ریت میں ڈھلتے پتھر
پانی ہوتی ریت
دھند میں چھپتا پانی
دھوپ میں جلتی دھند
دھوئیں میں گھلتی دھوپ
نیند میں بہتا زہر
سلگ اٹھے ہیں
ایک طلسمی آنچ سے کتنے شہر
کون ہے جس نے
خواب نگر پر ڈھایا ہے یہ قہر!
Author Archives: Ghulam Hussain Sajid
بیاں اُس بزم میں میری کہانی ہو رہی ہے
بیاں اُس بزم میں میری کہانی ہو رہی ہے
ادائے خاص سے رنگیں بیانی ہو رہی ہے
مہک آتی ہے اِک سیلی ہوئی آزردگی کی
کوئی شے ہے جو اِس گھر میں پرانی ہو رہی ہے
نظر آتے نہیں اَب شام کو اُڑتے پرندے
تو کیا اِس شہر سے نقل مکانی ہو رہی ہے؟
بُلاوا آ گیا ہے اب کسے کوہِ ندا سے
مری اطراف میں کیوں نوحہ خوانی ہو رہی ہے؟
لبوں پر ہے کسی شیریں دہن کے ذکر میرا
خزاں کی شام ہے اور گل فشانی ہو رہی ہے
گریزاں ہیں مری صحبت سے کتنے لفظ ساجد
ثمر آور مگر فصلِ معانی ہو رہی ہے
ماورائے سراغ ہوں مَیں بھی
ماورائے سراغ ہوں مَیں بھی
کوئی رنگِ فراغ ہوں مَیں بھی
فخر ہے اپنی کم نمائی پر
اپنے ہونے پہ داغ ہوں مَیں بھی
گفتگو کا اُسے سلیقہ نہیں
اور بہت بددماغ ہوں مَیں بھی
اپنے دشمن کی سرخروئی پر
کس لیے باغ باغ ہوں مَیں بھی
سبز ہے خاک میرے گریہ سے
راحتِ باغ و راغ ہوں مَیں بھی
رات پڑتی نہیں جہاں ساجد
اُس گلی کا چراغ ہوں مَیں بھی
…………………………
مجموعہ کلام : ہست و بود
مطبوعہ: اکتوبر ٢٠١٨ء
رنگِ ادب پبلی کیشنز ، کراچی
Punjabi Poetry
Interview – Subrang TV USA
Ghulam Hussain Sajid in SukhunwerGhulam Hussain Sajid in Sukhunwer
Posted by Subrang TV USA on Monday, December 10, 2018
درس گاہ – 52
سراج منیر مولانا متین ہاشمی کے فرزند تھے اور یکم جون 1951ءکو سید پور مشرقی پاکستان (موجودگی بنگلہ دیش)میں پیدا ہوئے۔یہ خاندان غازی پور (یوپی-بھارت)سے ہجرت کر کے مشرقی پاکستان منتقل ہوا تھا۔سراج اپنے والد کے بڑے صاحب زادے تھے اور بلا کے ذہین۔میڑک میں وہ پورے مشرقی پاکستان میں اوّل آئے۔زوال ِڈھاکہ کے بعد یہ خاندان کراچی منتقل ہوا اور پھر لاہور۔سراج سے جب میری ملاقات ہوئی تو وہ بی۔اے کر چکے تھے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم-اے انگریزی میں داخلہ لینے والے تھے۔یہی زمانہ تھا جب میں اورینٹل کالج میں داخلے کے انتظار میں تھا۔فرق صرف یہ تھا کہ اردو یا پنجابی میں ایم-اے کرنا میری منزل نہیں تھی جب کہ سراج منیر اپنی منزل سے بخوبی آگاہ تھا اور میری طرح اندھیری رات کا مسافر نہیں تھا۔
دو چار ملاقاتوں ہی میں کُھل گیا کہ سراج منیر اور ہمارے مطالعے میں ایک اور دس کی نسبت ہے۔وہ اردو اور فارسی کلاسک کو کھنگال چکا تھا اور یہاں یہ عالم تھا کہ کلاسک سے آشنائی کے عمل کا ابھی آغاز ہی نہیں ہوا تھا۔میں نے نسیم حجازی سے انتظار حسین تک کو تو پڑھ رکھّا تھا مگر کلاسیکی شاعری اور نثر سے واسطہ تھا نہ طبیعت اسے پڑھنے پر مائل ہوتی تھی۔اس لیے جب سراج کی گفتگو میں کلاسیکی ادب کے حوالے آتے اور وہ کسی شعر یا نثر پارے کو اپنی دلیل کی صداقت کو بڑھانے کے لیے پیش کرتا تو میں سوائے داد دینے کے اور کچھ کہہ ہی نہیں سکتا تھا۔اس پر اس کی خطابت۔زبان اور صنائع لفظی و معنوی کی خوبیوں سے بھری۔ایک دل موہ لینے والی تاثیر اور دماغ کو مسخّر کرتے دلائل سے لبالب۔جس میں انگریزی کے توسط سے عالمی ادب کے وسیع مطالعے کا تڑکا لگا ہوا یعنی سونے پر سہاگا ہی نہیں کچھ اس سے فزوں تر۔بس وہ کہے اور سُنا کرے کوئی۔یہی وجہ تھی کہ جب یہ آواز حلقۂ اربابِ ذوق میں گونجی تو اپنی جگہ بناتی ہی چلی گئی۔سراج منیر نے میری میز کو بدستور سجائے رکھّا مگر بہت جلد وہ لاہور کے ہر معقول ادیب و شاعر کا محبوب بن گیا۔انتظار حسین،پروفیسر سجاد باقر رضوی،سجاد رضوی،سہیل احمد خان،مسعود اشعر،محمد سلیم الرحمٰن،زاہد ڈار اور تبسّم کاشمیری جیسے نابغے اس کی راہ دیکھنے لگے اور مجھ سمیت میری عمر کے اکثر نوجوان اس کی محبت میں مبتلا ہو گئے۔
سراج ہی کے توسط سے میں کراچی کے بہت سے لکھنے والوں سے آشنا ہوا اور دوستوں کا ایک وسیع حلقہ وجود میں آیا۔اُس نے میرے فکری منہاج کے تعین میں بھرپور حصہ لیا،اس کے باوجود کہ فکری لحاظ سے ہم دو الگ بلکہ متضاد رویوں کے لوگ تھے۔اس کی نسبت دائیں اور میری بائیں بازو سے تھی مگر اس میں بھلائی کا پہلو یہ تھا کہ وجود کی تکمیل ان دونوں کے ملاپ سے ہوتی ہے۔کلوینو کے دو لخت شہزادے کی طرح ہر حصہ اپنی جگہ مکمل ہو کر بھی دوسرے حصے کو پائے بغیر سود مند نہیں ہو سکتا اور میری اور سراج کی ذات میں خیر کا پہلو شاید ہمارے اختلاف ِرائے کے استحکام ہی سے ممکن تھا۔
