درس گاہ – 49

کریسنٹ ہاسٹل میں دو برس اور سمن آباد میں چند ماہ کا یہ قیام عجیب رس بھرا تھا۔اب سوچتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ لاہور میں قحط نہ پڑنے کے باوجود مَیں عشق فراموشی پر عمل پیرا رہا۔کبھی بھول کر بھی کوچۂ جاناں کا رُخ نہیں کِیا حالاں کہ فاصلہ چند فرسنگ سے زیادہ کا نہیں تھا۔سلیم شاد سے ملا نہ اُس گلی کے کسی اور مکین سے۔شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ حاکم علی رضا اور نذر حسین کاٹھیا گاؤں پلٹ گئے تھے۔ایک دیوانہ ہو کر اور دوسرا کچھ کچھ دیوداس کا مرکزی کردار بن کر۔مجھے پُرانے دوستوں کے ساتھ نئے دوست میسّر آ گئے تھے۔عبدالوحید رشی نے میرے بکھراؤ کی تہذیب کر دی تھی۔کرشن چندر کی دو فرلانگ لمبی سڑک کو ناپنا میرا معمول تھا،جسے عرف ِعام میں کچہری روڈ کہتے ہیں۔گورنمنٹ کالج کے سامنے سے گزر کر گوشۂ ادب پر رسائل کی ورق گردانی،نسیم بک ڈپو اور آئیڈیل بک سٹور ٹولنٹن مارکیٹ،کلاسیک اور فیروز سنز مال روڈ سے کتابوں اور ادبی رسائل کی خریداری،پاک ٹی ہاؤس میں اسرار زیدی صاحب کی صحبت میں اپنے ہم عصر نوجوانوں سے روز کی ملاقات۔سعادت سعید،مستنصر حسین تارڑ،عطا الحق قاسمی،علی اکبر عباس،خالد احمد،شبیر شاہد،حسن رضوی،اجمل نیازی سے بتدریج قربت اور دھیرے دھیرے پہلی میز کے نابغوں سے تعارف،جن میں سلیم شاہد،جاوید شاہین اور احمد مشاق شامل تھے اور ادبی رسائل میں مجھے ایک خاص استقامت اور سرعت سے نمود کرتا دیکھ کر محبّت سے ملتے تھے اور ان سب کے علاوہ جنابِ شہرت بخاری اور ان کے توسط سے انجم رومانی،منیر نیازی،انتظار حسین اور زاہد ڈار سے تعارف کی سعادت۔غرض مجھے ہر میز پر قبول کیا جا رہا تھا مگر میری خلقی جھجھک ابھی دور نہیں ہوئی تھی۔میں نے کبھی شعر سُنانے کی ہمّت کی نہ ہی حلقے کے اجلاس میں اپنی کوئی تحریر تنقید کے لیے پیش کی۔بس میری حیثیت ایک سامع کی تھی اور میں اسی پر قانع تھا۔ہاں مجھے ادبی رسائل سے بذریعہ خط کتابت معاملہ کرنے میں کوئی عار نہیں تھا اور یہ نسبت بڑھ رہی تھی۔اس قدر کہ دو برس ہی میں مَیں’سویرا،فنون اور’نقوش’کے سوا ہر قابلِ ذکر پرچے میں چھپ چکا تھا اور ان رسائل کے توسط سے ملک بھرکے اپنے ہم عصر اہم شاعروں سے بھی متعارف ہو چکا تھا،جو آگے چل کر میرے گہرے دوست بننے والے تھے۔
