Category Archives: درس گاہ

درس گاہ – 33

میں چھٹی جماعت سے لکھ رہا تھا۔لکھ کیا رہا تھا،ٹامک ٹوئیاں مار رہا تھا مگر اب تک یہ طے نہیں ہو پا رہا تھا کہ مجھے لکھنا کیا ہے۔بچّوں کی ایک ہی کہانی لکھی تھی کہ نسیم حجازی کے ہتھّے چڑھ گیا۔پھر ابنِ صفی کے رنگ میں چند صفحے گھسیٹے تھے کہ دماغ کا دہی ہو گیا اور میں نے کرشن چندر میں پناہ لی۔دو چار افسانے ان کے اسلوب کی بھینٹ کیے مگر چھپوانے کی ہمّت نہیں پڑی۔آخر ِکار ایک افسانہ اپنے ملازم ممّو ماچھی کے دمہ کو موضوع بنا کر لکھا جو شاید اپنے رنگ میں میری پہلی کہانی تھی مگر اُسے عام نہیں کیا اور وہ کئی برس بعد شائع ہوئی۔یہی حال شاعری کا تھا۔اپنے لکھے منظوم خط سے عدم کے تتّبع میں سیاہ کی گئی کاپیوں تک ہر چیز خود تک محدود رہی یا دو ایک بہت قریبی دوستوں تک اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس ہرزہ سرائی کو عام کرنے کی خواہش ہی نہیں تھی نہ ہی یہ معلوم تھا کہ اس کباڑ کو جو میں نے نہایت نفیس نوٹ بُکس میں اکٹھا کر رکّھا ہے،کہاں ٹھکانے لگایا جائے؟”آداب عرض”اور”اردو ڈائجسٹ”کےسوا میں صرف”فنون”سے واقف تھا اور اسے پڑھنے کے بعد یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ میرے کام کی چیز نہیں۔سو کہہ سکتے ہیں کہ جو کچھ تھا وہ صرف خود کو محظوظ کرنے کے لیے تھا اور اُسے لکھ کر بُخار اُترنے کی سی کیفیت کا احساس ہی ذاتی تشّفی کے لیے کافی تھا۔
کالج میں اردو کے استاد،کلاس کے آغاز میں اردو افسانے پرایک مکالمے کے باعث یہ تاثر تو رکھتے تھے کہ مجھے مطالعے کی عادت ہے مگر انہیں بھی اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ میں خامہ فرسائی بھی کرتا ہوں۔انہوں نے اس بارے میں کبھی استفسار نہیں کیا اور مجھے اُن پر یہ بھید عیاں کرنے کی خواہش ہی نہیں ہوئی۔مجھے بجاطور پر یہ احساس تھا کہ میری تحریر بے مایہ ہے اور ابھی اسے عام کرنے کا وقت نہیں آیا۔
شاید اس کی وجہ میرا دیہاتی پن اور غیر علمی پس منظر سے ہونا تھا۔مجھے کچھ علم نہیں تھا کہ لکھا اور چھپا کیسے جاتا ہے؟کسی کتاب میں کرشن چندر نے نفیس نیلے کاغذ پر لکھنے کا ذکر کیا تو میں بھی ویسا ہی کاغذ خرید لایا مگر لکھنے بیٹھا تو اندازہ ہوا کہ صرف اچھّے کاغذ اور قیمتی قلم کا مالک ہونا ہی کافی نہیں۔اس کے لیے کچھ اور بھی درکار ہے مگر یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ کچھ اور ہے کیا؟ نہ ہی یہ علم تھا کہ یہ بھید میرے ارد گرد کسے معلوم ہے۔
شکور کے لیے لکھا ناول لاہور کی بھینٹ چڑھ گیا اور اس کے قابلِ اشاعت ہونے کی خبر کبھی آئی نہیں نہ ہی وہ یہ دور تھا کہ ہر نوع کی لاف زنی مصنّف سے نقدی وصول کر کے چھاپ دی جائے۔ادبی اداروں کا ایک وقار تھا۔اچھی کتابیں پبلشر کے خرچے پر چھپ جاتی تھیں اور لوگ کتاب خریدتے بھی تھے۔اکثر کتابوں کا پہلا ایڈیشن گیارہ سو کی تعداد میں چھپتا تھا اور مقبول عام کتابیں تو دس دس ہزار کی تعداد میں چھپتی تھیں اور اس وقت جب ملک کی آبادی موجود کے مقابلے میں ایک تہائی تھی۔
انہی دنوں میں کرنل شفیق الرحمٰن سے آگاہ ہوا اور انہیں پڑھا اور اُن کے توسط سے محمد خالد اختر،ابن ِانشا اور ضمیر جعفری کی دستیاب کتب بھی پڑھ ڈالیں تو مجھے مزاح لکھنے کا شوق چرایا اور میں نے راوی پر شکار کھیلنے کی ایک مہم”کرنے چلے شکار”کے عنوان سے خاصے شگفتہ رنگ میں لکھ دی۔یہ ایک طویل پُرلطف کتھا تھی اور اس لائق کہ کسی بھی ادبی پرچے میں شائع ہو سکے مگر کوئی بتانے والا ہوتا تو۔سو ساہیوال کا زمانہ فلم بینی اور دوستوں سے لایعنی مکالموں میں گُزرا۔پہلے برس تعلیمی حالت تسلی بخش رہی مگر دوسرے برس کیمسٹری پڑھنے سے اجتناب کرنے کا آغاز ہوا اور اس کی وجہ اُستادِ محترم ہی تھے۔یہ وقت بھی آیا کہ میں پندرہ پندرہ روز ان کی کلاس میں گیا ہی نہیں۔حتّٰی کہ انہوں نے کالج انتظامیہ کو آگاہ کیا اور انہوں نے میرے گھر خط لکھ کر میرے والد کو۔میرے بڑے بھائی مہر نواب مذاکرات کے لیے آئے۔میں کلاس میں جانے لگا مگر کہیں اوپر یہ طے ہو چکا تھا کہ میں اس شعبے میں آگے نہیں بڑھ سکتا۔سائنسی مضامین سے میرا جی اُچاٹ ہونے لگا۔اس کی وجہ تفہیم میں دیگر طلبہ سے پچھڑنا تھا۔اس کمی کو ٹیوشن لے کر پورا کیا جا سکتا تھا مگر عجیب بات ہے کہ اس وقت مجھے اس بات کا خیال ہی نہیں آیا۔پھر ایوب خان کے خلاف طلبہ تحریک کا آغاز ہو گیا۔گورنمنٹ کالج ساہیوال اس سلسلے میں زیادہ فعال نہیں تھا مگر اس تحریک کے اثرات اس کالج کے معمولات پر بھی پڑے۔جب ملک بھر میں ہنگامے پھوٹ پڑے تو طلبہ کو امتحان کی تیاری کا وقت دینے کے بہانے گھر بھیج دیا گیا۔اسی بیچ میں کہیں ملتان بورڈ کا قیام عمل میں آیا اور مجھ سمیت تمام طلبہ کے داخلے امتحان کی غرض سے بھجوا دیے گئے۔حالاں کہ مجھے سو فیصد یقین تھا کہ کم ازکم مجھے امتحان میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
امتحان 1969ء کی گرمیوں میں ہوا۔جس کے بعد سب اپنا بوریا بستر لپیٹ کر گھر چلے آئے۔میں نے سائیکل پر کبھی تانگے پر،روز شہر آنا شروع کیا۔دن دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں گزار کر شام سے پہلے گھر پلٹ جانا معمول ٹھہرا۔کیا عجیب شہر تھا کہ جس میں دوپہر کو پکا پکایا ملتا ہی نہیں تھا۔ہاں شام کو سموسے مل جاتے تھے اور شمیم اکبر آبادی کے سیخ کباب مع چُلھ سے اتاری چپاتی کے۔ اس لیےدوپہر کی میزبانی عام طور پر آصف کے ذِمّے ہوا کرتی تھی۔اُس کے ابّا چاچا الیاس صاحب ایسے مہربان تھے کہ جس روز اُن کی طرف جانے کا ناغہ کرتا۔وہ باقاعدہ جواب طلبی کرتے۔شہر جانے کی بظاہر کوئی وجہ نہیں تھی مگرمَیں دن چڑھتے ہی کوئی نہ کوئی وجہ ڈھونڈ لیا کرتا تھا۔تانگے پر جاتا تو اسے ماسٹر عبدالحق کے گھر کے سامنے کھولا جاتا اور اُن کے حضور میں حاضری لازم ٹھہرتی۔میں فاؤنٹن پین سے اچھا خاصا خوش خط لکھ لیتا تھا مگر ماسٹر صاحب مجھے خطاط بنانے پر مصر تھے۔تاہم انہوں نے کبھی بوتل کے اندر لکھ کر دکھایا نہ ہی اس جادوئی مہارت کا بھید افشا کیا۔سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ ان کے اس فن کا پردہ چاک ہو تو کیسے؟
بہرطور میری میاں چنوں یاترا جاری رہی۔ان دنوں میں بھی جب گھوڑوں کی سواری کے اوزار جلا دیے جاتے ہیں اور ان دنوں میں بھی جب سِرے سے شہر جانے کی کوئی وجہ ہی نہیں ہوتی تھی۔روز آصف کے ہاں نششت جمتی اور ہر طرح کے علمی مباحث برپا کیے جاتے۔میں مذہبی معاملات میں خاصا پھسڈی تھا اور سیاسی میدان میں لگ بھگ کورا۔اس لیے میرا جادو صرف ادب کے میدان میں چلتا تھا اور میرے دوستوں کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
اس سے پہلے ایک بار آصف کے کسی کزن کی شادی کے سلسلے میں مَیں اور نواز راولپنڈی اور مری گئے تھے۔یہ تو یاد نہیں کہ ہم دونوں کے عبداللہ دیوانہ بننے کی کیا وجہ تھی مگر مری کا وہ ٹور یادگار تھا۔ستمبر کے مہینے میں ہلکی بارش میں چھاتا لے کر گھومنے،اطالوی طرز کے ریستورانوں میں سہ منزلہ پلیٹوں سے لذیذ سنیکس کے ساتھ چائے کے کئی کئی دَور اتنے پُر لطف تھے کہ میں اُن کی تلاش میں کئی بار مری گیا اور ہفتوں ٹھہرتا رہا۔طالب علمی کے زمانے میں کم وبیش ہر برس اور شادی کے بعد صرف ایک بار یعنی اپریل 1979ءمیں۔جس کے بعد تیس برس تک اُدھر کا رُخ کرنے کا دھیان ہی نہیں آیا۔2010ءمیں اپنے بیٹے عمیر کی فیملی کے ساتھ جانا ہوا تو وہاں کی حالت ِزار دیکھ کر جی بھر آیا۔نظم”مال روڈ پر ایک شام”اسی تجربے کی یاد میں ہے۔
"دبے ہوئے ہیں دُکانوں کے بیچ ریستوراں
نہ وہ غنودہ حقیقت نہ وہ بھڑکتا گماں
نہ وہ گلی میں غزالوں سے بات کرتا دھواں
نہ وہ ہوا میں درختوں کی جھلملاتی مہک
نہ وہ نظر کی صباحت نہ آئنے کی لپک
نہ وہ دلوں میں سحر دم ورود کرتا شک
نہ وہ شراب کے نشّے میں لڑکھڑاتے قدم
نہ وہ صبیح ستاروں کے غول بیش و کم
کھڑے تھے اور کھڑے ہیں یہ کیسی دھوپ میں ہم”

خیر یہ قصّہ تو بہت بعد کا ہے۔تب کی جنونی کیفیت کا سبب کچھ اور تھا۔1985ءمیں”موسم” کی اشاعت پر محمد سلیم الرحمٰن نے اپنے کالم”Starlet in a mirror”میں شکوہ کیا تھا کہ”ابھی ہمارا شاعر محبت کے گیت گانے کی طرف راغب نہیں” تو ان کا شکوہ بجا تھا کہ جس تہذیبی روایت سے میری نسبت تھی۔وہ مشاق احمد یوسفی کی بیان کردہ وہی تنگ گلی تھی۔جس سے اگر ایک عورت اور مرد کو بیک وقت گزرنا پڑے تو درمیان صرف نکاح کی گنجائش نکلتی ہے اور میں ابھی اس کام کے لیے بہت چھوٹا تھا۔یہ اور بات کہ بلوغت وارد ہونے کے دنوں میں میری آواز میں ایسی تبدیلی آئی کہ ایک بار میں گھر کے صحن میں آ کر کسی وجہ سے ذرا بلند لہجے میں بولا تو مہمان آئی ماسی نوراں نے جھٹ یہ کہہ کر پردہ کر لیا”خیال کرو بھائیا پیا امدا اے”.اس سے اُن کا اشارہ میرے والد کی طرف تھا۔
بچپن میں اپنے والد کے جوتے پہننا اور نوجوانی میں اُس کی آواز کا وارث ہونا شاید ایک ہی خواب کے دو پرتو ہیں۔پھر میں اُن کی طبعی شرافت کو کیسے داؤ پر لگا سکتا تھا؟