سراج نے شاید ٹھان رکھّی تھی کہ وہ میری شاعری کی تحسین کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کہے گا۔میں نے جب بھی کسی ادبی حلقے میں کوئی چیز تنقید کے لیے پیش کی۔وہ میری مدح کو وہاں موجود ہوتا تھا۔یہی نہیں اردو اور عالمی ادب کے حوالے سے اس کے تعین ِقدر میں اس قدر اضافہ کرتا تھا کہ مجھے خود پر فخر محسوس ہونے لگتا تھا اور بعض اوقات یقین نہ آنے پر اس کی اور اپنی دماغی صحت پر شبہ بھی ہوتا تھا مگر سچ یہ ہے کہ وہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہوا کرتا تھا۔مجھے معلوم تھا کہ میں بُرا شاعر نہیں ہوں اور معمول سے مختلف بھی ہوں سو اس امر کی طرف نشاندہی کرنے میں کیا برائی تھی؟
سراج منیر تصویری (photo genic) یاداشت کے مالک تھے اور اردو/انگریزی ادب کے حوالے دیتے ہوئے اصل عبارت کو اپنی یاداشت کے سہارے دہرانے پر قادر تھے۔اس سلسلے میں ایک واقعے کا بیان دلچسپی کا حامل ہو گا۔حلقہ کے اجلاس سے پہلے ہم پاک ٹی ہاؤس کی سیڑھیوں کے پاس بیٹھے گپ ہانک رہے تھے کہ اجلاس شروع ہونے پر پروفیسر شہرت بخاری ہمیں دھکیل کر اجلاس میں لے گئے۔صدارت پروفیسر سجاد باقر رضوی کی تھی۔ادب پارے کا تنقیدی محاکمہ کرتے ہوئے سراج منیر نے کسی مغربی نقاد کا قول اپنی دلیل کو باوزن بنانے کے لیے دہرایا تو باقر صاحب نے گرفت کرتے ہوئے فرمایا کہ مغربی ناقدین کا حوالہ دے کر اپنی بات کو مؤقر بنانا رواج پایا گیا ہے۔مجھے شبہ ہے کہ جس ناقد کا حوالہ سراج منیر دے رہے ہیں،اس نے شاید ہی کبھی ایسی کوئی بات کی ہو۔اب معلوم نہیں باقر صاحب سراج کے زورِ بیان پر گرفت کر رہے تھے یا اس کی یاداشت کو آزمانا چاہتے تھے مگر سراج کو اُن کا استہزائیہ انداز کھا گیا۔اس نے تڑپ کر بصد معذرت عرض کی کہ اس وقت اس کے پاس مذکورہ ناقد کی کتاب موجود ہے اور اگر جنابِ صدر اجازت دیں تو وہ اپنی دلیل کے حق میں سنائی گئی کوٹیشن کو اس کے سیاق و سباق کے ساتھ کتاب سے پڑھ کر سنانا پسند کرے گا۔باقر صاحب نے ایک دل فریب مسکراہٹ کے ساتھ اجازت دی اور سراج نے کتاب کھول کر اور صفحہ نمبر بتا کر کم و بیش ایک صفحہ مذکورہ کوٹیشن سمیت پڑھ کر سّنا دیا۔
اجلاس کے اختتام پر ہم دوبارہ اپنی میز پر آ بیٹھے۔میں نے سراج سے کہا کہ ممکن ہو تو مذکورہ کتاب دو ایک دن کے لیے مجھے عنایت کرے۔اس نے کہا کہ آج نہیں۔ہاں کل وہ میرے لیے کتاب لیتا آئے گا اور میں اپنی سہولت سے پڑھ کر اسے لوٹا دوں۔میں نے اصرار کیا کہ جب کتاب موجود ہے تو اسے کل پر کیوں ٹالا جائے اور کچھ زبردستی کرتے ہوئے کتاب چھین لی مگر کھول کر دیکھا تو وہ کشف المحجوب کا کوئی نسخہ تھا۔میں حق دق رہ گیا اور پوچھا کہ اس نے وہ طویل عبارت کہاں سے پڑھی تھی تو سراج نے اپنے سر کو انگلی سے چھو کر کہا”یہاں سے”.
یہ سراج کی کہانی کا ابتدائیہ ہے۔1974 سے اس کی وفات تک اس میں عمودی اسراع کی کیفیت ہے۔مجھے شعر کہہ کر سب سے پہلے اسے سنانا اچھا لگتا تھا اور اس کی شاعری اور تنقیدی مضامین کا پہلا سامع بھی میں ہی ہوا کرتا تھا۔اس کی شاعری میں ایک دل موہ لینے والی تازگی تھی اور مضامین میں نئے پن اور تخلیقی اپج کے ساتھ ساحری کی سطح کو چھوتی دل نشین نثر جو اپنے اندر معانی کا ایک جہان لیے ہوتی تھی۔اس زمانے میں اس نے چند کہانیاں بھی لکھیں جو انتظار حسین اور سریندر پرکاش کے اسلوب سے متاثر ہونے کے باوجود موضوع اور تخلیقی ندرت کی سطح پر منفرد تھیں اور جن میں ہم عصریت کا پرتو بہت واضح تھا۔
سراج منیر کی کہانی لکھنا مجھ پر قرض ہے۔اس لیے بھی کہ یہ میری کہانی کا حصہ ہے اور اس لیے بھی کہ ہماری کہانی ایک دوسرے کی کہانی میں اس طرح دھنسی ہوئی ہے کہ اسے الگ کر کے دیکھنا ضروری ہے۔بہت کچھ ہے جو بتانا ضروری ہے اور بہت کچھ ہے جس کا چھپانا لازم ہے مگر یہ فیصلہ کرنا ابھی لازم ہے نہ ضروری۔ابھی تو وہ گورنمنٹ کالج اور میں یونیورسٹی اورینٹل کالج میں داخلے کے منتظر ہیں اور ہماری گاڑی اسٹیشن سے نکلنے کے انتظار میں ہے۔
درس گاہ – 51
ریڈیو پاکستان لاہور کے پروگرام یونیورسٹی میگزین میں ہم دوست یا ہماری ٹولی ایک ساتھ مدعو کی جاتی تھی۔اس ٹولی میں مابدولت کے علاوہ علی ظہیر منہاس،علی نوید بخاری،ظفر رُباب،امجد
منہاس،نگہت رضوی،زاہد کامران،عبدالحکیم عامر اور اور اختر کاظمی کی حیثیت مستقل تھی۔کبھی کسی نئی آواز کو بھی موقع دے دیا جاتا تھا۔تہتّر کے آخر اور چوہتّر کے اوائل تک ہم کم و بیش ہر پروگرام کا حصّہ بنے جن کی میزبانی پروفیسر قیوم نظر،پروفیسر عارف عبدالمتین،پروفیسر امجد اسلام امجد(جو اُس وقت ابھی لڑکے ہی تھے) اور علی ظہیر منہاس نے کی۔
اس سلسلے میں تین واقعات ایسے ہیں جو اب تک ذہن سے نہیں اترے۔اس لیے ان کا اجمالی ذکر کرنا مناسب ہو گا۔
پروفیسر قیوم نظر کی میزبانی میں ایک پروگرام اقوام ِمتحدہ کی پچیسویں سالگرہ کے موقع پر نشر کیا گیا۔اس کے لیے تمام شرکا کو اقوام ِمتحدہ کے مقاصد کے حوالے سے نظمیں پڑھنا تھیں۔ریکارڈنگ سے پہلے پروفیسر صاحب میری نظم کے دوسرے بند پر معترض ہوئے اور نظم کو پہلے بند پر ہی ختم کرنے کی صلاح دی۔یہ صورت مجھے منظور نہیں تھی سو میں نے شمولیت سے معذرت چاہی تو ساتھی شعرا نے میری شمولیت پر اصرار کیا مگر پروفیسر صاحب اپنی ضد پر اڑے رہے۔ہم نے آپس میں مشورہ کیا اور طے پایا کہ میں بظاہر پروفیسر صاحب کی بات مان لوں گا مگر ریکارڈنگ کے وقت پوری نظم پڑھوں گا۔بعد میں جو ہو گا دیکھا جائے گا۔سو میں پروگرام کا حصّہ بنا اور پہلے بند پر داد کا سلسلہ جاری تھا کہ میں نے دوسرے بند کو قدرے تیزی سے اس طرح نمٹا دیا کہ میزبان کو خبر ہونے تک میں اپنا کام کر چکا تھا۔عجیب بات یہ کہ کسی نے مشاعرے میں خلل نہیں ڈالا۔بعد میں کینٹن پر چائے پیتے ہوئے پروفیسر صاحب مجھ پر خوب برسے مگر ہم نے ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے کا بتایا اور عرض کی کہ انہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ پرڈیوسر پروگرام نشر کرتے وقت نظم کو ایڈیٹ کر دیں گے اور آپ اسے میرا آخری پروگرام جانیے مگر جب پروگرام نشر ہوا تو اسے ایڈٹ نہیں کیا گیا تھا۔ہاں میں اگلے پروگرام کی ریکارڈنگ کے لیے گیا تو میزبان اور پروڈیوسر دونوں نئے تھے۔آپ کی دلچسپی کے لیے نظم ذیل میں درج کرتا ہوں۔واضح رہے کہ یہ نظم میری کسی کتاب کا حصّہ نہیں:
"پچیسویں سالگرہ پر”
ہمیں یہ خبر ہے
نیویارک کی وہ عجوبہ عمارت
جو سب کی لہو رنگ تیرہ نگاہوں کا مرکز بنی تھی
ابھی تک اُسی شان سے سر اُٹھائے کھڑی ہے
ہمیں علم ہے امن کے دُکھی دل پریشاں پجاری
جو انسانیت کی بھلائی کی خاطر
اندھیری رُتوں میں اکٹھّے ہوئے تھے
ابھی جاگتے ہیں
ہمیں علم ہے جنگ اور نفرت کسی مسئلے کا
تدارک نہیں ہے
ہمیں یہ خبر ہے ہمارے مرّبی
بنی نوعِ انساں کو لاحق مسائل کا حل ڈھونڈنے کے لیے جاگتے ہیں
ابھی جاگتے ہیں
۔۔۔۔اگر جاگتے ہیں تو کیوں ہم ابھی تک
اسیر ِشبِ قہرِ آزردگی ہیں؟
اندھیرے کی تہ میں نہاں ہو رہی ہے ہماری بصیرت
بدن ہیں قضا کی شقاوت سے گھایل
اُفق تا اُفق بہ رہا ہے ہمارا لہو خاکداں پر
مسلسل سُکڑتی چلی جا رہی ہے زمیں کارواں ہر
ہمارے سروں پر ابھی تک مسلّط ہیں کیوں یہ مسائل؟
دوسرے واقعے کی نسبت علی ظہیر منہاس کے ایک پرستار سے ہے۔اب میں ان کا نام بھول گیا ہوں مگر اتنا یاد ہے کہ وہ شاعر نہیں تھے اور صرف ریڈیو اسٹیشن دیکھنے کے شوق میں ساتھ ہو لیے تھے۔وہ کچھ چل بے چل سے تھے۔اس لیےانہیں ہدایت کی گئی کہ وہ ریکارڈنگ کے وقت خاموش رہیں گے اور داد دینے کی زحمت نہیں کریں گے۔انہوں نے اس ہدایت پر عمل بھی کیا مگر جب ظفر رباب اپنی غزل کے اس شعر پر پہنچے:
میں نے بارش کی دُعا مانگی تھی فصلوں کے لیے
گھر کی دیوار سے پانی بھلا کیوں رِستا ہے؟
تو وہ اپنی چُپ کو برقرار نہیں رکھ سکے اور ایک تیز رعد جیسی آواز میں گرج کر فرمایا”سبحان اللہ! کیا غُربت ِوطن ہے؟”. اُن کا یہ فرمانا تھا کہ سب حق دق رہ گئے،شاعر اگلا شعر پڑھنے کی بجائے انہیں دیکھتے رہ گئے۔ پروڈیوسر تڑپ کر اندر چلے آئے۔ریکارڈنگ روک دی گئی۔مہمان کو باہر کا راستہ دکھایا گیا اور بقیہ مشاعرہ اس کے بعد ریکارڈ کیا گیا۔
تیسرے واقعے کی اہمیت اس لیے ہے کہ وہ ایک نئی محبّت کی بنیاد بنا۔اس روز یونیورسٹی میگزین کے مشاعرے میں ایک نیا نام سراج منیر نامی ایک نوجوان کا تھا۔میزبان نے اس نام کو آخر میں درج کر رکھا تھا۔یعنی مشاعرے کا اختتام اُن کی غزل پر ہونا تھا۔مجھے تو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا مگر علی ظہیر منہاس اس معاملے میں بہت حسّاس تھے۔وہ معترض ہوئے اور ان کے موقف کی سبھی نے حمایت کی تو سراج منیر کا نام کہیں درمیان میں درج کر دیا گیا اور انہوں نے اس تبدیلی کو خوش دلی سے قبول بھی کیا۔اُن کی یہ ادا مجھے اچھی لگی۔ریکارڈنگ کے بعد ہم ساتھ ہو لیے۔کنگ سرکل(لکشمی چوک) پر چائے پینے تک ہم دوست بن چکے تھے۔پھر میں انہیں اپنے ساتھ پاک ٹی ہاؤس لے آیا۔مجھے میرے شعری مزاج اور دوستوں کے کراچی میں ایک وسیع حلقے کے باعث "کراچی والا” کہا جاتا تھا اور سراج منیر تو آئے ہی کراچی سے تھے۔اس لیے ہمیں بے تکلّف ہونے میں دیر نہیں لگی۔ہم نے ثروت حسین اور شاہدہ حسن کی شاعری پر بات کی۔قمر جمیل،سلیم احمد،اطہر نفیس،رئیس فروغ وغیرہ کو یاد کیا اور پاک ٹی ہاؤس میں ایک میز پر ساتھ بیٹھنا آغاز کیا۔یہ سلسلہ برسوں پر محیط رہا۔جس کی تفصیل الگ دفتر کی متقاضی ہے۔
یہ وہی سراج منیر ہیں جو بعد میں ادارہ ثقافت ِاسلامیہ کے کم عمر ترین ڈائریکٹر بنے۔کتاب”ملت ِاسلامیہ۔۔تہذیب و تقدیر”کے خالق تھےاور بے مثل شاعر اور نہایت فطین نقّاد۔اُن کی شخصیت کا ایک خفی پہلو ہجو نگار ہونا ہے مگر وہ یہ کام تن ِتنہا سر انجام نہیں دیتے تھے بلکہ محمد خالد اور اس فقیر کی معیت میں تکمیل کو پہنچاتے تھے۔اس کے لیے ایک اجتماعی تخلص”غریب و سادہ و رنگیں”استعمال کیا جاتا تھا جو دراصل "سراج و خالد و ساجد”کی متبادل صورت تھی۔