اس دوران میں اسلامیہ کالج،انجینرنگ یونیورسٹی،پنجاب یونیورسٹی اور شہر کے کئی مشاعرے پڑھے اور اپنے کالج میں اپنی زندگی کا پہلا آٹو گراف دینے کی عزت بھی ملی۔اب مجھے’فاران’میں بھی چھاپ دیا گیا تھا۔بس فرق تھا تو یہ کہ کہیں سالِ چہارم درج تھا تو کہیں پنجم اور کہیں سابق طالب علم۔میرے مزاحیہ مضامین’زعفران’اور’فانوس’میں چھپے تھے اور ان سب سے میاں چنوں پلٹ کر بھی ویسا ہی پُر لطف رابطہ بحال رہا۔علی ظہیر منہاس کے ٹھکانے پر جانا بھی معمول میں شامل تھا۔میں’افکار’کا مصطفیٰ زیدی نمبر پڑھ چکا تھا مگر اُن سے اصل تعارف ظہیر کے ذریعے ہی ہوا جو اُن کے کرشمے کے اسیر تھے اور ذوالفقار علی بھٹو کے علاوہ انہیں آئیڈلائزڈ کرتے تھے۔اُن کے اچھا شاعر ہونے میں کوئی شُبہ نہیں مگر وہ میرے مزاج کو راس نہیں تھے،اس لیے ان کی چھاپ ظہیر کی شاعری تک محدود رہی۔وہیں ایک کمرے میں’اوراق’کا دفتر تھا۔اس سے مجھے یہ آسانی تھی کہ تازہ شمارہ فوراً ہی اعزازی حیثیت میں پہنچ جاتا تھا۔
پاک ٹی ہاؤس میں جناب عارف عبدالمتین سے تعارف ہوا تو انہوں نے گھر آنے کی دعوت دی۔میں اس عنایت کی توقّع نہیں رکھتا تھا مگر اُن کے لہجے میں ایسا خلوص اور محبّت تھی کہ اگلے ہی روز اُن کے ہاں جا پہنچا۔وہ سیکرٹریٹ کے پیچھے چشتیہ ہائی سکول کی بغل میں رہتے تھے۔میرے حاضر ہونے پر انہوں نے بڑی کُشادہ دلی سے استقبال کیا۔اپنے ڈرائنگ روم میں بٹھایا اور اپنے بچّوں سے ملایا۔یہ خاندان جمال اور حُسنِ اخلاق کا مرقع تھا۔میں بیسیوں بار ان کے یہاں حاضر ہوا۔اپنی شاعری سُنائی۔کج بحثی کی۔یہ زمانہ تھا جب مجھ پر دہریہ نظریات غالب آ رہے تھے اور اس کی جھلک میری شاعری میں بھی دکھائی دینے لگی تھی مگر عارف صاحب نے بہت دھیمے لہجے میں میری اصلاح کی اور مجھے بھٹکنے نہیں دیا۔انہوں نے میری فکر اور ترقّی پسندی کو کبھی ہدف نہیں بنایا مگر میرے ہدف کے تعین میں میری رہنمائی ضرور کی۔مجھے اب کتابیں جمع کرنے کا شوق چرایا تھا اور میں بلا توقف ہر اچھی کتاب خرید لیتا تھا۔عارف صاحب کی کئی کتابیں میں نے اسی رو میں خریدیں۔آپ نے اپنی نئی کتب عنایت بھی کیں۔بیسیوں غزلیں اور نظمیں اُن کی زبان سے سُننے کا موقع ملا مگر میرے مزاج کی کجی کا یہ عالم تھا کہ وہ کبھی میرے پسندیدہ شعرا میں شامل نہیں ہو پائے تاہم اُن کی ذات اور خاندان کے لیے میرے دل میں موجود احترام میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔میں نے اُن سے بڑھ کر نسل ِنو سے محبت کرنے والا نہیں دیکھا۔اُن کا خمیر گِل ِخیر سے اُٹھایا گیا تھا۔وہ جتنے شیریں سُخن اور نرم دمِ گفتگو تھے۔میرے جاننے والوں میں ایسی کوئی اور مثال موجود نہیں۔
