Author Archives: Ghulam Hussain Sajid

درس گاہ – 47

میں آج تک نہیں سمجھ پایا کہ بنگلہ دیش نامنظور تحریک کی افادیت کیا تھی اور اس سےسرکاری اور پرائیوٹ املاک کی بربادی کے سوا کیا حاصل ہوا؟کیا ہمارے نامنظور کرنے سے بنگلہ دیش پلٹ کر مشرقی پاکستان بن جاتا؟ میں شاید کُند ذہن ہوں کہ بعض حکومتی اقدامات میری فہم سے ورا رہتے ہیں مثلاً ہم نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جب کہ اس کے قریبی ہمسائے اُسے تسلیم کر چکے۔چلیں اس میں کوئی مصلحت ہو گی مگر بنگلہ دیش کے سلسلے میں ایک تاریخی صداقت کو جھٹلا کر ہم کیا مفاد حاصل کر رہے تھے اور پیہم گھیراؤ جلاؤ کے عمل سے عام شہری کو کیا پیغام دے رہے تھے؟اقبال نے کہا تھا’جُدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی”مگر یہاں ہمیں معکوس صورتِ حال کا سامنا تھا اور اس کا خمیازہ ان طالب علموں نے بُھگتا جو حصولِ علم کی کوشش میں سنجیدہ تھے۔

گاؤں پلٹنے کے بعد لاہور کے پُرسکون ہونے کی خبر ملنے تک مجھے کوئی خاص کام سوائے گھومنے اور دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے کے تھا ہی نہیں۔اس دوران میں طالب حسین کی ضد پر ابّاجی نے ایک بائیک یاماہا100سی سی خرید دی تھی۔حق نواز کے پاس شیل کی ہیوی بائیک تھی اور میرے ایک اور دوست کے پاس ٹرامف سو کبھی میاں چنوں،کبھی تلمبہ اور کبھی ہٹھاڑ کی دھول پھانکی جاتی۔خادم رزمی اور ساغر مشہدی کے ساتھ نششت جمتی،جس میں مائی صفورہ سے صاحب زادہ ارشاد قمر بھی آ شامل ہوتے۔کبھی میاں چنوں میں گِل ورائٹی سٹور پر چلا جاتا جو جمیل اقبال گِل نے قائم کیا تھا اور وکالت کرنے کے ارادے سے تائب ہو کر اپنے آبائی پیشے سے مناکحت کر لی تھی۔یہی سٹور میری ڈاک کا ٹھکانہ بھی تھا۔ساغر مشہدی نے تلمبہ رزمی صاحب کے سکول کے قریب تیس روپے ماہانہ پر ایک دکان کرایہ پر لے کر حکمت کی دکان کھول لی تھی مگر اس میں مریضوں کی بجائے شاعروں کا جمگھٹ لگا رہتا تھا۔خان غضنفر روہتکی کی دکان کا پھیرا بھی روز کا معمول تھا اور وہ تازہ غزل اور کڑک چائے سے تواضع کرتے تھے۔
انہی دنوں شمیم اکبر آبادی سے ملاقات کی سُوجھی اور رزمی صاحب اور ساغر مشہدی کو میاں چنوں پہنچنے کا کہہ کر میں گل ورائٹی سٹور پر ان کا منتظر رہا۔شمیم صاحب اُس وقت میاں چنوں کی شعری روایت کے اکلوتے وارث تھے اور مین بازار میں تکہ کباب لگاتے تھے۔وہ کافی بڑی دکان پر قابض تھے مگر اندر کھانے کے کمرے پر کمرے سے زیادہ کسی متروک مندر کا گمان گزرتا تھا۔پہلی اور اس کے بعد ہر ملاقات کا اُصولی ضابطہ یہ ٹھہرا کہ ہم آتے ہی کباب روٹی کا آرڈر دیتے۔جب کھانا لگا دیا جاتا تو شمیم صاحب ہمارے پاس آ بیٹھتے اور مشاعرہ برپا کیا جاتا۔وہ توندیل تو نہیں تھے مگر ان میں اکبر آباد کی ساری خاصیتیں تھیں۔سانولا رنگ،مغلیہ سٹائل زلفیں گردن پر خم کھائی ہوئی،ہونٹ پان سے بھڑکے ہوئے،منجھلے قد اور ڈھیلے بدن پر پیٹ کا خم قدموں کی ذرا سرزنش کرتا ہوا۔بچپن سے میں انہیں اسی طرح دیکھتا آیا تھا کہ وہ اچھے گوشت کی خریداری کے لیے سویرے کوٹ سنجان سنگھ جانے کے لیے بس کے انتظار میں ٹی چوک پر کھڑے ملتے تھے مگر اس مندر میں اُن کی آرتی اتارنے کا آغاز اب ہوا تھا۔ہر بار کھانے کےبعد چائے اُن کی طرف سے پلائی جاتی اور وہ’شمیم ِخستہ تن’اور’شمیم ِزار’ کی لازمی بندش کے ساتھ مقطع تک رسائی پاتے۔حالاں کہ یہ دونوں صفات ان میں مفقود تھیں۔اس کھانے کا بل مَیں دیتا تھا اس لیے اُن کی نظر میں مَیں ساغر اور رزمی صاحب کے مقابلے میں بہتر شاعر تھا۔حالاں کہ رزمی صاحب کی جدت طرازی اور خلّاقی بِلا شُبہ بے مثل تھی اور اگر وہ زیادہ پڑھے ہوتے اور عالمی ادب سے لگاؤ رکھتے تو شاید ہی اس علاقے کا کوئی شخص ان کی تخلیقی صلاحیت کو چُھو پاتا۔یہی مسئلہ ساغر مشہدی کا بھی تھا۔اس پر وہ غزل سے معاملہ نہیں کر پا رہے تھے جب کہ مسدس کہنے میں وہ بہت سُبک دست اور مسُمّط نظم کی تعمیر کرنے میں خاصے مشّاق تھے۔
شمیم اکبر آبادی کی غزلیں کلاسیکی رنگ لیے ہوتی تھیں اور اس میں کوئی برائی نہیں تھی مگر وہ روایت سے اس شدّت کے ساتھ جُڑے تھے کہ پامال مضامین کی جگالی پر اُتر آئے تھے۔قافیہ ردیف کے اختلاف کے باوجود ان کی ہر غزل اُن کی پہلی غزل کا پرتو ہوتی تھی اور لگتا تھا جیسے ان کی شاعری فکری الزائیمر کا شاخسانہ ہے۔خود میری حالت شاید اس سے مختلف نہیں تھی تاہم رزمی صاحب کا کہنا یہ تھا کہ میں عمودی سفر میں ہوں اور تیزی سے اس منزل کی طرف بڑھ رہا ہوں جب میں ایک طیّارے کی طرح فضا میں ہموار پرواز کے لائق ہو جاؤں گا۔معلوم نہیں اس میں کتنی سچّائی تھی مگر یہ ضرور تھا کہ ادبی پرچے مجھے خوش دلی سے چھاپ رہے تھے اور میں اپنے ہم عصر لکھنے والوں کے حلقے میں شناخت بنا رہا تھا۔
رزمی صاحب زُود گو تھے تو کم گو مَیں بھی نہیں تھا۔ہر ملاقات پر ہمارے پاس سُنانے کو بہت کچھ ہوتا تھا۔وہ اُن دنوں تلمبہ اور اس کے گردونواح کے شاعروں کے کلام پر مشتمل ایک انتخاب شائع کرنے کی فکر میں تھے۔اس کے لیے میرے سمیت سولہ شاعروں کا کلام یکجا کیا گیا اور مرتب کی حیثیت سے خان غضنفر روہتکی کا نام دیا گیا۔دیباچہ ملتان کے ایک ادیب شیر احمد خاموش کا تھا اور شعرا کے تعارفی شذرے رزمی صاحب کے قلم کی عطا تھے۔’تاروں کی بارات’ نام کا یہ انتخاب اتنی تاخیر سے اور اخباری کاغذ پر اتنا بُرا طبع ہوا کہ شاید ہی کسی شاعر نے اسے دل سے سراہا ہو۔میں نے اس انتخاب میں شامل کلام اپنی کسی کتاب کا حصہ نہیں بنایا مگر میرے فکری سفر کے محاکمے کے لیے اس کو سامنے رکھنا بہرطور سودمند ہو سکتا ہے۔

انہی جبری تعطیلات کے دوران میں ایک بار رزمی صاحب کی خواہش پر میں اور وہ بائیک پر کبیر والا جا کر بیدل حیدری صاحب سے ملے۔انہوں نے چائے پلائی اور کچھ عارفانہ گفتگو کے بعد،جس کے بیچ وہ بار بار اُٹھ کر اپنی دکان کے پردے کے پیچھے گم ہو جاتے تھے،اپنی کچھ غزلیں سُنائیں جو مجھے کچھ خاص خوش نہیں آئیں۔اس سے پہلے میں اور رزمی صاحب نے رسماً اپنا کلام سُنایا اور بیدل صاحب نے میرے حق میں کچھ ارشاد کیا جس کی تفصیل مجھے اب یاد نہیں۔میرے رنگ ِسخن سے انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ مجھ پر رزمی صاحب یا علاقے کے کسی اور شاعر کا اثر نہیں سو انہوں نے میری اصلاح کا عندیہ دیا نہ کلام کی سمت مقّرر کرنے کے حوالے سے کوئی بات کی۔ پہلے ہی روز ہمارے مابین ایک دوسرے کے فکری مکاشفوں کے حوالے سے قبولیت اور احترام کا رشتہ قائم ہو گیا اور اُن سے آخری ملاقات تک قائم رہا تب بھی جب وہ ڈاکٹر وزیر آغا کی عظمت کے حُدی خواں تھے اور تب بھی جب وہ احمد ندیم قاسمی کے پرستار ہوئے۔
ایک بار میں اور رزمی صاحب ملتان بھی گئے۔گورنمنٹ کالج میں مشاعرہ تھا۔ملتان اور گردونواح کے بہت سے شاعر موجود تھے مگر میں کسی کو کم ہی پہچانتا تھا۔ہاں ان کے نام اور کلام سے شناسائی ضرور تھی۔اس مشاعرے میں عابد عمیق نے اردو کی ایک بالغانہ نظم سُنائی تھی۔اصغر ندیم سیّد اور محمد امین بھی موجود تھے اور سینئیرز میں اصغر علی شاہ، اسلم انصاری،فرخ درانی،ارشد ملتانی، عاصی کرنالی، حسین سحر اور عرش صدیقی۔مجھے بھی اپنا کلام سُنانے کا موقع دیا گیا اور مشاعرے کے بعد کالج کینٹن پر محمد امین،اصغرندیم سیّد اور دوسرے دوستوں سے نشست رہی۔میرے لیے اطمینان کی بات یہ تھی کہ وہ لوگ میرے نام سے آگاہ تھے۔شام کو ہم ارشد ملتانی صاحب کے گھر پر ان سے ملے جو بوہڑ گیٹ کے کہیں آس پاس تھا۔وہ بھی بہت محبت سے ملے اور سب سے باہمی احترام اور دوستی کا ایک ایسا رشتہ قائم ہوا جو ہمیشہ برقرار رہنے والا تھا۔

مجھے تاروں کی بارات’کی دس کاپیاں عطا کی گئیں۔کچھ میں نے خریدی اور اپنے عزیز و اقارب کی نذر کیں۔تب کالج کُھلنے کی نوید پہنچی اور ہم دونوں بھائی لاہور پلٹ آئے۔اتنا وقت ضائع ہو گیا تھا کہ تعلیمی اداروں کا شیڈول برباد ہو کر رہ گیا تھا۔اس لیے گمان تھا کہ اس پر نظر ِثانی کی جائے گی مگر پنجاب یونیورسٹی نے وقت پر امتحان لینے کا اعلان کر کے سب کو عجیب کشمکش میں ڈال دیا۔طلبہ امتحان کو مؤخر کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے مگر اربابِ اختیار تھے کہ ان کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگ رہی تھی سو جب کالج میں امتحانی داخلہ بھجوانے کا نوٹس لگایا گیا تو مَیں نے داخلہ بھجوانے ہی میں عافیت جانی۔