کبھی اُفتاں کبھی خیزاں غریب و سادہ و رنگیں
تمھارے شہر میں مہماں غریب و سادہ و رنگیں
درس گاہ – 50
سن تہتّر کی یہ ششماہی کئی لحاظ سے یادگار رہی۔سیف زلفی کے حلقۂ اربابِ قلم سے میں نے اپنی مجلسی زندگی کا آغاز کیا۔مجھے یاد ہے جس روز میں نے وہاں تنقید کے لیے نظم پیش کی۔دل میں رد و قبول کے خوف سے عجب دھڑکا تھا مگر خیریت گُزری اور میری نظم کو اسلوب،موضوع اور زبان تینوں حوالوں سے عمدہ قرار دیا گیا۔سیف زلفی کے مزاج میں ایک عجب لپک اور طراری تھی جو اس روز میرے بہت کام آئی اور ان سے ایک طویل نسبت کی بنیاد بنی۔
اسی زمانے میں میں علی ظہیر منہاس اور ظفر رباب کے ساتھ ریڈیو پاکستان لاہور پر متعارف ہوا۔پروگرام یونیورسٹی میگزین تھا اور اس کے پروڈیوسر اسد نذیر تھے۔بعد میں کچھ پروگرام صفدر ھمدانی اور نیلوفر عباسی کے ساتھ بھی کیے۔یہ وہ زمانہ تھا جب ریڈیو میں ایک سے بڑھ کر ایک نابغہ بھرا تھا اور ان کی ادب شناسی اور ادب پروری مسلّمہ تھی۔اس پروگرام میں شرکت کا معاوضہ بیس روپے تھا جو چیک کی صورت میں ادا کیا جاتا تھا اور اس پر دو آنے کا رسیدی ٹکٹ چسپاں کرنے کی ضرورت ہوتی تھی۔جسے منیر نیازی ریڈیو والوں کی سازش گردانتے تھے اور فرماتے تھے کہ انہوں نے ہر چیک پر ایک سانپ بٹھا رکھا ہے جسے دو آنے کا دودھ نذر کیے بغیر خزانے کا دروازہ وا نہیں کر سکتے۔
میرے پہلے ریڈیو پروگرام کے میزبان پروفیسر قیوم نظر تھے۔پروگرام سے پہلے انہوں نے کینٹن پر سب کی غزلیں دیکھیں تاکہ کوئی بے وزن یا بے اوسان شعر لاسلکی طور پر سامعین کے اذہان پر بوجھ نہ بنے۔اسی رو میں اپنی کئی غزلیں سُنائیں۔ایک شعر اب بھی میری یاداشت کا حصہ ہے:
دل توڑ کے جانے والے سُن، دو رشتے اب بھی باقی ہیں
اک سانس کی ڈور نہیں ٹوٹی،اک پریم کا بندھن رہتا ہے
اس نشست میں میں نے اپنی غزل”سنگیت سُریلے کیوں اتنے”سامعین کی نذر کی۔یہ غزل اس سے پہلے”نیا دور”میں چھپ چکی تھی مگر اب تک چُھپی ہوئی تھی۔ریڈیو پر پڑھ کر گاؤں آیا تو یہ عین اس وقت نشر کی گئی جب میرے ابّا جی وقت گزاری کے لیے ریڈیو سُن رہے تھے۔یہ غزل نشر ہونی شروع ہوئی تو مَیں جوتے پڑنےکے خوف سے کھسک لیا مگر انہوں نے ملازم بھیج کر طلب کر لیا اور کچھ اس طرح کا مکالمہ ہوا:
ابّا جی: یہ شاعری جو میں نے ابھی ریڈیو پر سُنی،تم نے کی ہے؟
میں: جی
ابّا جی: انسان کی کوئی ذات نہیں
پھر دیس قبیلے کیوں اتنے
تمہارا شعر ہے؟
میں:جی ہاں
ابّا جی:چنگا اے،چنگا اے۔یار تُوں شعر شُور آکھ لیا کر۔
اس کے بعد بقولِ میاں وارث شاہ”پاڑا کُھل گیا”اور میں نے شاعری کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔
یونیورسٹی میگزین کے میزبانوں میں جناب عارف عبدالمتین اور امجد اسلام امجد بھی تھے۔اسی پروگرام میں ہم سرّاج منیر سے متعارف ہوئے مگر اس کی روداد آگے چل کر۔
پاک ٹی ہاؤس میں اسرار زیدی صاحب سے روز کی ملاقات تھی۔وہ مجید امجد،فیض احمد فیض،منیر نیازی اور ظفر اقبال سے اپنی نسبت کے حوالے سے گُفتگُو کرتے تھے تو ہم اس کی صداقت پر کم ہی ایمان لاتے تھے مگر کسی رسالے میں ان کی ایک تصویر دکھائی دی،جس میں وہ کرسی نشین تھے اور فیض اور مجید امجد ان کے دائیں بائیں ایستادہ تو ان کے کہے پر یقین آیا۔شاید اس بدگمانی کی وجہ ان کی طبیعت کی سادگی تھی۔ٹی ہاؤس کی میز پر ہر کہ و مہ کے ساتھ بے تکلف نشست۔سادہ چائے کے دور۔عمومی زندگی سے جڑی حقیقت پسند گفتگو۔بناوٹ اور احساس ِعظمت سے نفور۔روز گھر واپسی پر سادہ روٹیوں کا پارسل ہمراہ۔سچ یہ ہے کہ یہ سب کچھ انہیں عام بنانے پر تُلا تھا اور جب ہمیں یہ بات سمجھ میں آئی تو ہم بھی خالد احمد کی طرح ان کی پُوجا کرنے لگے۔ان کا کمال یہ تھا کہ وہ پھر بھی عام آدمی ہی رہے اور دھنی رام روڈ سے پاک ٹی ہاؤس کے درمیان ایک پاکیزہ روح کی طرح تیرتے پھرے۔
نئے شاعروں میں جاوید شاہین (زخم ِمسلسل کی ہری شاخ)،سلیم شاہد(صبحِ سفر)اور نذیر قیصر (آنکھیں،چہرہ،ہاتھ)کو پڑھ بھی لیا تھا اور ملاقات بھی رہنے لگی تھی۔ظفر اقبال کی”اب ِرواں”کا بہت شہرہ تھا مگر اس وقت کوشش کے باوجود دستیاب نہیں ہو پائی۔”فنون”کے غزل نمبر میں ان کی ہزلیہ شاعری کا تاثر کچھ اچھا نہیں تھا۔ادبی پرچوں میں بھی وہ اپنے آپ کو غیر سنجیدہ ثابت کرنے پر تُلے تھے اور تو اور انہوں نے”سویرا”کا ایک شمارہ مرتب کیا تب بھی اپنے امیج کو بہتر بنانے کی ضرورت نہیں سمجھی تو ہم نے بھی انہیں جُوں کا تُوں قبول کر لیا۔
یہی وقت ملک بھر کے نوجوان شعراء سے متعارف ہونے کا تھا۔غلام محمد قاصر،شبیر شاہد،محمد خالد،ثروت حسین،صابر ظفر،جمال احسانی،سلیم کوثر،پروین شاکر،شاہدہ حسن،صغیر ملال،ایوب خاور،خالد اقبال یاسر،اصغر ندیم سید،طارق جامی،محمد اظہار الحق،روحی کنجاہی،زمان کنجاہی،یوسف حسن،نجیب احمد سرمد صہبائی،ناصر بلوچ،رمضان شاہد،مشتاق صوفی،اختر کاظمی،اختر ہاشمی،لطیف ساحل،اعزاز احمد آذر ،عبدالستار سید،گلزار بخاری اور بہت سے نئے لکھنے والوں ہمارے حلقۂ احباب میں داخل ہوئے اور بہت سوں سے ایک طویل نسبت کی بنیاد پڑی جو آگے چل کر تحریک کی شکل اختیار کر گئی۔
احباب میں اردو اور پنجابی سے جڑے احباب کی کثرت کا سبب یہ تھا کہ ہم خود دونوں زبانوں میں اظہار کر رہے تھے اور چھپ بھی رہے تھے۔یہ اس لیے کہ ہمارے تخلیقی کُل کو اس کے بغیر ظاہر کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔صرف اردو لکھتے تو محسوس ہوتا جیسے ابھی کچھ کہنا باقی ہے۔یہی کیفیت صرف پنجابی میں لکھنے میں تھی۔شاید ہماری زندگی کی دوہری شباہت دو زبانوں کا لبادہ چاہتی تھی سو ہم نے اِسے آج تک یہ سہولت فراہم کر رکھی ہے اور سچ یہ ہے کہ خاصے سُکھی ہیں۔
اس عرصے میں گاؤں پلٹے تو والد صاحب نے ایک طرح کا مدارالمہام بنا دیا۔غلہ منڈی کے معاملات ہمارے سپرد ہوئے۔حاجی محمد جرولہ،ریاض حسین قریشی،مہر منظور/مہر غلام محمد سنپال،راج محمد پاندہ،الیاس بھٹی،مہر صادق سنپال کی آڑھت کے علاوہ خود ہمارے بھائی مہر نواب اور تایا زاد مہر محمد نے بھی یہ شغل اختیار کر رکھا تھا۔جہاں کسی کو کسی کام کی جلدی نہیں ہوتی تھی۔ابّا جی کے چیک ہم بچپن سے لکھتے آئے تھے اب کیش بھی کرانے لگے تھے۔منڈی سے بھی وصولی کا حق مل گیا تھا۔اس لیے جیب اور نیّت بھری رہتی تھی۔
یہی دن تھے جب لاہور سے یونیورسٹی میں داخلہ فارم جمع کرانے کے لیے بُلاوا آیا اور میں ماں سے معقول رقم اینٹھ کر نواز کے پاس جا پہنچا۔
درس گاہ – 49
کریسنٹ ہاسٹل میں دو برس اور سمن آباد میں چند ماہ کا یہ قیام عجیب رس بھرا تھا۔اب سوچتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ لاہور میں قحط نہ پڑنے کے باوجود مَیں عشق فراموشی پر عمل پیرا رہا۔کبھی بھول کر بھی کوچۂ جاناں کا رُخ نہیں کِیا حالاں کہ فاصلہ چند فرسنگ سے زیادہ کا نہیں تھا۔سلیم شاد سے ملا نہ اُس گلی کے کسی اور مکین سے۔شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ حاکم علی رضا اور نذر حسین کاٹھیا گاؤں پلٹ گئے تھے۔ایک دیوانہ ہو کر اور دوسرا کچھ کچھ دیوداس کا مرکزی کردار بن کر۔مجھے پُرانے دوستوں کے ساتھ نئے دوست میسّر آ گئے تھے۔عبدالوحید رشی نے میرے بکھراؤ کی تہذیب کر دی تھی۔کرشن چندر کی دو فرلانگ لمبی سڑک کو ناپنا میرا معمول تھا،جسے عرف ِعام میں کچہری روڈ کہتے ہیں۔گورنمنٹ کالج کے سامنے سے گزر کر گوشۂ ادب پر رسائل کی ورق گردانی،نسیم بک ڈپو اور آئیڈیل بک سٹور ٹولنٹن مارکیٹ،کلاسیک اور فیروز سنز مال روڈ سے کتابوں اور ادبی رسائل کی خریداری،پاک ٹی ہاؤس میں اسرار زیدی صاحب کی صحبت میں اپنے ہم عصر نوجوانوں سے روز کی ملاقات۔سعادت سعید،مستنصر حسین تارڑ،عطا الحق قاسمی،علی اکبر عباس،خالد احمد،شبیر شاہد،حسن رضوی،اجمل نیازی سے بتدریج قربت اور دھیرے دھیرے پہلی میز کے نابغوں سے تعارف،جن میں سلیم شاہد،جاوید شاہین اور احمد مشاق شامل تھے اور ادبی رسائل میں مجھے ایک خاص استقامت اور سرعت سے نمود کرتا دیکھ کر محبّت سے ملتے تھے اور ان سب کے علاوہ جنابِ شہرت بخاری اور ان کے توسط سے انجم رومانی،منیر نیازی،انتظار حسین اور زاہد ڈار سے تعارف کی سعادت۔غرض مجھے ہر میز پر قبول کیا جا رہا تھا مگر میری خلقی جھجھک ابھی دور نہیں ہوئی تھی۔میں نے کبھی شعر سُنانے کی ہمّت کی نہ ہی حلقے کے اجلاس میں اپنی کوئی تحریر تنقید کے لیے پیش کی۔بس میری حیثیت ایک سامع کی تھی اور میں اسی پر قانع تھا۔ہاں مجھے ادبی رسائل سے بذریعہ خط کتابت معاملہ کرنے میں کوئی عار نہیں تھا اور یہ نسبت بڑھ رہی تھی۔اس قدر کہ دو برس ہی میں مَیں’سویرا،فنون اور’نقوش’کے سوا ہر قابلِ ذکر پرچے میں چھپ چکا تھا اور ان رسائل کے توسط سے ملک بھرکے اپنے ہم عصر اہم شاعروں سے بھی متعارف ہو چکا تھا،جو آگے چل کر میرے گہرے دوست بننے والے تھے۔
اس دوران میں اسلامیہ کالج،انجینرنگ یونیورسٹی،پنجاب یونیورسٹی اور شہر کے کئی مشاعرے پڑھے اور اپنے کالج میں اپنی زندگی کا پہلا آٹو گراف دینے کی عزت بھی ملی۔اب مجھے’فاران’میں بھی چھاپ دیا گیا تھا۔بس فرق تھا تو یہ کہ کہیں سالِ چہارم درج تھا تو کہیں پنجم اور کہیں سابق طالب علم۔میرے مزاحیہ مضامین’زعفران’اور’فانوس’میں چھپے تھے اور ان سب سے میاں چنوں پلٹ کر بھی ویسا ہی پُر لطف رابطہ بحال رہا۔علی ظہیر منہاس کے ٹھکانے پر جانا بھی معمول میں شامل تھا۔میں’افکار’کا مصطفیٰ زیدی نمبر پڑھ چکا تھا مگر اُن سے اصل تعارف ظہیر کے ذریعے ہی ہوا جو اُن کے کرشمے کے اسیر تھے اور ذوالفقار علی بھٹو کے علاوہ انہیں آئیڈلائزڈ کرتے تھے۔اُن کے اچھا شاعر ہونے میں کوئی شُبہ نہیں مگر وہ میرے مزاج کو راس نہیں تھے،اس لیے ان کی چھاپ ظہیر کی شاعری تک محدود رہی۔وہیں ایک کمرے میں’اوراق’کا دفتر تھا۔اس سے مجھے یہ آسانی تھی کہ تازہ شمارہ فوراً ہی اعزازی حیثیت میں پہنچ جاتا تھا۔