درس گاہ – 32

بندوق سے میرا تعارف بہت چھوٹی عمر میں ہو گیا تھا۔ایک تصویر میں مَیں اپنے والد کے پیچھے کھڑا ہوں اور انہوں نے اپنی ونچیسٹر کی شارٹ گن گود میں رکھی ہوئی ہے۔اس حوالے سےایک نظم”بندوق کی کہانی”میری نظموں کی کتاب”نیند میں چلتے ہوئے میں موجود ہے۔اس نظم کا اعزاز یہ ہے کہ اسے محمد سلیم الرحمٰن نے انگریزی میں ترجمہ کیا مگر میری اپنی پہلی بندوق ایک ائیر گن تھی جس سے پرندے شکار کرنے میں مجھے کبھی کامیابی نہیں ہو سکی۔ہاں بڑے بھائی مہر نواب کی بائیسں بور اور سیون ایم ایم نہ معلوم مجھے بھابھی کیوں کھیلنے کو دے دیتی تھیں اور میں نے اپنا نشانہ انہیں کی مدد سے پکّا کیا۔اس حد تک کہ ایک بار المونیم کا گلاس درخت سے لٹکا کر مجھے نشانہ لگانے کو کہا گیا تو نشانہ لگانے کے بعد گلاس کی حرکت اتنی خفیف تھی کہ سب اس بات پر متفق تھے کہ نشانہ چُوک گیا ہے مگر جب گلاس کو قریب جا کر دیکھا گیا تو اس کی دونوں جانب سوراخ تھے۔
اسی زمانے میں مجھے شکار کا شوق چرایا اور میں کبھی کبھی ابّا کی بندوق لے کر گھوڑے پر راوی جانے لگا۔کئی بار دوست بھی ساتھ ہوتے تھے۔عام طور پر لاوے کی مدد سے سیاہ یا بھورے تیتر کا شکار کھیلا جاتا تھا۔لاوے کے لیے سِدھا ہوا تیتر استعمال کیا جاتا تھا،بعد میں دستی ٹیپ ریکارڈر آ گیا تو یہ کام اُس سے لیا جانے لگا۔اس حوالے سے بڑے دلچسپ تجربات ہوئے۔مثلاً ایک بار آصف ساتھ تھے۔بڑی تگ و دو کے بعد تین ہی تیتر ہاتھ لگے۔ہم نے رات کو بھینی پر پکا کر کھانے کے بجائے بطورِ سوغات آصف کے ہمراہ کر دیے جو رات رات میں گھر جانے پربضد تھا۔اگلے دن اُس کی امّی سے کیفیت جانی کہ انہیں گوشت پسند آیا یا نہیں تو پتا چلا کہ انہوں نے وہ تیتر اپنے جمعدار کو دے دیے تھے۔
بیلے کے اپنے اسرار تھے۔خطرناک جانوروں کی موجودگی کا خطرہ اپنی جگہ۔دریا کا اتار چڑھاؤ بھی مسائل پیدا کر دیتا تھا۔کبھی کہیں سے داخل ہوتے اور کسی اور پتن سے گھوم پھر کر واپسی ہوتی۔حبس اور جنگل کی گہری تنہائی میں سرکنڈوں سے راہ بنانا اور لئی اور کریر کی جھاڑیوں سے گزرنا بڑے دل گردے کا کام تھا کہ دریا کے پانی کے نکلنے اور واپسی سے جھاڑیوں کے مابین قدرتی نالیاں بن جاتی تھیں مگر وہ آپ کی مرضی سے کہیں جانے یا گھومنے کی پابند نہیں تھیں۔تیتر کے شکار میں گھوڑے استعمال نہیں کیے جاتے تھے اور سور کے شکار میں مجھے دلچسپی نہیں تھی۔ہاں حق نواز کو فصلوں کی رکھوالی کے لیے یہ کام بھی کرنا پڑتا تھا۔اس لیے پتن پر دو چار بندوقیں ہمیشہ موجود رہتی تھیں۔
ظاہر ہے یہ کام تعطیلات میں ہوتا تھا اور ہر شکار کے موسم کے اعتبار سے۔جاوید(ڈم ڈم )کو شرط پوری کرنے کا خبط ہوا تو اسے تمام اونچ نیچ سمجھا دی گئی۔جب وہ پھر بھی باز نہیں آیا تو بیلے کا پھیرا لگوایا۔ایک رات دریا کنارے گزاری گئی۔خیال تھا کہ دن کی وحشت اس کی آتش ِ قلب کو بجھا دے گی لیکن شاید معاملہ مردانہ سے زیادہ قلبانہ انا کا تھا۔اس لیے وہ اپنے ارادے پر اٹل رہا۔اُس وقت تک وہ کئی ڈیرے دیکھ چکا تھا۔لوگوں کے استہزاء کا نشانہ بن چکا تھا اور ابھی تک اپنے حسرت پوری کرنے میں ناکام تھا۔۔سو ہم جماعت ہونے کے ناتے طے کیا کہ اُس کی مشکل حل کر دی جائے۔حق نواز سے معاملات طے کر کے اُسے مطلع کیا اور ایک روز ہم سب راوی پر اس نیت سے یکجا ہوئے کہ آج اس کھکھیڑ کو نپٹا ہی دیں۔
سہہ پہر کو سب لوگ گھوڑوں پر روانہ ہوئے۔ڈم ڈم صاحب گھوڑے کی سواری سے معذور تھے۔اس لیے پیدل چل رہے تھے اور ایک آدمی ان کا ساتھ دے رہا تھا۔ایک جگہ گھنی جھاڑیوں کے جھنڈ میں مخصوص بُو اور خرخراہٹ سنائی دی تو پانی سے بنی ایک گزرگاہ پر ڈم ڈم کو متعین کر کے بتایا گیا کہ ہم لوگ گھوڑوں پر تین طرف سے گھیرا بنا کر جھنڈ میں داخل ہوں گے تا کہ سور اسی طرف نکلیں جدھر وہ بندوق لیے موجود ہوں گے۔اب یہ اُن کا کام ہے کہ سور کے قریب آتے ہی اس پر فائر کریں اور گرا لیں۔
سور اُسی طرف نکلے جدھر وہ بندوق لیے موجود تھے مگر اس وقت وہ اپنی جگہ چھوڑ کر قدرتی نالی کے دونوں کناروں پر ٹانگیں پھیلائے قدرے جھکے ہوئے سور کی آمد کے منتظر تھے۔اس سے پہلے کہ وہ پوری طرح باخبر ہوتے اور بندوق سیدھی کرتے،پہلا سور ان کی ٹانگوں کے درمیان سے نکل گیا۔وہ بے اختیار اچھلے اور اس کے پیچھے آنے والے اگلے سور پر لینڈ کر گئے۔اُن کا رُخ سور کی مخالف سمت میں تھا۔پتا نہیں یہ کیسے ہوا مگر انہوں نے ٹانگوں سے سور کی گردن کو جکڑ لیا اور ہاتھوں سے دُم کو اور سور اس ناگہانی آفت سے نجات کے لیے انہیں لے کر گھنی جھاڑیوں میں گھس گیا۔اُن کی بندوق اس لینڈنگ سے پہلے ہی گِر گئی تھی اور ہم اس حالت میں اس عفریت پر فائر کرتے تو کیسے کرتے؟سوار اور سواری دونوں کی پریشانی دیدنی تھی اور سواری سوار سے آزادی کی ہر کوشش کر رہی تھی مگر سوار تھا کہ گرنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔سواری اپنی دھن میں اسے لیے جاتی تھی کہ بیلہ ختم ہو گیا اور دریا کا بیٹ آ گیا۔ہم لوگوں نے چیخ کر ڈم ڈم کو گر جانے کی صلاح دی مگر تب تک وہ خود ہی گر گیا اور سور ایک اسرار بھری حیرانی میں رک کر اُسے دیکھنے لگا ہی تھا کہ حق نواز نے مسلسل دو فائر کر کے اُسے گرا دیا۔
اس شکار کا کریڈٹ ڈم ڈم کو دیا گیا۔اس نے سولا ہیٹ پہن کر مردہ جانور کی گردن پر پاؤں اور بندوق کی نال رکھ کر تصویر بنوائی۔دم کاٹ کر لاہور کے لیے محفوظ کی۔اُس زمانے میں انارائیڈ موبائل ہوتے تو آج اس ساری واردات کی ویڈیو شئیر کرنے کو موجود ہوتی۔
سب اچھّا رہا مگر ڈم ڈم کےجھاڑیوں سے رگڑ کھائے بدن کو بحال ہونے میں بہت دن لگے۔
انہی دنوں میں ایک واقعہ ایسا پیش آیا کہ میں نے بندوق کے کھیل کو ہمیشہ کے لیے ترک کر دیا۔
اس واقعے کی نسبت آوارہ کُتوں کو تلف کرنے کی خودساختہ مہم سے ہے۔میں بچپن سے دیکھتا آ رہا تھا کہ میرے والد صاحب ایک خاص موسم میں آوارہ کُتوں کو تلف کرنے کے لیے ملازمین کو انہیں کُچلا ڈالنے کو کہتے تھے اور بعض اوقات کھیتوں میں کہیں کوئی آوارہ کُتّا مرا ہوا دکھائی بھی دے جاتا تھا۔جس کو کریہہ صورت گِدھوں کے غول آ کر چٹ کر جاتے تھے
میں نے اپنا نشانہ آزمانے کا سوچا اور بڑے بھائی کی پوائنٹ ٹوٹو رائفل لے کر اس مہم پر نکلا تو کسی ہم عمر کے مشورے یا اپنی ہی کج طبع سے مغلوب ہو کر یہ خیال آیا کہ کُتّوں کو دور سے نشانہ بنا کر مار ڈالنے کے بجائے باندھ کر قریب سے نشانہ بنایا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ موت کس رفتار سے اور کتنی دیر میں ان کے وجود پر حاوی ہوتی ہے؟گُمان ِغالب یہی ہے کہ فیصلہ میرا اپنا ہی تھا۔بہر صورت میرے ساتھیوں نے کسی طرح ایک آوارہ کُتّے کو گھیر کر بستی کے مغربی حصے کے قریب ایک کُھلی جگہ پر درخت سے باندھ دیا اور میں نے اپنی طرف رُخ کیے کُتّے کے ماتھے پر بنے سفید دھبے کا نشانہ لگا کر فائر کیا۔ایک تیز سِیٹی جیسی گُونج کے ساتھ چِڑیوں اور فاختاؤں کو اچانک فضا میں دھکیلتی اور شور مچانے پر مجبور کرتی آواز کے ساتھ گولی چلی اور کُتّے کے ماتھے کے سفید نشان کا رنگ بدلتی ہوئی اس کے وجود میں کہیں اُتر گئی۔میری توقع کے برعکس گولی لگنے کے بعد کُتّے کے جسم کو لگنے والا دھچکا میرے کندھے کو لگنے والے دھچکے سے بھی معمولی تھا۔ہاں! اُس کے بدن نے تھکے ہوئے اور ٹوٹتے ہوئے بدن کی طرح ایک بھرپور انگڑائی لی اور اس کی آنکھیں میری آنکھوں سے بس ایک لمحے کو ملیں۔جن میں ایک بُجھتی ہوئی پہچان اور ایک دلدل میں ڈوبتی ہوئی آواز کا سا تاثٔر تھا۔چولہے میں بُجھتے انگارے کی طرح ان آنکھوں کی سُفیدی اور سُرخی سُرمئی راکھ کا رنگ اوڑھ کر لمحہ بھر میں میری نظروں سے اوجھل ہو گئی مگر میری ذہن پر ہمیشہ کے لیے نقش ہو کر۔نہ معلوم کیوں میرا دل دُکھ سے بھر آیا اور اپنی زندگی میں پہلی بار مجھے بندوق سے،کسی بھی شے کی زندگی سے کھیلنے کا خیال تکلیف دینے لگا۔اُس وقت میرے ساتھی،جن کی تعداد مجھے اب یاد نہیں،مُسرّت اور جوش سے جو کچھ کہہ رہے تھے،میرے کانوں تک پہنچنے کے باوجود میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔دھوپ تھی مگر اُس کا احساس مِٹ رہا تھا اور مجھے اپنے آپ سے اور اپنے عمل سے گِھن آنے لگی تھی۔اُس کُتّے تک پہنچنے والی موت کسی پرندے کے پر کی طرح نرم روی اور خاموشی سے تیرتی ہوئی آئی تھی اور اس کے بدن نے تکلیف اور تشنّج کے سبب کسی طرح کا جھٹکا نہیں کھایا تھا مگر بندوق کے لبلبے پر میری انگلی تشنّج اور تکلیف سے اکڑی ہوئی تھی اور میرا بدن بدبو اور پسینے سے بھیگنے لگا تھا،جیسے میں آہستہ آہستہ کسی جوہڑ میں اُتر رہا ہوں۔میں رونا چاہ رہا تھا نہ ہی میری آنکھوں میں آنسو تھے مگر میری روح آنسوؤں میں بھیگی ہوئی تھی۔کُتّے کی بُجھتی آنکھوں میں سُنائی دینے والی چیخ میرے بدن میں،میری رگوں میں دوڑ رہی تھی اور میں اس کی شدّت اور گُونج کو سہہ نہیں پا رہا تھا۔مجھے یاد ہے کہ میں اور میرے ساتھی اس کام کو مزید جاری نہ رکھ کر اپنے گھروں کو لوٹ آئے تھے مگر کب اور کیسے؟اس بارے میں مَیں کچھ وثوق سے نہیں کہہ سکتا۔شاید ہماری واپسی پر بندوق میرے پاس تھی یا کسی اور نے لے لی تھی،مجھے یاد نہیں مگر اس واقعے کے بعد میں نے اپنے آپ کو ہر طرح کے اسلحے سے دور کر لیا۔میں بچپن میں تلوار کو بہت شوق سے دیکھتا تھا اور ڈرائنگ کے لیے لکیریں کھینچتے ہوئے زیادہ تر مختلف قسم کی تلواریں ہی بنایا کرتا تھا اور قبلہ برکت علی شاہ کے ہاں موجود محرّم کے دنوں میں ذوالجناح کو سجانے کے لیے استعمال ہونے والی تلوار کو موقع ملنے پر اُٹھا کر میں اکثر رغبت سے دیکھتا اور کسی کو دیکھتا نہ پا کر گھما کر بھی دیکھ لیا کرتا تھا اور اس عمل سے باطنی مسرت اخذ کرتا تھا(شاید اسی لیے آگے چل کر میری شاعری کے علائم میں شمشیر بہت قوت کے ساتھ اُبھری)۔پھر لڑکپن میں مری توجہ مختلف النوع بندوقوں اور رائفلوں کی طرف تھی مگر اس روز کے بعد مجھے بندوق اُٹھانا بوجھ لگنے لگا اور بندوق اُٹھا کر کہیں رکھتے ہوئے بھی مجھے اس کے وزنی اور خطرناک ہونے کا احساس گھیرے رہتا تھا۔شاید یہی وجہ ہے کہ میں نے کبھی کسی طرح کا اسلحہ خریدنے کی زحمت نہیں کی اور وراثت میں منتقل ہونے والی اپنے باپ کی ونچسٹر شارٹ گن کو بھی اپنے نام منتقل نہیں کرایا۔حتٰی کہ میرے بچپن کا یہ خواب میری زندگی سے ہمیشہ کے لیے دور ہو گیا۔