عارف صاحب کے ہاں ایک بار ڈاکٹر وزیر آغا سے ملاقات ہوئی۔وہ میری کوئی غزل’اوراق’میں شائع کرنے سے پہلے ایک خط لکھ کر اطلاع دیتے تھے اور میں نے اُن کی متعدد کتب پڑھ رکھی تھیں۔اس لیے اُنہوں نے شفقت کی اور اپنے لاہور میں موجود ہونے کی صورت میں ملتے رہنے کی دعوت دی مگر میں اس دعوت کا فائدہ نہیں اُٹھا سکا۔شاید اس کی وجہ کاہلی اور میری کُھردری انا تھی۔عجیب بات تھی کہ دیہات سے نسبت اور زمیندارانہ پس منظر رکھنے والے ادیب مجھے اپنی طرف کھینچتے بھی تھے اور میں اُن کے قریب ہونے سے کتراتا بھی تھا۔آغا صاحب اسی زُمرے میں آتے تھے۔سو ان سے اُس دور میں دو ایک ملاقاتیں(وہ بھی عارف صاحب کے بُلاوے ہر) سلاطین مال روڈ پر ہوئیں۔جس میں اُنہوں نے تواضع کا حق ادا کر دیا۔یہی ریستوراں بعد میں گارڈنیا کہلایا اور پھر وہاں وین گارڈ بکس نے ڈیرا جما لیا۔ہاں آغا صاحب سے تجدید ِتعلق کا ایک دور ملتان سے لاہور واپسی پر آغاز ہوا،جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔

اس بار گاؤں گیا تو خادم رزمی صاحب اور ساغر مشہدی سے روز ملنے چلا جاتا۔کبھی وہ میرے مہمان ہوتے اور کئی بار میرے کسی اور دوست کے یہاں نشست جمتی۔خان غضنفر روہتکی سے ملاقات بھی معمول میں شامل تھی۔کبھی میں اور رزمی صاحب کبیر والا کا چکر بھی لگا آتے تھے۔شمیم اکبر آبادی کے تکے کباب بھی اُڑائے جاتے۔رزمی صاحب کے بقول یہ میری پرواز کا آغاز تھا اور شاید وہ غلط نہیں تھے۔میں ملک بھر کے ادبی رسائل میں چھپ رہا تھا اور میرے حلقۂ احباب میں تیزی سے وسعت آ رہی تھی۔میرے علاقے کے کئی لکھنے والے میری وجہ سے ادبی رسائل تک رسائی پا رہے تھے اور اپنی ذات پر میرا اعتماد بڑھ رہا تھا۔
اسی دوران میں بی۔اے کا رزلٹ آ گیا۔مجھے پاس ہونے کی توقّع تھی مگر بنگلہ دیش نامنظور تحریک سے معطل ہونے والی تعلیمی سرگرمیوں کا کچھ اثر تو ہونا ہی تھا۔انگریزی،پولیٹکل سائنس اور فارسی میں میرے نمبر بہت اچھے تھے مگر اکنامکس کے دوسرے پرچے یعنی پاکستان اکنامکس میں کمپارٹمنٹ تھی اور میری مشکل یہ تھی کہ میں ایم۔اے میں اکنامکس ہی پڑھنے کا ارادہ رکھتا تھا۔صدمہ تو ہوا مگر یہ جان کر اطمینان ہوا کہ اکثریت کا یہی حال ہے اور ایم۔اے کے داخلے اگلے امتحان کے بعد ہوں گے۔کیوں کہ اس امتحان میں بہت کم لوگ بیٹھے تھے اور شاید نئی کلاسز شروع کرنے کے لیے طلبہ کی مطلوبہ تعداد کا دستیاب ہونا ممکن نہ تھا۔اب مسئلہ یہ درپیش ہوا کہ پاکستان اکنامکس کے پیپر کی تیاری کہاں کی جائے۔اگر مجھے لاہور رہنا ہے تو کہاں رہوں؟ اور لاہور رہنا ضروری تھا۔اس لیے کہ گاؤں پلٹ کر اس پرچے کے امتحان کی تیاری کرنا ممکن نہیں تھی۔سو وہ رات میں نے پنجاب یونیورسٹی لا کالج ہاسٹل میں نواز طاہر اور شبیر احمد اختر کے ساتھ گزاری۔اُن سے اپنے مستقبل کے بارے میں مشورہ کیا اور مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ یونیورسٹی اورینٹل کالج کے بعض شعبوں میں ایم۔