پاک ٹی ہاؤس میں جناب عارف عبدالمتین سے تعارف ہوا تو انہوں نے گھر آنے کی دعوت دی۔میں اس عنایت کی توقّع نہیں رکھتا تھا مگر اُن کے لہجے میں ایسا خلوص اور محبّت تھی کہ اگلے ہی روز اُن کے ہاں جا پہنچا۔وہ سیکرٹریٹ کے پیچھے چشتیہ ہائی سکول کی بغل میں رہتے تھے۔میرے حاضر ہونے پر انہوں نے بڑی کُشادہ دلی سے استقبال کیا۔اپنے ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور اپنے بچّوں سے ملایا۔یہ خاندان جمال اور حُسنِ اخلاق کا مرقع تھا۔میں بیسیوں بار ان کے یہاں حاضر ہوا۔اپنی شاعری سُنائی۔کج بحثی کی۔یہ زمانہ تھا جب مجھ پر دہریہ نظریات غالب آ رہے تھے اور اس کی جھلک میری شاعری میں بھی دکھائی دینے لگی تھی مگر عارف صاحب نے بہت دھیمے لہجے میں میری اصلاح کی اور مجھے بھٹکنے نہیں دیا۔انہوں نے میری فکر اور ترقّی پسندی کو کبھی ہدف نہیں بنایا مگر میرے ہدف کے تعین میں میری رہنمائی ضرور کی۔مجھے اب کتابیں جمع کرنے کا شوق چرایا تھا اور میں بلا توقف ہر اچھی کتاب خرید لیتا تھا۔عارف صاحب کی کئی کتابیں میں نے اسی رو میں خریدیں۔آپ نے اپنی نئی کتب عنایت بھی کیں۔بیسیوں غزلیں اور نظمیں اُن کی زبان سے سُننے کا موقع ملا مگر میرے مزاج کی کجی کا یہ عالم تھا کہ وہ کبھی میرے پسندیدہ شعرا میں شامل نہیں ہو پائے تاہم اُن کی ذات اور خاندان کے لیے میرے دل میں موجود احترام میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔میں نے اُن سے بڑھ کر نسل ِنو سے محبت کرنے والا نہیں دیکھا۔اُن کا خمیر گِل ِخیر سے اُٹھایا گیا تھا۔وہ جتنے شیریں سُخن اور نرم دمِ گفتگو تھے۔میرے جاننے والوں میں ایسی کوئی اور مثال موجود نہیں۔
عارف صاحب کے ہاں ایک بار ڈاکٹر وزیر آغا سے ملاقات ہوئی۔وہ میری کوئی غزل’اوراق’میں شائع کرنے سے پہلے ایک خط لکھ کر اطلاع دیتے تھے اور میں نے اُن کی متعدد کتب پڑھ رکھی تھیں۔اس لیے اُنہوں نے شفقت کی اور اپنے لاہور میں موجود ہونے کی صورت میں ملتے رہنے کی دعوت دی مگر میں اس دعوت کا فائدہ نہیں اُٹھا سکا۔شاید اس کی وجہ کاہلی اور میری کُھردری انا تھی۔عجیب بات تھی کہ دیہات سے نسبت اور زمیندارانہ پس منظر رکھنے والے ادیب مجھے اپنی طرف کھینچتے بھی تھے اور میں اُن کے قریب ہونے سے کتراتا بھی تھا۔آغا صاحب اسی زُمرے میں آتے تھے۔سو ان سے اُس دور میں دو ایک ملاقاتیں(وہ بھی عارف صاحب کے بُلاوے ہر) سلاطین مال روڈ پر ہوئیں۔جس میں اُنہوں نے تواضع کا حق ادا کر دیا۔یہی ریستوراں بعد میں گارڈنیا کہلایا اور پھر وہاں وین گارڈ بکس نے ڈیرا جما لیا۔ہاں آغا صاحب سے تجدید ِتعلق کا ایک دور ملتان سے لاہور واپسی پر آغاز ہوا،جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔
اس بار گاؤں گیا تو خادم رزمی صاحب اور ساغر مشہدی سے روز ملنے چلا جاتا۔کبھی وہ میرے مہمان ہوتے اور کئی بار میرے کسی اور دوست کے یہاں نشست جمتی۔خان غضنفر روہتکی سے ملاقات بھی معمول میں شامل تھی۔کبھی میں اور رزمی صاحب کبیر والا کا چکر بھی لگا آتے تھے۔شمیم اکبر آبادی کے تکے کباب بھی اُڑائے جاتے۔رزمی صاحب کے بقول یہ میری پرواز کا آغاز تھا اور شاید وہ غلط نہیں تھے۔میں ملک بھر کے ادبی رسائل میں چھپ رہا تھا اور میرے حلقۂ احباب میں تیزی سے وسعت آ رہی تھی۔میرے علاقے کے کئی لکھنے والے میری وجہ سے ادبی رسائل تک رسائی پا رہے تھے اور اپنی ذات پر میرا اعتماد بڑھ رہا تھا۔
اسی دوران میں بی۔اے کا رزلٹ آ گیا۔مجھے پاس ہونے کی توقّع تھی مگر بنگلہ دیش نامنظور تحریک سے معطل ہونے والی تعلیمی سرگرمیوں کا کچھ اثر تو ہونا ہی تھا۔انگریزی،پولیٹکل سائنس اور فارسی میں میرے نمبر بہت اچھے تھے مگر اکنامکس کے دوسرے پرچے یعنی پاکستان اکنامکس میں کمپارٹمنٹ تھی اور میری مشکل یہ تھی کہ میں ایم۔اے میں اکنامکس ہی پڑھنے کا ارادہ رکھتا تھا۔صدمہ تو ہوا مگر یہ جان کر اطمینان ہوا کہ اکثریت کا یہی حال ہے اور ایم۔اے کے داخلے اگلے امتحان کے بعد ہوں گے۔کیوں کہ اس امتحان میں بہت کم لوگ بیٹھے تھے اور شاید نئی کلاسز شروع کرنے کے لیے طلبہ کی مطلوبہ تعداد کا دستیاب ہونا ممکن نہ تھا۔اب مسئلہ یہ درپیش ہوا کہ پاکستان اکنامکس کے پیپر کی تیاری کہاں کی جائے۔اگر مجھے لاہور رہنا ہے تو کہاں رہوں؟ اور لاہور رہنا ضروری تھا۔اس لیے کہ گاؤں پلٹ کر اس پرچے کے امتحان کی تیاری کرنا ممکن نہیں تھی۔