درس گاہ – 46

شہرت بخاری صاحب سے یہ مکالمہ تعلّی کے زُمرے میں آتا تھا مگر اس کے پیچھے کہیں اپنی ذات اور ہنر پر اندھا اعتماد تھا اور یہ اعتماد تلمبے کے دوستوں کا عطا کردہ تھا۔میرے بھیتر میں کہیں آگ کی کوئی لپک تھی جو اب میرے قد کے برابر ہو رہی تھی اور میں زیادہ تر وقت خود اپنے ساتھ گزارنے لگا تھا۔
شہرت صاحب نے اب مجھے میری تمام ترحماقتوں کے ساتھ قبول کر لیا تھا۔مجھے جب فرصت ہوتی میں ان کے پاس حاضر ہو جاتا اور وہ مجھے اپنے ملاقاتیوں سے بھی ملاتے۔ان کے ممدوحین کی اکثریت شاعروں اور ادبی پرچوں کے مدیران کی تھی۔ان میں سے کچھ اس کالج کے پُرانے طالب علم تھے.شہرت صاحب ایسے کسی فرد کی فاران میں کوئی تحریر شامل کرتے وقت اس کے نام کے ساتھ سابق طالب علم کا لاحقہ ضرور چسپاں کرتے اور ایک بار یہ اعزاز مجھے بھی ملا۔
ان دنوں وہ پاک ٹی ہاؤس میں حلقہ اربابِ ذوق (ادبی) چلا رہے تھے
انہوں نے مجھے وہاں آنے کی دعوت دی اور میں علی ظہیر منہاس کے ساتھ وہاں جا پہنچا۔اس سہارے کی ضرورت اس لیے پڑی کہ میں ادبی رسائل میں شائع ہونے کے باوجود لاہور کے کسی شاعر یا ادیب سے بے تکلف تھا نہ لکھنے والوں کی اس بہشت میں داخل ہونے کی ہمت رکھتا تھا۔ہم پاک ٹی ہاؤس میں داخل ہوئے تو شہرت صاحب سامنے کی میز پر انتظارحسین،انجم رومانی،زاہد ڈار،سجّاد باقر رضوی اور احمد مشتاق کے ساتھ بیٹھے تھے۔دائیں طرف سلیم شاہد اور جاوید شاہین اپنے دوستوں کے ساتھ براجمان تھے اور سیڑھیوں کے بغلی سوفے پر اسرار زیدی اور سیف زلفی۔علی ظہیر منہاس غالباً سیف زلفی سے متعارف تھے سو ہم وہاں جا بیٹھے اور مدتوں بیٹھتے رہے۔تب بھی جب میرا حلقہ احباب بالکل بدل کر رہ گیا اور ہم خود ایک میز کی مستقل زینت بن گئے۔
حلقہ اربابِ ذوق اس وقت دو شاخوں میں بٹا ہوا تھا۔ادبی اور سیاسی۔سیاسی حلقے کا اجلاس وائی ایم سی اے کے بورڈ روم اور ادبی کا پاک ٹی ہاؤس کے بالا خانے پر ہوا کرتا۔میں دونوں حلقوں کے اجلاس میں بطور ناظر شرکت کرتا۔ایک حلقہ’ارباب ِقلم’بھی تھاجسے سیف زلفی چلا رہے تھے۔اس کی نشست جمعرات کو منعقد ہوتی۔ ‘پنجابی ادبی سنگت’کے اجلاس بھی وائی ایم سی اے ہی کے ایک کمرے میں ہوتے تھے۔ان سب کے پراگرام ٹی ہاؤس کی ونڈوز کے شیشوں پر چسپاں کر دیے جاتے تھے اور جس کا جدھر جانےکو جی چاہتا تھا چلا جاتا تھا۔اجلاس کا وقت ہونے پر پہلے شہرت صاحب اپنی نشست چھوڑ کر بالاخانے کی سیڑھیاں چڑھ جاتے۔پھر جس کا جی چاہتا ان کی پیروی کرتا۔تنقید کے لیے پیش کئے گئے ادب پارے پر مدلل بحث کی جاتی۔اختلاف کے پہلو بھی نکلتے۔میں نے کبھی کسی کے حق میں یا مخالفت میں ایک جملہ بھی نہیں کہا ہوگا مگر جب بحث کے نکات پر غور کرتا تو اسے اپنے ہی دل کی آواز جانتا۔ایک صاحب بات ختم کرتے تو احساس ہوتا اب مزید کچھ کہنے کی گنجائش نہیں اور اسی میں سے دوسرے صاحب اختلاف کی صورت نکال لیتے تو میں اپنے آپ کو ان کا ہمنوا محسوس کرتا۔علی ظہیر منہاس اردو بازار چوک کی ایک عمارت کے ایک کمرے میں مقیم تھے۔اس لیے ان کے لیے ہر بار یہاں آنا ممکن نہیں تھا مگر اب اس کی ضرورت بھی نہیں تھی۔اسرار زیدی صاحب سے تعارف کے بعد وہاں تنہا ہونے کا خوف جاتا رہا تھا۔ان کے ساتھ اور بھی کئی دوست اب میری آمد کے منتظر رہتے تھے اور میں نے اتوار کے علاوہ بھی وہاں جانا آغاز کر دیا تھا۔
علی ظہیر منہاس ہی کے کمرے میں اعزاز احمد آذر اور لطیف ساحل سے ملاقات ہوئی اور بہت جلد گہری دوستی میں بدل گئی۔وہ دونوں شاہدرہ میں مقیم تھے،جہاں مکان ایک دوسرے پر امڈے پڑتے تھے۔مجھے کبھی وہم بھی نہیں ہوا تھا کہ شاہدرہ میں کہیں اندرون ِشہر کا منظر بھی دکھائی دے گا۔ظفر رباب کی رہائش بھی شاہدرے میں تھی۔ایک بار ظفر رباب کی طرف جانا ہوا تو اس کا ایک شعر شدّت سے یاد آیا اور اندازہ ہوا کہ ماحول شاعر کے اظہار پر کس طرح کے نقش مرتب کرتا ہے:
ہم وہاں رہتے ہیں جن گلیوں میں گھر
ایک دوجے کے سہارے ہیں کھڑے
یہی وہ فضا تھی جس میں بسر کر کے میں بی-اے کے دوسرے سال میں پہنچا۔اس سے پہلے اسلامک سمٹ کانفرنس ہو چکی تھی۔ہم نے فورٹریس اسٹیڈیم کے عوامی میلہ میں ٹیٹو شو کے ساتھ شہنشاہ ِایران کی جھلک بھی دیکھ لی تھی۔ایشیا کو سرخ اور سبز خانوں میں بٹتے دیکھا تھا۔ہاسٹل کے کامن روم کے ٹی وی پر ضیا محی الدین شو میں ایم اسلم کی درگت بنتے دیکھی تھی اور بہت کچھ جو اب تاریخ کا حصہ ہےمگر اب بنگلہ دیش نامنظور تحریک کا دور تھا۔لاہور کے طلبہ اس ضمن میں بہت فعال تھے۔کالج میں روز ہی ہنگامہ برپا ہوتا۔گیٹ کے سامنے کوتوالی ہونے کی وجہ سے جلوس کو روکنے کے لیے پولیس کو حرکت کرنے میں ذرا سی دیر لگتی۔آنسو گیس کے شیل پھینکے جاتے۔سب سے زیادہ مشکل میں ہم بورڈر ہوتے جو پولیس ریڈ کے ڈر سے اکثر بے گھر ہو جاتے۔یہی صورت طالب حسین کے کالج میں بھی چل رہی تھی۔بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کا غم مجھے بھی تھا مگر دو باتیں میری سمجھ سے بالاتر تھیں۔ایک یہ کہ اسے نامنظور کرنے سے کیا ہم تاریخ کے یک رخی اسراع کو موڑ سکتے ہیں؟اور دوسری یہ کہ احتجاج کرتے ہوئے قومی اثاثوں اور عمارتوں کی بربادی کیا ضروری ہے اور ان راہگیروں،مسافروں اور سفر پر نکلے لوگوں کا کیا قصور ہے،جن کی سواریاں نذرِ آتش کر دی جاتی ہیں۔ایک بار میں نے ایک عورت کو اپنے ہاتھوں سے جلا دی جانے والی ایک
موٹر بائیک کی آگ بجھانے کی کوشش کرتے دیکھا تو میرا جی ظلم اور بے دردی کے خلاف نفرت سے بھر گیا اور میرا دل سیاست دانوں اور ان کے گماشتوں سے ہمیشہ کے لیے کھٹّا ہو گیا۔
ایک دن جب پولیس ہاسٹل پر حملہ آور تھی اور ایک ایک کمرے کی تلاشی لے رہی تھی۔ابّاجی کسی کام سے لاہور آئے اور ہم دونوں بھائیوں کو ملنے کی سبیل پیدا کی۔انہوں نے ہمیں سامان لپیٹنے کا کہا اور لے کر ڈپٹی صاحب کی طرف چلے آئے۔وہ رات ہم نے ان کے یہاں بسر کی۔یہی وہ رات تھی جب بشیر طارق(لبھّا) کو بے قصور گرفتار کیا گیا۔طالب علموں کو کوتوالی میں ننگا کر کے بٹھایا گیااور یہ خبر بی بی سی نے بریک کی۔بنگلہ دیش بن چکا تھا سو منظور ہو کر رہا اور دو قومی نظریہ منہ کے بل آ رہا مگر نہیں یہ تو اسی روز مرحوم ہو گیا تھا جب ہم نے مشرقی پاکستان میں غلامی کا بیج بویا تھا اور ایک عظیم فکری اور سیاسی روایت سے وابستہ قوم کو اس کی زبان سے محروم کر کے گونگا کرنے کی کوشش کی تھی۔
اس بار گاؤں آیا تو تلمبہ اور میاں چنوں کے دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے کے سوا بڑی مصروفیت شاعری کا مطالعہ تھی۔کہیں اندر ایک طاؤس ِخود مست کی خود رفتگی کا غلبہ تھا اور وجہ بخوبی معلوم مگر اسے لکھنے میں جو مزہ تھا وہ کہنے میں تھا نہ بتانے میں۔میری سرمستی کا عالم یہ تھا کہ اپنے کمرے سے نکلتا ہی نہیں تھا،کبھی ڈم ڈم چلا آتا تو کچھ وقت اس کی معصومیت کی بھد اڑانے میں گزر جاتا۔بےچارہ کیسا سادہ اور صاف دل آدمی تھا اور مجھ پر ایسا اعتماد کہ میرے جھوٹ کو بھی سچ مان لیتا۔اُسے ہمارے وسیب کے لوگوں نے بہت لُوٹا مگر اس کے دل کی کشادگی میں کمی نہیں آئی۔

انہی دنوں ایک بار انیس انصاری اور علی ظہیر منہاس ملنے بستی آئے۔ان کی ملاقات حویلی کے دروازے پر پیپل کی چھاؤں میں میرے بڑے بھائی مہر نواب سے ہوئی۔میرے بارے میں استفسار پر بھائی نے میری موجودگی کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا حالانکہ میں مہینے بھر سے بستی میں تھا۔اس میں ان کا کوئی قصور نہیں تھا۔وہ الگ مکان میں رہتے تھے اور میرے کمرہ بند ہونے کی وجہ سے انہیں گمان تھا کہ میں لاہور پلٹ چکا ہوں۔
یہی وہ دن تھے جب میری زبان کی مُہر ٹُوٹی اور میں نے اردو کے ساتھ پنجابی میں بھی لکھنا شروع کیا۔

درس گاہ – 45

اسلامیہ کالج لاہور میں میرے انگریزی کے استاد پروفیسر منہاج الدین،اکنامکس کے پروفیسر فیض الحسن گیلانی،پولیٹیکل سائنس کے سرور صاحب اور فارسی آپشنل کے ثنا اللہ صاحب تھے۔یہ چاروں اساتذہ مزاج کی چار اطراف کے نمائندہ تھے مگر ان کی کلاس میں جانا اور اپنی موجودگی کا احساس دلانا اچھا لگتا تھا۔
اب کی بار میں نے اپنی تعلیم کو سنجیدہ لینا شروع کیا اور اکنامکس کے پہلے ٹیسٹ میں اوّل آ کر خود پر اپنے اعتماد کو بحال کیا۔انگریزی اور دوسرے مضامین میں بھی میری کاکردگی بُری نہیں تھی پھر بھی ایک خاص طرح کا احساس ِزیاں تھا جو روح پر حاوی تھا اور اس کی وجہ اپنی زندگی کے دو قیمتی برسوں کا ضیاع تھا۔میرے ہم جماعتوں میں آصف،محمود اور نواز طاہر پنجاب یونیورسٹی پہنچ چکے تھے اور بالترتیب پبلک ایڈمسٹریشن،کیمسڑی اور اردو کے طالب علم تھے۔شکور اسی کالج میں بی ایس سی کے دوسرے سال میں تھے۔ہاں ایک جاوید منیر احمد تھے جو میری روایت نبھا رہے تھے اور اسی کالج میں میری طرح بی اے کر رہے تھے اور ہاسٹل میں چند کمرے دور رہتے تھے۔
پہلے ہی روز کلاس میں بشیر طارق( لبھّا)سے ملاقات ہوئی اور بہت جلد وہ میرے قریبی دوستوں میں شمار ہونے لگے۔یہ زمانہ میری تخلیقی شگفت کا تھا۔اسے میرے روم میٹ خان عبدالوحید رشی کی محبت اور سلیقے نے خوب پروان چڑھایا۔کمرے کی تزئین و آرائش میں انہیں یدِطولیٰ حاصل تھا۔وہی کمرہ جو شب کو خوابوں کی رہ گزر ٹھہرتا،صبح ہوتے ہی ڈرائنگ روم میں تبدیل ہو جاتا۔رشی صاحب کو بستر لپیٹنے اور اس کی آرائش سے چارپائی کو سوفہ میں بدلنے
میں ایسی مہارت تھی کہ کمرے کی فضا ہی بدل جاتی اور اس ہنر مندی کا اثر میری طبع پر بھی ہو رہا تھا۔وہ خوش لباس ہی نہیں خوش اطوار بھی تھے۔کالج یونیفارم کے علاوہ وہ ہم رنگ شلوار قمیص اور ویسٹ کوٹ میں ملبوس رہتے تھے اور میں نے کبھی انہیں ویسٹ کوٹ کے بغیر نہیں دیکھا۔
میں اور میرے دوستوں نے جلد ہی ہاسٹل میں عوامی مقبولیت حاصل کر لی اور میس مینیجر کے الیکشن میں پرانی انتظامیہ کو شکست دے کر جاوید منیر احمد کو یہ زمہ داری تفویض کی۔کالج کے معاملات میں بھی ہم کافی دخیل تھے اور میری ادبی زندگی بھی پہلے کے مقابلے میں کافی فعال تھی۔میں معقول ادبی پرچوں میں چھپ رہا تھا مگر ابھی کالج میگزین’فاران’میں شائع نہیں ہوا تھا۔نہ معلوم کیوں میں نے اس کے انچارج پروفیسر شہرت بخاری سے ملاقات کی نہ ہی مجلس ِادارت کے ارکان سے تعارف حاصل کیا تاہم فاران کے لیے طلبہ کو لکھنے کی دعوت کا نوٹس پڑھ کر میں نے دو غزلیں،دو نظمیں اور ایک افسانہ’زود پشیماں’جو ممو کے بارے میں لکھے میرے ہی افسانے کا تجدیدی اظہار تھا۔کالج میگزین کے لیے ڈراپ باکس کے حوالے ضرور کیے۔ان کے ساتھ ایک انشائیہ’دشمنی کا سلیقہ’بھی تھا اور مجھے دعویٰ ہے کہ وہ تحریر بُری نہیں تھی۔
تبھی میں نے کالج گزٹ کے انگریزی حصے کے مدیر کے لیے مقابلے میں حصہ لیا اور گزٹ کے انچارج میرے مضمون کی فوقیت کے قائل بھی تھے مگر کالج یونین نے پہلے ہی محمد جہانگیر (بعد میں لاہور کارپوریشن کے رکن اور ایم پی اے) کے حق میں فیصلہ کر رکھا تھا۔میری تالیف ِقلب کے لیے مجھے دوستی کا شرف بخشا گیا اور کامریڈ باقر اور دوسرے کار پردازان مجھے محبت سے ملنے لگے مگر میرے دل سے اپنی حق تلفی کا داغ اب تک نہیں گیا۔
کامریڈ باقر سے نسبت نے ایک بار عجب گل کھلایا۔کالج میں پروفیسر شہرت بخاری نے ایک عظیم مشاعرے کا اہتمام کیا تھا اور وہی اس کے منصرم تھے۔یہ مشاعرہ کالج ہال میں حفیظ جالندھری کی صدارت میں منعقد ہوا اور اس میں ظہیر کاشمیری،پروفیسر قیوم نظر اور انجم رومانی جیسے جید شعرا موجود تھے۔نوجوانوں میں مجھے سلیم شاہد کا نام یاد ہے۔میں اسے اگلی صف کے سامعین میں بیٹھ کر سُن رہا تھا اور شہرت صاحب نے کلام سنانے کے لیے ظہیر کاشمیری صاحب کے نام کا اعلان کیا تھا کہ کامریڈ باقر ہال میں وارد ہوئے اور مجھے سامعین میں دیکھ کر سٹیج پر شہرت صاحب کے پاس جا کر ان کے کان میں کچھ ایسا افسوں پھونکا کہ وہ کچھ پریشان بلکہ بوکھلائے ہوئے محسوس ہوئے۔پتا چلا کہ کامریڈ مشاعرے کے اس مرحلے پر مجھے پڑھوانے کے طلبگار ہیں اور ظاہر ہے شہرت صاحب اس کے لیے راضی نہیں تھے۔ظہیر صاحب نے بد مزگی سے بچنے کے لیے خود مجھے سٹیج پر آنے کی دعوت دی اور میں شرمندگی سے قعر ِمذلت میں دھنس کر رہ گیا مگر طلبہ کے اصرار پر مجھے ایک غزل سنانا ہی پڑی۔یہ الگ بات کہ میں نے کامریڈ باقر کو اور شہرت صاحب نے مجھے ایک مدت تک معاف نہیں کیا اور شاید اسی کا شاخسانہ تھا کہ فاران چھپ کر آیا تو اس میں میری کوئی تخلیق شامل نہیں تھی۔
مجھے فاران کے اگلے پرچے میں بھی شامل نہیں کیا گیا تو میں نے شہرت صاحب کے پاس جا کر اس بات کا شکوہ کیا۔اس پر انہوں نے فرمایا کہ کالج کے چھے ہزار طلبہ میں سے کم وبیش پانچ سو چھپنے کے لیے اپنی شاعری ہی دیتے ہیں اور فاران کے محدود صفحات پر سب کو جگہ دینا ممکن نہیں تو میں نے عرض کی کہ ان پانچ سو میں سے کتنے ایسے ہوں گے جو خود شعر کہتے ہوں۔اب کے پروفیسر صاحب کا جواب تھا’شاید پانچ یا چھ’تو میں نے گزارش کی کہ ان پانچ میں سے ایک میں ہوں اور اسی پر بس نہیں میں اپنی تعلیم مکمل کرنے اور عملی زندگی کا آغاز کرنے کے بعد بھی شعر کہتا رہوں گا اور شاید میں اُن دو لوگوں میں سے ایک ہوں گا جو ہمیشہ اس تخلیقی عمل کو جاری رکھیں گے تو پروفیسر صاحب کے چہرے پر مسکراہٹ کھیل گئی۔شاید وہ اس دعوے کو مجذوب کی بڑ سمجھے تھے مگر حیرت اس بات پر ہے کہ وہ میرے اس دعوے کو کبھی بھولے نہیں۔کوئی بیس برس بعد جب وہ لندن جلا وطنی کے بعد لاہور پلٹے اور محترمہ کشور ناہید نے میری ملتان سے لاہور آمد پر میرے اعزاز میں اپنے گھر پر عشائیہ دیا تو اس میں انتظار حسین،زاہد ڈار،ذوالفقار احمد تابش،جاوید شاہین،اصغر ندیم سیّد اور دوسرے دوستوں کے علاوہ شہرت صاحب بھی موجود تھے۔کشور آپا نے مجھے کلام سنانے کو کہا تو میرے شعر پڑھنے سے پہلے شہرت صاحب نے اپنی گفتگو میں اقرار کیا کہ میں نے برسوں پہلے اپنے کہے کو سچ کر دکھایا ہے اور وہ میری اس مستقل مزاجی پر بہت شادماں ہیں۔
شہرت صاحب سے اس مکالمے کا فائدہ یہ ہوا کہ فاران کے اگلے شمارے میں میری دو نظمیں،دو غزلیں اور انشائیہ موجود تھے۔اسی زمانے میں علی ظہیر منہاس،ظفر رباب،علی نوید بخاری اور انیس انصاری سے بھی تعلق بنا اور ہم سب جلد ہی گہرے دوست بن گئے۔یہ چاروں احباب فاران کی مجلس ِادارت کے رکن تھے اور بلاشبہ ان کے زمانے میں فاران کے شائع ہونے والے شمارے بہت معیاری تھے۔سبطِ حسن کے معروف جریدے’پاکستانی ادب’میں شائع ہونے والی غزل جو میرے کسی مجموعہ کلام میں شامل نہیں کا یہ مقطع اسی نسبت کو ظاہر کرتا ہے۔
خاموش سّنو ساجد و منہاس،ظفر کو
ہم اور ابھی اور ابھی اور کہیں گے
تب دن کالج کے ہنگاموں میں گزر جاتا تھا اور شام کو میں بشیر طارق کو ساتھ لے کر اپنے میاں چنوں اور ساہیوال کالج کے دوستوں کے ساتھ نششت جماتا تھا۔یہ وہ دور تھا جب میں نے پروفیسر علی عباس جلالپوری کی’روح ِعصر’اور ڈاکٹر وزیر آغا کی’تخلیقی عمل’سے آغاز کیا اور پھر خرد افروزی سے متعلق جو دستیاب ہوا،پڑھتا چلا گیا۔کالج ہاسٹل کے سامنے لوئر مال پار کرتے ہی گول باغ اور دائیں گھوم کر میونسپل کارپوریشن کے فوّارے کا اندرونی احاطہ ہماری نشست کا محل ہوا کرتا تھا اور ہم دنیا جہان کی باتیں کیا کرتے تھے۔ایک دن فوارے کے دائرے میں ہمارے مابین روح کی ماہیت پر بحث چل رہی تھی کہ میں نے سیاہ چھڑی تھامے ایک وجیہہ بزرگ کو ہمارے گرد دائرے میں گھومتے دیکھا۔کچھ دیر بعد وہ اجازت لے کر ہمارے درمیان آ بیٹھے اور موضوع سے متعلق بات کر کے ہمارے فکری مغالطوں کو رفع کیا۔ہم نے تعارف چاہا تو انہوں نے’آپ سب کا ایک نوجوان دوست’کہہ کر ٹال دیا۔یہ نوجوان کبھی مجھے پرانی کتابوں کی دکانوں پر گھومتے مل جاتے کبھی مال پر ٹہلتے ہوئے۔دو ایک بار انہیں میں نے کسی کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر جاتے بھی دیکھا مگر میرے قریب کوئی ایسا فرد نہیں تھا جو مجھے ان کے بارے میں کچھ بتا سکتا۔دو یا تین برس کے بعد ایک دن میں نے فٹ پاتھ سے’نقش ِچغتائی’خریدی اور اس کی ورق گردانی کرتے ہوئے مجھ پر یہ بھید کُھلا کہ میرے نوجوان دوست کوئی اور نہیں بذات خود مصور ِمشرق ہیں مگر اس کے بعد وہ مجھے مدتوں دکھائی نہیں دیے اور جب میں ان کے گھر کا کھوج لگا کر ایک مہربان پبلشر اور ادیب دوست کے ساتھ ان کی طرف جانے کا وقت طے کر رہا تھا،پتا چلا کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔باری تعالیٰ کی طرف سے ایسی عنایت اور ایسی محرومی کسی اور کی قسمت میں شاید ہی لکھی گئی ہو۔

درس گاہ – 44

میں1971ء کے وسط میں میاں چنوں پلٹ آیا تھا۔اس بار زیادہ تر نشست اپنے محلّےدار سرور اور جاوید(ڈم ڈم)سے رہی۔اتوار کو اگر میں شہر میں ہوتا تھا تو آصف،جمیل،ضیا،اعجاز،لیاقت،بِلّو اور محمود سے بھی ملاقات ہو جاتی تھی مگر میرے علاوہ سب اپنی تعلیم میں مگن تھے۔ممتاز کے مالی حالات ایسے نہیں تھے کہ تعلیم جاری رکھ سکتا سو اس نے فوج میں کمیشن حاصل کرنے میں ناکام رہنے کے بعد ریلوے میں کوئی معمولی ملازمت کر لی تھی۔
اب مجھے احساس ہو رہا تھا کہ میں نے اپنی زندگی کے دو برس کس بےدردی سے برباد کیے۔سب دوست آگے بڑھ چکے تھے اور میں تھا کہ ابھی اپنی سمتِ سفر کا تعین ہی نہیں کر پایا تھا مگر اب انتظار کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔اس انتظار میں مَیں کبھی گاؤں جا بستا کبھی شہر۔شاعری پڑھ ہی نہیں کر بھی رہا تھا اور رسائل کے مطالعے کا سلسلہ جاری تھا۔مہر فلک شیر سنپال سے ملاقات نسبتاً بڑھ گئی تھی اور انہوں نے’مشاعرہ’کے نام کا ایک کتابچہ مجھے تحفے میں دیا تھا جو تلمبہ میں ہونے والے ایک مشاعرہ کی روداد تھی اور اس کا دیباچہ،جو تلمبہ کی تاریخ اور فکری روایت کا عمدہ محاکمہ کرتا تھا،خادم رزمی کا لکھا ہوا تھا جن کی ایک غزل میں نے تازہ اوراق میں پڑھی تھی اور اس کے دو شعر مجھے ازبر ہو گئے تھے:
میں اکیلے پن کا مارا گھر سے نکلا تھا مگر
رونق ِ بازار تُو نے اور تنہا کر دیا

کس نے لہرائی دریچے سے بدن کی چاندنی
کون تھا میلی گلی کو جس نے اُجلا کر دیا
اتفاق سے اگلے ہی دن سجّاد پاندھا ملنے چلے آئے تو میں نے ان سے رزمی صاحب کے بارے میں بات کی کہ اُن کا تلمبے تواتر سے آنا جانا رہتا تھا۔حُسن ِاتفاق سے وہ رزمی صاحب کو جانتے تھے اور مجھے لےجا کر ملانے پر تیّار ہو گئے۔ان کے پاس موٹرسائیکل تھا۔ہم نے ایک ٹیپ ریکارڈر پکڑا اور رزمی صاحب کے سکول جا پہنچے۔وہ پرائمری کی دو کلاسز کو یک جان کیے کچھ رٹوا رہے تھے اور فارغ ہونے ہی والے تھے۔ابھی تعارف کی رسم ادا ہو رہی تھی کہ چھٹی کی گھنٹی بج گئی اور وہ ہمیں سکول کے دروازے کے سامنے اپنی بیٹھک میں لے آئے۔میں نے محسوس کیا کہ ایک پرستار کی آمد پر وہ مضطربانہ مسرور ہیں اور اس مسرت میں اس وقت دونا اضافہ ہو گیا جب میں نے’اوراق’کا ذکر کر کے وہی غزل سنانے کی فرمائش کی۔پھر ان کی بہت سی غزلیں سُنی اور ریکارڈ کیں۔ان کے اصرار پر ایک اپنی غزل بھی سنائی جو یقیناً اصلاح طلب تھی مگر انہوں نے کُھل کر داد دی اور کسی روز میرے گھر پر آنے کی نوید دے کر ہمیں رخصت کیا۔
رزمی صاحب سے اگلی ملاقات کی نوبت بھی جلد ہی آ گئی۔انہوں نے مجھے خان غضنفر روہتکی سے ملوایا جو بازار میں کریانے کی دکان کرتے تھے اور فی البدیہ شعر کہنے میں یدِطولیٰ رکھتے تھے۔اُسی ہفتے تلمبہ میونسپل کمیٹی کا کوئی مشاعرہ برپا ہونے والا تھا اور خان صاحب ہی اس کی صدارت کر رہے تھے۔انہوں نے مجھے مشاعرہ پڑھنے کی دعوت دی اور میں نے اپنی زندگی کا وہ پہلا مشاعرہ چند مقامی شاعروں پر تفوق پا کر پڑھا۔سب نے میری خوب خوب حوصلہ افزائی کی اور مجھے مبتدی یا اس کُوچے میں نووارد ہونے کا احساس نہیں دلایا۔اسی مشاعرے میں کئی اور شاعروں سے تعارف ہوا جن کا کلام میں نے کتابچے میں پڑھا تھا۔ان میں صادق سرحدی،یعقوب مومن اور ساغر مشہدی خصوصیت سے ذکر کرنے کے قابل ہیں۔خصوصاً ساغر مشہدی صاحب سے طویل رفاقت رہی اور یہ نسبت اب تک برقرار ہے۔

اگلے چند دنوں میں رزمی صاحب اور ساغر مجھے گاؤں ملنے آئے تو رزمی صاحب کے اصرار پر میں نے اپنی بیاض انہیں ملاحظے کے لیے پیش کی۔انہوں نے بہت رغبت سے اسے دیکھا اور چند مقامات کی نشاندہی کر کے بتایا کہ یہاں فلاں لفظ کے درست تلفظ کا استعمال نہ ہونے کے باعث مصرع محل ِنظر ہے مگر انہوں نے قلم لگانے کی بجائے مجھے اساتذہ کے کلام سے سند لانے کی صلاح دی اور میں نے اُن کے مشورے پر صاد کیا۔پھر ان ملاقاتوں میں تسلسل آنے لگا اور ایک دوسرے کا کلام سُنا جانا معمول بن گیا۔میں تسلیم کرتا ہوں کہ کہیں اندر ہی اندر میری تربیت ہو رہی تھی اور مجھے اپنی ذات اور شاعری پر اعتماد ہونے لگا تھا۔اب میں شاعری پڑھتے ہوئے اس کے آہنگ اور الفاظ کے معیاری تلفّظ پر دھیان دینے لگا تھا اور اسی دوران میں میں نے اپنی کچھ غزلیں’نئی قدریں،اوراق،نیا دور اور’افکار’ کو بھجوائیں۔
ادبی پرچوں کے وقت پر شائع ہونے کی روایت تب تھی نہ اب مستحکم ہوئی ہے۔پھر ملکی حالات دگرگوں ہونا بھی ایک وجہ رہی ہو گی یا ممکن ہے بنیادی مسئلہ ایک نئے شاعر کے ظہور کو قدرے مؤخر کرنا ہو۔یہ غزلیں چھپ تو گئیں مگر سقوطِ مشرقی پاکستان کا سانحہ برپا ہونے کے بعد۔تب تک میں دوبارہ لاہور پہنچ چکا تھا اور ڈھاکہ فال کے سانحے سے بہت دل برداشتہ تھا۔19 برس کی عمر تھی مگر لگتا تھا سب کچھ مٹ گیا ہے اور ہمارے قدموں تلے زمین نام کی کسی شے کا وجود نہیں۔ہم کسی نظریے اور سمت کے تعین سے معذور ہیں اور نہیں جانتے کہ اپنی شناخت کے لیے کس تہذیب اور معاشرت کی طرف دیکھیں۔
سب سے پہلے مجھے’نئی قدریں’نے چھاپا،پھر’نیا دور’اور بعد میں ‘اوراق’ نے.بہت دیر بعد اندازہ ہوا کہ’نئی قدریں’،کے ایڈیٹر ہر غزل’جیسا ہے جہاں ہے’کی بنیاد پر شائع کرتے ہیں اور اکثر سالانہ خریدار بنانے کے تنطیمی دورے پر رہتے ہیں۔اس سلسلے میں انہوں نے یہ کمال دکھایا کہ ایک بار میرے گاؤں بھی چلے آئے تھے اور میں نے اپنے متعدد دوست ان کے پرچے کے خریدار بنوا دیے،جنہیں ایک ہی شمارہ خریداری کی مد میں عنایت کیا گیا۔خیر انہیں اس سے زیادہ کی طلب ہی نہیں تھی البتہ ہر شمارے میں میری کوئی تخلیق شامل ہونے کی وجہ سے وہ ایک شمارہ مجھے ضرور بھجوا دیتے تھے اور بعض اوقات میں ‘گوشہء ادب’ سے خرید لیتا تھا۔
افکار کے صہبا لکھنوی صاحب نے کہیں میرا کوئی مزاحیہ مضمون پڑھا تھا اور مصر رہے کہ میں شاعری ترک کر کے مزاح میں نام پیدا کروں۔ان کا ادعا تھا کہ مزاح میں نام پیدا کرنا بہت آسان ہے اور شاعری میں اب کسی طرح کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔انہوں نے اس قدر اصرار کیا اور اپنی تجویز کے حق میں اتنے پوسٹ کارڈ بھجوائے کہ مجھے چڑ سی ہو گئی اور میں نے’افکار’میں لکھنے کا ارادہ ہی ترک
کر دیا۔’افکار’میں چھپنے والی میری اکلوتی تحریر ایک افسانہ’آنے والے کل کی بات’تھا۔یہ ایک علامتی افسانہ تھا اور اس کا پس منظر سقوطِ ڈھاکہ ہی تھا۔بعد میں میں نے اسے پنجابی میں ترجمہ کر لیا اور یہ میری پنجابی کہانیوں کی کتاب’نیندر بِھنّی رات’میں ‘کل تے بھلکے’ کے عنوان سے شامل ہوا۔
تھرڈ ائیر کے داخلے شروع ہوئے تو میں آئی کام میں بھی کامیاب ہو گیا تھا مگر اس سلسلے کو حاکم کے اصرار کے باوجود میں نے وہیں بند کر دیا اور بی۔اے میں داخلے کے لیے گورنمنٹ کالج لاہور میں درخواست جمع کرائی۔اس بار میں لا کالج ہاسٹل میں ٹھہرا جہاں نواز طاہر اب ایم۔اے اردو کا طالب علم تھا۔میرٹ لسٹ دو روز بعد لگی تو اس میں میرا نام موجود نہیں تھا۔دوسری میرٹ لسٹ دوسرے روز آویزاں کی جانا تھی۔میں نے اس کا انتظار ہی نہیں کیا اور اسلامیہ کالج سول لائنز آ کر داخلہ فارم بھر کر جمع کرا دیا۔کلرک نے انتظار کرنے کو کہا اور کوئی پندرہ منٹ کے بعد مجھے پرنسپل خواجہ محمد اسلم کے کمرے میں انٹرویو کے لیے بلا لیا گیا۔کمیٹی نے ایک ہی سوال پوچھا کہ میٹرک اور انٹر میں چار سال کا تفاوت کیوں ہے تو میں نے عرض کیا کہ میری حماقت کی وجہ سے۔داخلہ فارم پر دستخط کر کے مجھے فیس جمع کرانے کو کہا گیا جو میں نے فوراً کالج میں موجود بنک برانچ میں جمع کرا دی۔پھر ہاسٹل داخلے کی کارروائی مکمل کی اور دوپہر تک میں ایک کمرے کا مالک بن چکا تھا،جو مجھے ایک اور طالب علم کے ساتھ شئیر کرنا تھا۔
اگلے روز میں یونہی گورنمنٹ کالج گیا تو وہاں دوسری لسٹ آویزاں کی جا چکی تھی اور میرا نام سب سے اوپر موجود تھا۔راز یہ کُھلا کہ کل کی لسٹ اولڈ سٹوڈنٹس کی تھی اور آج کی باہر سے داخلہ لینے والے طلبہ کی۔کل میں نے اس نکتے پر غور ہی نہیں کیا تھا۔اب معاملہ کُھلا تو قدرے افسوس تو ہوا مگر اس قدر نہیں کہ میں اسلامیہ کالج میں ادا کی گئی رقم سے درگزر کرتا ۔میں نے اسے اپنی تقدیر سمجھ کر قبول کر لیا اور اسلامیہ کالج ہی کو اپنی اگلی درس گاہ ٹھہرایا۔اس بار میرے مضمون اکنامکس اور پولٹیکل سائنس تھے اور فارسی بطور اختیاری مضمون کے۔نہ معلوم کیوں میں نے اس بار بھی اردو کا انتخاب نہیں کیا۔
کلاسز شروع ہونے تک کا وقت میں نے گاؤں میں گزارا۔اس دوران میں میرا چھوٹا بھائی طالب حسین بھی میڑک کر کے لاہور آ گیا تھا اور اب ایم اے او کالج کا طالب علم تھا اور دلاور ہاسٹل میں قیام پذیر۔زندگی اپنی درست نہج پر چل پڑی تھی۔کریسنٹ ہاسٹل میں مجھے کمرہ نمبر 184 الاٹ کیا گیا اور کوئٹہ کے ایک نوجوان عبدالوحید رشی میرے روم میٹ بنے۔وہ تواضع اور سلیقے کا مرقع تھے۔وہی کمرہ جو رات کو خواب گاہ ہوا کرتا تھا،ان کی سلیقہ مندی سے دن کو ڈرائنگ روم میں بدل جاتا تھا۔دن میں وہ رضائیوں کو اس طرح لپیٹ کر چارپائی پر سجاتے تھے کہ وہ بیٹھنے والوں کا تکیہ بن جاتی تھیں۔سجاوٹ،صفائی ستھرائی اور کمرے سے متعلق ہر کام انہوں نے اپنے ذمے لے کر مجھے آزاد چھوڑ دیا تھا مگر جلد ہی مجھے احساس ہوا کہ وہی سلیقہ مجھ میں بھی پروان چڑھ رہا ہے۔میں تسلیم کرتا ہوں کہ میری ذات کے اثبات میں ان کا حصّہ مجھ سے بڑھ کر ہے۔
کالج پہنچا تو پتا چلا کہ میرے ساہیوال کے دوستوں میں سے شکور اور جاوید منیر احمد اسی ہاسٹل میں رہائش پذیر ہیں۔شکور بی۔ایس۔سی کر رہا تھا اور جاوید بی۔اے،اس لیے اجنبیت کا احساس پہلے ہفتے ہی جاتا رہا اور سب کچھ اپنا اپنا سا لگنے لگا تاہم ملکی حالات دگرگوں ہی تھے۔ایک روز لاہور کی فضاؤں میں توپوں کی دنادن اور طیاروں کی گھن گرج سُنائی دی تو پتا چلا کہ جنگ چھڑ گئی ہے۔لاہوری اس بار بھی یہ مناظر چھتوں پر چڑھ کر دیکھتے تھے کہ کالجز بند کر دیے گئے اور تمام طالب علموں کو گھر جانے کو کہہ دیا گیا۔ہم دونوں بھائی اپنا سامان لیے بادامی باغ بسں اسٹینڈ کو جاتے تھے کہ مینار ِپاکستان کے قریب ہوائی حملے کا سائرن بجا اور سواریاں تانگے سے اتر کر پودوں کی اوٹ میں ادھر ادھر لیٹ گئیں۔تب کسی طیارے سے ایک برسٹ ہماری طرف آیا اور زمین پر جیسے پھول کھلنے لگے۔پل بھر دو طیارے ان کے تعاقب میں آئے اور سب ہماری نظروں سے غائب ہو گئے۔اللہ کا کرم ہوا کہ کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا اور ہم اسی شام خیریت سے اپنے گاؤں پہنچ گئے کہ ہمارے لاہور شفٹ ہونے کے بعد ابّا جی نے میاں چنوں کی رہائش ترک کر دی تھی۔
سقوط ِمشرقی پاکستان کی خبر میں نے اپنی بستی میں سُنی۔

درس گاہ – 43

انہی دنوں میں ایک عجیب طرح کی مشکل کا شکار ہوا۔اچانک کھجلی شروع ہوتی اور چند لمحوں میں پورے بدن پر جگہ جگہ آبلے سے پڑ جاتے۔نابھہ روڈ کے ایک ڈاکٹر مظفر رندھاوا سے مشورہ کیا تو انہوں نے اینٹی بائٹک اور الرجی کی دوا دی مگر اس سے اتنا ہی فرق پڑتا کہ چند لمحوں کو جلن میں کچھ کمی آ جاتی۔محلّے کے حجام سے بات ہوئی تو انہوں نے شک ظاہر کیا کہ یہ کھٹمل کی کارستانی ہے۔یہ بات اس لیے بھی قرینِ قیاس تھی کہ میرے کمرے میں دھوپ آتی ہی نہیں تھی۔اگلے ہی دن دونوں چارپائیاں گلی میں سارے دن کے لیے دھوپ میں ڈالی گئیں اور سلیم شاد نےجو اوپر دوسرے فلیٹ میں رہتے تھے،دوپہر کو انہیں کپڑے دھونے والے ڈنڈے سے خوب پیٹا تو چارپائیوں کے نیچے کی جگہ سرخ کھٹملوں سے بھر گئی،جسے ہم نے پیروں سے مسلنا شروع کیا تو گلی کا وہ حصہ میرے خون ِناحق سے لال ہو گیا۔کھٹمل دیکھنے اور اس فراوانی سے دیکھنے کا یہ میرا پہلا موقع تھا۔برسوں بعد یہ اسی فراوانی سے شیخ زاید ہسپتال میں دکھائی دیے،جہاں یہ پتھر کے بنچوں پر مستانہ وار دوڑتے پھرتے تھے اور انتظامیہ کو ان سے نجات کی کوئی جلدی نہیں تھی۔
رمضان چل رہا تھا اور ہم سحری کے لیے نابھہ روڈ جاتے تھے۔دن کالج اور آوارہ گردی میں اور رات نومبر آ جانے کی وجہ سے کمرے میں گزرتی تھی۔خارش اور سوجن کا مسئلہ اب بھی تھا مگر پہلے سے کم۔ایک اور طریقۂ علاج کسی ایسے آدمی سے بدن پر ہاتھ پھروانا تھا جس نے کبھی چھپاکی مار کر اس کے خون سے ہاتھ دھوئے ہوں۔اتفاق سے یہ کارنامہ میرے والد صاحب انجام دے چکے تھے اور لوگ اس مرض کے علاج کے لیے جسے مقامی طور پر چھپاکی کہا جاتا تھا،ان سے رجوع بھی کرتے تھے مگر مجھے اس بے تکلفی کی ہمت نہیں ہوئی۔یوں بھی وہ اس کام کے لیے راضی ہوتے ہی نہیں تھے۔تبھی کسی نے مسہل لینے کا مشورہ دیا اور میں نے بلا سوچے سمجھے اسے آزما ڈالا۔حیرت انگیز طور پر اس عمل سے تکلیف اور مرض دونوں جاتے رہے مگر اب میرا دل اس کمرے سے بے زار ہو چکا تھا۔صدر صاحب نے رانی کے بھائی تک رسائی کی کوئی صورت نکال لی تھی اور شنید تھی کہ اب اُن کے ڈرائنگ روم میں پائے جاتے ہیں مگر سلیم شاد کے بقول اس عظیم کامیابی کے باوجود نامراد ہی تھے۔شاد صاحب اب ان کی بجائے میرے وفادار تھے اور اس کا سبب ان کی باہمی رقابت تھی۔مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ شاد جو فلیٹس ہی کی ایک محترمہ سے کامیاب افئیر چلا رہے تھے،رانی کے خواستگار بھی تھے اور صدر کو اپنے علاقے میں درانداز جانتے تھے۔کچھ مارلن برانڈو کی”The bed time story”جیسی کیفیت تھی اور رانی تھی کہ اُسی طرح بے نیازی سے سکول آتی جاتی تھی اور کسی پر نگاہ ِغلط انداز ڈالنے کی بھی رودار نہیں تھی۔
میں نے اپنی اور رانی کی نسبت کسی پر ظاہر نہیں کی۔صدر کی پیش رفت سے مجھے تکلیف تو تھی مگر اس سے بھی زیادہ رنج محلے کے دادا کو پہنچا اور اس کی خبر مجھے تب ہوئی جب حمام پر اس نے مجھ سے صدر کے وئیر اباوٹس کا پوچھا۔شاید میرے اندر کا غضب مجھ پر غالب آ گیا تھا کہ میں نے اس کو صدر کے گھر کا پتا دے دیا اور وہ اسی رات اسے دھمکانے اس کے گھر جا پہنچا۔مجھے پچھتاوا تو ہوا مگر اب تیر کمان سے نکل چکا تھا۔صدر نے آنا ترک نہیں کیا اور اس بارے میں مجھ سے بس سرسری سا شکوہ کیا تو میں نے اپنی ذہنی حالت کھول کر بیان کر دی اور مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ وہ پہلے ہی اس قصے سے آگاہ تھا اور اسے بتانے والا کوئی اور نہیں خود رانی تھی۔
چند روز بعد میں عید کے لیے بستی جانے کو نکلا تو شاد اور صدر
مجھے بند روڈ تک چھوڑنے آئے۔ہم نے گلی اور راستے میں تصاویر بنائیں۔تب گلی کے آخر میں کھیت شروع ہو جاتے تھے اور بند روڈ تک طرح طرح کی سبزیاں بیجی ہوئی تھیں۔ان تصاویر کا تذکرہ اس لیے ضروری ہے کہ یہ مشاق صدر سے میری آخری ملاقات تھی۔میں عید کے بعد واپس آیا تو وہ دوبارہ ترکی چلا گیا تھا اور میری کہانی سے ہمیشہ کے لیے غائب ہو گیا تھا۔سُنا تھا یہ فیصلہ اس کی ماں کا تھاجو لوگوں کے گھر پر آ کر دھمکانے کے بعد اسے لاہور میں رکھنے پر راضی نہیں تھی۔
سلیم شاد فیملی کی مالی حالت پہلے سے پتلی ہو چکی تھی۔ان کے بڑے بھائی اپنی کمپنی کی مارکیٹنگ میں ناکام رہے تھے اور شاد صاحب کو میری مصاحبت سے فرصت نہیں تھی۔حاکم اور نذر کالج میں مست تھے کہ نذر ہیلی کالج سٹوڈنٹس الیکشن میں ترقی پسندوں کی طرف سے صدارت کا امیدوار تھا۔میں بھی کبھی ہلے گلے میں شرکت کے لیے ہیلی کالج چلا جاتا تھا۔یہ الیکشن نذر نے بہت کم ووٹوں سے ہارا۔تالیف ِقلب کے لیے وہ کہیں شمالی علاقوں کی طرف نکل گیا۔وہاں جانے کس سے اور کہاں ملا کہ واپس آیا تو صوفی ہو چکا تھا۔پھر یہ مرض بڑھ کر جنون میں تبدیل ہو گیا اور وحشت اس قدر بڑھ گئی کہ الیکڑک شاکس دینے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑا۔تب گھر والوں نے زنجیروں میں جکڑ کر رکھنا شروع کیا اور برسوں بعد میں نے اسے دیکھا تو یقین کرنا مشکل تھا کہ یہ شخص کبھی مباحثے کا دھنی اور ہیلی کالج جیسے ادارے میں صدر کے عہدے کا امیدوار رہا ہو گا۔
اسی رہائش پر ایک بار شکور اور ایک ہی بار گلفام صاحب ملنے آئے۔انہوں نے فون کر کے داتا دربار سےاچار منگوا رکھنے کی فرمائش کی تھی۔مجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ اچار کتنا اور کس چیز کا درکار ہے۔میں نے دربار مارکیٹ جا کر تحقیق کی تو ہر طرح کا اچار دو روپے سیر دستیاب تھا۔میں نے آٹھ طرح کے اچار مکس کرائے اور سولہ سیر کا ایک ڈھکن والا ٹین مع مزدوری کے بتیس روپے میں خرید لایا۔اگلے روز میں نے یہ اچار گلفام کی نذر کیا تو اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔تب پتا چلا کہ انہیں تو صرف دو سیر کا ایک ڈبہ چاہیے تھا۔خیر طے ہوا کہ وہ اسے جاننے والوں کو بھجوا دیں گے وگرنہ یہ نعمت دکاندار کو لوٹانا آسان نہ تھی۔

آئی کام کے امتحان سے پہلے ہی میرے یک ماہی ایف۔اے کا رزلٹ آ گیا تھا۔یہ نتیجہ میاں چنوں کے پتے پر آیا تھا اور اتفاق سے میں اس وقت وہیں موجود تھا۔میں خاصے اچھے نمبروں سے کامیاب ہوا تھا اور اس کامیابی نے ایک ہی لمحے میں میرے اندر کی اداسی اور یاسیت کو دھو ڈالا تھا۔پھر بھی ایک بات میری لیے اچبھنے کا باعث تھی اور وہ یہ کہ میرے نمبر اردو میں بہت کم تھے۔حالاں کہ وہی دو پرچے تھے جو میں نے بہت اعتماد سے حل کیے تھے۔میرا ادعا ہے کہ اردو کے استاد پرچوں پر مہر کی نگاہ کم ہی ڈالتے ہیں۔اگر انہوں نے میرے پرچوں پر نگاہ ِ غلط انداز بھی ڈالی ہوتی تو میرے نمبر ڈیڑھ گنا ضرور ہوتے۔
میرے بڑے بھائی مہر نواب کہا کرتے تھے کہ ان پڑھ امیر والدین کے بچے پڑھ جاتے ہیں کہ ان پر قدغنیں کم ہوتی ہیں اور وہ کہیں نہ کہیں سے کنی کترا کر آگے نکل ہی جاتے ہیں۔مجھے ان کی رائے سے اتفاق نہیں اور میری اور میرے بھائی بہنوں کی اولاد نے ان کے تجزیے کو باطل کر دیا ہے مگر اپنے سلسلے میں میں ان کی رائے سے متفق ہوں۔اگر ابّاجی لکھے پڑھے ہوتے تو مجھے اس نوع کے تجربے نہیں کرنے دیتے اور شاید میں کچھ بھی نہ کر پاتا مگر یہ لکھتے ہوئے اس بات کا دھیان بھی آیا ہے کہ تعلیم یافتہ ہونے کی صورت میں میرے والد میرے رجحان ِطبع کو دیکھتے اور مجھے اس شیطانی چکر میں گھرنے کی زحمت ہی نہیں کرنی پڑتی۔
کئی ماہ پہلے ہی سے میں نے ڈائری لکھنی شروع کر دی تھی۔پہلے انگریزی میں لکھی،پھر ناگفتنی کے اخفا کے لیے کچھ ایسے حروف ایجاد کیے جو کسی زبان میں مروج نہیں تھے اور صرف مجھے معلوم تھا کہ کون سا حرف کس انگریزی حرف کا متبادل ہے۔کہیں ان کی ایک کلید بھی محفوظ کی تاکہ بھول جانے پر اصل حرف تک رسائی ممکن ہو۔کچھ دیر میں نے ایجادِ بندہ رسم الخط کو اپنایا اور اس میں اس قدر مہارت ہو گئی کہ آئی۔کام کا امتحان دیتے ہوئے بعض اوقات اسی خط کا سہارا لیتا۔لکھ لینے کے بعد احساس ہوتا کہ کچھ غلط ہو گیا ہے مگر تب اصلاح کا وقت کہاں تھا اور اب اس قفل کا کھولنا بے سود ہے۔
اسی زمانے میں منٹو پارک میں بھٹو کی وہ تقریر سنی،جس میں مشرقی پاکستان جانے والے منتخب نمائندوں کی ٹانگیں توڑنے کی دھمکی دی گئی تھی۔بھاشانی کی درگت ساہیوال کے اسٹیشن پر کئی برس پہلے دیکھ چکا تھا۔شیخ مجیب الرحمٰن سے نہ معلوم کیوں نفرت کی بجائے ایک خاص طرح کی یگانگت کا احساس غالب تھا اور جی چاہتا تھا کہ جمہوریت کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے اسے حکومت کرنے کا موقع ضرور دینا چاہیے۔بھٹو سے بہت متاثر تھا مگر اس کی تقریر سے کسی غیر معمولی سانحے کے وقوع پذیر ہونے کی بُو آتی تھی۔اب سوچتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ بُو اس دور کے حکمرانوں کو کیوں نہیں آئی اور وہ کیسے آنے والے سانحے کے ادراک سے محروم رہے؟
امتحان کے بعد میں اپنا بستر بند جس میں بستر سے زیادہ کتابیں بندھی تھیں اور اٹیچی لے کر میاں چنوں چلا آیا۔اپنی چارپائیاں،میز اور کرسیاں مع کچھ آرائشی سامان کے حاکم اور نذر کو دے آیا تھا۔ایک رات پہلے رانی کو ملاقات کے لیے آنے کو کہا تھا مگر اس رات شاد صاحب میری ہی طرف ٹک گئے اور میرے لاکھ ٹالنے کے باوجود ٹلے ہی نہیں۔دراصل انہوں نے مجھے بتائے بغیر اپنی فلیٹس والی محبوبہ کو میرے کمرے میں ملاقات پر راضی کیا تھا۔مجھے معلوم ہوتا تو میں رانی کو دعوت نہیں دیتا مگر اب بہت دیر ہو چکی تھی۔میں نے طے کیا کہ دستک ہونے پر دروازہ میں ہی کھولوں گا اور رانی کو کوریڈور ہی سے لوٹ جانے کو کہہ دوں گا۔اس لیے میں دروازے پر جانے کو اُتاولا رہا مگر ہوا یہ کہ دستک ہونے پر دروازہ کھولا تو باہر اندھیرے کوریڈور میں کوئی اور ہی تھا جو مجھے دیکھتے ہی تیزی سے پلٹ کر سیڑھیوں میں غائب ہو گیا اور میں اس کی صورت دیکھنے کا شرف بھی حاصل نہیں کر پایا۔ میں پلٹا ہی تھا کہ اپنی محبوبہ کی عاجلانہ واپسی کا اندازہ کر کے سلیم شاد نے لپک کر کوریڈور کی لائٹ جلا دی اور یہی وہ لمحہ تھا جب رانی میرے دروازے پر پہنچی۔تب سلیم شاد دروازے میں حق دق کھڑے تھے اور میں ان کے عقب میں اپنی شومئی قسمت پر بےحال۔اس سے پہلے کہ میں شاد صاحب کو دھکیل کر راہ بناتا۔رانی ایک ہی قلانچ بھر کر گلی میں پہنچ گئی تھی اور یہ وہ لمحہ تھا جب میں نے اسے آخری بار دیکھا۔
برسوں بعد میں اپنے سالے کے،جو کھانے کے بہت رسیا ہیں،اصرار پر کرشن نگر کی کسی مشہور حلیم کی دکان کی تلاش میں،ان کی رہنمائی میں،انہیں موٹر سائیکل پر لے کر نکلا تو وہ مجھے عارف چوک لے آئے۔حلیم کی دیگ کے پیچھے صوفی صاحب براجمان تھے جنہوں نے مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا۔گلی میں ٹینٹ لگے تھے اور لوگ آجا رہے تھے۔میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی فرمانے لگے'”اب آ گئے ہیں تو کھانا یہیں کھائیے۔آج رانی کی برات ہے۔آپ کو دیکھ کر سب کو بہت خوشی ہو گی”.
میں نے شکریے کے ساتھ معذرت کی۔ میرے موٹر سائیکل پارک کر کے دکان تک پہنچنے تک نوربھائی اپنی ضرورت کی حلیم پہلے ہی بندھوا چکے تھے۔صوفی صاحب نے لاکھ کوشش کی کہ ہمارے پیسے لوٹا دیں مگر ہم موٹر سائیکل بھگا کر نکل لیے۔شاید میں اپنے آپ سے دور بھاگ رہا تھا مگر آدمی اپنے آپ سے بھاگ کر جائے تو کہاں جائے؟
اب سوچتا ہوں اُس رات میرے کمرے میں سلیم شاد کی موجودگی اس کے اور میرے حق میں کتنی بڑی نعمت تھی۔

درس گاہ – 42

انہی دنوں میں نے حبیب جالب کو سنت نگر چوک میں جاتے دیکھا تو دوڑ کر ساتھ جا ملا اور سلام ِمحبت پیش کیا۔وہ بھی بہت محبت سے ملے۔میری اس محبت کی وجہ ایوبی دور میں ان کی عوامی شاعری بھی تھی اور ان کی کتاب’برگ ِآوارہ’بھی۔جس کی بعض نظمیں مجھے اب بھی یاد ہیں:
‘اردو ادب میں ڈھائی ہیں شاعر میرو غالب آدھا درد
اور اک نظم ہے چوہے پر حامد مدنی کا شہکار۔۔۔۔(نقّاد)
اُسے اک کھلونا لگی ہتھکڑی
مری بچّی مجھے دیکھ کر ہنس پڑی
یہ اور اس نوع کی دیگر نظموں میں متاثر کرنے کی ایک جادوئی طاقت تھی۔شاید اس لیے کہ میں خود شناسی کی منزل سے گزر رہا تھا۔مزاحمت خواہ وہ فادر فگر کے خلاف ہو،مذہب اور معاشرے سے متعلق ہو،زمانے کی استبداد سے وابستہ ہو،فکری استیصال سے منسلک ہو،میرے مزاج کا حصّہ بن رہی تھی۔تب کون سوچ سکتا تھا کہ ایک دن میں خود اس فادر فگر کی ایک ادھوری کل ہوں گا اور ماضی کی معدوم ہوتی صورت کو جسے کبھی مٹا دینے کی حسرت تھی،کہیں غیاب سے امڈ کر ورود کرنے کی آرزو میں مبتلا رہوں گا۔

مشاق احمد صدر افغانستان اور تُرکی گھوم پھر کر واپس آ گئے تھے۔اصل میں ان کے بڑے بھائی سکوارڈن لیڈر تھے اور کسی وجہ سے ترکی میں تعینات تھے بلکہ انہوں نے وہاں شادی بھی کر رکھّی تھی۔ادھر مشاق صاحب کا کام بس جوتیاں چٹخانا تھا اور یہی شغل سلیم شاد کا اور میرا بھی تھا۔اس لیے’ آ ملے ہیں سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک’جیسی صورت کا پیدا ہونا فطری تھا۔میں کالج جاتا تھا۔حاکم اور نذر سے بھی دن رات کی صحبت تھی مگر میرا زیادہ وقت صدر اور شاد کی معیت ہی میں گزر رہا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ دونوں’فُقرے’تھے اور میری مصاحبت کرتے رہتے تھے۔کھانا پینا اور فلم بینی تک میرے پلّے سے ہوتی تھی تو وہ میری آرتی کیوں نہ اُتارتے؟
رانی نے صدر کی واپسی سے پہلے ہی ان کا’خط’ مجھے واپس کر دیا تھا۔پڑھ تو پہلے بھی رکھّا تھا اور میں موصوف کی تحریر کی ادبیت اور جذبے کی شدّت سے متاثر بھی ہوا تھا مگر اسے اب پڑھنے کا مزہ ہی اور تھا۔رس کی ایک ہی پھوار نے میری سوچ کا دھارا بدل دیا تھا۔خط پڑھتے ہوئے میں پہلےجن مقامات پر دُکھی ہوا تھا،وہاں اب ہنسی آتی تھی اور کبھی کبھی طیش مگر صدر کی واپسی پر میں نے کسی ردّ ِعمل کا اظہار کیے بغیر اُس کی امانت اُسے یہ کہہ کر لوٹا دی کہ رانی نے یہ خط لینے سے انکار کر دیا تھا۔جھوٹ بولتے ہوئے مجھے یہ اطمینان تھا کہ خط لیتے ہوئے رانی کو اگر یہ علم ہوتا کہ میری حیثیت صرف پیام بر کی ہے تو وہ یقیناً یہ پلندہ وصول ہی نہیں کرتی۔

رانی کے اعتراف ِمحبت پر مجھے فخر سے پھول جانا چاہیے تھا مگر کسی باطنی کیفیت نے مجھے عجیب سے خوف میں مبتلا کر دیا۔میں آتے جاتے اور محلے میں گھومتے پھرتے ہوئے پہلے کے مقابلے میں زیادہ محتاط ہو گیا اور میرا زیادہ وقت کمرے میں گزرنے لگا۔اُن دنوں میں نے انگریزی اخبار’پاکستان ٹائمز’لگوا رکھّا تھا جس میں قلمی دوستی کا ایک کالم ہوا کرتا تھا۔میں نے مشغلے کے طور پر ڈکشنری کی مدد سے دو ایک نا کتخداؤں کو نہایت نستعلیق انگریزی میں خط لکھے کہ اپنا حال اُن سے بانٹوں مگر جواب نہایت بدخط اور بازاری اردو میں آئے اور ایسے بدمزہ کہ توبہ کرنے ہی میں بھلائی جانی۔نہ معلوم کیوں میں نے حاکم تک کو اپنے اس معاملے سے الگ رکھا حالاں کہ میں اس کے ہر فعل کا رازداں تھا اور وہ میری زندگی کے ہر پیچ و خم سے آگاہ۔ہم نےاسی دور میں بہت سی اچھی انگریزی فلمیں دیکھیں۔الزبتھ ٹیلر اور رچرڈ برٹن کی’کلو پیٹرا،ٹیمنگ دی شِرو’کے علاوہ صوفیہ لورین کی’سن فلاور’ڈیوڈ لین کی’کسنڈرا کراسنگ’کلارک گیبل کی
‘گون وڈ دی ونڈ’ اور انتھنی کوئین،عمر شریف،گریگری پیک،پیٹرو ٹول،جیری لوئس،اور دیگر بڑے اداکاروں کی بیسیوں خوبصورت فلمیں جو ایک طرح سے گورنمنٹ کالج ساہیوال کے سنیما کلب کا تسلسل تھیں مگر اب ان کے دیکھنے کا مزہ اور تھا۔میرے اور حاکم دونوں کے پاس فلموں سے ابھرنے والی جمالیاتی کیفیت سے ادغام کے لیے اپنی اپنی کہانی تھی مگر عجیب بات یہ تھی کہ میری تخئیلی صباحت کی نسبت لاہور سے نہیں تھی۔

تبھی میں نے کسی اخبار میں’دس سوالات’کے تحت قریشی گیس پیپرز اردو بازار کا اشتہار دیکھا۔کالج کے ہیڈ کلرک سے معلوم ہوا کہ عنقریب ضمنی امتحان ہونے والا ہے۔میں نے امتحان دینے کا ارادہ کیا اور لاہور بورڈ سے معلومات لیں تو پتا چلا مجھے اس مقصد کے لیے ملتان بورڈ سے این او سی کی ضرورت ہے۔میں نے سوا پانچ روپے خرچ کیے اور ملتان آ کر ایک ہی دن میں یہ کام نپٹا لیا۔اس عرصے میں مجھے باقیات ِملتان کے دو ایک خط بذریعہ آصف آئے تھے اور اُن میں فراقیہ اشعار کی بھرمار تھی مگر جب رات بھر کے قیام کے لیے میں برکت منزل پہنچا تو پتا چلا کہ دو دیوؤں نے اس خانۂ خالی کو بھر دیا ہے۔افسوس ان کامران رُستموں میں اسلم میتلا شامل نہیں تھے۔میری آمد پر میری بڑی آؤ بھگت کی گئی۔مجھے میرے ہی کمرے میں ٹھہرایا گیا۔اسلم اور طاہر فاروقی سے بھی ملاقات ہوئی مگر دعوت کے باوجود میں کسی چبارے کی سیڑھیاں چڑھا نہ کسی کو اپنے ٹھکانے کی سیڑھیاں چڑھنے دیا۔

لاہور پلٹ کر میں نے اکنامکس،سوکس اور تاریخ کی کتابیں خریدیں۔اگلے ہی روز ایف۔اے کا داخلہ بھجوایا۔قریشی گیس پیپرز منگوائے۔اپنے آپ کو ایک ماہ کے لیے کمرے میں بند کیا تاہم کالج کے معمولات کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھا۔نہ معلوم کیوں میں نے اپنی اس سرگرمی کو کسی پر ظاہر نہیں کیا سوائے سیّد وجاہت حسین کے جنہیں یہ سب بتانے کی ضرورت اس لیے آ پڑی کہ میرے کاغذات کی تصدیق انھوں نے ہی کی تھی۔میں نے دیو سماج روڈ کے ایک سکول میں پرائیویٹ طالب علم کے طور پر یہ امتحان دیا اور یہ امتحان دینے کے بعد قدرے سنجیدگی سے کامرس پڑھنے میں مگن ہو رہا،جس کے امتحان کوئی چار ماہ میں ہونے والے تھے۔

درس گاہ – 41

صوفی ٹی سٹال کی دائیں طرف تبسّم لانڈری تھی اور دو تین کریانے وغیرہ کی دکانیں۔یہ تبسّم صاحب وہی ذاتِ شریف تھے جو قریب قریب ہر فلم میں بےبی جُگنو کے نام سے ہیرو اور کبھی ہیروئن کے بچپن کا رول کیا کرتے تھے مگر اب اُن کے تسلط کا سورج گہنا رہا تھا۔وجہ یہ تھی کہ وہ بچپن کی حد سے نکل رہے تھے اور اپنی نسائی آواز اور چہرے کی ملاحت اور معصومیت ہر دو سے محروم ہو رہے تھے۔اُن کی لانڈری بڑی نہیں تھی مگر اچھی چل رہی تھی۔مستقل گاہکوں کے لیے سیکڑہ کا حساب چلتا تھا۔ہر طرح کے کپڑے دھونے کے لیے لےجاتے ہوئے گن لیےجاتے تھے۔ہر ہفتے گھر پر آ کر کپڑے لے جائے اور پہنچائےجاتے تھے۔میں نے ابھی شلوار قمیص پہننا شروع نہیں کی تھی۔دن بھر ڈریس پینٹ اور شرٹ اور سوتے وقت پاجامہ بشرٹ۔سکھ کمیونٹی کی طرح میرا تعصب بھی یہی تھا کہ شلوار قمیص عورتوں کا ملبوس ہے۔
لاہور پہنچتے ہی میں نے حاکم اور نذر کے ساتھ جا کر انارکلی سے لارنس پور سوانا خریدا تھا اور ڈیڑھ سو روپے فی کس سلائی دے کر دو تھری پیس سوٹ اسحاق اور انگلش ٹیلر انارکلی سے سلوائے تھے۔ماوزے تنگ سے متاثر ہو کر میں نے ایک سوٹ کی ویسٹ کوٹ بند گلے والی بنوائی تھی اور سردیوں میں زیادہ تر یہی سوٹ میرے زیرِ استعمال رہتا تھا۔یہی نہیں میرا ٹھکانہ دیکھنے کے لیے لاہور آنے پر ایک ٹوانہ سٹائل کوٹ(یہ کوٹ گھنٹوں تک لمبا اور قدرے گھیرے دار ہوتا تھا)اپنے ابّا جی کے لیے بھی سلوایا تھا۔یہ پیسے مجھے میری ماں سے ملے اور پہلے سے موجود بنک بیلنس کو چھیڑنے کی ضرورت نہیں پڑی۔
کون یقین کرے گا کہ ضرورت پڑنے پر چیک بیس سے پچاس روپے کے مابین لکھا جاتا تھا اور اسے معمولی رقم نہیں سمجھا جاتا تھا۔

کمرے میں ذخیرہ کرنے کے خیال سے ہم نے ٹولنٹن مارکیٹ کے شاندار سٹورز سے مختلف قسم کے جام اور شربت خرید کیے۔سٹرابیری جام شاید ہالینڈ سے بنا آتا تھا اور ومٹو بھی۔اسی مارکیٹ کی ایک بیکری میں پہلی بار ہنٹر بیف چکھنے کا موقع ملا مگر میرے اندر کے دیہاتی کو بھایا نہیں۔سچ ہے کہ ذائقے کی بھی اپنی تہذیب ہوتی ہے اور کسی خاص پکوان کی طرف آپ کا میلان تربیت اور اجتماعی نفسیات کا حصہ ہوتا ہے۔کوئی چالیس برس پہلے میرے امریکہ میں مقیم برادرِنسبتی نےوہاں کے مقبول کھانوں کے حوالے سے کے ایف سی کا ذکر کیا تو میں نے پہلا سوال یہ کیا تھا کہ اُسے کھاتے کس طرح کی روٹی کے ساتھ ہیں؟یہ بات میرے لیے حیران کن تھی کہ پیٹ بھرنے کے لیے صرف گوشت بھی کھانا ممکن ہے.

گلی کی بائیں جانب ایک ہئیر کٹنگ سیلون مع حمام تھا اور دو ایک مختلف نوعیت کے کاریگروں کی دکانیں۔سردیوں میں ہم سب کے نہانے کا ٹھکانہ یہی تھا مگر میری کوشش ہوتی تھی کہ بال میاں چنوں کے محمد منشا سے ترشواؤں جو نفیس ہیر کٹنگ سیلون کے مالک تھے اور میرے قدردان۔انہوں نے جراحی کے ادھم شاہ سے آُن کا شہر والا مکان خریدا تھا۔وہ رقم لے کر قبضے کے سلسلے میں کچھ لیت ولعل کر رہے تھے۔میرے کہنے پر کرم فرما کر قبضے سے تائب ہو گئے۔یہ دوست نوازی اور دیرینہ محبت کا احیا تھا مگر منشا صاحب نے اسے احسان جان لیا اور شہر بھر میں اُس کی تشہیر کرتے پھرے۔میرے دکان میں جانے پر وہ اپنے ہر اسیر کو یہ کتھا سُناتے تھے اور مجھے شرمندگی ہوتی تھی مگر سچ یہ ہے کہ کہیں اندر ہی اندر مجھے یہ سب اچھا بھی لگتا تھا۔اس لیے بھی کہ میرے ایک استاد میری ایف ایس میں ناکامی اور بعد کی جدوجہد سے نالاں تھے اور شہر میں جا بجا میرے حوالے سے اپنی مایوسی کا اظہار کرتے پھرتے تھے۔ایسے میں منشا کا میرے حق میں اس بلند آہنگی سے کلمہءخیر کہنا میرے لیے بڑی نعمت تھی اور شاید یہی کشش مجھے اس کی دکان پر کھینچ لے جاتی تھی۔
اب سوچتا ہوں تو وہ استاد کچھ ایسے غلط بھی نہیں تھے۔میرا مستقبل بظاہر مخدوش تھا اور اُجالے کی کوئی کرن کہیں دکھائی نہیں دے رہی تھی۔شاید اسی نفسیاتی تشنّج کا اثر تھا کہ اُس دور میں لکھی جانے والی میری کہانیوں کے کردار عام طور پر بی۔اے میں پڑھنے والے طالب علم ہوتے تھے۔

فلیٹس میں رہنے والے دو بھائی محمد سلیم شاد اور اشرف شاد تھے۔اشرف بڑے تھے اور کسی فارماسیوٹیکل کمپنی کے ایجنٹ تھے اور شہر شہر گھوم پھر کر دوائیں بیچتے تھے۔سلیم شاد اور ان کے ایک دوست مشتاق احمد صدر دونوں فارغ اور صرف رومانٹک ہیرو تھے اور ان کی نششت و برخاست اور طرز ِاظہار پر فلمی رنگ غالب تھا۔صدر صاحب کی اس گلی میں روزانہ جبہ سائی کی وجہ میٹرک میں زیر تعلیم ایک لڑکی رانی تھی۔یہ اوپر تلے کی چار بہنیں نہیں چار قیامتیں تھیں اور اسی گلی میں مجھ سے چند مکان آگے رہتی تھیں۔ان میں رانی سب سے چھوٹی مگر فتنہ سامانی میں اور حسن وجمال میں بھی سب سے بڑھی ہوئی تھی۔گلی میں آتے جاتے،کبھی نشست جمائےکبھی بستر لگاتے یا سمیٹتے ہم ان بہنوں کی نظر میں ہوتے تھے مگر مشاق احمد صدر کی آمد پر ان سے کبھی سامنا ہوا ہی نہیں۔ مجھ سے متعارف ہونے کے بعد صدر صاحب ہر روز میرے کمرے میں آ کر اپنا درد ِدل کہنے لگے۔خوش کلام تھے اور ان کا سامع ہونا بُرا نہ تھا مگر میں ان کی مدد کرنے سے بہرطور معذور تھا۔
پھر سُنا وہ تُرکی جا رہے ہیں۔رخصت ہونے سے پہلے انہوں نے لگ بھگ دو سو صفحات کی ایک نوٹ بُک میرے حوالے کی کہ کسی طرح میں اسے رانی تک پہنچا دوں۔یہ ایک طویل خط تھا جگہ جگہ خون آلود قلم میں بھیگا ہوا۔صدر کی منت سماجت پر میں نے رکھ تو لیا مگر سمجھ میں نہیں آتا تھا۔یہ مکتوب الیہ تک پہنچے کیسے؟
آخرِکار میں نے سکول جاتے ہوئے رانی کے تعاقب کرنے کا سلسلہ آغاز کیا۔وہ ابدالی روڈ سے سنت نگر چوک کراس کر کے ایک تنگ گلی سے ہو کر دیو سماج روڈ پر نکلتی تھی اور پرانی انارکلی کے لیڈی میکلیگن سکول جاتی تھی مگر اس تمام عرصے میں وہ اکیلی ہوتی تھی نہ مڑ کر دیکھتی تھی۔ہاں میری صبح کی سیر ضرور ہو جاتی تھی۔لیڈی میکلیگن سکول کے قریب سے میں کوئی سواری لے کر کالج چلا جاتا تھا اور اگلے روز یہ بے سود مشقت پھر دہرائی جاتی تھی۔اس سارے عرصے میں میں نے بڑھ کر فاصلے کو کم کیا نہ کبھی اُس نے احساس دلایا کہ وہ اپنے تعاقب کیے جانے کے عمل سے آگاہ ہے۔تین ماہ ہونے کو آئے تھے اور ابھی تک وہ نوٹ بک اُس تک پہنچ نہیں پائی تھی کہ ایک دن اس تنگ گلی کے آتے ہی اُس کی دوسری سہیلیاں اچانک اُسے اکیلا چھوڑ کر دائیں طرف نکلنے والی گلی میں گُھس گئیں اور وہ اکیلی ہی اپنے مقرر کردہ روٹ پر چلتی رہی۔ہمارے بیچ کافی فاصلہ تھا اور میں قدرے تیز ہوا کہ جلد اس کے قریب ہو سکوں تو میں نے دیکھا کہ اس نے اپنی رفتار بہت کم کر دی ہے۔ایک منٹ سے بھی کم وقت میں اُس کے برابر پہنچ گیا تو اس نے بغیر میری طرف دیکھے ایک ہی لفظ کہا”کہو”!
میں نے فوراً نوٹ بک اُس کے ہاتھ میں تھما دی اور مُڑ کر ایک جنونی رفتار سے واپس چل دیا۔کچھ دیر بعد مڑ کر دیکھا تو وہ گلی میں موجود نہیں تھی اور شاید دیو سماج روڈ کی طرف نکل گئی تھی۔

اُس رات’شبِ برات’تھی۔میں سارا دن باہر رہا۔رات کا کھانا کھا کر پلٹا تو صوفی کے ہوٹل پر چائے پینے کے لیے بیٹھ گیا۔گلی میں بڑی رونق تھی۔پٹاخے پھوڑے جا رہے تھے اور بچّے پُھلجھڑیاں لیے ہوا میں روشنی کے دائرے بنا رہے تھے۔لوگ گلی میں اہلے گہلے پھر رہے تھے۔میں یہ سب دیکھنے میں مست تھا کہ کسی نے حلوے کی ایک ننھی پیالی میری ناک کے سامنے لہرائی۔دیکھا تو رانی تھی اور اس کی آنکھوں میں ایک نامانوس سی چمک تھی۔
"حلوہ کھائیے”اُس نے عجب بے تکلفی سے کہا۔
"وہ خط پڑھ لیا تم نے”میں نے پیالی پکڑتے ہوئے اتنے دھیمے لہجے میں کہا کہ جسے شاید میں ہی سُن پایا ہوں گا۔
"ہاں”اس کا جواب بڑا مختصر تھا۔
"پھر؟” میں نے پہلی بار اُسے آنکھ بھر کر دیکھا
"مگر میں تو آپ سے محبت کرتی ہوں”
ابھی میں اس بات کو سمجھنے کی کوشش میں تھا کہ وہ ہوا کے جھونکے کی طرح لہرائی اور محلے کی دوسری لڑکیوں میں گُھل مِل گئی۔
حلوے کی مٹھاس اور چائے کی حلاوت کے علاوہ بھی فضا میں کچھ رس بھرا ترشح تھا جس نے مجھے صوفی کے ہوٹل کی کُرسی سے دیر تک باندھے رکّھا۔

درس گاہ – 40

کالج سے واپسی پر اُسی دن حاکم نے مجھے ساتھ لیا اور ہم سائیکل چلا کر پُرانی انارکلی کے دو ایک گھر رہائش کےلیےدیکھنےگئے۔حاکم،نذر، عامررضاخاں(اداکار یوسف خاں کے قریبی عزیز تھے)اور مجھ سمیت چار افراد کے لیے چار کمروں کا گھر کرایے پر درکار تھا مگر جو گھر ہمیں پسند آتا تھا،اس کے مالک کو ہم پسند نہیں آتےتھے اور جو لوگ ہمیں پسند کرتےتھے،ان کے مکان ہماری ضرورت کے مطابق نہیں تھے۔آخرِکار عارف شاہ سٹریٹ سنت نگر میں جو نہرو پارک سے آگے ابدالی روڈ پر چوہان سٹریٹ سے پہلے اور کرشن نگر چوک سے ترچھی نکلنے والی حیدریہ روڈ کے ادغام کے مقابل تھی اور جس کے دائیں طرف بعد میں سیّد ہاسٹل کی عمارت بنی،پانچ مرلے کا ایک مکان ملا۔ یہ مکان چوک میں گلی کا پہلا مکان تھا اور اس میں بھی تین ہی کمرے تھے مگر اسی مالک کا ایک اور مکان گلی میں ایک مکان کے فاصلے پر اور تھا،جہاں ایک کمرہ مع غسل خانے کے دستیاب تھا۔یہ گھر بھی کرایےپر چڑھانے کی غرض سے بنا تھا۔گلی کے رُخ پر اور اس کے پیچھے گزرگاہ کے رُخ پر کھلنے والا کمرہ ایک یا دو افراد کے رہنے کے لیے تھے۔ان کمروں کے سامنے گزرگاہ تھی اور صحن کے سامنے اوپر تلے چھے مختصر فلیٹس۔اویر والے فلیٹس کی سیڑھیاں بائیں جانب سے تھیں اور اس کی گزرگاہ نیچے والے فلیٹس کے برآمدے کا کام دیتی تھی۔سو کہا جا سکتا ہے کہ ان فلیٹس میں پردے کا انتظام خاصا معقول تھا۔
ہمارے مسئلے کا حل مکان اور مزید ایک کمرہ لینے میں تھا جہاں ہم میں سے کوئی ایک ٹِک جائے اور ہم نے ایسا ہی کیا۔مکان کا کرایہ ایک سو بیس روہےعلاوہ بلز اور کمرے کا کرایہ بیالیس روپے مع یوٹیلٹی بلز تھا اور اس مع کی وجہ یہ تھی کہ مکان کا بل مشترکہ آیا کرتا تھا اور اس میں سے دو چھڑےکمروں کےحصے کےچار روپے مقرر تھے۔یعنی کمرے کا اپنا کرایہ چالیس روپے تھا۔
ہم نے یہ گھر اور کمرہ لینے پر رضامندی ظاہر کی تو گھنٹہ بھر میں چابیاں ہماری جیب میں تھیں۔یہ مہینے کے آخری دن تھے۔حاکم مجھے لے کر اگلے ہی روز بانساں والا بازار گیا۔مجھے اعتراف ہے کہ بانس سے بنی چارپائی میرے لیے نئی دریافت تھی اور اس سے زیادہ بانس کی کرسیاں اور بُک ریک۔کہیں اور سے ہم نے لکڑی کی ایک میزخریدی اور دو چارپائیاں،دو کرسیاں اور ایک سٹڈی چیئر لے کر ہم اپنے سامان کے ساتھ اس گھر میں شفٹ ہو گئے۔پرانی انارکلی والے کمرے کی مالک خاتون ہمارے جانے پر کافی دُکھی تھی مگر شاید حاکم نے یہ فیصلہ میرے لیے کیا تھا اور مجھےاس اعانت کی ضرورت بھی تھی۔
حاکم اور نذر کئی برس سے ساتھ رہ رہے تھے۔اس لیے میں نے کمرے کا انتخاب کیا۔سب کچھ مرتب کرنے میں دس منٹ لگے۔پھر ہم لوگ نابھہ روڈ پر مدینہ ہوٹل پر آئے وہاں پینتالیس روپے ماہانہ پر دو وقت کےکھانےکاطےکیا اور کالج کے قریب حبیب بنک میں اکاؤنٹ کھلوا کر چھے سو روپے ان کے حوالے کیے۔تب بھی میرے پاس اتنی رقم موجود تھی کہ میں ایک سو بیس روپے میں آٹھ تصاویر بنانے والا ایک ایسا کیمرہ خرید سکوں،جس کے فریم کو اوپر سے دیکھا جائے اور تصویر کی کوالٹی بھی بے مثل ہو۔رولی فلیکس کا یہ کیمرہ میں نے نئی انارکلی کی ایک فوٹو شاپ سے خریدا اور ڈاکٹر ریاض حسین بزدارجنہیں میری والدہ نے بیٹا بنا رکھا تھا اور میں بھی اپنا بڑا بھائی جانتا تھا،کے ضبط کر لینے تک میں نے اس سے بیسیوں یادگار تصاویر بنائیں۔
حاکم والے مکان کے سامنے گلی کے دوسرے کونے میں صوفی ٹی سٹال تھا۔ہمارا ناشتا یہیں سے آتا تھا۔کبھی وہیں بیٹھ کر کھا پی لیا کبھی آواز دے کر اپنے کمرے میں منگوا لیا۔ناشتے میں آملیٹ،خاگینہ
،فرائیڈ انڈہ اور پراٹھا مل جاتا تھا اور کپ کیک اور رس بھی۔کمرے میں ناشتا صوفی کی دکان کا چھوٹا پہنچاتا تھا۔کبھی وہ موجود نہ ہوتا تو وہ اپنی نوجوان بیٹی کو بھجوا دیتا جو آتی تو میرا کمرہ بھی صاف کر جاتی۔کبھی کسی نے اعتراض کیا نہ شک۔کمرہ صاف کرنے کا کوئی معاوضہ نہیں تھا اور نہ ہی کبھی مجھے کسی معاوضے کا دھیان آیا۔اب سوچتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ اُن دنوں مجھے اس کے لڑکی ہونے کا دھیان بھی کم ہی آتا تھا۔میرا کمرہ ایسی جگہ پر تھا کہ دھوپ آتی ہی نہیں تھی۔اس لیے سردیوں میں گلی میں دفتر لگا لیتا تھا اور گرمیوں میں ہم سب رات کو باہر پنکھا لگا کر سو جاتے تھے۔کبھی کسی کو اعتراض ہوا نہ سوئے ہوؤں کی کبھی کوئی شے گم ہوئی۔
گلی میں کھلنے والے کمرے میں سیّد وجاہت حسین رہتے تھے۔آپ پنجاب یونیورسٹی میں کیمیکل انجینئرنگ کے استاد تھے اور شاید ابھی ابھی سروس میں آئے تھے۔شرمیلے،کم گو اور بہت نستعلیق آدمی تھے۔مجھ سے جلد ہی گاڑھی چھننے لگی تھی مگر گلی میں بیٹھنے اور سونے پر کبھی آمادہ نہیں ہوئے۔اُن سے اُن کے شعبے میں بھی ملاقاتیں رہیں اورجب امتحان دینے کے لیے میری اسناد کی تصدیق کی ضرورت پڑی تو یہ خدمت بھی انہوں نے انجام دی۔ہمارے بیچ ضرورت پڑنے پر پیسے کا لین دین بھی تھا مگر اس کا طریق ِکار بہت دلچسپ تھا۔ہم اس سلسلے میں آپس میں بات نہیں کرتے تھے۔ہمارے کمرے کے بیچ ایک دروازہ تھا جو دونوں طرف سے بند رکھا جاتا تھا۔ضرورت پڑنے پر اس دروازے کے نیچے سے ایک خط ہلکی سی دستک دے کر روانہ کر دیا جاتا تھا جو مطلوبہ رقم سے بھر کر لوٹ آتا تھا۔ادھار کی واپسی کا پروٹوکول بھی یہی تھا اور یہی رہا۔
اس دوران میں میں نے لاہور کو خوب گھوم پھر کر دیکھا۔کالج کے کسی دوست کو ساتھ لے کر آوارہ گردی کی جاتی۔تصاویر بنتیں۔لاہوری کھانے کھائے جاتے۔پٹھورے،پائے،چانپ اور ٹکاٹک وغیرہ اُسی زمانے میں دریافت کیے۔نہاری اور حلیم شوق سے نہیں کھاتا تھا اور دہی سے نفور کی وجہ سے پیٹھی والے لڈّو اور دہی بھلّے سے کبھی نسبت پیدا نہ ہو سکی۔مدینہ ہوٹل پر پرچی سسٹم تھا۔اس لیے بعض اوقات میرا ایک مہینہ کہیں دو مہینوں میں جا کر پورا ہوتا۔
کالج جاتا تھا مگر کامرس کے مضامین میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی۔یوں بھی پارٹ سیکنڈ کے ایڈمشن نے مشکلات پیدا کر دی تھیں کہ مضمون کی بنیادی اصطلاحات کا مجھے علم ہی نہیں تھا مگر میں کالج جانے میں بے قاعدہ نہیں تھا۔انارکلی اور مال کی کتابوں کی دکانوں پر گھومنے سے بہت سے رسائل سے آگاہ ہو گیا تھا۔فنون کے علاوہ اوراق،نئی قدریں،افکار،سیپ،حرم،زیب النسا،حور وغیرہ میرے مطالعے میں رہنے لگے تھے۔نقوش اور سویرا سے بھی آگاہی تھی مگر کم۔آداب عرض کے مدیر خالد بن حامد کو جا کر ملا تھا اور اس نے آتے رہنے کی صلاح دی تھی مگر ابھی ادیبوں سے میل ملاقات کا سلسلہ آغاز نہیں ہوا تھا۔
انہی دنوں کالج میں طلبہ کو کالج میگزین’المعیشت”کے لیے لکھنے کی دعوت دی گئی۔میں نے انگریزی میں ایک مضمونAtom and the man اور مختصر ڈرامہ Justice of the new king لکھے اور ریاض صاحب کے حوالے کر دیے۔مجھے ان کے مسترد ہونے کا سو فیصد یقین تھا مگر وہ چھپ گئے۔1970 کا سال تھا اور میں اٹھارہ برس کا ہو چکا تھا جب مجھے یہ عزت نصیب ہوئی اور مجھے لگا کہ اب میں کھل کر سانس لے سکتا ہوں۔اسی برس میری کچھ نظمیں ‘آداب عرض’میں شائع ہوئیں اور کچھ مزاحیہ تحریریں کچھ فکاہیہ رسائل میں جو اب میرے پاس محفوظ نہیں۔

درس گاہ – 39

میں گورنمنٹ کالج ساہیوال میں فرسٹ ائیر میں پڑھتا تھا کہ”برکت منزل”سے چچا(پیر برکت علی شاہ)کی جیپ چوری ہو گئی،جس کا الزام علاقے کے ایک اور زمیندار ناصر دین شاہ پر تھا مگر چچا نے مقدمہ درج کرایا نہ بظاہر کوئی اور کارروائی کی۔اُسی شام ان کی بیگم ملتان کے کسی اور زمیندار کی گاڑی پر میاں چنوں ہمارے گھر تشریف لائیں اور ابّاجی کو شاہ صاحب کا پیغام دیا کہ نئی گاڑی کے لیے پیسوں کا انتظام کریں کہ اس وقت ان کے پاس گاڑی خریدنے کے لیے رقم موجود نہیں اور وہ اس وقت تک کوٹھی سے باہر نہیں نکلیں گے جب تک اُسی رنگ اور کمپنی کی نئی گاڑی دروازے پر نہیں آجائے گی۔
ابّاجی نے ہم بھائیوں کے نام پر دس ہزار روپے فی کس حبیب بنک میں پانچ سال کے لیے فکس کر رکھے تھے۔اُن میں سے معاہدہ شکنی کے جرمانے کی کٹوتی کے بعد اٹھارہ ہزار نکلوائے گئے اور بیس ہزار روپے پورے کر کے شاہ صاحب کو بھجوائے گئے۔مجھے یاد ہے نئی ولز جیپ اس وقت 18365 روپے کی ملی اور بیس ہزار میں شاہ صاحب بڑے کرّوفر سے جراحی پہنچے تھے۔

اس دوران مزے کی بات یہ ہوئی کہ ایوّب خان کی حکومت جاتی رہی۔عنان ِحکومت "My fellow Pakistanies” سے شروع ہونے والے مختصر خطاب کے بعد یحیٰی خان نے سنبھال لی۔مارشل لا لگا تو پیر ظہور حسین قریشی کے ذریعے چچا سے مذاکرات اور صلح کی گئی اور ایک برانڈ نیو ولس جیپ برکت منزل پہنچائی گئی.مارشل لا کے دبدبے کا یہ عالم تھا کہ میاں چنوں کے ہم سب دوست جو اُس وقت ہماری بیٹھک میں گپ شپ کر رہے تھے۔اس خیال سے خوب گلے مل کر رخصت ہوئے کہ دیکھیے اگلی ملاقات کی کیا صورت ہو۔
جیپ کی واپسی کے بعد چچا دونوں جیپیں لے کر ہمارے گھر تشریف لائے اور ابّا جی کو نئی جیپ اپنے لیے رکھنے کو کہا مگر ہماری کم عمری اور اپنی کہولت کی عمر کو پہنچنے کی وجہ سے ابّا نے انکار کر دیا۔اس سے زیادہ تفصیل مجھےمعلوم نہیں مگر اتنا جانتا ہوں کہ میرے والد نے اپنے پیسے کبھی واپس نہیں مانگے۔یہی وہ زمانہ تھا جب ڈپٹی صاحب نے میرے والد کو گلبرگ لاہور میں صرف بتیس ہزار میں ایم ایم عالم روڈ سے متصل غالب مارکیٹ کی طرف گھر لینے کی صلاح دی تھی اور ابّا جی نے اسے بے مصرف جان کر خریدنے سے معذرت کر لی تھی۔

اس سے اگلے برس شاہ صاحب کے سب سے چھوٹے بیٹے مراتب علی شاہ کی شادی تھی۔جس میں میرے والد نے نیگ اور ویل کے علاوہ دو ہزار روپے کی سلامی دی تھی۔بارات شاہ صاحب کے بھائی حسن شاہ کے ہاں گئی تھی اور دولہے کا شہہ بالا یہ احقر تھا۔اس شادی میں میری ملاقات پکا حاجی مجید کے اصغر علی شاہ کھگہ سے ہوئی اور ایک ہی دن میں ہم نے دوستی کی تمام منزلیں طے کر لیں۔مجھے یاد ہے کہ بارات کے ساتھ جاتے ہوئے میں نے دولہا کے ساتھ گاڑی میں براجمان ہونے کی بجائے اصغر کے ساتھ اُس کی ہیوی بائیک (نارٹن 5ہارس پاور)پر جانا پسند کیا تھا۔دلھن کی طرف کی ساری رسموں میں شامل رہا۔دلھن کی سہیلیوں سے لین دین میں معاونت کی۔دولہا کی جوتی اور چُھری کی حفاظت کی اور اگلے روز ماں کے کہنے پر اُس کا دیا ہوا ایک جڑاؤ سونے کا سیٹ لے کر دلھن کی منہ دکھائی کی رسم ادا کرنے پہنچا مگر اس نے سامنے آنے سے انکار کر دیا اور میں سیٹ وہیں چھوڑ کر پلٹ آیا۔شاید اسی واقعے نے مجھے مراتب سے قدرے دور کر دیا اور آہستہ آہستہ وہ میرے چھوٹے بھائی کے قریب ہو گیا۔

خیر یہ تو ایک جُملہء معترضہ تھا۔اس ساری کتھا کے سُنانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ لاہور جانے سے پہلے داخلے کے انتظار کے دن میں نے اصغر شاہ اور مشتاق احمد شاہ کھگہ(بعد میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ممبر صوبائی اسمبلی پنجاب)کے ساتھ کیرم کھیل کر گزارے۔اُن دنوں اصغر شاہ ملتان اور مشتاق احمد شاہ لاہور میں پڑھ رہے تھے اور تعطیلات پر گاؤں آئے ہوئے تھے۔وہ کم وبیش روزانہ میرے ہاں آجاتے تھے۔دوپہر کا کھانا بیٹھک ہی میں کھایا جاتا تھا اور ہم طالب کو ساتھ بٹھا کر دو یا چار کھلاڑیوں کے کمبی نیشن بنا کر کھیلتے تھے۔اس سرگرمی کا فایدہ یہ ہوا کہ ہم سب اس کھیل میں مشّاق ہو گئے۔
اس کے علاوہ حق نواز کے ساتھ شام کی نور شاہ تک سیر اور گاہے بگاہے شکار پر راوی کا جانا بھی برقرار تھا۔راوی یاترا پر جاتے ہوئے چودھری دلدار حسین پاندھا کے ڈیرے پر ٹھیکی لگائی جاتی تھی۔اُن کے صاحب زادے سجّاد سے میری گُوہڑی چھنتی تھی اور اُن کے علاوہ جراحی کے سجّاد حسین شاہ سے بھی جو پیر عاشق حسین کے فرزند تھے اور ہمارے مشترک دوست۔
اسی زمانے میں مجھ پر کچھ رنگ ِمیر بھی چڑھنے لگا تھا۔کبھی چاند میں تو کوئی صورت دکھائی نہیں دی مگر کہیں دو آنکھیں مجھ پر نگراں ضرور تھیں یا شاید میں اُن کا متلاشی تھا۔میری شاعری میں ایک غیر واضح شکل اپنے خدوخال سنوارنے لگی تھی مگر میں اتنا جانتا تھا کہ ایسی کوئی صورت گردونواح میں موجود نہیں اور نہ ہی اس کی غیب سے نمود کا کوئی امکان تھا۔
اس سے قدرے پہلے میں نے اردو ڈائجسٹ میں احمد ندیم قاسمی کا تعارف پڑھا اور حرم گیٹ سے متصل بُک سٹور سے اُن کی اور فراز کی چند کتابیں خریدی تھیں۔فیص سے فرار تک گویا پانی ایک ہی دھارے میں بہہ رہا تھا۔اس لیے میں ترقی پسند ہو گیا اور یہ ٹیڑھ کسی نہ کسی رنگ میں ابھی تک میرے مزاج کا حصّہ ہے۔

ایک بار سجّاد پاندھا کی طرف گیا تو وہ اپنے عزیزوں کے ساتھ میز پر کیرم جمائے کھیلنے میں مصروف تھا۔اتفاق سے انہیں چوتھے کھلاڑی کی تلاش تھی اور وہ اس بات سے بے خبر تھا کہ یہ سرگرمی میرے گھر پر روز کا معمول ہے۔یوں بھی میں نے میڑک کرنے سے پہلے ہی کیرم خرید لیا تھا اور گھر کے اندر بہن بھائیوں کے میچ بھی ہوتے رہتے تھے۔میں اچھّے کھلاڑیوں میں شمار ہوتا تھا مگر سجّاد کی دعوت پر میں نے اس کھیل سے نابلد ہونے کا تاثر دے کر انکار کر دیا۔اُس کے اصرار اورسِکھا دینےکی آفر پر بیٹھ گیا تو کیرم کھولتے ہی ایک ہی سٹروک میں پانچ گوٹیاں پاکٹ کر دیں،جسے محض اتفاق گردانا گیا۔میں نے لاکھ بُرا کھیلنے کی کوشش کی مگر میدان میں اور میرے ساتھی کے ہاتھ رہا تو میرے ساتھی کو تبدیل کر کے نیا بورڈ لگایا گیا۔نتیجہ اب بھی وہی رہا تو سجاد صاحب ون ٹو ون کا چیلنج کر کے میرے سامنے آ بیٹھے۔اب بھی جیت میری ہوئی تو وہ ہکّا بکّا رہ گئے۔فرمانے لگے”میں نے آج تک کسی شخص کو اس تیزی سے اس کھیل میں مشّاق ہوتے نہیں دیکھا”تو میں نے عرض کیا کہ میں نے بھی کوئی ایسی کرامت نہیں دکھائی۔یہ صرف اس لیے ممکن ہوا ہے کہ میں یہ کھیل کئی برسوں سے کھیل رہا ہوں اور آپ نے بغیر تحقیق کیے مجھے اناڑی سمجھ لیا۔حالاں کہ آپ کو پہلے ہی سٹروک میں سمجھ لینا چاہیے تھا کہ پانچ گوٹیاں پاکٹ کیوں ہوئیں۔
یہ تین ماہ یا اس سے زیادہ کچھ عرصہ میں نے بستی اور میاں چنوں میں گزارا۔پھر حاکم داخلے آغاز ہونے کی خبر لے کر پہنچا۔ساتھ ہی اُس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ داخلہ آئی کام پارٹ سیکنڈ میں ہو گا تاکہ میری سٹڈی کا ایک سال بچایا جا سکے۔ماں باپ نے مجھے ایک ہزار روپے دے کر رخصت کیا۔میرے سامان میں ایک بستر بند اور ایک سیمسونائیٹ کا اٹیچی تھا جو میں نے حرم گیٹ بازار ملتان سے خریدا تھا۔لاہور پہنچنے پر رات ہم ہیلی کالج کے سامنے ایک گلی میں ٹھہرے۔یہ کمرہ حاکم اور نذر کے پاس کرایے پر تھا۔کھانا نابھہ روڈ کے مدینہ ہوٹل سے کھایا گیا جہاں ان دونوں کا حساب چلتا تھا۔صبح کوئینز روڈ پر گنگا رام ہسپتال سے ذرا آگےایک کوٹھی میں واقع اسلامیہ کالج آف کامرس پہنچے۔اس قدر نحیف اور مختصر کالج دیکھنے کا یہ میرا پہلا اتفاق تھا۔بہت مایوسی ہوئی مگر اب لوٹ جانے کی کوئی صورت نہیں تھی۔اُس وقت اس کالج کے پرنسپل رانا شبیر احمد اور ہیڈ کلرک شبیر احمد شاہ تھے جو ایسی آواز کے مالک تھے کہ اوٹ سے اُن کی آواز سننے پر اُن پر عورت ہونے کا قوی گمان گزرتا تھا مگر تھے کمال کے آدمی۔داخلہ ہونے میں چند منٹ لگے اور میں پہلے ہی روز کلاس میں جا بیٹھا۔یہ انگریزی کی کلاس تھی اور پروفیسر صاحب کا نام ریاض حسین تھا۔میری انگریزی اگر اچھی نہیں تھی تو بُری بھی نہیں تھی۔یوں بھی یہ مضمون میں ایف ایس سی میں کلئیر کر چکا تھا۔اردو کے استاد پروفیسر محمد ادریس تھے۔بہت برسوں بعد پتا چلا کہ وہ نقّاد ہیں اور سجّاد حارث کے قلمی نام سے لکھتے ہیں۔ان کی دو معروف کتابیں "ادب اور جدلیاتی عمل ” اور ” ادب اور ریڈیکل جدیدیت”تھیں۔وہاں بھی خیریت ہی گزری۔خرابی تو پرنسپل آف اکاؤنٹنگ کے پیریڈ میں ہوئی،جس کا نام ہی میں پہلی بار سُن رہا تھا مگر یہ خرابی کیمسٹری اور ریاضی کی خرابی کے مقابلے میں بہرحال فروتر تھی۔

درس گاہ – 38

ملتان سے وداع ہونے کا وقت آ گیا تھا مگر اُس روز میاں چنوں کے لیے نکلتے ہوئے میں ابھی کسی فیصلے پر نہیں پہنچا تھا۔غالب خیال یہی تھا کہ دو ایک روز شہر اور گاؤں میں رہ کر واپس آ جاؤں گا اور "ماموں” کو ماموں بناؤں گا مگر جب میں گھر پہنچا اور ماں سے اپنی صحت کا خیال نہ رکھنے پر ڈانٹ سہہ چکا تو اُسی شام لاہور سے حاکم علی رضا ملنےچلے آئے۔یہ ملاقات طے شدہ نہیں تھی اور وہ میاں چنوں آ کر اتفاقا ً ادھر چلے آئےتھے،گو اُن دنوں ہماری خط کتابت زوروں پر تھی اور میں اُن کی داستان ِعشق کا مستقل قاری تھا۔وہ اپنے ہر خط میں”پیاسا”کے گرودت محسوس ہوتے تھے ۔لاہور کے ماہر عکس پردازوں سے نہایت یاسیت زدہ تصویریں کھنچوا کر بھیجتے تھے اور مجھے حیرت ہوتی تھی کہ بیوی کے ہوتے ہوئے کوئی کسی لڑکی کے لیے ایسا پاگل بھی ہو سکتا ہے؟
حاکم سے دوستی مجھے ورثے میں ملی تھی۔میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ اُن کے والد میرے والد اور بڑے بھائی مہر نواب کے بیک وقت دوست تھے۔وہ جب کبھی کسی کام سے یا ویسے ہی ملنے کو بستی آتے تھے۔میاں چنوں سے ہو کر آتے تھے اور نہایت اعلیٰ درجے کا گوشت اور ترکاری پکڑے آتے تھے۔اُن کو گوشت کی اس قدر پہچان تھی کہ سیخ کباب کھاتے ہوئے بتا دیتے تھے کہ اس میں کس جانور کے کس حصے کا گوشت استعمال ہوا ہے۔اس کا دو ایک بار میں نے خود امتحان لیا اور کباںیے نے حیرت انگیز طور پر اُن کی تجزیے کی تائید کی۔شاید یہی وجہ تھی کہ شادی بیاہ کے موقع پر بکرے خریدنے سے لے کر کھانا پکوانے تک کی ذمہ داری اُن کے سر ہوتی تھی اور تقسیم کی میرے بھائی مہر مراد کے،جو کفایت شعاری میں اس حد کو پہنچے ہوئے تھے کہ دوسری بار سالن مانگنے والوں سے ضرور پوچھ لیتے تھے کہ بھئی کیوں اور کس لیے؟
تواضع کی یہ صفت حاکم اور اس کے چھوٹے بھائی ریاض میں بھی تھی اور ان کا آنا سب کو اچھّا لگتا تھا۔اس بار حاکم کا اتفاقی پھیرا اس لیے بھی خوش کُن تھا کہ اب اسے سُنانے کو میرے پاس بھی اک کہانی تھی۔سب سے مل جل کر ہم الگ ہو بیٹھے تو ہم دونوں نے اپنی کہانیوں کا تبادلہ کیا۔
ہماری پچھلی ملاقات کے بیچ ایک واقعہ ایسا پیش آیا تھا کہ جس کے باعث موصوف کو مجھ سے معمولی سا گلہ تھا کہ موصوف کی محبوبہ میرے موسمی بخار کی خبر پا کر عیادت کے لیے میرے گھر دوڑی آئی تھی اور اپنی بڑی بہن کے استفسار پر اپنی جان بچانے کے لیے میں نے کہہ دیا کہ وہ حاکم کی بیگم ہیں۔تب مجھے اس بات کا خیال ہی نہیں رہا کہ میری بہن اور ماں نہ صرف حاکم کی بیگم کو جانتی ہیں بلکہ متعدد بار مل بھی چکی ہیں۔
مگر حاکم کی آمد پر گھر کے کسی فرد نے اس مسئلے کو نہیں چھیڑا اور نہ چھیڑنے کی وجہ شاید یہ تھی کہ اس بلا کو وہ مجھ سے منسوب جانتے تھے۔اُن دنوں میری بڑی بہن کے مجھ پر عدم اعتماد کی کیفیت یہ تھی کہ عیادت کے واقعے کے بعد ایک بار جب ہم دوست ہنسی مذاق میں لاڈو کی کوئی بات کر بیٹھے تو میری بہن کو اُس وقت تک ہم سب پر شک ہی رہا،جب تک وہ لاڈو سے مل نہیں لیں جو ہمارے ہی ایک دوست کا اُس کی عدم موجودگی میں لیا جانے والا صفاتی نام تھا۔
سب اچھا محسوس کرنے پر حاکم نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں ملتان کی بلاؤں میں خود بھی دلچسپی رکھتا ہوں۔میرے پاس اس کا کوئی واضح جواب نہیں تھا مگر میں نے یہ ضرور واضح کر دیا کہ میں اب ایف ایس سی کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا اور ممکن ہو تو اس کا کوئی حل نکالا جائے۔اُن دنوں حاکم اور نذر اسلامیہ کالج آف کامرس لاہور سے آئی کام کرنے کے بعد ہیلی کالج آف کامرس میں بی کام میں پڑھ رہے تھے سو حاکم نے مجھے فوراً آئی کام میں داخلے کی صلاح دی اور اس سلسلے میں میرے والد سے بات کر کے مجھے لاہور لے جانے کا ذِمّہ بھی اُٹھایا تو میں نے بلا سوچے سمجھے اس کی تجویز پر لبیک کہا۔
حاکم نے اگلے ہی روز میرے ابّاجی سے بات کی اور مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ دیرینہ تعلق کی وجہ سے میرے والد اُسے میرے سب دوستوں میں افضل جانتے تھے۔وہ ذرا سی پس وپیش کے بعد راضی ہو گئے اور میں اگلے ہی روز ملتان جا کر اپنا بوریا بستر لے آیا۔