درس گاہ – 31

میرے ساہیوال چلے جانے کے باوجود میاں چنوں کی اقامت برقرار تھی۔طالب حسین ساتویں میں پڑھ رہا تھا اور اب تو تسلیم بھی ایم سی گرلز پرائمری سکول جانے لگی تھی۔معلوم نہیں کیسے اس کے سکول کی استانیوں کو ہمارے والد کی ثنا اللہ بودلہ صاحب اور غلام حیدر وائیں سے قربت کی خبر ہو گئی تھی اور کم وبیش ہر روز اس کے بستے سے سکول سے متعلق کسی نہ کسی معاملے کی درخواست نکلنے لگی تھی اور میرے والد بہت خلوص کے ساتھ ہر مسئلے کے حل کی سعی کرتے تھے۔
میں ساہیوال میں مگن تھا۔سنیما جانا بڑھ گیا تھا اور اس کی ایک آدھ جذباتی وجہ بھی تھی۔پڑھنے کی رفتار کم اور دوستوں سے مل بیٹھنے اور گپ ہانکنے کی شرح بڑھ گئی تھی۔خاص طور پر شکور کی ذاتی کتھائیں کئی کئی دن چلتی تھیں۔میں بہت شرمیلا اور کم گو تھا مگر دوستوں میں خوب چہکتا تھا۔کبھی کیفیت طاری ہوتی تو ایسی ساحرانہ گفتگو کرتا کہ ٹرانس سے نکل کر خود بھی دنگ رہ جاتا۔پھر بھی لکھنا موقوف تھا اور کم و بیش پڑھنا بھی۔
نواز سے قربت بہت بڑھ گئی تھی اور اس کے پاس کرنے کو ہزار کام تھے۔وہ نچلا بیٹھنا جانتا ہی نہیں تھا۔پرنسپل صاحب نے اُسی کے دھڑکے سے فجر کی نماز کے لیے خوابیدہ طلبہ پر سے چادریں کھنچنا موقوف کر دی تھیں۔ڈارمیٹری کی کھڑکی کی جالی اتارنے اور نصب کرنے کی راہ بھی اُسی نے نکالی تھی اور بس کے سفر میں نوجوان لڑکیوں والے خاندان میں گھل مل جانا بھی اس کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا بل کہ وہ اس قربت کو بڑھانے کے لیے بریک جرنی کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا تھا۔
وہ کئی بار میرے ساتھ ہماری بستی آیا اور میں بھی اس کو ملنے مدرسہ گیا۔وہ ریلوے پھاٹک کے سامنے ایک چھوٹی سی بستی نجمہ آباد میں رہتا تھا۔شنید تھی کہ یہ بستی اس کی بہن کے نام پر ہے۔اس کے والد،بھائی اور بہنیں مجھے اپنے خاندان کے ہم زاد لگے۔شاید ہماری گہری دوستی کی ایک وجہ یہ بھی ہو۔
ہم سب دوست ہفتے کو گھروں کے لیے نکل پڑتے تھے۔عام طور پر میں اپنے گھر والوں کے ساتھ بستی آ جاتا تھا۔ہاں زیادہ دیر ہونے پر سالم تانگہ کرا لیا کرتا تھا۔کئی بار بات نہ بننے پر بس لے کر کسی بھی موڑ پر اتر کر پیدل گھر آ جاتا تھا اور ہر بار واپسی اگلے دن عصر کے بعد ہوا کرتی تھی۔

میرے ساتھ کے سبھی ساتھی اب بڑے ہو چکے تھے۔لڑکے اپنے بزرگوں کے ساتھ کھیتوں میں کام کرنے لگے تھے اور لڑکیاں بیاہنے لگی تھی۔ہماری ملازمہ منظوراں جو مجھ سے دو برس بڑی تھی اور میرے گاؤں میں ہونے پر ہر رات میرے پاؤں دباتی تھی اب تاڑ کا درخت بن گئی تھی۔جسم بھر ہی نہیں آیا تھا،پھٹنے پر آمادہ تھا۔قد،بُت،کاٹھ ایسا تھا کہ فلمی ہیروئنوں کو نصیب نہ ہوا تھا۔اس پر کسی نے اس کے دماغ میں یہ بات ڈال دی کہ اُسے فلموں میں کام کرنا چاہیے سو ہر بار میری آمد پر وہ مجھ سے مدد کرنے کا وعدہ لیتی تھی اور دو ایک بار اس سلسلے میں اپنی تیاری بھی دکھائی۔وہ اسے رقص کہتی تھی مگر ایسا بے ہنگم رقص تو آج کل ڈسکو کی محفلوں میں بھی نہیں ہوتا۔اس لیے میں نے اپنی والدہ کو کہہ کر اس کی شادی کرا دی۔اس نے دو چار بار رسّہ تڑانے کی کوشش کی مگر پھر کھونٹے سے بندھ گئی۔مدتوں بعد ایک بار حاکم علی رضا کے ساتھ اس کی طرف پھیرا لگایا تو پہچان نہیں پایا۔چالیس برس کی عمر میں وہ دادی بن چکی تھی۔منہ میں دانت تھے نہ پیٹ میں آنت۔اور تو اور اُس نے مجھے پہچانا ہی نہیں۔حاکم کے بہت اصرار پر نام لیا بھی تو میرے چھوٹے بھائی کا۔
راجا راؤ کی طویل کہانی”ساونی”کی کتھا بھی یہی ہے۔حُسن و جمال کی برقراری اور ثبات میں آسودگی کا حصہ سب سے زیادہ ہوا کرتا ہے۔جہالت،غربت اور ناداری وجود کو دیمک کی طرح کھا جاتے ہیں۔میرے جاننے والوں میں ایک معمولی شکل و صورت کی لڑکی لاکھوں دلوں کی دھڑکن رہی۔کیوں کہ اُس نےکامیابی پائی اور اپنے لباس، حُلیے،برتاؤ اور محفل آرائی کی ادا کو نہایت سلیقے سے برت کر اپنی شائستگی اور جمال کی دھاک بٹھا دی مگر مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اس میں اس کی مالی آسودگی کا حصہ سب سے زیادہ تھا۔
منظوراں کا چھوٹا بھائی لال عرف لالُو ہمارے پاس شہر میں ملازم تھا۔اُس کی زندگی کی سب سے بڑی تمنّا شہر میں رہ کر میری خدمت کرنا تھی مگر میں خواہش کے باوجود اُسے اپنے ساتھ نہیں رکھ سکا اور اب تو یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہے اور کس حال میں ہے؟

1967ء کے آخر میں بھٹو صاحب کے ساہیوال آنے کی افواہ اُڑی۔وہ ہمارے ایک ہم جماعت عامر کہ جس کے والد شاید ریٹائرڈ آرمی آفیسر تھے،کے ہاں فرید ٹاؤن آ رہے تھے اور پیپلز پارٹی کی شاخ قائم کرنے یا اُس کے عہدے داروں کے تقرر کی تقریب میں شرکت کرنے۔اگلے ہی روز مظفر قادر جو اس زمانے میں ساہیوال کے ڈپٹی کمشنر تھے،کا نزول ہوا اور بھٹو کے آنے کے روز کی کالج میں تعطیل کا اعلان کر کے چلتے بنے۔ہاسٹل کے طلبہ کو اس اچانک افتاد سے نپٹنے کا کوئی حل نہیں مل رہا تھا۔کوئی بھی گھر جانے پر آمادہ نہیں تھا کہ کم وبیش سبھی ایک دن پہلے ہی گھر سے ہاسٹل پلٹے تھے۔سو پرنسپل صاحب نے چھانگا مانگا کے ہنگامی ٹور کا انتظام کر دیا۔ یہ ٹور اس لحاظ سے انتظامیہ کے لیے نقصان دہ رہا کہ طلبہ سارے راستے پیپلز پارٹی اور بھٹو کے حق میں نعرے لگاتے گئے اور آئے۔اُسی رات عامر کے یہاں کھانے پر ہم چند دوستوں کی بھٹو صاحب سے ملاقات ہوئی اور میرے گھر کے پیپل پر پیپلز پارٹی کا جھنڈا لگ گیا۔اس کے باوجود کہ میرے والد پیر ثنا اللہ بودلہ اور کھگّوں کی محبت میں مسلم لیگ کے حمایتی تھے اور ستّر کے الیکشن میں انہوں نے مسلم لیگ کا ساتھ بھی دیا

میں پیپلز پارٹی کا کبھی رکن نہیں رہا نہ ہی ہمارے خاندان نے کبھی اس نسبت سے کوئی فایدہ اٗٹھایا مگر یہ جھنڈا برسوں لہراتا رہا اور علاقے کے سب سیاستدان اس حوالے سے میرے کنسرن کو جانتے تھے۔

اب پلٹ کر دیکھتا ہوں تو کسی شاعر سے پہلی ملاقات مجید امجد سے تھی اور کسی ادبی رسالے سے پہلا تعارف”فنون”سے۔بطور قاری نثر سے میری نسبت پرانی تھی مگر شاعری سے نئی نئی۔شکور میری تحریری صلاحیت سے مرعوب تھا سو اس نے راوی بن کر مجھے ایک ناول ڈکٹیٹ کرانا شروع کیا اور میں اسے اپنے رنگ میں لکھتا چلا گیا۔یہ ایک عشقیہ داستان تھی اور مجھے یقین ہے کہ اگر اسے رضیہ بٹ یا سلمیٰ کنول کے نام سے چھاپ دیا جاتا تو خوب پڑھی جاتی مگر میرے یا شکور کے نام سے اسے چھاپنے کے لیے پبلشر کا ملنا محال تھا۔ناول مکمل کرنے کے بعد میں نے حاکم علی رضا کو جو لاہور اسلامیہ کالج آف کامرس میں پڑھ رہا تھا،اس کی اشاعت میں اعانت کے لیے خط لکھا اور اس نے اردو بازار کے پبلشرز سے معاملہ طے کرنے کے لیے مجھے لاہور آنے کی دعوت دی بلکہ لے جانے کے لیے ساہیوال آ پہنچا۔
حاکم کی نویں جماعت میں شادی کر دی گئی تھی،جسے وہ اپنی شخصیت کی کجی کی بنیاد جانتا تھا اور اس ٹیڑھ کو نکالنے کے لیے ان دنوں ایک اور لڑکی کے عشق میں مبتلا تھا ۔اس معاملے میں اُس نے مجھے رازدار بنا رکھا تھا۔اس لیے اُس کے نزدیک میرے کسی کام کی اہمیت معمول سے بڑھ کر تھی۔
ہم ایک بار پھر "نیا ادارہ”پر آئے۔ناول اُن کے حوالے کیا اور ہر وہ کتاب خرید لی جو انہوں نے خریدنے کے لیے تجویز کی۔اس میں ضیا جالندھری کی”نارسا”سے باری کی”کمپنی کی حکومت”تک بہت کچھ تھا اور میں تسلیم کرتا ہوں کہ اس علمی خزانے نے مجھے بدل کر رکھ دیا۔
میرے لکھے ناول کو چھپنا تھا نہ چھپا۔میں نے اسے غلام حسین سیفی کے نام سے لکھا تھا۔اس نام کی کوئی وجہ تسمیہ نہ تھی۔کچھ عرصہ "داغ "بھی رہا مگر بڑی حد تک بے داغ۔افسانے لکھ اور شاعری کر رہا تھا مگر اسے کسی کے ساتھ سانجھا نہیں کرتا تھا۔معلوم تھا میری ہر تحریر ناپختہ اور اصلاح طلب ہے اور ابھی اتنی ہمّت نہیں تھی کہ اپنا بستہ اُٹھا کر کسی کے چرنوں میں جا بیٹھوں۔
مجید امجد کی”شب ِرفتہ”اسی زمانے میں پڑھی مگر اس نے وہ اثر نہیں کیا جو ساحر کی”تلخیاں” اور فیض کی "نقش فریادی”نے دکھایا تھا۔
میں نے پہلا سٹیج ڈرامے اپنے کالج کے ہال میں دیکھا،جس کا مرکزی کردار ایک سیکشن آفیسر تھا۔اب یاد نہیں یہ کس نے لکھا اور ڈائریکٹ کیا تھا مگر ڈرامہ خوب تھا اور تا دیر میرے حواس پر سوار رہا۔

درس گاہ – 30

جراحی کی طرف سے آنے والا راجباہ ڈپٹیاں والا سے پہلے دو کھالوں میں تقسیم ہو جاتا تھا۔ایک ٹّبّے سے دائیں ہو کر پنج کسّی اور پھر ہمارے گھر کی چاردیواری کو چُوم کر بھاؤ مراد کی بھینی سے آگے نکل جاتا تھا اور دوسرا خان ذوالفقار کے باغ سے مُڑ کر نور شاہ کے قبرستان کی بیرونی حد کو چُھو کر کھگّوں اور ہماری زمین کی سیرابی کا فریضہ ادا کرتا تھا۔اس نالے پر قبرستان کے ماتھے پر سلیم شاہ کا ٹیوب ویل نصب تھا اور پگڈنڈی پر ایک مختصر سا پختہ پُل۔میں اور حق نواز شام کو سیر کرتے گھر سے تین چار مربعے کے فاصلے پر اسی پل پر آ کر بیٹھتے تھے اور وہ باتیں کیا کرتے تھے جو ہمیشہ ادھوری رہتی ہیں اور اب بھی ادھوری ہی ہیں۔حق نواز مجھ سے آٹھ برس بڑے تھے اور کسی فلمی مکالمے سے متاثر ہو کر مجھے ماموں یار کہتے تھے اور میں اُسے عزیزی کہہ کر مخاطب کرتا تھا۔اُس کی رہائش دریا کنارے تھی اور میں ساہیوال جا چکا تھا مگر پھر بھی ہر ہفتے یہ ملاقات ہوا کرتی اور وچار سانجھے کیے جاتے۔
اسی زمانے میں نور شاہ قبرستان میں چڑیل کی موجودگی کی افواہ اُڑی اور آہستہ آہستہ کیفیت یہ ہو گئی کہ پانی کی باری والوں نے کھالے کے ساتھ ساتھ رات کو قبرستان سے گزرنا چھوڑ دیا۔یوں بھی قبرستان کی خستہ حالت،سُنسانی،جابجا ون،کیکر اور جال کے پُر اسرار درخت،بوڑھ کے دو مہان گیانیوں کی وسیع چھایا اور اس پر عاشق چمگادڑوں کے پرّے۔یہ سب مل کر ایسا منظر نامہ تشکیل دیتے تھے جو کسی رات کے راہی کو کم ہی خوش آ سکتا تھا۔
انہی دنوں ایک بار میں ساہیوال سے گھر کے لیے نکلا تو بس کے خراب ہو جانے کی وجہ سے کہیں مغرب کے بعد میاں چنوں پہنچا۔گھر والے گاؤں میں تھے اور مجھے کوشش کے باوجود گاؤں کے لیے کوئی سواری نہیں مل سکی۔ایک تانگے والے سے سالم تانگہ لے جانے کی بات کی مگر وہ لوئر باری دوآب کے کنارے کے کسی گاؤں کا رہنے والا تھا۔اس لیے معقول رقم کی پیشکش کے باوجود بھی راضی نہیں ہوا۔سو میں گھراٹاں پر اُتر گیا اور جراحی بینس پر پیدل ہی گاؤں کی راہ لی۔ ذہن میں گھر کی ہوئی شاعری پڑھتا اور مکیش کے گیت گنگناتا میں ڈپٹیاں والا کے باہر پہنچا تو کُتّوں اور چڑیل میں سے کسی ایک کے انتخاب کا مرحلہ آیا۔مجھے چوں کہ کُتوں کے وجود پر یقین اور چڑیل کے وجود پر شک تھا۔اس لیے پانچ منٹ کے جرنی بریک کے بعد میں نے قبرستان کے پہلو سے ہو کر بوڑھ کے نیچے سے پُل اور کھیتوں میں سے اپنے گھر کو جاتی پگڈنڈی کا رُخ کیا اور تین سے چار منٹ کی اس مسافت کو دھڑکتے دل کے ساتھ طے کرنے لگا۔
اندھیری رات تھی اور بوڑھ کے نیچے اس قدر تاریکی کہ پُل تک کچھ دکھائی ہی نہیں دے رہا تھا۔ہاں چلتے ہوئے پانی کی سرسراہٹ تھی اور اس کی روانی میں خلل ڈالتی کچھ ایسی آواز جیسے کوئی اسے روک کر اُچھالنے کی کوشش میں ہو۔میں نے لاکھ آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کی مگر بے سُود۔میں ایسا گدھا تھا جس کے پاس ماچس تھی نہ ٹارچ۔ سو میں نے تاریکی سے باہر آنے کے لیے چلتے رہنا ہی بہتر سمجھا اور پُل پر پہنچا ہی تھا کہ کوئی شے ٹیوب ویل کے پانی سے بنی تلیا میں سے پانی کی جھالر کے ساتھ اپنے پورے قد کے ساتھ اُٹھی اور ایک غیر انسانی غراہٹ کے ساتھ میری طرف بڑھی ۔معلوم نہیں کیا ہوا مگر کسی غیر ارادی قوّت کے ساتھ میں اُس سایے سے گُتھم گُتھا ہو گیا۔کسی طرح میرے ہاتھ اُس کے بالوں میں الجھ گئے اور میں نے انہیں پوری قوت سے جکڑ کر کھینچ لیا۔اگلے ہی لمحے میں نے اپنے آپ کو ایک ریشمی وجود پر گرا ہوا پایا اور مجھے لگا کہ اس کے بدن پر کسی ملبوس کا ایک تار بھی موجود نہیں۔کچھ نامانوس نشیب و فراز تھے اور ان پر سرکتے پانی کی ہلکی نمی اور میں تھا جو ایک وحشت بھرے اضطراب کے ساتھ اسے زمین پر رگڑے جا رہا تھا اور رگڑے جاتا اگر وہ تاریکی اور ٹھنڈک میں نہایا وجود سسکنے کا آغاز نہ کرتا۔
میں گھبرا کر الگ ہوا اور اُسی تاریکی میں اسے ملبوس میں اترنے کی اجازت دے کر اپنے پسندیدہ پُل پر جا بیٹھا کہ اس خوف سے نکلنے کی ضرورت مجھے بھی تھی۔
لڑکی قریب ہی کے گاؤں کی تھی۔وہی پرانی کہانی۔اولاد نہ ہونے کا مسئلہ۔پیر پرستی۔قبرستان میں چِلّہ اور غُسل۔آج کا واقعہ راز رکھنے کی شرط پر میں نے اُسے اس کام سے باز آنے کا کہا اور ہم دونوں نے اپنا وعدہ پورا کیا۔آج بھی سوچتا ہوں کہ اولاد کی تمنا عورت کو کتنا جری بنا دیتی ہے۔جس علاقے سے مرد دن میں گزرتے گھبراتے ہوں وہ وہاں راتیں بِتانے پر آمادہ ہو جاتی ہے اور ہر خوف کو جُوتی کی نوک پر رکھتی ہے۔
اٗس روز سے میں نے عورت کو کبھی کمزور نہیں سمجھا۔

دسویں جماعت میں تھے جب لاہور سے دو نوجوان جاوید اقبال (ڈم ڈم)اور اجمل ہجرت کر کے ہمارے سیکشن میں آئے۔پہلے ایچی سن کالج کے بھگوڑے تھے اور دوسرے سنٹرل ماڈل سکول کے۔ہم ایک کی ان تھک انگریزی اور دوسرے کی لشٹم پشٹم سے بہت متاثر تھے اور ممکن تھا اُن کے حلقہء ارادت میں شامل ہو لیتے مگر وقت کی تنگی کے باعث بات دوچار ملاقاتوں سے بڑھ نہیں پائی۔اجمل کے والد فیکٹری اونر تھے۔میٹرک کرنے کے بعد وہ شاید اپنے باپ کی مدد کرنے میں جُت گیا اور جاوید صاحب جو غلام حیدر وائیں(بعد میں وزیرِِاعلٰی پنجاب) کے رشتے میں پوتے تھے،ہیوی ویٹ باکسر بننے کی راہ پر چل نکلے۔
کالج کے پہلے برس گرمیوں کی چھٹیوں میں ایک دن میں شہر سے موٹر سائیکل پر گاؤں جاتا تھا کہ میں نے جاوید کو جراحی بَین٘س پر نہر والوں کی بنائی سڑک پر نیکر،شرٹ اور لونگ بُوٹ میں شارٹ گن گلے میں ڈالے اور کمر میں کارتوسوں کی پیٹی اُڑسے مارچ کرتے دیکھا۔میرے استفسار پر موصوف نے بتایا کہ وہ سور کے شکار پر نکلے ہیں،جس کا انہوں نے ایچی سن کی ایک ٹیچر سے وعدہ کیا ہے اور اب راوی کے بیلے کی اور پدھارتے ہیں۔میں انہیں شکار کی حدود و قیود بتا کر گھر لے آیا اور پہلی ہی تفصیلی ملاقات میں مجھ پر یہ بھید کُھل گیا کہ اُن کے تھل تھل کرتے وجود میں مقید روح کسں قدر سادہ اور معصوم ہے۔
وہ اپنے مشن پر ڈٹے ہوئے تھے اور اپنی مراد کو پانے کے لیے انہوں نے ایسے ایسے گُل کھلائے کہ جن کی یاد بے اختیار ہسنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
جنگلی سور پر سواری کا شرف شاید ہی کسی اور کو حاصل ہوا ہو۔(زیر ِنظر تصویر میں دکھائی دینے والی آبادی تب موجود نہیں تھی)

درس گاہ – 29

آصف،محمود اور ضیا وغیرہ عمر میں بھی مجھ سے بڑے تھے اور قد کاٹھ میں بھی۔آصف گھونگھریالے بالوں،بڑی بڑی اسرار بھری
آنکھوں،نفیس جدّت طراز ملبوس اور لامحدود اعتماد کی وجہ سے نمایاں تھا تو محمود کے گھر کا علمی پس منظر،صوم و صلوٰۃ سے نسبت اور مذہبی مسائل اور معاملات میں قابل ِتقلید پیش رفت اسے تکریم کے قابل بنانے کو کافی تھی۔نواز اپنی معاملہ فہمی اور طراری کے باعث کسی کے قابو آنے والا نہیں تھا اور شکور کے خالص دیہاتی نقوش میں ایسی پختگی تھی جیسے برسوں سے ایک ہی کلاس کو رگڑا دے رہا ہو۔سو ریگنگ کا نشانہ اگر ہو سکتے تھے تو وہ میں اور ضیا ہی تھے وہ گفتگو میں اٹکنے کی قباحت کے باعث اور میں چار فٹ دس انچ کے قد اور نہایت دُبلے وجود کی وجہ سے اور یہی ہوا جب میں تین عدد تھری پیس سوٹ،متعدد کُرتے پاجاموں،کئی پینٹ شرٹس،یونیفارم کے دو جوڑوں اور پنجیری سے بھرے ٹرنک کے ساتھ ہوسٹل پہنچا تو سر منڈاتے ہی اولے پڑے۔سینئیرز کے ایک جمّ ِغفیر نے مجھے گھیر ہی نہیں لیا،ٹرنک کھلوا کر پنجیری بھی لُوٹ لی،جس کے کھانے والوں میں پہلی قطار کے پیچھے نواز اور شکور کے چہرے بھی موجود تھے۔پہلے گانے کا حکم صادر کیا مگر میری آواز کی گڑگڑاہٹ سے گھبرا کر کچھ تحت اللفظ سنانے کی فرمائش کی گئی تو نہ معلوم کہاں سے حضرت ِ غالب میری مدد کو آ پہنچے اور میں نے ان کی غزل:
جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں اِرم دیکھتے ہیں
کے چند شعر سُنائے۔جب مقطع پر پہنچا:
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں
تو ہجوم کا استہزائی رنگ بے ساختہ داد میں بدل گیا اور ہجوم نے میرے ساتھ محبت سے مصافحہ کر کے پنجیری لُوٹنے پر معذرت کر کے اپنے ہمراہ لے لیا اور باقی کی ریگنگ میں مَیں بھی اس ٹولے کا حصہ رہا۔

ہاسٹل میں ناشتے کے لیے کینٹن اور کھانے کے لیے میس موجود تھا۔سینڈوچ،کپ کیک،آملیٹ،فرائیڈ انڈہ،توس اور پراٹھے سب کچھ دستیاب تھا۔سب کچھ ملا کر ماہانہ بِل تیس روپے سے زیادہ نہیں ہوا کرتا تھا۔ایک حاضری دس بارہ پیسے سے زیادہ کی نہیں تھی اور ہر سوغات کی حاضریاں طے شدہ تھیں۔مثلاً دال روٹی تین حاضریاں تو مرغ یا بکرے کے گوشت کا قورمہ روٹی پانچ حاضریاں۔مہینے کے آخر میں کُل حاضریوں کو فی کس حاضری کی رقم سے ضرب دے دی جاتی تھی اور ہر طالبِ علم اپنا بِل خود بنا سکتا تھا۔مجھے گھر سے ڈیڑھ سو روپے ملتے تھے۔کچھ رقم ماں دیتی تھی اور ہر ہفتے واپسی پر ابّا جی بس یا ٹرین کے کرائے کی مد میں عنایت کرتے رہتے تھے۔یہ رقم بھی خاصی ہو جایا کرتی تھی کہ ابّا جی کی شفقت اس کی بڑھوتری کا سبب بنتی۔
بس کا کرایہ ایک روپے دس آنے اور ٹرین کا ڈیڑھ روپیہ تھا۔ابّا جی دس روپے عنایت کر کے پوچھتے:”لے یار کافی ہوسی نا؟” میں کہتا "جی” اور بیگ اُٹھا کر گُھٹنے چُھونے کو جُھک جاتا۔تب وہ دس کا ایک اور نوٹ نکالتے اور کہتے”ایہہ لے۔راہ وچ کجھ کھا پی لویں”.میں کہتا "جی”اور باہر قدم بڑھاتا تو وہ دروازے تک ساتھ چل پڑتے۔میں گلی میں آ کر تعظیم کے لیے جُھکتا تو دس کا ایک اور نوٹ اس ہدایت کے ساتھ عنایت کیا جاتا”اڈے توں کالج کان سالم تانگہ کر لویں”.
یہ سب دس روپے سے زیادہ کا نہیں تھا بلکہ میں اس سے بھی کم میں ہاسٹل پہنچ جاتا مگر یہ عمل اور مکالمہ ہر بار دہرایا جاتا اور میرا مجموعی جیب خرچ اڑھائی سو تک پہنچ جاتا۔میں اگر غلط نہیں ہوں تو اُس زمانے کے اساتذہ اس کے لگ بھگ ہی تنخواہ پاتے تھے۔

کالج کا پہلا دن تعارف کا تھا۔ہمیں مختلف مضامین کے لیےایک کمرے سے دوسرے کمرے میں منتقل ہونا پڑا۔اس لیے پہلا دن کافی ہنگامہ خیز رہا۔اساتذہ میں فزکس کے حفیظ الرٰحمن(تھیٹا)،کیمسڑی کے چودھری عبدالعزیز (لارڈ)،انگلش کے فرخ صاحب اور اردو کے اشرف صاحب مجھے یاد ہیں۔عزیز صاحب کے لارڈ کہلانے کا سبب یہ بنا کہ وہ طلبہ سے تعارف میں ایک سوال ضرور پوچھتے تھے:
"What is your father?”
اتفاق سے طلبہ کی اکثریت آس پاس کے علاقوں کے زمینداروں کے بچوں پر مشتمل تھی سو پہلا ہی جواب آیا:
"Sir!my father is a land lord”
یہ ایک ٹرینڈ سیٹر جواب تھا۔جب مجھ جیسے معمولی کسان کے بیٹے نے بھی سینہ پُھلا کر یہی جواب داغا تو شاید وہ چِڑ گئے اور فرمایا:
"Don’t try to impress me,my father was also a land lord”
اس دن کے بعد وہ لارڈ کہلانے لگے۔حفیظ الرحمٰن صاحب پہلے ہی سے”تِھیٹا”مقرر کیے جا چکے تھے اور سُنا ہے کہ گورنمنٹ کالج لاہور ٹرانسفر ہو بھی کر اس لقب سے پیچھا نہیں چھڑا پائے تھے۔
اس کا ایک دلچسپ تجربہ مجھے ایک بار گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازی خان جانے پر ہوا۔یہ انوار الحکیم عثمانی کا زمانہ تھا۔ اُن کی دعوت پر کالج پہنچا تو سوچا کہ پنجابی شعبے میں اپنے جگری یار اور ہم جماعت محمد بشیر طارق سے بھی مل لُوں۔ہم کالج کے زمانے میں اُسے”لبّھا”اور”بٹھّل”کے القاب سے یاد کرتے تھے سوچا یہاں اصل نام سے یاد کرنا افضل ہو گا سو عثمانی صاحب سے کہا کہ بشیر طارق کو بلوا دیجیے۔انہوں نے چپڑاسی کو بلا کر یہ نام بتایا تو اُس نے لاعلمی کا اظہار کیا۔مجھے گمان گزرا کہ شاید اصل نام طارق بشیر ہو مگر نام اُلٹانے پر بھی چپڑاسی کے چہرے کی کیفیت نہیں بدلی تو میں نے وضاحت کی کہ وہ پنجابی کے پروفیسر ہیں۔
یہ کہنے کی دیر تھی کہ چپڑاسی کے چہرے کا تناؤ ختم ہو گیا۔ایک طمانیت بھری سانس کھینچ کر فرمایا:
"سائیں انج آکھو نا۔لبّھے نوں گِھن آ”
میں آج تک نہیں سمجھ سکا کہ اس نوع کے القاب اگلی منزل تک کا سفر کیسے کرتے ہیں۔