اے کے داخلے ہو رہے ہیں۔ان مضامین میں اردو اور پنجابی شامل تھے۔نواز طاہر اب پنجابی کے طالب علم تھے۔اُن کے اصرار پر میں نے اردو اور پنجابی دونوں میں داخلے کے لیے درخواست صرف یہ سوچ کر دینے پر رضامندی ظاہر کی کہ داخلہ ہو جانے کی صورت میں مجھے ہاسٹل مل جائے گا اور میری لاہور میں رہائش کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔میں اپنے والد کے کسی مہرباں کے ہاں ٹھہر سکتا تھا مگر میرا دل کسی زمیندار کے ہاں ٹھہرنے پر راضی نہیں تھا اور مجھے معلوم تھا کہ میرے ابّاجی میرے اس فیصلے پر معترض نہیں ہوں گے۔

معلوم نہیں میرے مزاج میں یہ ٹیڑھ کہاں سے آئی تھی مگر میں کچھ عجیب سا،پہلے سے کچھ الگ ہوتا جا رہا تھا۔اُس زمانے میں لاہور فورٹریس اسٹیڈیم میں عوامی میلہ منعقد کیا جاتا تھا،جس کے شالیمار ایونیو کو وی آئی پی گردانا جاتا تھا اور اس کا ٹکٹ پانچ سو روپے کا تھا مگر اس میں ایک آپشن یہ تھا کہ کسی بھی ایم پی اے(ممبر پنجاب اسمبلی)سے اس کے پاس مل جاتے تھے۔میں یہ پاس حاصل کر کے میلہ دیکھ لیا کرتا تھا۔ہمارے علاقے کی سیٹ پر محمد خان خاکوانی اور میاں چنوں شہر کی سیٹ پر ڈاکٹر صادق ملہی کامیاب ہوئے تھے۔دونوں کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا اور دونوں سے قربت تھی۔ایک بار حق نواز اور دو ایک اور عزیزوں کی میلہ دیکھنے کی غرض سے آمد پر پاس لینے پیپلز ہاؤس گیا تو خاکوانی صاحب اپنے کمرے میں موجود نہیں تھے۔اُن کا کمرہ فرسٹ فلور پر تھا۔میں سیڑھیاں اُتر رہا تھا کہ ڈاکٹر صادق ملہی مل گئے۔ہاتھ پکڑ کر اپنے کمرے میں لے گئے اور آنے کی وجہ پوچھی۔میں نے بتایا کہ خاکوانی صاحب سے میلے کے پاس لینے آیا تھا تو انہوں نے کہا کہ مجھ سے لے جاؤ۔پتا نہیں میرے من میں کیا آئی کہ میں نے شکریے کے ساتھ معذرت کر لی اور کہا کہ دوبارہ آ کر خاکوانی صاحب ہی سے لے لوں گا۔اب کون بتائے کہ اس جواب میں کیا منطق تھی اور ایک مہربان کو حق دق چھوڑنے کی ضرورت کیا تھی؟
نواز کو داخلہ شروع ہونے کی اطلاع کرنے کا کہہ کر میں ایک بار پھر گاؤں پلٹ آیا۔شاعری اور شکار دونوں دوبارہ جاری ہوئے۔رزمی صاحب سے اب دوستی اور بے تکلفی بڑھ گئی تھی،جس کی وجہ سے منیر ابنِ رزمی کو بزرگ بھتیجے کا درجہ تفویض ہوا اور ان کے چھوٹے بھائی کو ننّھے کا مگر اس ننھّے کو’الف نون’سے کوئی نسبت نہیں تھی۔رزمی صاحب کی اولاد بڑی لائق فائق،طلبہ سیاست میں بہت فعال اور شیریں مقال تھی۔یہ کام ہمارے بس کا نہیں تھا۔ہم بس قلم کے دھنی تھے اور شاید یہ دعویٰ تب بھی غلط تھا اور اب بھی درست نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے