سجاول لاج میں قیام کے دوران میں گرمیوں کی تعطیلات ہم اپنی بستی میں گزارتے تھے۔وہیں کھا پی کر پیپل کے نیچے اپنا بستہ بکھیر کر چھٹیوں کا کام نبیڑتے ہوئے کبھی پینگھ جھوٹ لی،کبھی بہن بھائیوں اور دیگر عزیزوں کے ساتھ لُڈّو کھیلی اور کبھی حق نواز کے ساتھ شطرنج کی بازی لگتی۔نویں جماعت میں تھا جب میں چالیس روپے میں شہر کے ایک بُک سٹور سے ایک لکڑی کے باکسز والا نفیس کیرم بورڈ خرید لایا تھا۔اس کے بورڈ بھی جمائے جاتے کہ آہستہ آہستہ تمام کُنبہ اس میں طاق ہو گیا تھا۔یہ بورڈ برسوں موجود رہا اور علاقے بھر کے دوست احباب کھیلنے کے لیے آتے رہے۔
تعطیلات میں شہر سے رابطہ بحال رہتا تھا۔کام اور کام کے بغیر بھی میں دوستوں سے ملنے کے لیے دوسرے تیسرے روز تانگہ جوت کر ممّو ماچھی اور کبھی خادم شرنائی کے ساتھ شہر چلا جاتا تھا۔ایسے ٹور میں عام طور پر تانگہ ماسٹر عبدالحق کے دروازے پر کھول دیا جاتا تھا،وہاں ملازم کو بیٹھنے کا ٹھکانہ مل جاتا تھا اور مجھے آوارہ گردی کی آزادی۔ٹھکانے تو اور بھی بہت تھے مگر ماسٹر صاحب کی عینک زدہ غصیلی آنکھوں اور میری تعلیمی حالت پر تند و تیز سوالات کی بارش کے باوجود وہی ایک جگہ ایسی تھی جہاں بے کھٹکے براجمان ہوا جا سکتا تھا۔میں ہی نہیں گھر کے سب افراد ماسوائے ابّا جی کے براجمان ہوتے بھی تھے اور شاید وہاں ہماری آمد کا انتظار کیا جاتا تھا مگر یہ ایک ناپختہ وہم تھا اور اب بھی ایک ناپختہ احساس ہی ہے۔
میٹرک کے امتحان قریب آ گئے تو دوستوں میں مقابلے کی فضا پروان چڑھنے لگی۔پہلے میں اور غلام حیدر وائیں کے بھانجے ظفر نے دو رُکنی گروپ بنایا اور لیڈیز پارک (اب چلڈرن پارک)میں جا کر پڑھنا شروع کیا جہاں سایہ دار درختوں اور پھولوں کی بہتات تھی۔پھر ممتاز کے ساتھ جوڑی بنی اور میرے گھر پر بیٹھک جمنے لگی۔موصوف اس قدر جُنونی نکلے کہ الجبرا کے کورس میں شامل 114 پرابلمز کو ہر روز دُہرانے پر اُتر آئے۔شاید اسی کا ردّ ِعمل تھا کہ بعد میں مَیں اپنی تعلیمی زندگی میں صرف آخری دو تین مہینے ہی کورس کی کتابوں پر مہربان رہا اور میٹرک میں ریاضی میں میری شاندار کامیابی اس مضمون میں میری آخری کامیابی ثابت ہوئی۔
میٹرک کا نتیجہ میری توّقع کے برعکس تھا۔مجھے سکول میں اوّل آنے کی آرزو تھی مگر یہ ممکن نہیں ہو سکا۔یہی نہیں کم وبیش میرے سب دوستوں کے نمبر مجھ سے زیادہ تھے۔ہمارے سیکشن(C) کا رزلٹ حیران کن تھا۔پچاس طلبہ میں سے چالیس سے زیادہ کی فرسٹ ڈویژن آئی تھی۔میرے نمبر بھی اتنے بُرے نہیں تھے کہ کسی اچّھے کالج میں داخلہ نہ مل سکتا۔سکول میں ظفر کی پہلی اور شاکر کی دوسری پوزیشن تھی اور کہیں آٹھویں دسویں نمبر پر ہم بھی تھے. سنپالوں میں سائنس کے ساتھ اچھی فرسٹ ڈویژن کے ساتھ میٹرک پاس کرنے کی یہ پہلی مثال تھی تاہم میں اپنے رزلٹ سے مطمئن نہیں تھا اور اس تعلیمی نظام کا پینتیس برس حصّہ رہ کر آج بھی میں اچھّے بُرے نمبروں کو محض اتفاق جانتا ہوں۔آپ وہاں کیا کریں گے جہاں پانچ ممتحن ایک ہی جوابی کاپی کو سینتیس سے تہتّر نمبروں کا حق دار قرار دیں۔یہ تجربہ میں صدر ممتحن کی حیثیت میں کر چکا ہوں۔جب میں نے پانچ ممتحن حضرات کو انٹر میڈیٹ اردو کی ایک ہی جوابی کاپی کی فوٹو سٹیٹ فراہم کر کے مارکنگ کرائی اور درج ِ بالا نتیجہ پایا۔
