں چار بیڈ روم بیرونی برآمدے کے ساتھ اس طرح ڈیزائن کیے گئے تھے کہ بیچ میں ایک وسیع و عریض گول کمرہ نکل آیا تھا،جہاں لکڑی کی نہایت خوبصورت منقش الماریاں تھیں اور ملٹی کلر رنگین شیشوں والے دیدہ زیب روشن دان۔سُنا تھا یہ بنگلہ پیر صاحب کی پھوپھی نے اپنے بھتیجے کے ملتان میں زیر ِسماعت مقدمات کی پیروی کے لیے بنوایا تھا اور اسے اسٹیشن کے بالمقابل نشاط روڈ پر بنوانے میں حکمت یہ تھی کہ یہاں آنے والوں کو یہاں پہنچنے کے لیےاسٹیشن سے نکل کر کسی سواری کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔
میں جب ایف ایس سی کرنے کی کوشش کے زمانے میں،اس کوٹھی میں مقیم ہوا تو اس بنگلے کا ماسٹر بیڈ روم چھے ماہ تک میرے تصرّف میں رہا مگر یہ قصہ تو بہت بعد کا ہے۔
میں نے پہلی بار رکشا ملتان ہی میں دیکھا اور اس کی پُھرتی اور مستی دیکھ کر اس قدر بدحواس ہوا کہ اپنے آپ کو بچانے کے لیے بے اختیار اُس کے آگے آگے بھاگ کھڑا ہوا۔
ابّا جی بتاتے تھے کہ ہمارے علاقے میں پہلی کار برکت علی شاہ نے کہیں 1930ء کے آس پاس لی تھی۔اُس وقت کیفیت یہ تھی کہ تلمبہ ملتان روڈ پر بیٹھے پرندے کار آنے پر اُڑنے کی زحمت ہی نہیں کرتے تھے اور کئی بار بچانے کی کوشش کے باوجود کچلے جاتے تھے۔میری کتاب”بانے”میں شامل نظم "گنجی بار وچ پہلی کار”میں اسی قصّے کا شاعرانہ اظہار ہے۔
گُھگھّیاں توں اُڈن نئیں ہوندا
کاں ہیٹھاں نئیں لَہندے
سَییّڑ لاٹو بن بن ویہندے
گِدڑ ڈگدے ڈَھہندے
گاواں،مجھّاں چرنا چھڈ کے
بھجدیاں ابھڑّ واہندے
پھنئیر اوڑاں نوں سِر دے کے
بن گئے لال پراندے
پینڈے پُٹھّے پیریں بھجدے
وات کھڑائی جاندے
کوئی ہنیری کردی جاندی
سُکھ سجناں دے ماندے

ماسی نُوراں جب بھی "لانگ ڈرائیور”پر نکلتی تھیں۔اپنی جیپ میں ہمارے گھرانے کو بھی بھر لیتی تھیں۔ انہی کے ساتھ دو ایک بار عبدالحکیم،تلمبہ اور خانیوال جانا ہوا تھا اور اُسی زمانے میں ہیڈ سندھائی کے بننے کا نظارہ بھی کیا تھا۔بھاری مشینری کو کام کرتے دیکھنا ایک یادگار تجربہ تھا اور اس سے بھی دل فریب اور متاثر کرنے والے انجینیئرز کے لیے تعمیر کیے گئے وہ بنگلے تھے جو اب پاک فوج کے استعمال میں ہیں اور عبدالحکیم چھاؤنی کا حصہ ہیں۔اُسی زمانے میں ایک بار سیلاب آنے پر بند کے ساتھ ساتھ سفر کر کےخلقت کی حالت ِزار دیکھنے کا موقع بھی ملا تھا جو بہت بعد میں میری کہانی”اُروار”کی بنیاد بنا۔

سو میں ملتان تک کے مغربی قصبوں سے آگاہ تھا اور اسٹیشنوں کے تو نام تک یاد کر رکھے تھے مگر مشرق کی طرف کبھی اقبال نگر سے آگے جانے کا موقع نہیں ملا تھا۔1964ء کے اوائل میں ابّاجی نے خوش خبری سنائی کہ مجھے اُن کے ساتھ لاہور جانا ہے کہ خان عبدالحمیدخاں کی صاحب زادی کی شادی تھی اور انہیں اُس میں شمولیت کی دعوت دی گئی تھی۔خاں صاحب غالباً کلکٹر ہو گئے تھے مگر لوگ انہیں ڈپٹی صاحب کہہ کر ہی یاد کرتے تھے۔ہمارے علاقے میں اُن کی سب سے زیادہ قربت میرے والد صاحب ہی سے تھی سو جانا ضروری تھا اور ہم سفری کا قرعہ خوش قسمتی سے میرے نام نکلا۔تب تک میں اکھان”جہنے لہور نئیں ویکھیا اوہ جمّیا ای نئیں”سُن چکا تھا۔اس لیے لاہور دیکھنے کی تمنا اپنے زوروں پر تھی۔پھر یہ کتابوں اور کہانیوں کا شہر تھا جسے اپنی آنکھوں سے دیکھنا کسی خواب کو تعبیر سے ہم کنار ہوتے دیکھنے جیسا تھا۔
ہم ڈیڑھ بجے خیبر میل پر بیٹھے اور کپڑوں کا ایک ایک اضافی جوڑا ٹرنک میں ٹھونس کر لاہور کے لیے نکل پڑے۔تب ٹرین وقت پر آتی تھی اور لوگ اسے دیکھ کر اپنی گھڑیاں درست کیا کرتے تھے۔ہم بھی ٹھیک وقت پر نکلے۔میں سوار ہوتے ہی کھڑکی سے لگ گیا تھا۔درختوں اور عمارتوں کو پیچھے کی طرف بھاگتے،آسمان کو ایک بڑے دائرے میں گھومتے محسوس کرنا،حدِ نظر پر زمین اور آسمان کو ایک دوسرے سے ملتے دیکھنا میرے لیے نیا تجربہ نہیں تھا مگر اس طرف کے درخت،جانور،لوگ،قصبے اور اسٹیشن میرے لیے نئے تھے اور اس سے بھی نئی بات چائے اور کھانے سے بھری کشتیوں کے ساتھ وردی پوش
بیروں کا چلتی ٹرین میں ایک سے دوسرے ڈبے میں منتقل ہونے کا منظر تھا۔پھیری والے،بھکاریوں اور ٹرین کے عملے کی بھاگ دوڑ اس پر مستزاد تھی۔ٹرین ساہیوال اور اوکاڑہ کے اسٹیشنوں پر رُکی تو نیچے اُتر کر شربت پیا اور چلے پھرے کہ ٹانگوں کی اکڑن ٹھیک ہو اور واقعی اس عمل سے بدن اور ذہن کو بہت آرام ملا۔