کالج اور ہاسٹل کے معمولات طے شدہ تھے۔فجر کے وقت پرنسپل صاحب دندناتے ہوئے آتے اور طلبہ کی چادریں کھینچ کھینچ کر نماز کے لیے جگاتے۔تاہم ایک بار نواز طاہر کو چادر کے نیچے فطری لباس میں دیکھ کر انہوں نے اپنے آپ کو دروازہ دھڑدھڑانے تک محدود کر لیا تھا۔یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ نواز کا فطری لباس میں ہونا اتفاقی نہیں تھا۔
نماز کے بعد ہم لوگ جِم جاتے یا سوئمنگ پول کا رُخ کرتے۔مسجد،سوئمنگ پول اور روز گارڈن ایسے جمیل مقام تھے کہ جن کی تصویر اب تک نگاہوں میں تیرتی ہے۔کالج سےہاسٹل کو جاتی سڑک کا اپنا اسرار تھا۔مجھے چیزیں زیادہ خوبصورت نظر آتی تھیں۔ایک بار کسی کی عینک لگائی تو دور کی اشیاء کا رنگ بدل گیا۔تب کُھلا کہ ہم نظر کی کمزوری کا شکار ہیں۔اُسی روز آصف کے ساتھ شہر جا کر ایک آئی سپیشلسٹ سے ملے اور معنک ہو کر پلٹے۔اس پھیرے میں شیونگ کٹ بھی خریدی(آصف نے وہ ساری چیزیں منتخب کیں جو اپنے بڑے بھائی کے پاس دیکھی تھیں۔جلٹ کا سامان،آسٹریا کی کنگھی،
ویسلین ہیر آئل اور دیگر لشٹم پشٹم).یہ اور بات کہ اُس کی ضرورت ایک برس تک پڑی ہی نہیں۔حتّٰی کہ ہم کھنچ کر دس انچ لمبے ہو گئے اور بال ترشوانے کے دوران میں کبھی حجام ہمارے عارضوں پر بھی قینچی آزمانے لگا۔
کون یقین کرے گا کہ تب آسٹریا کی کنگھی ہمارے بالوں میں ٹوٹ جاتی تھی۔معنک ہونے کے بعد ہم انٹلکچوئل لگنے لگے تھے اور ادب سے ہمارا رشتہ قائم ہونے لگا تھا۔
کالج میں فلم کلب بھی قائم کیا گیا تھا اور جمعہ کی شام کو یُو ٹائپ ونگ کے لان میں پروجیکٹر پر کلاسک انگریزی فلمیں دکھائی جاتی تھیں۔”Bridge on the river kiwai”،the great escape”،la miserable”اور”the comedy of error”جیسی فلمیں یہیں دیکھیں۔شہر کے سنیما بھی ہماری دسترس میں تھے۔پہلے تو نگران سے اجازت لینے اور ہاسٹل گیٹ پر موجود رجسٹر میں آنے جانے کے وقت کا اندراج کرنے سے بڑی کوفت ہوئی مگر بعد میں باہر کھیتوں کی طرف کُھلنے والی بغیر گرل کی جالی والی کھڑکی نے بڑی سہولت پیدا کر دی۔دس پیچ کھولنے اور واپس جمانے میں دو منٹ لگتے تھے اور شہر قدموں تلے کھنچ آتا تھا۔
یہیں غالباً آئرس سنیما کے باہر مجید امجد سے ایک ملاقات ہوئی تھی۔
مجھے تب تک شاعری کے آہنگ سے زیادہ شناسائی نہیں تھی۔کالج لائبریری میں”فنون”کا کوئی شمارہ دیکھا تو اس میں مجید امجد کی نظمیں سب سے پہلے چھپی ہوئی تھیں۔مجھے وہ نظمیں بے وزن لگیں اور بہت حیرت ہوئی کہ احمد ندیم قاسمی جیسا ایڈیٹر کسی شخص کے لیے ایسی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیسے کر سکتا ہے؟مجھے اپنے دوستوں میں اپنے مطالعے کے حوالے سے ڈینگیں مارنے کی عادت تھی۔اس روز سینما کے باہر پہلا شو ختم ہونے کے انتظار میں مَیں فنون ہی کی بات کر رہا تھا اور مجید امجد کا نام لیا ہی تھا کہ ایک دبلے پتلے نحیف آدمی نے،جو سائیکل کو بائیں بغل میں دبائے پیدل ہی کہیں جا رہے تھے۔”مجید امجد”کہہ کر ہاتھ بڑھایا اور ہم سب سے مصافحہ کیا۔وہ شاید یہ سمجھے تھے کہ میں اپنے دوستوں کو ان کی طرف متوجہ کر رہا ہوں۔میں نے شرمندہ سا ہو کر ہاتھ ملایا اور ان کے سوال کے جواب میں اپنا مشغلہ لکھنا پڑھنا بتایا تو آپ نے سٹیڈیم ہوٹل آنے اور ملتے رہنے کی ہدایت کی مگر افسوس میری جہالت مجھ پر غالب آئی اور میں ان سے ملنے کے لیے کبھی ہوٹل گیا ہی نہیں۔

ساہیوال آنے کے فوراً بعد ہم دو تین "ہٹّیوں”پر گئے۔جن میں سے ایک "بابے”کی اور ایک”مجید کی ہٹّی”تھی۔یہاں سے میں نے فیض کو خریدا اور اس محبت میں مبتلا ہوا جو آج بھی برقرار ہے۔یاداشت کا یہ عالم تھا کہ برسوں بعد فیض صاحب سے ایک ملاقات میں کچھ سُنانے کی فرمائش کی تو انہوں نے نسیان کا بہانہ بنا کر ٹالنا چاہا۔تب میں نے عرض کی کہ وہ کچھ سُنانا شروع کریں،جہاں بھولیں گے یہ ناچیز یاد دلا دے گا اور یہ دعویٰ کچھ ایسا غلط بھی نہیں تھا۔

ساہیوال سے ہفتے کی سہہ پہر میاں چنوں کے لیے روانگی ہوتی تھی۔عام طور پر گھر والے میاں چنوں میں مل جاتے تھے اور ہم لوگ اکٹھے گاؤں آ جاتے تھے۔کبھی وہ لوگ پہلے نکل لیں تو میں سائیکل یا تانگہ کرایے پر لے کر پہنچ جاتا تھا۔کئی بار ایسا ہوتا تھا کہ دیر ہو جانے پر میں بس کے ذریعے گھراٹ،خُونی یا پکّا موڑ پر اتر کر پیدل ہی گھر آ جاتا تھا۔مجھے سب سے زیادہ جراحی روڈ سے آنا پسند تھا مگر گھنی ٹاہلیوں،چھتنار کیکروں اور سنسانی کی وجہ سے رات کو اس راہ سے آنا غیر محفوظ سمجھا جاتا تھا مگر اس طرف سے آنے میں آسانی یہ تھی کہ "ڈپٹیاں والا” کے سوا کوئی آبادی راہ میں نہیں پڑتی تھی اور آوارہ کُتوں سے کاٹے جانے کا دھڑکا کم ہوتا تھا۔ہاں ڈپٹیاں والا آ کر آبادی سے باہر قبرستان نور شاہ کے پاس سے گزرنا ایک مسئلہ ضرور ہوا کرتا تھا مگر مجھے رات کو اس قبرستان سے گزرنے میں زیادہ خوف نہیں آتا تھا۔اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ اپنے بڑے بھانجے حق نواز سے دوستی کے بعد گاؤں میں ہونے پر ہم دونوں ہر شام سیر کرتے ہوئے اس قبرستان کے سامنے کھالے کے پُل تک آتے تھے اور وہاں بیٹھ کر دُنیا جہان کی باتیں کرتے تھے اور دوسری وجہ یہ کہ کتوں کے مقابلے میں مَیں مُردوں کو زیادہ مہذب جانتا تھا۔پھر یہ سفر کو اور مختصر کرنے کا ذریعہ بھی تھا سو میں وہاں سے بے دھڑک گُزر جاتا تھا۔تب بھی جب وہاں ایک چُڑیل کی موجودگی کا شُہرہ ہوا اور ایک روز اُس سے ملاقات بھی ہو گئی۔

درس گاہ – 28

ایم سی ہائی سکول کے اساتذہ میں شوکت حسین رضوی اور سائنس کے رشید صاحب کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ دونوں نہایت شفیق اور اپنی آبائی روایت کے بہترین نمونے تھے.ایک لکھنؤ کی نستعلیقیت کا مرقع تھے تو دوسرے پنجاب کی اشرافیہ کا اور ان دونوں کی صحبت میں آدمی ان جانے میں بہت کچھ سیکھ جاتا تھا۔
مجھے یہ تسلیم کرنے میں عار نہیں کہ زبان کا خلاقانہ استعمال میں نے رضوی صاحب سے سیکھا تو پرزم سے منعکس ہونے والے رنگوں کی پہچان اور انسانی نفسیات سے اُس کے رشتے کی خبر رشید صاحب نے دی۔
حکیم عصمت اللہ کا،جو ہمارے ہمسائے تھے،ذکر پہلے آچکا۔اُن کے بڑے صاحب زادے صفدر اور چھوٹے سرور سے دوستی ہونا چاہیے تھی اور ہوئی مگر ہم عمر ہونے کے ناتے زیادہ قربت سرور سے تھی۔ڈاکٹر صادق ملہی جو پیپلز پارٹی میں شامل ہونے اور ایم پی اے بننے کے بعد پنجاب کابینہ میں تعمیرات کے وزیر رہے،اُن کے عزیز تھے۔وہ پہلے سول ہسپتال میں انچارج بن کر آئے۔آدمی معقول اور اپنے کام میں ماہر تھے۔اس پر شہر کے پہلے ایم بی بی ایس،سو بہت جلد عوامی ہو گئے اور ملازمت ترک کرکے شہر میں اپنا کلینک کھول کر پریکٹس کرنے لگے۔کسی وجہ سے میرے ابّاجی بھی اُن کے مداحین میں شامل ہو گئے اور بہت جلد انہوں نے ہمارے خاندانی معالج کی حیثیت حاصل کر لی۔وہ گھر پر آ کر بھی علاج کرنے لگے اور کلینک پر تو خصوصی شفقت کیا ہی کرتے تھے۔اُن کی ایک خاص ادا یہ تھی کہ جونہی ہم بھائیوں میں سے کوئی کسی مریض کے ساتھ اُن کے کلینک جاتا،وہ ایک مدور آئینے کا رُخ پھیر کر ہمارے سامنے رکھ دیتے تھے،جس میں شکل بگڑی نظر آتی تھی۔کبھی ماتھا اتنا بڑا ہو جاتا کہ باقی خدوخال اضافی محسوس ہوتے اور کبھی ناک ہر نقش پر حاوی ہو جاتی۔ایسا ہوتے ہی ہم احتیاط سے اس آئینے کو ڈاکٹر صاحب کے نقوش کی تفسیر پر مقّرر کر دیتے اور وہ مسکرا کر اپنے عمل کا اعادہ کرتے۔یہ کشمکش مریض کو دوا دے کر رخصت کرنے تک جاری رہتی اور کسی کے لب پر شکایت کا حرف تک نہیں آتا۔
اُن کی پریکٹس خوب چلی۔اُن کا کلینک ہسپتال میں بدلا اور اُن کے بدخواہوں نے اُن کے کس بل نکالنے کے لیے انہیں پیپلز پارٹی میں شامل کرا دیا۔وہ مسلم لیگ(قیوم)میں جانا چاہتے تھے مگر الیکٹیبل حضرات نے یہ ہونے نہیں دیا۔تب کسی کو کیا خبر تھی کہ الیکشن میں کیا جھاڑو پھرنے والا ہے مگر یہ قصّہ بہت بعد کا ہے اور اس سے بھی دلچسپ حکایت اُن کے وزیر بننے کی ہے۔

کالج میں داخلے کے لیے رزلٹ کارڈ ٹائپ ہو کر تصدیق ہو چکا اور کیمرے نے ہمارے ہوائیاں اُڑے چہرے کے نقش اُتار لیے تو ہم والد صاحب اور ماسٹر مختار احمد کے ساتھ عازم ِساہیوال ہوئے۔ہم نے صبح کی ٹرین لی اور اپنا پسندیدہ عمل دُہراتے یعنی اسٹیشنوں کے نام یاد کرتے(اقبال نگر،کسووال،کوٹلہ جندا رام،چیچہ وطنی،داد فتیانہ،ہڑپہ،میر داد معافی)ڈیڑھ گھنٹے میں ساہیوال پہنچ گئے۔وہاں سے تانگے پر کالج۔جس نے پہلی ہی نظر میں ہمیں موہ لیا۔ہم نئے نئے نسائی حُسن کی قیامت خیزی سے مغلوب ہو رہے تھے۔اس کالج کے جمال نے تو ہر نقش کو دھندلا کر دیا۔مدّتوں بعد(1977ء میں)میری مرتب کردہ کتاب”موسم”کے اوّلیں مسّودے پر نظر ڈال کر جب غلام محمد قاصر نے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ میری شاعری میں آنکھوں کا ذکر بے محابہ ہے تو میں نے کہا تھا کہ ہاں ہے اور یہ آنکھیں کسی روپ میں بھی ہوں،میری اس حیرت کی توسیع ہیں جو مجھے حُسن کے ہر پیکر کے حضور سرنگوں کر دیتی ہےاور جس کا اولین نقش گورنمنٹ کالج ساہیوال کی پہلی جھلک سے مرتب ہوا۔
یہاں ہم نے کالج سے پراسپیکٹس لیا اور پری انجینئرنگ کے لیے داخلہ فارم بھرنا شروع کیا ہی تھا کہ ایک گورے چِٹّے نوجوان اپنے والد کے ساتھ ہمارے ساتھ جُڑ بیٹھے۔یہ مدرسہ(بہاول نگر)کے محمد نواز طاہر بھٹّی تھے،جن سے طویل رفاقت کا آغاز ہو رہا تھا اور جن سے ہزاروں ایسی یادیں وابستہ ہیں جو صرف انہی کی ذات سے خاص ہیں۔لا اُبالی پن،جُرأت،طراری اور شرارت کی جیسی پوٹ آپ تھے،اب تک کی زندگی میں کوئی دوسرا نہ ملا۔
ہماری واپسی کی ٹرین دو بجے تھی۔داخلہ فارم جمع کرانے کے بعد ایک خاصے معقول ہوٹل سے کھانا کھا کر اسٹیشن آئے تو جو ٹرین ملتان کا رُخ کر کے سامنے کھڑی دکھائی دی۔مختار صاحب اسی میں گُھس گئے اور وہ چل بھی پڑی۔ہمارے پاس میل گاڑی کے ٹکٹ تھے اور ہمارا خیال تھا کہ ہم ڈیڑھ گھنٹے میں میاں چنوں پہنچ جائیں گے۔وہ اُسی وقت باطل ہو گیا جب وہ دُلکی چال سے نکلی ہی نہیں اور ہماری اصل ٹرین اگلے ہی اسٹیشن پر دھڑ دھڑ کرتی ہمارے ہاتھ سے نکل گئی۔ہم نے آٹھ اسٹیشنوں پر ٹھیکی ہی نہیں لگائی، استراحت اور پلیٹ فارم کی پیمائش کی۔ہر نلکے کا پانی پیا۔ویرانی اور ہمیں پچھاڑتی گاڑیوں کے خواب ہوتے مسافروں کی آرتی اُتاری تب جا کر کہیں چار گھنٹے کے بعد اس وقت میاں چنوں کی صورت دکھائی دی جب مجھے یہ یقین ہو چلا تھا کہ قبض ِمکاں کے بغیر آج گھر پہنچنا ممکن نہیں۔
ہر اُمیدوار کی طرح مجھے بھی یقین تھا کہ میری صورت اور تعلیمی استعداد اس کالج میں داخلے کے لائق نہیں مگر کچھ روز بعد میں جب دوستوں (آصف،محمود وغیرہ)کے ساتھ میرٹ لسٹ دیکھنے گیا تو میرا نام لسٹ میں چودھویں نمبر پر موجود تھا اور یہی میرا رول نمبر قرار پایا۔
میں نے اور میں نے ہی نہیں شہر سے باہر کے ہر طالبِ علم نے ہاسٹل میں داخلے کی درخواست دے رکھی تھی۔وہ بھی منظور ہوئی اور ہم چھے لوگوں کو کالج کے آخری کونے پر واقع (جناح) ہاسٹل میں بائیں ونگ میں ایک ڈارمیٹری الاٹ کر دی گئی۔یہ چھے لوگ،میں،آصف،نواز طاہر،افتخار احمد(گیمبر/اوکاڑہ)،خورشید احمد اور شکور احمد خالد تھے(جو 20/8BR کے رہنے والے تھے)۔ یعنی نواز اور افتخار کے سوا سب کی نسبت میاں چنوں سے تھی۔یہاں ہمیں دو برس گزارنے تھے مگر ابھی تو اُدگھاٹن باقی تھا اور سینئرز کی فولنگ سے جانبر ہونا بھی جسے آج کل ریگنگ کا نام دیا جاتا ہے۔

درس گاہ – 27

سجاول لاج میں قیام کے دوران میں گرمیوں کی تعطیلات ہم اپنی بستی میں گزارتے تھے۔وہیں کھا پی کر پیپل کے نیچے اپنا بستہ بکھیر کر چھٹیوں کا کام نبیڑتے ہوئے کبھی پینگھ جھوٹ لی،کبھی بہن بھائیوں اور دیگر عزیزوں کے ساتھ لُڈّو کھیلی اور کبھی حق نواز کے ساتھ شطرنج کی بازی لگتی۔نویں جماعت میں تھا جب میں چالیس روپے میں شہر کے ایک بُک سٹور سے ایک لکڑی کے باکسز والا نفیس کیرم بورڈ خرید لایا تھا۔اس کے بورڈ بھی جمائے جاتے کہ آہستہ آہستہ تمام کُنبہ اس میں طاق ہو گیا تھا۔یہ بورڈ برسوں موجود رہا اور علاقے بھر کے دوست احباب کھیلنے کے لیے آتے رہے۔
تعطیلات میں شہر سے رابطہ بحال رہتا تھا۔کام اور کام کے بغیر بھی میں دوستوں سے ملنے کے لیے دوسرے تیسرے روز تانگہ جوت کر ممّو ماچھی اور کبھی خادم شرنائی کے ساتھ شہر چلا جاتا تھا۔ایسے ٹور میں عام طور پر تانگہ ماسٹر عبدالحق کے دروازے پر کھول دیا جاتا تھا،وہاں ملازم کو بیٹھنے کا ٹھکانہ مل جاتا تھا اور مجھے آوارہ گردی کی آزادی۔ٹھکانے تو اور بھی بہت تھے مگر ماسٹر صاحب کی عینک زدہ غصیلی آنکھوں اور میری تعلیمی حالت پر تند و تیز سوالات کی بارش کے باوجود وہی ایک جگہ ایسی تھی جہاں بے کھٹکے براجمان ہوا جا سکتا تھا۔میں ہی نہیں گھر کے سب افراد ماسوائے ابّا جی کے براجمان ہوتے بھی تھے اور شاید وہاں ہماری آمد کا انتظار کیا جاتا تھا مگر یہ ایک ناپختہ وہم تھا اور اب بھی ایک ناپختہ احساس ہی ہے۔
میٹرک کے امتحان قریب آ گئے تو دوستوں میں مقابلے کی فضا پروان چڑھنے لگی۔پہلے میں اور غلام حیدر وائیں کے بھانجے ظفر نے دو رُکنی گروپ بنایا اور لیڈیز پارک (اب چلڈرن پارک)میں جا کر پڑھنا شروع کیا جہاں سایہ دار درختوں اور پھولوں کی بہتات تھی۔پھر ممتاز کے ساتھ جوڑی بنی اور میرے گھر پر بیٹھک جمنے لگی۔موصوف اس قدر جُنونی نکلے کہ الجبرا کے کورس میں شامل 114 پرابلمز کو ہر روز دُہرانے پر اُتر آئے۔شاید اسی کا ردّ ِعمل تھا کہ بعد میں مَیں اپنی تعلیمی زندگی میں صرف آخری دو تین مہینے ہی کورس کی کتابوں پر مہربان رہا اور میٹرک میں ریاضی میں میری شاندار کامیابی اس مضمون میں میری آخری کامیابی ثابت ہوئی۔

میٹرک کا نتیجہ میری توّقع کے برعکس تھا۔مجھے سکول میں اوّل آنے کی آرزو تھی مگر یہ ممکن نہیں ہو سکا۔یہی نہیں کم وبیش میرے سب دوستوں کے نمبر مجھ سے زیادہ تھے۔ہمارے سیکشن(C) کا رزلٹ حیران کن تھا۔پچاس طلبہ میں سے چالیس سے زیادہ کی فرسٹ ڈویژن آئی تھی۔میرے نمبر بھی اتنے بُرے نہیں تھے کہ کسی اچّھے کالج میں داخلہ نہ مل سکتا۔سکول میں ظفر کی پہلی اور شاکر کی دوسری پوزیشن تھی اور کہیں آٹھویں دسویں نمبر پر ہم بھی تھے. سنپالوں میں سائنس کے ساتھ اچھی فرسٹ ڈویژن کے ساتھ میٹرک پاس کرنے کی یہ پہلی مثال تھی تاہم میں اپنے رزلٹ سے مطمئن نہیں تھا اور اس تعلیمی نظام کا پینتیس برس حصّہ رہ کر آج بھی میں اچھّے بُرے نمبروں کو محض اتفاق جانتا ہوں۔آپ وہاں کیا کریں گے جہاں پانچ ممتحن ایک ہی جوابی کاپی کو سینتیس سے تہتّر نمبروں کا حق دار قرار دیں۔یہ تجربہ میں صدر ممتحن کی حیثیت میں کر چکا ہوں۔جب میں نے پانچ ممتحن حضرات کو انٹر میڈیٹ اردو کی ایک ہی جوابی کاپی کی فوٹو سٹیٹ فراہم کر کے مارکنگ کرائی اور درج ِ بالا نتیجہ پایا۔
اس ضمن میں ایک اور واقعہ بھی شاید میری بات کی تصدیق کے لیے مناسب ہو۔ملتان میں سنٹر مارکنگ کے دوران میں میری نشست دوسرے نمبر پر تھی۔کل چھے ممتحن تھے اور ہر ممتحن ایک سوال مارک کر رہا تھا۔پرچہ مارک ہو کر اسسٹنٹ کے پاس جاتا تھا اور وہ ٹوٹل کر کے اپنے پاس رکھ لیتا تھا۔اس زمانے میں کسی موضوع پر مضمون لکھنے کے تیس نمبر تھے۔اتفاق سے پہلے ممتحن نے یہی سوال مارک کیا اور اگلے سوال کی مارکنگ کے لیے پرچہ مجھے بھجوا دیا۔انہوں نے مضمون کے اکیس نمبر دے رکھے تھے۔میں نے طالب علم کی استعداد کا اندازہ کرنے کے لیے مضمون پر سرسری نظر ڈالی تو ایک دلچسپ بات دریافت کی،سو میں نے اپنا سوال مارک کرنے کے بجائے پرچے کو نظر ِثانی کے لیے پہلے ممتحن کو لوٹا دیا۔انہوں نے دو نمبر بڑھا کر پرچہ لوٹا دیا۔میں نے پھر واپس بھیجا تو انہوں نے پھر دو نمبر بڑھا دیے۔جب میں نے یہ گُستاخی تیسری بار کی تو وہ ناراض ہو گئے اور فرمایا کہ اگر اُمیدوار میرا سگا بھائی ہے تب بھی وہ مزید نمبر بڑھانے سے معذور ہیں۔تب میں نے عرض کیا کہ صاحب اگر یہ طالب علم میرا بھائی بھی ہے تو صفر نمبر کا حقدار ہے۔اس لیے کہ اُس نے جو مضمون لکھا ہے اور جس کاوش پر آپ پچیس نمبر دے چُکے ہیں،اُس موضوع پر مضمون لکھنے کے لیے کہا ہی نہیں گیا۔

اُس وقت تک میاں چنوں میں کالج کا وجود نہیں تھا۔خُدا بخش آسی صاحب کی جگہ میرے والد کی سفارش سے کچھ عرصہ ثاقب صاحب ہیڈ ماسٹر رہ چکے تھے مگر اب پھر آسی صاحب ہیڈ ماسٹر تھے اور کالج پراجیکٹ کے انچارج بھی۔وہ کبھی میرے استاد نہیں رہے مگر ان کے اچھے منتظم ہونے میں کوئی شبہ نہ تھا۔میرے احباب میں سے کچھ لاہور کے لیے پر تول رہے تھے مگر اکثریت کی رائے گورنمنٹ کالج ساہیوال کے حق میں تھی۔میں تو لاہور جانے کے خواب دیکھ رہا تھا مگر میری ماں کو میرا وہاں جانا منظور تھا نہ باپ کو۔اپنے لاہور کے اکلوتے آزاد پھیرے میں مَیں گورنمنٹ کالج کو گھوم پھر کر دیکھ چکا تھا اور شہر میں صاحب ِجمال لوگوں کے پرے بھی۔پھر بھی ماں کا دل رکھنے کے لیے مجھے ساہیوال میں داخلے کے لیے ہاں کرنا پڑی۔اس میں ایک کشش اس لیے بھی تھی کہ میں جب چاہے ایک روپیہ دس آنے خرچ کر کے ڈیڑھ گھنٹے میں گھر آ سکتا تھا۔اپنی بستی کا چکّر لگا سکتا تھا اور شہر کی گلیوں کی خاک چھان سکتا تھا۔جہاں خاک چھاننے کی روایت تو نہیں تھی مگر کسی روایت کی بنیاد رکھنے کا شرف لکیر پیٹنے سے افضل ہوتا ہے اور کیا بُرا تھا اگر یہ فضیلت میرے حصّے میں آتی

درس گاہ – 26

سٹیفن ہاکنگ نے”وقت کا سفر”میں کونیاتی وقت کے حوالے سے جو کچھ کہا ہے۔اس کا تجربہ آج بھی شہر اور دیہات کی زندگی کے تقابل سے کیا جا سکتا ہے۔ساٹھ کی دہائی کے وسط میں دن لمبے تھے یا ہم انہیں کسی جادوئی قوّت سے کھینچ کر لمبے کر لیتے تھے،معلوم نہیں مگر سکول،مطالعے،دوستوں کے ساتھ محفل آرائی،کھیل کود اور بھائی بہنوں کے ساتھ دھما چوکڑی مچانے کے باوجود بہت سا وقت بچ رہتا تھا جس کا کوئی مصرف سمجھ میں نہیں آتا تھا۔
ادبی کتابوں میں غرق رہنے کی وجہ سے مجھے اس نوع کی فرصت سے معاملہ کرنے میں دقّت نہیں تھی۔پھر بھی تبدیلی کی ضرورت تو رہتی ہی ہے۔اسی جبّلی خرابی نے آدم کو جنت سے نکلوایا اور من و سلویٰ سے محروم کیا۔سو ہم بہن بھائی بھی تبدیلی کی خاطر کبھی سنیما چلے جاتے تھے۔دلیپ کمار کی”آن”اور رتن کمار کی”بہت دن ہوئے” وغیرہ اسی فرصت کے خلا کو پاٹنے کے لیے دیکھی تھیں اور بہت سی پاکستانی کلاسک تصویریں مگر مشکل یہ تھی کہ نشاط سنیما شہر کے مشرقی کنارے پر تھا اور ہم مغربی سرحد کے آس پاس۔اس لیے اکیلے جانے کی اجازت ملتی نہیں تھی اور بڑے بھائی قابو میں کہاں آتے تھے؟ ابّا جی نے کبھی سنیما جانے کا سوچا نہ کھوپڑی کُھلنے کے ڈر سے اُن سے اس سلسلے میں بات کی جا سکتی تھی۔سو اس ضمن میں اگر کوئی امید تھی تو ماسی نوراں سے تھی اور وہ کبھی بر بھی آتی تھی۔
معلوم نہیں ہماری طلب رنگ لائی کہ تقدیر نے کروٹ لی کہ ایک کچّی ٹاکی سنیما”ناز”کے نام سے ریلوے پھاٹک کے سامنے ہمارے گھر کی بغل میں کُھل گیا۔اس کی بیرونی چاردیواری اور سکرین بغیر چھت کے تھی اور ہمارے گھر کی چھت سے پردے پر دوڑتی تصویریں دکھائی دیتی تھیں اور اگر اپنی چارپائی پر لیٹ کر کان ادھر لگائے جاتے تو سارے مکالمے بخوبی حفظ ہو سکتے تھے۔اس طرح ایک مفت کی تفریح ہاتھ آئی جو اس وقت اور ہی رنگ میں ڈھل گئی جب دونوں سینماؤں میں ناظرین کو اپنی طرف کھینچنے کے لیے مقابلے کی دوڑ شروع ہو گئی۔پہلے دو اور پھر تین فلمیں لگانے کا سلسلہ شروع ہوا۔یہ تفریح سہ لسانی ہوا کرتی یعنی ایک انگلش،ایک اردو اور ایک پنجابی فلم پر مشتمل۔اغاز میں مرکزی فلم اردو اور دو ایک برس بعد پنجابی ہوا کرتی اور ہم اپنی چھت پر سہ لسانی جمال کُشائی کا مزہ لیا کرتے کہ میرے چھوٹے بھائی نے یہ حقیقت”دریافت”
کر لی کہ تین فلمیں دیکھنے والوں کی تعداد پانچ فی صد سے زیادہ نہیں اور اکثریت پہلی یا دوسری فلم دیکھنے کے بعد گھر کی راہ لیتی ہے سو ہمیں جب سہولت سے باہر جانے کا موقع ملتا ہم سنیما میں گُھس جاتے اور مفرور ہونے والے فلم بینوں سے ٹکٹ مانگ کر اپنی پسند کی فلم دیکھ لیتے۔اس سہولت سے حقیقی فائدہ تب اُٹھایا جاتا جب کسی مہمان کو آدھی رات کی کسی گاڑی سے کہیں جانا ہوتا۔مطلوبہ ٹکٹوں کا انتظام کر کے مہمان کو سینما لے جایا جاتا اور آدھی رات کے بعد سینما سے سیدھا پلیٹ فارم پر پہنچا دیتے۔وہ ہنستے کھیلتے اپنی منزل کا اور ہم گھر کا رُخ کرتے اور جاگنے کی بے زاری سے بھی محفوظ رہتے۔
اس کے باوجود سکول کے اچھے طلبہ سے نسبت برقرار تھی اور اساتذہ بھی ہم سے مایوس نہیں تھے۔ماسٹر مختار سے اب دوستی ہو چلی تھی اور ماسٹر عبدالحق سے گھریلو مراسم بن گئے تھے۔وہ ہمارے اور ہم ان کے گھر آتے جاتے رہتے تھے اور ان کی بیٹیاں میری بہنوں ہی کی نہیں میری بھی دوست بن گئی تھیں۔آصف کے یہاں بھی بہت آنا جانا رہتا تھا اور وہ لوگ شہر اور گاؤں میں کسی تقریب کے بغیر ہمارے ہاں آتے رہتے تھے۔میرے پاس گاؤں آنا تو ایک لحاظ سے شہر کے سبھی دوستوں کی پکنک تھی اور کیوں نہ ہوتی؟میری ماں کے ہاتھ کا پکایا مرغ،بھاگن مچھانی کے ہاتھ کی لگی تندوری روٹی،سرسوں کا ساگ،مکھن اور بیسیوں دیہاتی سوغاتیں شہر میں ملتی کہاں تھیں؟ اس پر اپنے ہاتھ سے آم،جامن،بیر اور گنّے توڑ کر کھانے کی سہولت اور پڑھاکو ہونے کے باعث بستی کے ہر باشندے کی آنکھوں میں تکریم کی جھلک۔وہ جاگتے میں خواب نہ دیکھتے تو اور کیا کرتے اور وہ کیا خواب تھا کہ اب بھی ٹُوٹنے کا نام ہی نہیں لیتا۔

طالب نے دو چار بار ڈنڈا ڈولی ہو کر سکول پہنچنے کے بعد اسے تقدیر سمجھ کر قبول کر لیا تھا اور چل نکلا تھا۔میں دسویں میں تھا تو وہ چھٹی جماعت میں پہنچ گیا تھا اور اب ہم ایک ہی سکول میں تھے۔تسلیم پھیری والوں سے اپنی توتلی زبان میں”آلو بارے”خریدنے لگی تھی۔ہم بھائی کچھ دیر ابّاجی کے ایک جاننے والے پُلسیے کے ساتھ اپنے ہی گھر میں”ادائی مہمان”کا تجربہ کر کے دوبارہ پرانے ڈھنگ سے شہر میں رہنے لگے تھے۔میں اب بھی پاجامہ قمیص ہی پہنتا تھا مگر اب بودے بنانا اور استری کیے ہوئے کپڑے پہننا روا ہو گیا تھا۔قد کاٹھ تو کچھ زیادہ نہیں تھا مگر اندر ہی اندر چڑھنے والی پرتیں گنتی سے باہر ہو چلی تھیں۔پھولوں کے نرم ریشمی لباس اور کھلکھلاتے رنگ خواہ وہ کہیں بھی ہوں،اب دکھائی بھی دینے لگے تھے اور لُبھانے بھی۔لبِ خنداں ہو کہ چاہِ زنخداں کہ پیشانی پر دمکنے والا چاند۔سب کی تاثیر کُھل رہی تھی۔مردانہ وجاہت اور نسائی جمال کی دُنیا سے تعارف تو داستانوں اور ناولوں کے پَنّوں پر ہو چکا تھا مگر اب وہ اپنے اردگرد اور موجود میں پھیلی نظر آنے لگی تھی۔یہی وقت تھا جب میں نے ساحر کے تتّبع میں نظموں کی کتاب لکھی اور عدم کے رنگ میں غزلوں کے دو دیوان مرتب کیے۔یہاں یہ بتانے میں کوئی ہرج نہیں کہ عدم سے مجھے”غازی کے سنپال”کے فلک شیر سنپال نے متعارف کرایا تھا اور میں نے عدم کی بیسیوں کتابیں ڈھونڈ کر پڑھی تھیں اور اس کا خراباتی رنگ مجھے اپنے ساتھ بہا کر لے گیا تھا۔
کہتا ہے کون عمر ِ رفتہ لَوٹتی نہیں
جا میکدے سے میری جوانی میں اُٹھا کے لا

تخلیق ِ کائنات کے دل چسپ جُرم پر
ہنستا تو ہو گا آپ بھی یزداں کبھی کبھی

آگہی میں اک خلا موجود ہے
اس کا مطلب ہے خُدا موجود ہے

ساحر،عدم اور اختر شیرانی میرا پہلا عشق تھے اور شاعری سےمیری دلچسپی بڑھ رہی تھی۔میں نے شعر لکھنا آغاز کر دیا تھا مگر مجھے معلوم نہیں تھا کہ شاعری کے اوزان کیا چیز ہیں اور عروض کس چڑیا کا نام ہے؟میں شہر کے کسی صاحب ِذوق کو نہیں جانتا تھا اور نہ ہی اپنا بے وضع”الہام”کسی پر ظاہر کیا تھا۔میری بڑی بہن نسیم اختر کو ہم سب کی ٹوہ میں رہنے کی عادت تھی۔کسی طرح میرے کاغذ کالے کرنے کا راز اُس پر کُھل گیا اور شاید اُسی کی عنایت سے بات ابّاجی تک جا پہنچی۔ابّاجی کی رائے شاعروں کے ضمن میں بہت خراب تھی سو مجھے گوشمالی اور حرف ِ نصیحت کے لیے پیر ثنا اللہ بودلہ کے حضور پیش کیا گیا۔وہ خلاف ِتوقع بہت محبت سے پیش آئے۔ہم نے مطالعے کے حوالے سے اپنے خیالات سانجھے کیے۔پھر اُن کے اصرار پر میں نے اپنی”غزل”سُنائی تو وہ مجھے پہلے سے بھی زیادہ دلچسپی سے سُننے لگے اور کہا کہ مجھے آہنگ کا شعور ہے مگر الفاظ کے تلفظ کے حوالے سے خود کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔میرے کئی شعر وزن میں تھے اور جو نہیں تھے وہ درست تلفظ سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے تھے۔انہوں نے مجھے شاعری کو درست تلفظ کو سمجھ کر پڑھنے کی صلاح دی اور اجازت دی کہ اگر میں اپنی تعلیم پر پوری توّجہ دینے کے بعد کبھی وقت نکال سکوں تو شعر کہہ لیا کروں مگر اس شغل کو کسی صورت اپنی تعلیمی پیش رفت پر غالب نہ آنے دوں۔
اسی زمانے میں مجھے شہر کے ایک نامی کبابیے شمیم اکبر آبادی کے شاعر ہونے کی خبر ملی مگر مجھے اُن سے بس کبابی نسبت ہی خوش آئی۔میں نے انہیں اپنے شاعر ہونے کا بتایا نہ ان کی کلاسیکی آہنگ میں رچی غزلیں سُنیں۔اُن کی غزل کے ہر مقطع میں” شمیم ِزار”یا "شمیم ِخستہ تن”کی تراکیب آتی تھیں جو چار برس بعدمیرے”مستند شاعر”قرار پانے اور تلمبہ کے شاعر دوستوں کے ساتھ موصوف کی دکّان پر کباب کھانے کے لیے جانے کے دنوں میں ہم پر ظاہر ہوئیں اور میں نے ایک”خودی نامہ”میں انہیں اس طرح "نذرانہء عقیدت” پیش کیا۔
کبھی تانا کبھی پیٹا خودی کا
کُھلے گا دیر تک ریٹا خودی کا
بہت دن سے کبابوں میں مگن ہے
شمیم ِ خستہ تن بیٹا خودی کا

درس گاہ – 25

اس علاقے کی راٹھ قومیں سنپال،کھگّے،سیّد(گیلانی اور شیرازی) قریشی،ہراج،سہو،کھکھ،پادھے،بودلے اور خاکوانی ہیں۔جس زمانے کا میں ذکر کر رہا ہوں۔اُس وقت جراحی میں پیر برکت علی شاہ،محبّ شاہ،چن پیر شاہ،ریاض حسین شاہ اور غلام رسول شاہ معروف تھے اور پیر برکت علی شاہ کے پانچ صاحب زادے سیّدحسن،تقی شاہ،باقر شاہ،رضا شاہ اور مراتب شاہ جو اپنے نام سے زیادہ اپنے لقب”نوّاب”سے معروف ہوئے۔کوٹ برکت علی خاں میں لیاقت علی خان،عبدالحمید خان،ذوالفقار علی خان اور افتخار علی خان۔پکّا حاجی مجید میں پیر سوہارے شاہ،عبدالعزیز شاہ اور ان کے صاحب زادے محمد شاہ،عبدالرحمان شاہ(ذیلدار)،غلام رسول شاہ وغیرہ۔غازی پاندھا میں راج محمد پاندھا۔بستی سنپالاں میں مہر پہلوان،مہر اللہ یار،مہر احمد یار،مہر جان محمد اورمہر وریام۔کھکھوں میں مہر وریام ککھ اور قریشیوں میں پیر ظہور حسین قریشی کی دھوم تھی اور دس چک کے گیلانی تو ملتان سے نسبت کی وجہ سے معروف تھے ہی یعنی پیر شوکت حسین گیلانی اور پیر رحمت حسین گیلانی۔ان راٹھوں کے بیچ جائداد اور سیاسی جتھے بندی کے لحاظ سے ہم پدّی کی مثال تھے مگر میرے دادا اور پھر والد کی ذکاوت کے باعث ہم برابر تُلتے تھے اور ہماری حیثیت بتّیس دانتوں میں زبان کی تھی جو چلتی ہے مگر دانتوں کے دباؤ میں نہیں آتی اور آ جائے تو پورے منہ کو ناکارہ کر دیتی ہے۔
ہراج ہم سے فاصلے پر تھے مگر ان سے بھی نسبت تھی اور کافی گہری۔میں ذرا گھومنے پھرنے کے قابل ہوا تو میرے والد نے مجھے مختلف زمینداروں کی طرف شادی غمی پر بڑے بھائیوں کے ساتھ بھجوانے کا سلسلہ شروع کیا۔یہ ایک طرح سے ان خاندانوں میں میرے اور مجھ سے چھوٹے بھائی کے تعارف کا آغاز تھا۔کئی جگہوں پر میں نے ملازم کے ساتھ جا کر بھی حاضری دی۔یہ سب بزرگ ہمارے چچا اور ان کی اولادیں ہماری بھائی کہلائیں اور ہم نے سب کو جھک کر،گھنٹے چھو کر تعظیم دی جو ہماری اخلاقی روایت کا حصّہ ہے۔یہی وجہ ہےکہ آج ان کی اولادیں یہی تعظیم ہمیں دیتی ہیں۔اپنی تہذیبی روایت سے میں نے ایک راز کی بات یہ جانی کہ دوستی وہی اگلی نسل میں منتقل ہوتی ہے جس کی جڑیں گھر کی ڈیوڑھی کے اندر ہوں۔بیگمات اور بچوں کا آپس میں میل جول ہو۔ہر خوشی اور غم کے موقع پر حاضری دی جائے اور مل بیٹھنے کی صورت نکالی جاتی رہے۔ورنہ اس کا نتیجہ وہی نکلتا ہے،جس کی طرف میں نے اپنی ایک پنجابی کہانی”اگّے راہ اگم دا”میں اشارہ کیا ہے۔چالیس برس کے تعلق کے بعد بھی آپ اگلی نسل کے لیے”آپ کون؟”ہوتے ہیں۔

اُس وقت کے کار سوار تو مجھے یاد نہیں مگر ہمارا،مہر وریام کھکھ اور چودھری راج محمد پاندھا کے تانگے جگت میں مشہور تھے۔ایک تانگہ پندرہ جگ کے راجوں کا بھی تھا۔اسی دوران میں پہلے لحیم شحیم موٹر سائیکل اور پھر ویسپا سکوٹر کا دور آیا۔جس کے خریدنے کی میرے کزن مہر دلدار کے نزدیک ایک وجہ تانگہ سواروں پر دھدّڑ ڈال کر "وہ جانا”تھا۔میں تو شہر میں رہتا تھا مگر میرے عزیزوں نے جنہیں شہر آنے جانے کی مشقّت اُٹھانی پڑتی تھی،مشینی سواریوں کا رُخ کرنا شروع کیا اور بھانجے حق نواز نے ایک موٹرسائیکل”کولبری
کوئکلی” خرید کی،جس کی قیمت شاید پندرہ سو تھی۔یہ کلچ کے بغیر چلتی تھی اور میں نے حق نواز کے ساتھ اسے چلانا سیکھنا شروع کیا تو پہلی ہی بار پکا حاجی مجید کی طرف سے تلمبہ روڈ پر لے آیا مگر خرابی تب ہوئی جب ایک بیل گاڑی کی آمد پر مجھے تلاش کے باوجود گئیر ملا نہ بریک اور میں کوئکلی کو کچّے میں اتار کر زمیں بوس ہو گیا۔تاہم یہ ایک ہی بار ہوا اور بہت جلد میرا شمار ماہر سواروں میں ہونے لگا۔

میاں چنوں میں ماسٹر مختار کی بیٹھک جاری تھی۔ہماری پوری ٹولی قابل طلبہ میں شمار ہوتی تھی۔ابّا جی کی پیر ثنا اللہ بودلہ کے ہاں نششت بھی جاری تھی اور میرے آنہ لائبریریوں کے پھیرے بھی مگر اب وہاں کی کتابوں میں میرا جی نہیں لگتا تھا۔اس دوران میں کسی کتاب میں خلیل جبران کے بارے میں پڑھا اور اسے پڑھنے کی لپک اس قدر بڑھی کہ میں نے شہر کی درس گاہوں کی لائبریریاں کھنگال کر ایک کتاب”اُس نے کہا”ڈھونڈ نکالی جو ان کی کتاب”النبی”کا ترجمہ تھی اور یہ اس مصنف کے عشق میں مبتلا ہونے کا آغاز تھا۔اسی عشق میں میں نے غلام یزدانی”یزد”نامی ایک دیوانے کے ملفوظات بھی پڑھ ڈالے۔آج سوچتا ہوں کہ مجھ پر اس اسلوب کے اس درجہ اثر پذیر ہونے کی وجہ اس کے اسلوب ِنثر کی شعریات تھی کہ اس نثر پر الہام یا الہام سے ملتی جلتی کسی کیفیت کا غلبہ تھا اور مجھے اس کی دانش،اساطیر اور شاعرانہ لپک بے خود کرتی تھی۔میں یہ تو نہیں کہتا کہ میرا مزاج لڑکپن سے شاعرانہ تھا مگر مجھے شاعری سے قریب کی نثر اور لحن میں مزہ ضرور آتا تھا۔

میں پڑھ رہا تھا مگر لکھنا ابھی موقوف تھا۔موقوف کیا حقیقت یہ ہے کہ ابھی آغاز ہی نہیں کیا تھا،نہ یہ یقین تھا کہ مجھ میں اظہار کی اس درجہ صلاحیت ہو گی۔میرے اندر اگر کچھ ٹوٹ رہا تھا تو میں اُس سے بے خبر تھا اور اگر کچھ بن رہا تھا تو وہ بھی میرے ادراک سے بالاتر تھا۔دوستوں کے درمیان وجہ ِدوستی کورس کی کتابیں تھیں اور ابھی”نگاہوں میں سمایا ہے نہ کوئی دل میں رہتا ہے”کی حالت قائم ہی نہیں،اٹل حقیقت تھی۔پرندوں کی چہکار میں لبھانے کی ادا تو تھی مگر فراق کی کسک نہیں اور باغ میں کھلنے والے پھولوں کے رنگ عارضی ہو کر بھی”عارضی”نہیں تھے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب میں سمجھتا تھا کہ شاعری کی”تلخیاں”سے اچھی کتاب لکھنا ممکن نہیں۔شاید اسی لیے میں ساحر کی دوسری دو کتابوں”پرچھائیاں”اور”گاتا جائے بنجارہ”سے کبھی متاثر نہ ہو سکا۔
آصف کے گھر کی نشستیں بھی جاری رہیں۔بس ان میں یہ فرق آ گیا تھا کہ بحث کا دورانیہ بڑھ گیا تھا۔کبھی دوست مجھے ریلوے کی پٹڑی تک چھورنے آتے تو بحث کی جھونجھ میں ہم واپس چل پڑتے اور ایک دوسرے کو گھر کے قریب پہنچانے کا یہ سلسلہ ختم ہونے ہی میں نہ آتا۔ہار کر برابر فاصلے پر شب بخیر کہا جاتا اور اگلے روز بحث کا آغاز پھر وہیں سے کیا جاتا۔ممتاز احمد نے اسی دوران میں تبلیغی جماعت اور حفیظ احمد نے جماعت ِاسلامی سے متاثر ہونا شروع کر دیا تھا مگر مجھے دونوں جماعتوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ایک بار ممتاز کے اصرار پر اس کا دل رکھنے کے لیے تبلیغی جماعت کا بیان سُنا اور ممتاز کی رقت بھری طویل دعا تو یہ رغبت اور کم ہو گئی۔اس جماعت کے علماء کی گفتگو میں پہلا تاثر یہ ابھرتا تھا کہ وہ دینی حوالے سے تفاخر میں مبتلا ہیں اور دوسروں کو جاہل ِمطلق اور کم تر جانتے ہیں۔بہت دن بعد کہے جانے والے ایک شعر میں شاید اسی کیفیت کا اظہار ہوا ہے:
میں سمجھا تھا کہ وہ ہے معترض کار ِمحبت پر
مگر شک ہے فقیہہ ِ شہر کو ایمان پر میرے

درس گاہ – 24

تب دریا اور بھینی کے دونوں طرف گھنا بیلا تھا اور دریا کے پار تو باقاعدہ جنگل اُگ آیا تھا۔دریا کا بیٹ خاصا چوڑا تھا اور گرما میں کشتی کے سوا پار اترنے کی کوئی صورت نہیں تھی جو پتن سنپالاں پہ لگتی تھی۔دریا کی اٹھکیلیوں اور راستہ بدلنے کی عادت کے باعث آس پاس کئی بڈّھیں وجود میں آ گئی تھیں۔جہاں سرما کے اوائل میں ہر طرح کا شکار ملتا تھا۔مرغابی،تیتر،خرگوش اور باہرلے۔آخرالذکر کا یہ نام غالباً انگریزوں سے”جانگلیوں”کی”اُلفت”کا کنایہ ہے اور خوب ہے۔
یہاں ہر طرح کے شکاری پدھارتے تھے اور ہمارے یا آس پاس کے زمینداروں کے مہمان ہوتے تھے۔مہمان تو ڈکیت اور مفرور عشّاق بھی ہوتے تھے مگر وہ ہمارے کس کام کے اور اگر کام کے تھے بھی تو ہم ابھی اس سہولت سے استفادے کے قابل نہیں تھے۔
شکاریوں کے یہاں بکثرت پدھارنے کی وجہ اس علاقے کا محل ِوقوع تھا۔ہم راوی کے اِس پار یعنی جنوب میں تھے مگر یہ زمین جس گاؤں کی تھی وہ ضلع لائلپور(اب ٹوبہ ٹیک سنگھ)کی تحصیل کمالیہ میں تھا۔یہاں تلمبے کی پولیس کو کوئی گھاس نہیں ڈالتا تھا اور اگر کمالیہ کی پولیس قدم رنجہ فرماتی تھی تو تحصیل خانیوال تک رسائی چند منٹوں کے فاصلے پر تھی۔اس لیے شکار کے لیے لائسنس کی ضرورت تھی نہ سرکار کی آشیرواد کی۔میں نے کئی بار شکاریوں اور پولیس کو تکرار کرتے اور پھر منڈلی جما کر ٹھٹّھے اُڑاتے دیکھا،جس کو تاڑی کا تڑکا دو آتشہ کیے رکھتا تھا۔
ایک بار نقشے میں راوی کا بہاؤ دیکھیے تو اُس کی صورت ایک لحیم شحیم کوبرا سے ملتی ہے۔اس کے کنارے پر بسنے والے راٹھ بھی کسی شیش ناگ سے کم نہیں۔جلّھی اور گوگیرہ سے لگنے والی کوک ان پانیوں پر ابھی تک تیرتی ہے۔
نورے نہنگ نے ایسے ہی تو نہیں کہہ دیا تھا:
"اُچّے بُرج لہور دے جتھے حاکم وی رہندے نیں کَھہندے
کابلوں چڑھن چُغطّے جنھاں توں لوک تراہندے
کئی آون کٹک درانیاں عزتاں ملکھاں دیاں لَہندے
ہک سکھاں دی دھاڑ نِکمّی لوک سیئیڑ وانگوں ڈر کے جنگل بیلیاں نوں چھاہندے
سندلے بنھ پِٹیندیاں پتن راوی دے رہن کُرلاندے”

میرا خمیر اسی مٹّی سے ہے اور آبا و اجداد کا سرزمین ِجھنگ سے اور ان کے اجداد کا راجپوتانہ سے۔بزرگوں سے سُنا ہے کہ ہمارا قبیلہ بابا فرید گنج شکر کے ہاتھ پر مسلمان اور بیعت ہوا تھا اور انھوں نے ہمارے جدّ ِامجد کو جھنگ کی طرف جا کر قبیلوں میں گھومنے اور دعوت ِاسلام دینے کی ہدایت کی تھی۔اسی”سیل” کے باعث وہ سیال کہلائے۔
کہانیاں تو اور بھی بہت سی ہیں مگر کچھ کام سعید بھُٹا کے ذِمّے بھی رہنا چاہیے۔
۔۔۔شاید اسی لیے ہماری جمع بندیوں میں ذات کے کھاتے میں”راجپوت سیال سنپال”لکھا ہے۔مجھے سنپال کی وجہ تسمیہ نہیں معلوم مگر اس کی کچھ نسبت بھینس پالنے سے ضرور ہے۔ایک بار صفدر سلیم سیال سے بات ہو رہی تھی تو اس نے پوچھا تھا کہ سنپالوں میں بھینسیں رکھنے کا شوق اب بھی ہے یا نہیں؟ اس کا دعویٰ تھا کہ سنپال قبیلے کے ہر زمیندار کے یہاں کم از کم سو بھینسیں تو ہوتی ہی تھیں مگر میرے ہوش تک تو معاملہ دو چار تک آ پہنچا تھا مگر نسلی اور مثالی دودھیل۔
یہی دور تھا جب مجھے رنگوں،خوشبو اور سُر کی تمیز ہونا شروع ہوئی۔شاعری کا آہنگ اپنی ابتدائی جھلک دکھانے لگا اور نسائی حُسن کے اسرار منکشف ہونے کے لیے پر تولنے لگے مگر ابھی میری کیفیت اُس شخص کی تھی جو کلر بلائنڈ ہو۔منظر دُھندلے اور بے کیف تھے مگر صحن میں سوتے وقت سر پر سایہ کیے ستاروں کی روشنی بڑھ گئی تھی۔چاند کچھ آشنا سا لگنے لگا تھا اور زبان کی نوک پر حرفوں کی ڈاریں اپنی موجودگی کی خبر دینے لگی تھیں۔کچھ تھا جو زباں سے،انگلیوں سے اور آنکھوں سے ظاہر ہونے کی کوشش میں تھا اور ایسی ہی ایک رات میں نے تیرہ برس کی عمر میں اپنا پہلا شعر کہا۔
پتا نہیں یہ شعر میرا تھا بھی یا نہیں۔ایک رات چاند کو دیکھتے ہوئے یہ میری زبان پر جاری ہوا اور میں نے شہادت کی انگلی سے صحن کی کچّی مٹّی پر لکھ دیا:
دیکھو تو کتنی سست ہے رفتار وقت کی
مدھم ہے کتنا چاند بھی تیرے فراق میں
تب تک میں کسی شاعر کو نہیں جانتا تھا نہ میں نے شاعری کی کوئی کتاب پڑھی تھی۔ہاں ریڈیو پر ایک آدھ مشاعرہ ضرور سُنا تھا اور کشور ناہید کا نام یاد رہا تھا کہ اس نے اپنی غزل ترنم سے پیش کی تھی۔
ان دنوں میرے بھائی مہر نواب جہانیاں میں تعینات تھے اور میتلوں کے گاؤں میں ریتے تھے۔جن میں سے ان کے ایک دوست محمد خان میتلا کا نام مجھے یاد ہے۔میں انہیں ملنے گیا تو ایک ہم عمر لڑکے ارشد میتلا سے دوستی ہو گئی اور میں نے میاں چنوں لَوٹ کر اُسے ایک منظوم خط لکھا جو میری پہلی باقاعدہ شعری کاوش تھی۔اس خط کی میرے پاس کوئی نقل موجود نہیں نہ ہی ارشد سے دوبارہ کبھی ملاقات ہوئی مگر سُنا ہے کہ وہ سیاست میں فعال رہا اور کوئی ایم پی اے وغیرہ بن گیا تھا۔البتہ میں اسلم میتلا کے بہت قریب رہا جو بعد میں سول جج ہو گئے تھے مگر کہانی میں ان کا تفصیلی ذکر آنے میں ابھی بہت دیر ہے۔
پینسٹھ کی جنگ اسی زمانے میں لڑی گئی۔شاید میرے شاعر ہونے کے اوّلیں اشتباہ کے چند ماہ بعد۔