اس ضمن میں ایک اور واقعہ بھی شاید میری بات کی تصدیق کے لیے مناسب ہو۔ملتان میں سنٹر مارکنگ کے دوران میں میری نشست دوسرے نمبر پر تھی۔کل چھے ممتحن تھے اور ہر ممتحن ایک سوال مارک کر رہا تھا۔پرچہ مارک ہو کر اسسٹنٹ کے پاس جاتا تھا اور وہ ٹوٹل کر کے اپنے پاس رکھ لیتا تھا۔اس زمانے میں کسی موضوع پر مضمون لکھنے کے تیس نمبر تھے۔اتفاق سے پہلے ممتحن نے یہی سوال مارک کیا اور اگلے سوال کی مارکنگ کے لیے پرچہ مجھے بھجوا دیا۔انہوں نے مضمون کے اکیس نمبر دے رکھے تھے۔میں نے طالب علم کی استعداد کا اندازہ کرنے کے لیے مضمون پر سرسری نظر ڈالی تو ایک دلچسپ بات دریافت کی،سو میں نے اپنا سوال مارک کرنے کے بجائے پرچے کو نظر ِثانی کے لیے پہلے ممتحن کو لوٹا دیا۔انہوں نے دو نمبر بڑھا کر پرچہ لوٹا دیا۔میں نے پھر واپس بھیجا تو انہوں نے پھر دو نمبر بڑھا دیے۔جب میں نے یہ گُستاخی تیسری بار کی تو وہ ناراض ہو گئے اور فرمایا کہ اگر اُمیدوار میرا سگا بھائی ہے تب بھی وہ مزید نمبر بڑھانے سے معذور ہیں۔تب میں نے عرض کیا کہ صاحب اگر یہ طالب علم میرا بھائی بھی ہے تو صفر نمبر کا حقدار ہے۔اس لیے کہ اُس نے جو مضمون لکھا ہے اور جس کاوش پر آپ پچیس نمبر دے چُکے ہیں،اُس موضوع پر مضمون لکھنے کے لیے کہا ہی نہیں گیا۔
اُس وقت تک میاں چنوں میں کالج کا وجود نہیں تھا۔خُدا بخش آسی صاحب کی جگہ میرے والد کی سفارش سے کچھ عرصہ ثاقب صاحب ہیڈ ماسٹر رہ چکے تھے مگر اب پھر آسی صاحب ہیڈ ماسٹر تھے اور کالج پراجیکٹ کے انچارج بھی۔وہ کبھی میرے استاد نہیں رہے مگر ان کے اچھے منتظم ہونے میں کوئی شبہ نہ تھا۔میرے احباب میں سے کچھ لاہور کے لیے پر تول رہے تھے مگر اکثریت کی رائے گورنمنٹ کالج ساہیوال کے حق میں تھی۔میں تو لاہور جانے کے خواب دیکھ رہا تھا مگر میری ماں کو میرا وہاں جانا منظور تھا نہ باپ کو۔اپنے لاہور کے اکلوتے آزاد پھیرے میں مَیں گورنمنٹ کالج کو گھوم پھر کر دیکھ چکا تھا اور شہر میں صاحب ِجمال لوگوں کے پرے بھی۔پھر بھی ماں کا دل رکھنے کے لیے مجھے ساہیوال میں داخلے کے لیے ہاں کرنا پڑی۔اس میں ایک کشش اس لیے بھی تھی کہ میں جب چاہے ایک روپیہ دس آنے خرچ کر کے ڈیڑھ گھنٹے میں گھر آ سکتا تھا۔اپنی بستی کا چکّر لگا سکتا تھا اور شہر کی گلیوں کی خاک چھان سکتا تھا۔جہاں خاک چھاننے کی روایت تو نہیں تھی مگر کسی روایت کی بنیاد رکھنے کا شرف لکیر پیٹنے سے افضل ہوتا ہے اور کیا بُرا تھا اگر یہ فضیلت میرے حصّے میں آتی