لاہور اسٹیشن میری توقع سے بہت بڑا تھا۔پلیٹ فارموں کی تعداد،
گاڑیوں کی بہتات اور ان کی آمدورفت کے حوالے سے فضا میں تیرنے والے مخصوص لہجے اور زبان میں کیے گئے اعلانات۔پلیٹ فارم پر سجی دکانیں اور پھیری والے،ریڑھیاں اور ہر سمت میں ہراساں ہو کر بھاگتے ہجوم۔ میں جو رائے ونڈ کے بعد مسلسل لاہور کی جھلک دیکھنے کے شوق میں کارخانوں کا دھواں پھانکتا آیا تھا۔یہاں کی چہل پہل، افراتفری اور بھول بھلیوں کی طرح چڑھتی اترتی سیڑھیاں دیکھ کر یقیناً بوکھلا جاتا اگر ابّا جی میری انگلی تھام کر باہر کی طرف چل نہ دیتے۔ہم مین بلڈنگ سے اپنے ٹکٹ دکھا کر بلکہ چیکر کے حوالے کر کے باہر نکلے تو کوئی آدھ فرلانگ کے فاصلے پر بیسیوں تانگے والے منحنی وجود والے گھوڑوں کو اُلار تانگوں میں جوتے بھاٹی لوہاری کا راگ الاپ رہے تھے۔ابھی میرے ابّاجی ایک تانگے والے سے موچی دروازے جانے کی بات کر ہی رہے تھےکہ میں نے اپنے آپ کو ننھے ٹرنک سمیت ایک اور تانگے کی اگلی سیٹ پر پایا۔پچھلی سیٹ پہلے ہی بھری ہوئی تھی۔میں نے ابّاجی کو آواز دے کر اپنے مقامِ استراحت سے آگاہ کیا تو وہ بھی میرے ساتھ آ بیٹھے مگر ان کے بیٹھنے کی دیر تھی کہ ہمارے علاوہ تمام سواریاں ایک ایک کرکے کھسک لیں اور ہم اُس وقت تک اپنی یکتائی کا مزہ لیتے رہے جب تک تانگہ واقعی بھر نہیں گیا اور دونوں طرف کے بم سواریوں سے خمیدہ کر کے تانگے کا توازن درست نہیں کر لیا گیا۔
خیر موچی دروازہ زیادہ دور نہیں تھا۔وہاں آ کر پتا چلا کہ ڈپٹی صاحب گلبرگ منتقل ہو گئے ہیں(یہ جگہ بعد میں حسین چوک اور ایم ایم عالم روڈ کہلائی)مگر اس خبر سے ہمیں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ہم نے رات بھر کے لیے اپنا میزبان بدل لیا اور خان لیاقت خاں کے مہمان بن بیٹھے۔ہمارے لیے چارپائیاں لگائی گئیں۔نکور بستر،چادریں اور رضائیاں نکالی گئیں۔بالکل دیہات کی طرز پر رکابیوں میں دو طرح کا سالن تندوری روٹیوں کے ساتھ مع ٹھنڈے پانی کی شیشے کی بوتلوں کے بھجوایا گیا۔یہ پہلا موقع تھاجب میں نے کسی کے گھر کی فریج کا پانی پیا اور پانی کو جگ کی بجائے بوتل بند پایا۔
ہم موچی دروازہ برانڈرتھ روڈ کی طرف سے آئے تھے۔ دھاتی مشینری کی اس قدر دکانوں کو ایک ساتھ دیکھنا انوکھا تجربہ تھا مگر اس سے زیادہ حیرت صبح ناشتے کے بعد سالم تانگے پر،جو دس روپے میں خاں صاحب کے کسی کارندے نے منگوا دیا تھا،گلبرگ جاتے ہوئے بانساں والا بازار سے گزرتے ہوئے ہوئی۔بانس کے ڈھیر،چارپائیاں اور پوڑیاں اور جانے کیا کیا۔میں تسلیم کرتا ہوں کہ بانس کی چارپائی میں نے پہلی بار لاہور ہی میں دیکھی۔مجھے حسین چوک جانے کا روٹ تو یاد نہیں مگر ہم شاید ہال روڈ،لارنس روڈ اور جیل روڈ سے لبرٹی پہنچے تھے۔جہاں ابھی رونق نہ ہونے کے برابر تھی اور کوٹھی کے سامنے کی سڑک پر تو ہُو کا عالم طاری تھا۔
لاہور میں تانگے بھی تھے،رکشے اور ٹیکسی بھی۔یہ میٹر گھما کر سفر کرنے کا زمانہ تھا۔پھر ہمارے لیے تانگہ کیوں منگایا گیا اور ہم گھنٹہ بھر لاہور کی سڑکوں پر ڈُک ڈُک کیوں کرتے رہے؟اس کا راز یہ تھا کہ وہ تانگے والا اس منزل سے بخوبی آگاہ تھا اور اٗسے کوٹھی پر سامان پہنچانے کے لیے جانا ہی تھا۔
خاں عبدالحمیدخاں کا یہ گھر ابھی بن رہا تھا۔یہ ایک نہیں چار چار کنال کی دوجُڑواں کوٹھیاں ہیں اور اس سڑک کے آغاز میں واقع ہیں۔
پندرہ برس بعد میری شادی کی تیاری کے لیے میرے ماں باپ خاں صاحب کی دعوت پر اسی گھر میں ٹکے رہے۔میری برات کو یہیں ناشتا کرایا گیا اور یہیں سے تیّار ہو کر سب دلھن کی طرف پدھارے۔

اُس روز یہاں آنے سے پہلے ہم نے خوب بن ٹھن لیا تھا۔خاں صاحب کے مینیجر نے ہمارے ملبوس سویرے دھوبی کو بھجوا کر استری کرا دیے تھے۔میں نے پتلون اور شرٹ پہنی تھی۔پہلی بار تو نہیں مگر میری بے چینی اور بے زاری پہلی بار جیسی ہی تھی۔ابّا جی نے سفید کرتا اور دھوتی،سفید طرّے اور کُھسے کے ساتھ۔اس لباس والے دو ایک زمیندار اور بھی تھے۔اس لیے ہمیں حیرت سے دیکھنے والوں کی تعداد زیادہ نہیں تھی۔
نکاح کے بعد بوفے تھا۔مہمانوں میں سرکاری افسروں کا تناسب زیادہ تھا۔وہ لوگ چُھری کانٹے سے کھا رہے تھے۔میں نے ابّا جی کی توجہ ادھر دلائی اور بھاگ کر چھری کانٹے لے آیا مگر چھری کی پوزیشن غلط ہو جاتی کبھی کانٹے کی۔وہ تو بھلا ہو پیر سوہارے شاہ کا۔انہوں نے تکّلف برطرف کر کے ہاتھ سے کھانا شروع کیا تو ہم بھی اپنی تہذیب سے بار ِدگر جُڑ گئے۔
تقریب کے اختتام پر پیر سوہارے شاہ اور ابّا جی میں کیا گِٹ مِٹ ہوئی،معلوم نہیں۔ہم خاں صاحب سے اجازت لے کر اُن کے ساتھ ہو لیے۔وہ ہمیں سمن آباد مارکیٹ کے قریب ایک بڑی سی مگر پُرانی دھرانی کوٹھی میں لے آئے۔یہ کوٹھی اُن کے سالے قمر الزمان کھگہ کی تھی جو بعد میں زراعت کے صوبائی وزیر بنے۔رات وہیں بسر ہوئی مگر اللّٰہ اللّٰہ کرتے۔وجہ یہ کہ خان لیاقت خاں کے ہاں استراحت کے لیے دیے جانے والے بستر جس قدر اجلے تھے۔یہاں لگائے جانے والے بستر اتنے ہی بُسے ہوئے اور بدبودار تھے۔ابھی سال کا آغاز تھا اور موسم سرد مگر ان رضائیوں میں سر منہ چُھپانے کی جسارت وہی کر سکتا تھا جو حبس دم کی مشق میں کسی نانگے سادھو کی طرح طاق ہو۔
اس کا فائدہ یہ ہوا کہ صبح ناشتے کے بعد ہم پیر صاحب کی مصاحبت سے تائب ہو کر چڑیا گھر پہنچے۔وہاں دوپہر تک گھومے پھرے۔ہاتھی،گینڈے،دریائی بھینسے،زرافے اور بیسیوں ایسے جانور دیکھے،جن کا ذکر نصابی کتابوں میں آیا تھا مگر جس محترمہ کے نام پر یہ دُنیا بسائی گئی تھی۔وہ کم کم ہی دکھائی دی۔
افسوس اس پھیرے میں نولکھا بازار دیکھا نہ اردو بازار میں کتابوں کی ہٹیاں۔اُس وقت کون جانتا تھا کہ آنے والے دنوں میں موخرالذکر بازار سے میری نسبت کس قدر گہری ہونے والی ہے۔
کتنی عجیب بات ہے تب تعلیم اور ملازمت کے لیے میاں چنوں کے علاوہ کوئی اور شہر میرے دھیان میں آتا ہی نہیں تھا۔رہائش کے لیے میری ترجیح بستی کبیر سنپال تھی اور گھومنے پھرنے کے لیے ایک عدد شیطانی چرخہ۔جو ان دنوں میرے تایا زاد بھائی مہر دلدار کے علاؤہ کسی کے پاس نہیں تھا۔یہ شیل کمپنی کا بنایا ہوا تھا اورغالبا”
پانچ ہارس پاور کا انجن رکھتا تھا۔سلف سٹارٹ ہونے کی وجہ سے اُسے سٹارٹ کرنا تو آسان تھا مگر سنبھالنا مشکل۔اُس کی طاقت پانچ گھوڑوں کے برابر تھی یا نہیں مگر اُس کی رفتار بہرحال کسی بھی گھوڑے سے زیادہ تھی۔

درس گاہ – 16

اُن دنوں ہم ہر سنیچر کو بستی چلے جاتے تھے ۔ سہہ پہر کو سکول سے پلٹ کر کھانا کھاتے ہی ضروری سامان تانگے پر دھر ، جو ہمیں لانے کے لیے صبح ہی بھجوا دیا جاتا تھا ، ہم کچھ ہلکی پھلکی خریداری کے بعد اس اہتمام سے گاؤں کا رُخ کرتے تھے کہ شام سے پہلے گھر پہنچ جائیں ۔ وجہ راستے کا غیر محفوظ ہونا نہیں تاریکی میں سفر کا دشوار ہو جانا تھا ۔ تعطیلات میں مستقل قیام بستی ہی میں رہتا تھا البتہ کسی کام کے لیے شہر آتے تو مکان کا چکر بھی لگا لیا جاتا۔

شہر میں کمروں کی تقسیم یوں تھی کہ پچھلے حصّے کا شمالی کمرہ مردانہ استعمال میں تھا اور بائیں جانب والا کمرہ مستورات کے حصّے میں آیا ۔ دائیں بائیں دونوں دیواروں میں الماریاں بنی تھیں اور کمرے میں آنے اور دوسرے کمرے میں جانے کا دروازہ دائیں طرف تھا ۔ اس لیے میں بائیں الماری پر قابض ہوا ۔ وہیں نواڑ کی پٹّی والا سنگل پلنگ ڈلوایا اور ساتھ والا پلنگ طالب کے حصّے میں آیا ۔ سرہانے ہوا کے لیے بڑی سی ونڈو تھی ۔ اس کے اوپر روشنی کے لیے بلب ۔ مجھے یاد ہے فلپس کا وہ دودھیا بلب کہیں تیس برس کے بعد فیوز ہوا اور اس کمرے کا پنکھا تو اب بھی بستی کے ایک کمرے میں ہوا دیتا ہے۔

یہ الماری میری کتابوں سے بھری رہتی تھی ، جن میں اکثریت کہانیوں کی کتابوں اور رسائل کی تھی ۔ ایک ٹرنک میں نے بستی کے منّھی والے کمرے میں بھر رکھّا تھا ۔ مجھے ماں کے منع کرنے کے باوجود رات کو دیر تک لیٹ کر پڑھنے کی عادت تھی ۔ اس لیے ایک نفیس ٹیبل لیمپ کا بندوست لازم تھا سو وہ بھی کر لیا مگر اب خریدی ہوئی کتب میرے مطالعے کی رفتار کا ساتھ نہیں دیتی تھیں سو میں مزید کی جستجو میں لگ گیا ۔ کسی نے مجھے میونسپل لائبریری کے خزانے کے بارے میں بتایا ۔ میں دو ایک بار وہاں گیا اور لوگوں کو کتابیں لیتے اور پڑھتے دیکھا مگر میری عمر کا کوئی قاری وہاں موجود نہیں تھا اور کتاب دار نے بھی میری حوصلہ افزائی نہیں فرمائی تو مجھے یہ مسئلہ اپنے والد کے حضور پیش کرنا پڑا ۔ انھوں نے اپنے دوست میاں ثنا اللہ بودلہ سے ذکر کیا جو شاید اُس زمانے میں شہر یا تحصیل کی سطح پر کسی نوع کے حکومتی نمائندے تھے ۔ اُن کے خوشہ چینوں اور سیاسی کارندوں میں غلام حیدر وائیں بھی تھے جو بعد میں پنجاب کے وزیرِ ِاعلیٰ بنے ۔ وہ ان دنوں میونسپل کمیٹی کے کسی عہدے پر متمکن تھے اور اُس وقت میاں صاحب کی محفل میں موجود تھے ۔ میری خواہش فوراً ان کے علم میں لائی گئی اور انہوں نے ترنت میرے لیے لائبریری کے دروازے کھلوا دیے ۔ میں نے اگلے روز ہی سے عصر کے لگ بھگ وہاں جانا شروع کر دیا اور کوئی کتاب پسند آنے پر اسے میرے ہمراہ کرنا ممکن ہو گیا مگر وہاں نولکّھا بازار کی کتابوں کا کال تھا ۔ البتہ ظفر عمر ، تیرتھ رام فیروز پوری ، قیسی رام پوری ، دت بھارتی ، عادل رشید ، شوکت تھانوی وغیرہ کی اپنی اور ترجمہ کی ہوئی کتابوں کی کمی نہیں تھی ۔ میں نے انہیں پڑھنا شروع کیا اور نہ معلوم کیا کچھ پڑھ ڈالا مگر میری کوشش یہ ہوتی تھی کہ کتاب بہت زیادہ ضخیم نہ ہو تاکہ ایک آدھ دن میں ختم کی جا سکے۔

اکرم الہٰ آبادی کے جاسوس کرداروں”خان”اور بالے” سے تعارف کا یہی زمانہ تھا ۔ میں اب ساتویں جماعت میں تھا اور شہری پنجابی کو شہریوں جیسی روانی سے بولنے لگا تھا مگر گاؤں آتے ہی میرا لہجہ بھی بدل جاتا تھا اور برتاؤ بھی ۔ سبھی ترک کئے ہوئے کھیل کھیلے جاتے ۔ کھال میں نہایا اور درختوں پر ڈیرا جمایا جاتا ۔ پٹھو گرم کیا جاتا گو اب کپڑے کی گیند کی جگہ ست ربڑی گیند (ٹینس بال) نے لے لی تھی ۔ کبڈی کھیلی اور کُشتی لڑی جاتی اور گھر کے صحن میں نیٹ لگا کر چِڑی چھکّا (بیڈ منٹن) بھی کھیل لیتے لیکن یہ کھیل ہم بہن بھائیوں تک ہی محدود رکھّا جاتا تھا اور اس میں کسی اور کی شمولیت بند تھی۔
اُس وقت میں بہت دُبلا اور پست قد تھا مگر بہت پُھرتیلا اور طرّار۔
اپنے ہم عمر کھلاڑی کو پھلانگ کر نکل جاتا اور کُشتی میں بھی مضبوط حریف ثابت ہوتا ۔ فٹ بال سے بھی شغف تھا ۔ ایک بار 14چک کے ساتھ میچ میں ٹیم کا حصّہ بنا تو اکلوتے گول کی سعادت میرے حصّے میں آئی مگر پاؤں میں موچ کے ساتھ ۔ تاہم ہماری ٹیم کے بڑے لڑکے اتنے خوش تھے کہ دو میل واپسی کے سفر میں مجھےچلنے کی زحمت نہیں اٹھانا پڑی ۔ بستی آنے تک میں ایک کندھے سے دوسرے کندھے پر منتقل ہوتا رہا اور کسی نے مجھے زمین پر قدم دھرنے کی اجازت نہیں دی۔

بستی میں دو بھائی علی محمد اور بلی محمد تھے۔موخرالذکر کا اصل نام ولی محمد تھا اور میرے ایک کزن کے گہرے دوست تھے ۔ آدمی معقول تھے ۔ ان دنوں بستی میں ایک دکّان چلا رہے تھے ۔ میں کچھ لینے جاتا تو میرے ذوقِ مطالعہ کی تعریف کرتے ۔ ایک دن کسی کام سے گیا تو ایک ضخیم کتاب میں غرق تھے ۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ نسیم حجازی کا ناول”اور تلوار ٹوٹ گئی” پڑھ رہے ہیں ۔ انہوں نے ناول کی اس قدر تعریف کی کہ مجھے بھی اس کتاب کے پڑھنے کی ہُڑک لگ گئی ۔ انہوں نے کمال مہربانی یہ کی کہ کتاب دوسرے دن ہی میرے حوالے کر دی ۔ میں نے پڑھنا آغاز کی تو مجاہدین کے بارے میں سُنی ہوئی سبھی حکایتیں میری سہاتا کو آن کھڑی ہوئیں ۔ تخّیل ، تاریخ ، مثالی کردار، جذباتیت ، منظر کشی اور اسلامی رومانس مجھے اپنے ساتھ اس طرح بہا کر لے گیا کہ میں نے اس ضخیم کتاب کو ایک ہی دن میں پڑھ ڈالا ۔ غالبا” گرمی کی چھٹیاں تھیں مگر میں ہی اگلے دن شہر پہنچا اور میونسپل لائبریری سے”معظم علی” تلاش کر لایا ۔ پھر یہ سلسلہ اُن کے پہلے سے آخری ناول تک پھیل گیا ۔ اس بیچ میں رئیس احمد جعفری ، صادق حسین سردھنوی اور ہیرلڈ لیم بھی آدھمکے ۔ "بابر” سے "صلاح الدین ایوبی” تک آنے میں مجھے دو برس لگے اور میں اپنے آپ کو کبھی "زبیر” اور کبھی "یوسف” کی جگہ پر رکھ کر دیکھنے لگا۔

سکول معمول کے مطابق چل رہا تھا ۔ کلاس فیلوز میں ایک طرف نذر اور منظور جیسے لوگ تھے ۔ جن کا مستقبل معلوم تھا ۔ وہی سبزی کی دکّان اور ناشتے کا ڈھابہ تو دوسری طرف ظفر(غلام حیدر وائیں کے بھانجے۔۔ مقیم لندن) ، آصف (مقیم ریاض) ، شاکر (مرحوم) ، محمود الحسن (مقیم اسلام آباد) ممتاز (تبلیغی جماعت کو پیارے ہوئے) ضیا احمد (مقیم شکاگو) اور سلیم (مرحوم) جیسے فطین لوگ بھی تھے ۔ ملاقات تو سب سے تھی اور مسلسل تھی مگر محفل آصف کے گھر ہی میں جمتی تھی کہ اُن کی بیٹھک بہت کشادہ اور سلیقے سے سجی تھی اور اس کے ماں باپ اُس کے دوستوں کے لیے بہت شفیق تھے ۔ شربت ، پانی اور پُرتکلف چائے سے تواضع عام بات تھی اور اُس کے بھائی بہن اپنوں سے زیادہ اپنے محسوس ہوتے تھے ۔ مدّت بعد ایک بار ماسی نے میری ماں سے شکوہ کیا کہ ان کی صاحب زادی کا معقول رشتہ اس لیے نہیں مل سکا کہ آصف کے سبھی دوست اُسے بہن جانتے تھے اور وہ بھی منہ چڑھ کر کسی کو رشتے کی پیشکش نہ کر سکیں۔
آصف کے یہاں نششت روز کا معمول تھی ۔ میرے والد صاحب جب بھی شہر آ کر قیام پذیر ہوتے تھے تو عصر کے بعد لائنیں کراس کر کے بودلہ صاحب کے یہاں جایا کرتے تھے ۔ گھر کے درختوں سے ڈھکے وسیع لان میں کرسیاں اور مُوڑھے دھرے رہتے تھے اور طرح طرح کا شخص آتا رہتا تھا ۔ آُن کے صاحب زادوں میں سے میاں اسلم میرے ہم جماعت تھے جو باپ کی موروثی گدّی پر بیٹھے تو پانچ مرتبہ ایم این اے بنے ۔ افضل اور سلیم بڑے اور باقی بھائی مجھ سے چھوٹے تھے۔عموما” یہ بھائی ہمارا تانگہ لے کر گھومنے نکل جاتے تھے کہ اُن دنوں اس سواری کا بھی اپنا ایک رومانس تھا ۔ میں بڑے میاں صاحب اور دوسرے لوگوں کی باتیں سُنتا اور حیران ہوتا کہ ان لوگوں نےاس قدر دانش کہاں سے پائی ہے ۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ ہر آدمی کے اندر دیکھ سکتے ہیں اور چاہیں تو جمادات کو بھی بولنے پر مجبور کر سکتے ہیں ۔ میں بہت کچھ پوچھنا چاہتا تھا مگر یہ میرے حجاب کا زمانہ تھا ، جس نے اب تک میرا دامن نہیں چھوڑا۔

درس گاہ – 15

یہ زمانہ سُست رو تبدیلیوں کا تھا۔ہم محلّہ رحمانیہ میں تھے اور چھے نمبر گلی کا دوسرا پلاٹ ہمارا تھا۔پہلے پلاٹ میں پہلوان گِل کا ٹال تھا اور سامنے حکیم عصمت اللہ کا کُشادہ گھر اور اُس کے بغل میں محلّے کی جامع مسجد یعنی "یہ بندہءکمینہ ہمسایہءخُدا تھا”. مسجد میں اذان دی جاتی تھی تو اس کے حلق سے فلک تک رسائی رکھنے والے سپیکروں کا ارتعاش گھر کے درودیوار پر لرزہ طاری کر دیتا تھا ۔ گھر پر لرزہ طاری ہونے کا ایک سبب اور بھی تھا اور وہ تھا ٹرینوں کی آمدورفت ۔ پہلے پہل تو میں ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھتا تھا مگرجلد ہی ہر دو طرح کے بھونچال سے اچھی نسبت قائم ہو گئی اور بعض اوقات اذان اور ٹرین لوری کا کام دینے لگیں۔
کچھ حق ِ ہمسائیگی، کچھ رواداری اور کبھی اپنے ہم جماعت ممتاز احمد (اب میاں چنوں کی تبلیغی جماعت کے امیر) جن کے والد ہمارے ایک عزیز کی آڑھت پر منشی تھے اور جو ہماری ہی گلی کے آخر میں چلنے والے پانی کے کھال کے پار رہتے تھے، کے اُکسانے پر ہم چو وقتے نمازی تو بن گئے مگر پنج وقتہ نمازی بننے کی سعادت حاصل نہیں کر پائے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ظہر کے وقت ہم ابھی سکول میں ہوا کرتے تھے۔
سکول آنے جانے کے دو راستے تھے ۔ لائنیں پار کر کے ٹی چوک سے لاہور روڈ پر چلتے ہوئے سکول تک یا گھر سے نکلتے ہی دائیں مڑ کر پلیٹ فارم پر مٹر گشت کرتے ہوئےاسٹیشن کے سامنے سے گزر کر ریلوے بازار کے پل کے نیچے سے گزر کر میونسپل کمیٹی کے دفتر کی بغل سے لاہور ملتان روڈ پر نکل کر سکول ۔ ہم عموماً یہی راہ اختیار کرتے تھے ۔ اس قافلے میں محلے کے کئی طلبہ شامل ہو جاتے تھے ۔ جن میں سے ممتاز اور اشرف سنارا میرے ہم جماعت بھی تھے ۔ ہم لوگوں میں پلیٹ فارم کو چھوڑ کر ریلوے لائن پر توازن برقرار رکھ کر چلنے کے مقابلے ہوتے ۔ گاڑی آنے کی خبر پاؤں کے نیچے لائن کے دھڑکنے سے ہو جاتی اور ہم اپنی مشق کسی اور ٹریک پر منتقل کر لیتے ۔ مجھے اس کام میں اتنی مہارت ہو گئی تھی کہ بعض اوقات میں سکول کے موڑ تک بغیر گرے لائن پر چلتا جاتا تھا ۔ چالیس برس بعد اس یاد نے ایک نظم کا روپ دھارا جو ذیل میں درج کرتا ہوں


"گڈّی دی لیناں تے ٹُریاں
پُل صراطوں ودھ چس آؤندی
ساہ لیاں جد تِھڑکے پِنڈا
آسے پاسے سبھ کجھ ڈولے
دوویں باہواں اِنج کُھل جاون
جیکن پکھوآں دے کھنب کُھلدے
وچ ہواواں دی مستی دے

میرا گھر سی ٹیشن نیڑے
اوہ وی نیڑے ای رہندی سی
نِت بنیرے دیہنہ چڑھدے ای
کُچھّڑ بستے مار کے دونویں
شنٹنگ کردیاں گڈیاں لنگھ کے
روز دیہاڑی مِل بہندے ساں
بنھ بنھ شرطاں لیناں اُتّے
سبھ ترانیں بھجدیاں ہویاں
تِکھے تِکھے ساہ لیندے ساں
ڈر سی کِدرے ڈول نہ پئیے
کوئی غُوچا مار نہ بہیے
مُڑ وی ڈول گئے سی دونویں
کیہ کجھ بول گئے سی دونویں

ایہہ گُزرے سمیاں دی گل اے
آج میں ویلے دی لیناں تے
باہواں کھول کے ٹُر نئیں سکدا
بھاویں جیڈے ترلے پاواں
ایہہ دریا نئیں پُٹھّا وگدا”
(نظم:نِکّے ہندیاں/کتاب:بیلے وچ چڑیاں)
طالب حسین کا سکول میرے سکول کے پچھواڑے میں تھا سو اسے کلاس روم تک پہنچا کر میں اپنی کلاس میں چلا آتا جو گرمیوں میں سکول کی مشرقی چاردیواری کے ساتھ بنے کمروں میں اور سردیوں میں باہر کسی گھاس کے میدان پر بٹھائی جاتی۔کلاس انچارج ماسٹر عبدالحق تھے اور شاید اساتذہ میں سب سے زیادہ ڈراؤنے ۔ اُن کاجسم دُبلا، لباس سادہ اور قد درمیانہ تھا مگر شو کیس میں سجی آنکھیں خوب بڑی بڑی تھیں ۔ چہرے پر ایک دائمی سنجیدگی بل کہ خشونت سجی رہتی تھی ۔ اس لیے اُن سے خیر کی توقّع کم ہی کی جاتی تھی ۔ انہیں ہر لڑکے پر نگاہ رکھنے کا ہُنر آتا تھا ۔ اس لیے اُن کی کلاس میں شرارت کرنا محال تھا ۔ اُن کی کلاس اچھا رزلٹ دیتی تھی ۔ لوگ سفارش کرا کے اپنے بچے ان کی کلاس میں بٹھاتے تھے مگر جو بیٹھ جاتا تھا وہ ہمیشہ نکلنے کا متمنی رہتا تھا تاہم اس خُوش بختی کی کوئی مثال میرے علم میں نہیں۔
انگریزی سے پہلی بار اسی جماعت میں سامنا ہوا اور اس نے پہلی ہی کوشش میں ہمیں پچھاڑ دیا، اس شان سے کہ ہم آج تک اپنے قدموں پر کھڑے نہیں ہو سکے ۔ یہ جو ہم سلمان باسط پر اور اُس کے”ناسٹلجیا” پر واری واری جاتے ہیں تو اس کی وجہ یہی خِلقی کمزوری ہے ۔ انگریزوں کو انگریزی پڑھانے والے ہمیں بہت مرعوب کرتے ہیں ۔ اس لیے ہم پطرس اور مامون ایمن سے زمانی بُعد کے باوجود ایک جیسی عقیدت رکھتے ہیں اور عقیدت کا یہ سلسلہ دراز ہی ہوتا جا رہا ہے۔

ماسٹر عبدالحق بہت ہتھ چُھٹ تھے مگر اس سے زیادہ خوش خط اور طلبہ کے خط کو سنوارنے کی فکر کرنے والے ۔ وہ ہر طالبِ علم کی تختی پر اپنے خط میں کچھ لکھ دیا کرتے تھے اور اٗسے اُس پر قلم پھیرتے رہنے کی ہدایت کرتے تھے ۔ اپنی خطّاطی کی طرز پر لکھنے کو بھی اُکساتے تھے ۔ میرا خط قدرے بہتر نکل آیا تو مجھے جتایا کرتے تھے کہ بات تب بنے گی جب تم بوتل کے اندر بھی مجھ جیسا ہی جمیل لکھ سکو گے ۔ دھمکاتے تھے کہ وہ دن آنے پر وہ میرے والد سے "اکہوتر سو روپے انعام لیں گے” . یہ رقم کبھی میری سمجھ میں نہیں آئی ۔ میں ڈرتا تھا کہ نہ معلوم میرے والد یہ رقم دے سکیں گے بھی یا نہیں ۔ میں بوتل کے اندر تو کیا کاغذ پر بھی کبھی اُن جیسا منّور حرف نقش کرنے پر قادر نہیں ہوا ۔ اس لیے اُن کو اکہوتر سو روپے کا انعام دینے کی کبھی نوبت ہی نہیں آئی اور برسوں بعد میں یہ جان کر آب دیدہ ہوا کہ وہ جس انعام کے متمنی تھے، وہ ایک اُتّر سو یعنی صرف ایک سو ایک روپے تھا ۔ یہ رقم اس دور میں جتنی بڑی بھی ہو میرے والد کے لیے معمولی تھی۔
ماسٹر صاحب جلد ہی اپنی کلاس کو گھر پر بھی بلانے لگے ۔ ان کا مکان امام باڑہ والی گلی کے آخر میں چراغ چڑھوئے کے گھر سے متصل تھا اور مین بازار سے بہت قریب ۔ ہم وہاں چار بجے کے لگ بھگ یک جا ہوتےاور کوئی دو گھنٹے تک پڑھا کرتے ۔ اپنے کلاس فیلوز اور بعد میں گہرے دوست بن جانے والے محمد آصف اعجاز، شاکر علی، ممتاز احمد، جمیل اقبال، اقبال کلاچی، محمود الحسن وغیرہ سے زیادہ قربت اسی اضافی کلاس کے دوران میں ہوئی ۔ یہ کلاس اُن کے گھر کی چھت پر ہوتی تھی اور اس نے مجھ ایسے کڈھب کے سب کس بل نکال دیے۔ گھر کی سیڑھیاں عمودی تھیں اور ان پر چڑھنا اُترنا ایک امتحان ۔ جب ماسٹر صاحب کی غیر نرینہ اولاد ان سیڑھیوں پر دڑنگے مارتی چڑھتی اُترتی تھی تو میرا خوف اور بڑھ جاتا تھا۔

معلوم نہیں ماسٹر صاحب اس خدمت کا کوئی معاوضہ لیتے تھے یا نہیں مگر یہ تاکید ضرور کرتے تھے کہ اُستاد کے دروازے پر دستک کُہنی سے دینی چاہیے ۔ ہم نے تو ہمیشہ ہتھیلی ہی آزمائی اور یہ راز بہت دیر میں کُھلا کہ دروازے پر کُہنی سے دستک صرف اُس صورت میں دی جاتی ہے جب آپ کے دونوں ہاتھ کسی سوغات کو احتیاط سے تھامے ہوئے ہوں۔
اُنہوں نے اپنی بے مثل خطّاطی میں اردو کا ایک قاعدہ چار رنگوں میں تخلیق کر رکھا تھا کہ وہ ٹیکسٹ بک بورڈ کے قاعدے سے مطمئن نہیں تھے ۔ شاید اُن کی زندگی کی سب سے بڑی تمنّا اس قاعدے کی بطور ٹیکسٹ بُک منظوری تھی ۔ مجھے اس قاعدے کو کئی بار دیکھنے کا موقع ملا اور ہر بار اُس کا جمال اور تدریسی مہارت دل کو موہ لیتی تھی مگر برسوں بعد جب میں نصابی کمیٹی کا رُکن بنا تو وہ قاعدہ اپنے خالق کے ساتھ خواب ہو چکا تھا۔اور وارث شاہ کے بقول” اجیہا کوئی نہ ملیا میں ڈھونڈھ تھکّی،جیہڑا گیاں نوں موڑ لیانوندا ای” – میرا داستانیں پڑھنے کا سلسلہ جاری تھا ۔ بچّوں کے رسائل باقاعدگی سے خریدتا تھا اور اب تو مین بازار سے گزرتے ہوئے تمباکو کی ہٹّی سے آواز دے کر بھی نئی کہانی یا رسالے کی آمد کی نوید مل جاتی تھی ۔ ایک بار میرے جی میں آئی کہ کیوں نہ میں بھی کہانی لکھنے کی کوشش کر دیکھوں سو میں نے ماں سے سُنی ہوئی ایک کہانی اپنے اکھڑ بیانیے میں ڈھالی اور”بچوں کی دنیا” کو”غلام حسین” کے نام سے بھجوا دی ۔ یہ کہانی کچھ ترمیم و اضافے کے ساتھ اگلے ہی ماہ شائع ہو گئی اور وہ شمارہ مجھے آصف کے گھر کے پتے پر مل گیا کیونکہ میں نے خط کتابت کے لیے اُس کے گھر کا پتا دیا تھا ۔ اس کی ایک وجہ تو اپنی سرگرمی کو خُفیہ رکھنا تھا اور دوسری وجہ اپنے گھر کے پتے پر عدم اعتماد تھا ۔ مجھے وہ علاقہ شہر سے باہر اور غیر منّظم محسوس ہوتا تھا اور میرا خیال تھا کہ ڈاکیے کے لیے اُسے تلاش کرنا مشکل ہو گا۔
پڑھنے کے ساتھ شہر میں پینڈو کھیلوں کا سلسلہ بھی جاری تھا ۔ ریلوے لائن اور لکڑی کے ٹال کے درمیان کنچے اور اخروٹ کھیلنے اور بے وجہ اچھل کود کو کافی جگہ تھی ۔ کبھی پلیٹ فارم پر مٹر گشت کی جاتی تو کبھی سگنل ٹاور کا معائنہ کیا جاتا ۔ دو ایک بار کانٹا بدلنے کی کوشش بھی کی مگر ٹریک کو متحرک کرنا ممکن نہ ہو سکا۔گاڑی کی لائن پر سکّے رکھ کے اُن کو پھیلانے کا مشغلہ بھی جاری رکّھا اور گھر کے سامنے بند ٹریک پر لگے متروکہ ڈِبوں میں استراحت کرنے کا شوق بھی پورا کر دیکھا ۔ پھر بھی گھر پر گزارنے اور سونے کے لیے بہت وقت مِل جاتا تھا اور اس کی وجہ دنوں کا بڑا ہونا نہیں شہر کا چھوٹا ہونا تھا۔

درس گاہ – 14

میں نے شہر جانے یا شہر سے آنے کی کئی ذاتی نشانیاں مقّرر کر رکھی تھیں ۔ پکاحاجی مجید کی طرف سے جاتے ہوئے پیر شینہ، پکا حاجی مجید، پکّا موڑ، خُونی موڑ، گھراٹ، کوارٹرز اور شہر اور جراحی روڈ کی طرف سے کوٹ برکت علی، کشنے والا کھوہ، کچّی مسجد، گھراٹ وغیرہ ۔ لاری یا سالم تانگہ نہ ملنے پر میں پیدل سفر کے لیے ہمیشہ جراحی بینس کاانتخاب کرتا تھا مگر یہ قِصّہ بہت بعد کا ہے ۔ بچپن میں اس کی نوبت کبھی نہیں آئی اور اس کی وجہ یہ کہ اکیلے سفر کرنے کی اجازت ہی نہیں تھی سوائے ایک بار کے جب مجھے اور میرے ہم عمر ملازم چراغ کو نہ معلوم کس وجہ سے شہر بھجوانے کے لیے ماچھیوں کے ہمراہ کر دیا گیا جو لئی کے لدے اونٹ لے کر بالن بیچنے کے لیے میاں چنوں جا رہے تھے ۔ طے یہ تھا کہ وہ گھراٹاں سے یا جراحی روڈ پر کسی شہر جانے والے تانگے سے معاملہ کر کے ہمیں سوار کرا دیں گے اور خود اپنی راہ لیں گے مگر گھراٹ پہنچ کر انھوں نے وہاں موجود ایک آدھ تانگے والے سے سرسری مذاکرات کیے اور ہمیں ساتھ لے کر آگے چل دیے ۔ جہاں تک مجھے یاد ہے وہاں سے شہر جانے کا کرایہ چار آنے تھا اور دو روپے میں سالم تانگہ مل جاتا تھا مگر وہ بڑھتی ہوئی حدّت کی پرواہ کئے بغیر چلتے رہے ۔ شہر ہر قدم پر دور ہوتا گیا اور چھے میل کے پیدل سفر کے بعد جب منزل قریب آئی تو اونٹ اور ان کے ساربان ہم دونوں خُرد ہمراہیوں سے اتنے فاصلے پر تھے کہ ہم بمشکل ان کے ہیولے ہی دیکھ سکتے تھے۔


یہ دونوں راستے میری پنجابی شاعری کی کتابوں میں اپنے تمام تر اسرار کے ساتھ موجود ہیں،ذرا دیکھیے تو

کوئی گھر نئیں،کوئی ڈر نئیں
نہ کوئی ہٹّی،نہ کجھ کھٹّی
نہ کوئی بیلی،نہ کوئی تیلی
نہ کوئی بُوٹا،نہ کوئی ہُوٹا
نہ کوئی پرایا،نہ ماں جایا
نہ کوئی لنگھیا،نہ کوئی کھنگیا
ہکّو چُپ اے،ہکّو چّپ سی
(نظم:چونہہ سڑکاں تے/کتاب:بیلے وچ چڑیاں)

"سُتیاں پیراں ہیٹھ مدھولے،جاگدیاں چِتھ ویکھے
ٹُریاں کانیاں پِچھوں شُوکن،کھلیاں مویاں لیکھے

گُزرے ویلے ورگیاں قبراں،کلّر مارے بُوٹے
بھونہہ دے گارے رنگّی لیمبی،دیسی کال دے ہُوٹے

سُکیاں پتراں ہیٹھوں بولن،ازلوں رنڈن رُتّاں
ہک واری مُڑ جیون منگن،مِٹّی ہوئیاں گُتّاں

جد کوئی رُت دا بُھلیا جھکّڑ،پِپل اوہلے رووے
اکھاں جھمک نہ سکدے پنچھی،سپ ہووے نہ ہووے
(نظم:پیر شینے دے سپ/کتاب:بیلے وچ چڑیاں)

"کشنے والے کھوہ”توں میرے گھر دی ڈیڈھی تائیں
کِنّی کُو وِتھ اے
چونہہ قدماں دی
ہک تکنی دی
سرہیوں رنگے پِپل اوہلے
بھمبی ٹاہلی ساہنویں
میرا گھر سے

میرا گھر اے میری ساری جد دی کھٹّی
میری تاہنگھ دا تارا
سَے کوہاں توں میرے جُثّے دی کالک وچ جگدا
سَے ورھیاں توں میرے اندر وانگ چنانہہ دے وگدا

لکھ کوہاں دے پینڈے کٹ کے جد گھر پھیرا پاواں
"کشنے والے کُھوہ”تے آ کے بے چسّا ہو جاواں

ربّا! چونہہ قدماں دا پینڈا جھبدے کیوں نئیں مُکدا
میری سِک دے تا وچ رُڑ کے کیوں میرا ساہ سُکدا؟
(نظم:جراحی بینس تُوں مُڑدیاں/کتاب:بیلے وچ چِڑیاں

"پانی نال نیں وگدیاں چکیاں
جیہڑا وی ان پِیہن،نِکّا کر کے پِیہن
ٹھڈھا مِٹھّا پِیہن
بُرک دیندی اے پانی دی چِھٹ اندر دے انگارے
میں نئیں کہندا،ایہہ کہندے نیں اوڑک دے ونجارے

میرے اندر و اندری وی وگدا اے پانی
میرے جُثے وِچ وی گُھوکے چّکی
دینہہ بر رات پئی گُھوکے
میری رُوح نوں نِکّا مِٹھّا پِیھ کے ساواں کردی
پر میرے اندر دی آگ نئیں نِمھّی ہوندی
اوویں میریاں اکّھاں،میرے بِت نوں لوہندی
(نظم:پُل گھراٹاں تے/کتاب:بیلے وچ چڑیاں)

مگر یہ تو بہت بعد کی واپری ہے تب تو یہ دُنیا میرے باہر اور اندر ابھی پھیلنا شروع ہی ہوئی تھی ۔ یہ نشانیاں سواد ِمنزل کی نوید تھیں ۔ شہر میں داخل ہونے سے پہلے چونگی تھی، جہاں شہر میں لائی جانے والی ہر سوغات پر ٹیکس دیا جاتا تھا ۔ یہ محصول شاید تجارت کے لیے لائی جانے والی اجناس پر تھا مگر وہ اسے ہر سواری سے وصولنا لازمی جانتے تھے ۔ ہم اپنا آٹا دال گھر میں استعمال کے لیے لاتے تھے ۔ پھر بھی اُس پر چونگی لگائی جاتی تھی اور ہم بخوشی ادا بھی کر دیتے تھے ۔ چونگی سے آگے لیڈیز پارک اور میونسپل لائبریری تھی اور اس سے آگے تانگوں کا اڈّا اور ڈنگر ہسپتال، پھر ہانسی بس سروس کی پارکنگ لاٹ اور اڈا اور اس سے پیوست جالندھر سویٹ ہاؤس ۔ شہر کا اصل چہرہ یہاں سے نمودار ہوتا تھا مگر بازار دو ہی تھے۔مین بازار جہاں کھوے سے کھوا چِھلتا تھا ۔ اُس کا مشرقی بازار جو سُناروں، بزازوں اور جوتوں کی دکانوں کا مرکز تھا ۔ اس کے ماتھے پر "ٹرنک بازار” اور اس سے آگے ریل بازار، جس کے مشرق میں سول ہسپتال ،ایم سی سکولوں کی چین اور اس سے بہت آگے کی طرف نشاط سنیما تھا جو آبادی کی آخری اور اُدھر سےآغاز ِشہر کی پہلی نشانی تھی۔
ہم جس سڑک یعنی تلمبہ روڈ سے آتے تھے ۔ شہر اس کے بائیں جانب تھا ۔ دائیں طرف گوشت مارکیٹ اور مین بازار کے ماتھے پر مغرب کی طرف کچھ آگے چل کر ڈاکٹر عنایت کا کلینک تھا جو درحقیقت کمپونڈر ہی تھے مگر مزے کے آدمی تھے ۔ دوسرا کلنیک ایک اور کمپونڈر محمد حسین کا تھا اور یہ دونوں صاحبان میرے والد کے دوست تھے ۔ مجھے ان سے کئی بار انجکشن لگوانے کا تجربہ ہے، جو آپریشن کی تیاری جیسا سنجیدہ کام ہوا کرتا تھا۔سُرنج کی ہڈیاں الگ کر کے اُبالی جاتیں، پھر انہیں جوڑ کر ایک خاص ادا سے دو تین شیشے کی نفیس نلکیوں کی گردن مروڑ کر بھرا جاتا ۔ چند کڑے جھٹکے دے کر شیرازے کو محلول کی شکل دی جاتی اور اس دعوے کے ساتھ کندھے کے کہیں قریں جلد میں اُتارا جاتا کہ ان کے ہاتھ کی نرمی اور ملاحت کی تعریف تو ماورائی مخلوق بھی کرتی ہے مگر یہاں مشکل یہ تھی کہ پوروں سے کندھے تک کہیں گوشت کی نمو ہو ہی نہیں پائی تھی سو ہڈّی میں اُترنے والی سوئی کی جو تکلیف ہونی چاہیے، وہ ہوتی تھی اور تب یہ بات میری سمجھ میں آئی کہ میرے سِوا ان کے سبھی مریض ایجکشن تیار ہوتے ہی پِیٹھ موڑ کر کھڑے کیوں ہو جاتے ہیں۔
ایک اور کمپونڈر ڈاکٹر ڈُڈّا تھے ۔ نام تو کچھ بھلا سا تھا مگر اس وقت مجھے یاد نہیں آ رہا ۔ ان کی دکان کے ساتھ افیون کا ٹھیکہ تھا ۔ میں ان کے پاس برسوں جاتا رہا مگر وہ کبھی پِینک میں دکھائی نہیں دیے ۔ ہمیشہ بنے ٹھنے رہتے تھے اور مجھے دیکھ کر خصوصی بتّیسی دکھاتے تھے ۔ کیوں یہ بھید مجھ پر کبھی کُھل نہیں پایا۔
ٹی چوک سے بائیں طرف وسیع و عریض غلّہ منڈی تھی ۔ لاہور جانے والی سڑک کے مشرقی جانب اجناس اور کھل بنولے کی دکانیں اور دو ایک بینک، مغربی سمت میں ملتان جانے والی سڑک پر اُجل سنگھ بلڈنگ سے آگے سڑک کی بائیں طرف چار عدد کپاس کے کارخانے اور دائیں سمت دو ایک مشروب کی دکانوں اور بوہڑ درخت کے بعد رڑا میدان ۔ یہی وجہ تھی کہ ایک ڈیڑھ ماہ ہی میں ہر شخص ہمیں پہچاننے لگا اور جب میرے برادرِ عزیز مہر طالب کو سکول سے سٹکنے یا سِرے ہی سے وہاں قدم رنجہ نہ فرمانے کا شوق چرایا تو ان کا کھوج لگانے اور ڈنڈا ڈولی کر کے سکول پُہنچانے میں اٗن کی خدمات ہر وقت صرف دستیاب ہی نہیں تھیں بلکہ وہ کئی بار خود کفالت کا مظاہرہ بھی کر لیتے تھے۔
یہی دن تھا جب میری شہر کے لڑکوں سے دوستی کا آغاز ہوا۔اس کے باوجود کہ میرے اندر اور باہر کے جانگلی پر ابھی شہر کا رنگ چڑھنے میں بہت دیر تھی۔