اسی زمانے میں میرے بھانجے مہر حق نواز،جو عمر میں مجھ سے آٹھ برس بڑے تھے،کالج کی بے ثمر زندگی سے اُکتا کر گاؤں واپس چلے آئے اور دریائے راوی کے کنارے ہماری زمین کو آباد کرنے کے کام پر لگ گئے۔اُن کے چھوٹے بھائی مہر احمد نواز،جو مجھ سے چار برس بڑے ہیں،میرے جماعت تھے۔سکول میں ہماری روز کی ملاقات طے شدہ تھی۔کبھی ہم گھر پر یا اُن کے بورڈنگ ہاؤس میں بھی مل لیا کرتے تھے تاہم وہ میرے دوستوں کے حلقے کا حصّہ نہیں تھے اور اس کی وجہ عمر کے فرق سے زیادہ مزاج کی عدم مطابقت تھی۔
کنارِ راوی کے علاوہ ہماری دو مربعے زمین چک 3/8 آر میں بھی تھی مگر میں کبھی اس طرف نکلا ہی نہیں تھا۔اب جو حق نواز نے دریا پر ڈیرہ جمایا اور ماسی اللّٰہ جوائی( جو حقیقت میں میری چچی تھیں)اُس کی اور کام پیشہ لوگوں کی روٹیاں تھاپنے کو اس کے ساتھ ہٹھاڑ رہنے لگی تو میں بھی احمد نواز کے ساتھ پروگرام بنا کر اپنی زمین اور دریا دیکھنے کے لیے اپنی آبائی جُوہ پر جا پہنچا۔”لُہار والی پُل”اور اس سے دائیں خان لیاقت علی خان کی رہائش تک اور بائیں "غازی پاندہ”،”ست چک”,”نواب والا”،”بستی سنپالاں” اور تلمبہ سے ملتان تک کا علاقہ میرا دیکھا ہوا تھا مگر لہار والی پُل سے نیچے دریا کے بیٹ کی طرف جانے کا یہ میرا پہلا موقع تھا۔
سب کچھ ویسا ہی تھا۔وہی درخت،چھاڑیاں،فصلیں،گھاس پھوس اور پرندے مگر دریا کی بار بار کی رم خوردگی اور طالع آزمائی کے باعث مٹّی میں نمی کی آمیزش تھی اور اٹ کی زیادتی کے باعث پھسلواں گداز۔یہاں چلنا اور سائیکل چلانا ہماری بستی کی مٹّی پر سفر کرنے سے کہیں دشوار تھا۔بہر صورت کوئی تین میل کے سفر کے بعد ہم کھکّھوں کے ڈیرے پر پہنچے،وہاں سے گڈگوروں کی بھینی اور پھر اپنی جھلار پر۔ دریا سے چند ایکڑ کے فاصلے پر ایک چھوٹی سی بھینی پر دو تین گھر آباد تھے۔کچھ آباد کی گئی زمین کے بعد دونوں طرف بیلا تھا۔کری،لئی،کانہہ،کیکر اور سرکنڈے کی خود رو جھاڑیوں اور ان دیکھے اسرار سے بھرا۔اس سے گزر کر میں نے راوی سے ملاقات کی جو اپنی آبائی مٹّی پر میری اس دریا سے پہلی ملاقات تھی۔
کہتے ہیں راوی کا پانی پارس ہے۔روایت کے مطابق سلطان سکندر کے پاس پارس پتھر تھا اور وہ اس سے اشیاء کو سونے میں ڈھال دیتا تھا۔جب یہ خبر اس کے دشمنوں کو پہنچی تو وہ فوج لے کر اس پر چڑھ دوڑے اور غالب آ گئے۔جب سلطان کو اپنی گرفتاری یقینی لگی تو اس نے راہ ِ فرار اختیار کی اور راوی پر آ کر پارس پتھر کو چڑھے دریا میں پھینک دیا۔فاتحین نے بہت تلاش کرائی،ہاتھیوں کے پیروں میں زنجیریں ڈال کر کھنگالا۔زنجیریں سونے میں تبدیل ہو جاتیں مگر پارس نہیں ملا اور بالآخر دریائی ریت میں گُھل کر دریا کے وجود کا حصّہ بن گیا۔
حقیقت اس کتھا کی یہ ہے کہ راوی اپنے ساتھ زرخیز علاقوں کی مٹّی کھینچ لاتا ہے جو سیلاب آنے پر ارد گرد کی زمین پر اٹ کی صورت میں چڑھ جاتی ہے۔وہاں کاشت کی گئی فصل دوگنا کن دیتی ہے۔سو لوگ دریا کے گدلے پانی کو پارس جانتے ہیں۔
مگر اب وہ پارس سردی کی دھوپ میں نڈھال دو نحیف چادروں میں ڈھلا بہت دھیرے سے بہتا تھا اور دریا کے دونوں کناروں تک ریت کی پٹڑیاں دمکتی تھیں۔ہاں ان نحیف نیلی چادروں پر اجنبی پرندے تھے اور جھاڑیوں میں نَہرے جانور۔جن کا شکار تو کیا جاتا تھا مگر کھانے کے لیے بہت کچھ بدلنے کی ضرورت تھی۔جن میں اوّلیت مذہب اور طرز ِحیات کو تھی۔
راوی میری پنجابی شاعری کا مستقل کردار ہے۔میری کتاب”سرسوتی توں راوی تائیں”ان دونوں دریاؤں کی پیاس سے جنمی ہے۔اُس وقت کسے معلوم تھا کہ میں یہاں بار بار آؤں گا اور ہر بار یہ دریا پہلے سے بھی زیادہ توانائی کے ساتھ میرے اندر میرے وجود میں اور گہرا اتر جائے گا اور اس کی روانی میرے قلم سے ہم آہنگ ہو جائے گی۔
دیکھیے ایک وائی جسے راوی کا جَس کہنا زیادہ مناسب ہوگا:
"راوی دے سپ لہریے
بُوٹے جُھمّر جُھوٹے
ساڈی جِند سائیں
اساڈی جِند سائیں
راوی دے اٹ اندروں
پُھلّن عشق دے بُوٹے
ساڈی جِند سائیں
اساڈی جِند سائیں
راوی دے سب شہر نیں
بدلاں وانگ ملُوٹے
ساڈی جِند سائیں
اساڈی جِند سائیں
راوی من وچ لہردا
مار بِرہوں دے سُوٹے
ساڈی جِند سائیں
اساڈی جِند سائیں
راوی روپ انوکھڑا
نین کدی نہ نُوٹے
ساڈی جِند سائیں
اساڈی جِند سائیں
راوی دے سُر جاگدے
دِل نوں مار جھمُوٹے
ساڈی جِند سائیں
اساڈی جِند سائیں
(کتاب:پانی رمز بھرے)