سو وہ رات میں نے پنجاب یونیورسٹی لا کالج ہاسٹل میں نواز طاہر اور شبیر احمد اختر کے ساتھ گزاری۔اُن سے اپنے مستقبل کے بارے میں مشورہ کیا اور مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ یونیورسٹی اورینٹل کالج کے بعض شعبوں میں ایم۔اے کے داخلے ہو رہے ہیں۔ان مضامین میں اردو اور پنجابی شامل تھے۔نواز طاہر اب پنجابی کے طالب علم تھے۔اُن کے اصرار پر میں نے اردو اور پنجابی دونوں میں داخلے کے لیے درخواست صرف یہ سوچ کر دینے پر رضامندی ظاہر کی کہ داخلہ ہو جانے کی صورت میں مجھے ہاسٹل مل جائے گا اور میری لاہور میں رہائش کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔میں اپنے والد کے کسی مہرباں کے ہاں ٹھہر سکتا تھا مگر میرا دل کسی زمیندار کے ہاں ٹھہرنے پر راضی نہیں تھا اور مجھے معلوم تھا کہ میرے ابّاجی میرے اس فیصلے پر معترض نہیں ہوں گے۔
معلوم نہیں میرے مزاج میں یہ ٹیڑھ کہاں سے آئی تھی مگر میں کچھ عجیب سا،پہلے سے کچھ الگ ہوتا جا رہا تھا۔اُس زمانے میں لاہور فورٹریس اسٹیڈیم میں عوامی میلہ منعقد کیا جاتا تھا،جس کے شالیمار ایونیو کو وی آئی پی گردانا جاتا تھا اور اس کا ٹکٹ پانچ سو روپے کا تھا مگر اس میں ایک آپشن یہ تھا کہ کسی بھی ایم پی اے(ممبر پنجاب اسمبلی)سے اس کے پاس مل جاتے تھے۔میں یہ پاس حاصل کر کے میلہ دیکھ لیا کرتا تھا۔ہمارے علاقے کی سیٹ پر محمد خان خاکوانی اور میاں چنوں شہر کی سیٹ پر ڈاکٹر صادق ملہی کامیاب ہوئے تھے۔دونوں کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا اور دونوں سے قربت تھی۔ایک بار حق نواز اور دو ایک اور عزیزوں کی میلہ دیکھنے کی غرض سے آمد پر پاس لینے پیپلز ہاؤس گیا تو خاکوانی صاحب اپنے کمرے میں موجود نہیں تھے۔اُن کا کمرہ فرسٹ فلور پر تھا۔میں سیڑھیاں اُتر رہا تھا کہ ڈاکٹر صادق ملہی مل گئے۔ہاتھ پکڑ کر اپنے کمرے میں لے گئے اور آنے کی وجہ پوچھی۔میں نے بتایا کہ خاکوانی صاحب سے میلے کے پاس لینے آیا تھا تو انہوں نے کہا کہ مجھ سے لے جاؤ۔پتا نہیں میرے من میں کیا آئی کہ میں نے شکریے کے ساتھ معذرت کر لی اور کہا کہ دوبارہ آ کر خاکوانی صاحب ہی سے لے لوں گا۔اب کون بتائے کہ اس جواب میں کیا منطق تھی اور ایک مہربان کو حق دق چھوڑنے کی ضرورت کیا تھی؟
نواز کو داخلہ شروع ہونے کی اطلاع کرنے کا کہہ کر میں ایک بار پھر گاؤں پلٹ آیا۔شاعری اور شکار دونوں دوبارہ جاری ہوئے۔رزمی صاحب سے اب دوستی اور بے تکلفی بڑھ گئی تھی،جس کی وجہ سے منیر ابنِ رزمی کو بزرگ بھتیجے کا درجہ تفویض ہوا اور ان کے چھوٹے بھائی کو ننّھے کا مگر اس ننھّے کو’الف نون’سے کوئی نسبت نہیں تھی۔رزمی صاحب کی اولاد بڑی لائق فائق،طلبہ سیاست میں بہت فعال اور شیریں مقال تھی۔یہ کام ہمارے بس کا نہیں تھا۔ہم بس قلم کے دھنی تھے اور شاید یہ دعویٰ تب بھی غلط تھا اور اب بھی درست نہیں۔
درس گاہ – 48
میاں چنوں قیام ہی کے دوران میں’نئی قدریں’حیدر آباد (سندھ)کے مدیر استاد اختر انصاری اکبر آبادی نے اطلاع دی کہ وہ اپنے سالانہ دورے پر پنجاب تشریف لا رہے ہیں اور میاں چنوں رُک کر مجھے بھی شرف ِملاقات بخشیں گے۔یہ خبر میرے لیے مسرّت اور تقویت کا باعث تھی۔کیوں کہ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ کسی ادبی رسالے کا مدیر مجھ ایسے معمولی آدمی سے بھی ملاقات کا متمنی ہو سکتا ہے۔میں نے اپنے احباب کو ان کی آمد کی اطلاع دی اور انہیں خود تانگہ چلا کر اسٹیشن سے گھر لانے کے لیے نکلا۔وہ خیبر میل سے پہنچے جو اُس زمانے میں ڈیڑھ بجے میاں چنوں قدم رنجہ فرماتی تھی اور میں انہیں لے کر گورداسپور سویٹ ہاؤس پر رُکا،جہاں ان کی مفرحات سے تواضع کی۔وہاں انہوں نے سگریٹ خرید کر دینے کی فرمائش کی اور میں تسلیم کرتا ہوں کہ مجھے ان کے اس مطالبے سے معمولی سا صدمہ پہنچا۔شاید اس کی وجہ ان کا بلند مرتبت ہونا اور میرا تمباکو نوشی سے نابلد ہونا تھا۔خیر میں نے زندگی میں پہلی بار کسی کے لیے گولڈلیف کی ایک ڈبیہ اور ماچس خریدی اور فخر سے بھرا ہوا گاؤں کے لیے روانہ ہوا۔میری اکٹر کا عالم یہ تھا کہ بازار میں راستہ مانگنے کو پیتل کی گھنٹی پر پاؤں رکھتا تھا تو اٹھانے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ایک بار تو کسی صاحب کے احتجاجی منہ بنانے پر باقاعدہ بدمعاشی دکھانے کو چابک لے کر اُتر گیا اور مہمان کی مداخلت پر ہی ٹلا۔وہی کیڑی کے گھر نارائن آنے کی کیفیت تھی اور میں آپے میں سما نہیں پا رہا تھا۔وہ وضع قطع اور لباس میں کچھ کچھ نارائن کی شباہت بھی رکھتے تھے اور جگت استاد کے درجے پر فائز تھے۔برسوں بعد میں نے پروفیسر سجاد باقر رضوی سمیت بیسیوں اکابرین کو انہیں استاد کہہ کر مخاطب کرتے دیکھا تو یقین آیا کہ استادی بھی ایک خدائی عطا ہے جو ہر ایک ذات پر زیبا نہیں دیتی اور(شاید)جوش ملیح آبادی کے یہ اشعار بلا شبہ مبنی بر شقاوت ہیں:
اس تیرے تخلص میں کیا چیز ہے بنیادی
اختر ہے کہ انصاری ، اکبر ہے کہ آبادی
مُلک جب ہوا تقسیم آیا اپنے حصّے میں
ایک اختر انصاری ، وہ بھی اکبر آبادی
خیر میں انہیں لے کر بستی تک اینڈتا آیا۔میرے دوستوں میں خادم رزمی،ساغر مشہدی،سجاد پاندھا،فلک شیر سنپال،اصغر علی شاہ کھگہ وغیرہ پہلے سے بیٹھک میں موجود تھے۔دیسی مرغ اور بٹیرے پکے تھے۔ساتھ لسّی،اچار،چٹنیاں،سلاد اور تندوری روٹی جسے تفتان کہنا مناسب ہوگا۔کھانا سب نے رغبت سے کھایا مگر مسئلہ تب ہوا جب استاد کو واش روم کی حاجت ہوئی۔یہاں اس کا کچھ رواج نہیں تھا۔سب نظام یہاں ضابطے میں بندھا تھا۔علی الصباح کھیتوں کا رُخ کرنا اور موسم کے اعتبار سے اندھیرے اور فصلوں کو چادر بنانا معمول تھا۔اس طرح کہ اُن پر جمال احسانی کا شعر صادق آتا تھا:
صبح ہوتے ہی نظر آتے ہیں جو کچھ لوگ یہاں
یہ سحر خیز ہیں یا رات کے جاگے ہوئے ہیں؟
اب استاد کے اس ناوقت مطالبے کا حل یہی تھا کہ انہیں خالص تانبے کا منقش آفتابہ تازہ جل سے بھر کر تھمایا اور اشارے سے لکڑی کی پُلیا پار کر کے کھیتوں میں سر چھپانے کی صلاح دے کر روانہ کیا مگر وہ ایک حویلی کی ڈیوڑھی میں جا چھپے۔وہ تو خیریت گُزری کہ معاملہ نچلے درجے کا نہیں تھا اور صاحب ِخانہ کو اس ایجاد کی خبر نہیں ہوئی۔استاد کامیاب اور زندہ پلٹ آئے ورنہ’نئی قدریں’ کے مدیر اُس رات کی گاڑی سے لاہور نہیں پہنچ پاتے اور ہمارے گاؤں میں بھی پختون بھائیوں کی لُطفیہ روایت کے تتبع میں’مہمان کُشی’واجب ٹھہرتی۔
استاد کا اصل مقصد رسالے کے لیے سالانہ خریدار تلاش کرنا تھا۔یہاں یہ مقصد آسانی سے پورا ہوا۔میرے کہنے پر ہر ایک نے خریداری لی اور خود میں نے پانچ دوستوں کے لیے جاری کرایا۔ان سب کو ایک ایک پرچہ نذر کیا گیا۔پھر استاد نے اسے جاری رکھنے کی ضرورت نہیں سمجھی اور ان خریداروں کو اس کی طلب بھی نہیں تھی مگر اس سے یہ فائدہ ہوا کہ استاد نے اپنی کتاب’مضامین’میں اس حقیر کی غزل کو بھی حوالہ بنایا اور ہمیں’نئی قدریں’میں من مانی کرنے کی اجازت مل گئی۔
لاہور پلٹ کر ہم ایک بار پھر ہاسٹل میں جم گئے۔میں اور میرے سبھی دوست پلٹ آئے تھے مگر ہاسٹل کچھ غیر آباد سا تھا۔اس لیے میس شروع نہیں ہو سکا اور ہم ناصر باغ کے راستے پُرانی انارکلی آ کر دوپہر اور رات کا کھانا کھاتے رہے۔اس معمول کے دوران میں ایک بار عدیم ہاشمی کو جو ایک شاعرہ کے ساتھ دمدمہ توپ کے پاس کہیں جا رہے تھے اور کسی راہگیری ٹولی کے نازیبا ریمارک سے برافروختہ ہو کر اُن کے گلے پڑ گئے تھے،پٹنے سے بچانے کی سعادت حاصل کی مگر اس سے اہم بات یہی تھی کہ ہم بیس فیصد کے لگ بھگ لوگوں نے گریجویشن کا یہ امتحان دیا۔حالاں کہ فورتھ ائیر کا کورس پڑھنے کی نوبت ہی نہیں آئی تھی۔پارٹ ٹو کے سبھی پیپر اللہ توکلی تھے۔کوئی مہینے بھر میں یہ کام نبیڑ کر میں شکور احمد خالد کے پاس سمن آباد مین روڈ پر ایک کھنڈر نما عمارت میں منتقل ہو گیا۔یہ’گھر’معروف لوک گلوکار عالم لُہار نے کرایے پر لے رکھا تھا۔سڑک کے رُخ پر کھلنے والے ایک کمرے میں اُن کا دفتر تھا۔وہ’مٹّی دا باوا’نامی ایک فلم بنانے کی کوشش کر رہے تھے اور زرتاش نامی ایک صاحب ان کے فلم ڈائریکٹر تھے۔میرے اور شکور کے پاس پچھلے صحن میں کھلنے والا ایک عمدہ کمرہ تھا مگر یہاں ٹائلٹ کی سہولت تو تھی،غسل خانے کی نہیں سو اور بھی کئی اہلِ محلہ کی طرح ہم بھی معصوم شاہ قبرستان کی مسجد کے غسل خانوں کا فائدہ اٹھاتے تھے۔جس کی دوسری طرف جنک نگر کا ایک ٹکڑا تھا۔
یہاں میں نے بے وجہ تین ماہ گزارے۔کھانا سمن آباد موڑ کے ایک ہوٹل پر کھایا جاتا۔شام کو بس یا وین پکڑ کر ٹی ہاؤس چلا جاتا۔اکثر رات کا کھانا وہیں کھا کر پلٹتا۔سردیوں میں کمرے میں اور گرمیوں میں سروس روڈ پر چارپائیاں ڈال کر سوتے۔بالکل مقابل میں اداکارہ شمیم آرا کا گھر تھا۔جہاں گردشی کاتب’بوتل نگر’کا دیواری طغرہ ٹانک جاتے تھے۔شکور صاحب اداکارہ سنگیتا کی بہن جو مستقبل میں کویتا بننے والی تھی،کو ٹیوشن پڑھا رہےتھے۔دلچسپ صورت تب پیدا ہوتی جب گھر لوٹنے پر ہماری چارپائی کسی اداکارہ کے قبضے میں ہوتی۔واگزاری کی صورت پیدا نہ ہو پاتی تو درمیان میں کتابِ صبر رکھ کر رات کاٹنا ہڑتی مگر رات کی سب سے اچھی بات یہی ہے کہ بالآخر کٹ جاتی ہے۔
ان میں سے کچھ نام ور بھی ہوئیں۔دو تین ماہ بعد میں اس سارے بندوبست سے اُکتا گیا اور رزلٹ آنے تک گاؤں پلٹ آیا۔اب کی بار میاں چنوں کی بجائے تلمبہ کا رُخ کیا اور شاعری کے سوا کوئی مصروفیت نہیں پالی۔یہی وہ زمانہ ہے جب مجھے لگا کہ میں شاعر ہوں اور مجھے اپنی اس حیثیت کو اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں اظہار کا وسیلہ بنانا ہے۔