میاں چنوں قیام ہی کے دوران میں’نئی قدریں’حیدر آباد (سندھ)کے مدیر استاد اختر انصاری اکبر آبادی نے اطلاع دی کہ وہ اپنے سالانہ دورے پر پنجاب تشریف لا رہے ہیں اور میاں چنوں رُک کر مجھے بھی شرف ِملاقات بخشیں گے۔یہ خبر میرے لیے مسرّت اور تقویت کا باعث تھی۔کیوں کہ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ کسی ادبی رسالے کا مدیر مجھ ایسے معمولی آدمی سے بھی ملاقات کا متمنی ہو سکتا ہے۔میں نے اپنے احباب کو ان کی آمد کی اطلاع دی اور انہیں خود تانگہ چلا کر اسٹیشن سے گھر لانے کے لیے نکلا۔وہ خیبر میل سے پہنچے جو اُس زمانے میں ڈیڑھ بجے میاں چنوں قدم رنجہ فرماتی تھی اور میں انہیں لے کر گورداسپور سویٹ ہاؤس پر رُکا،جہاں ان کی مفرحات سے تواضع کی۔وہاں انہوں نے سگریٹ خرید کر دینے کی فرمائش کی اور میں تسلیم کرتا ہوں کہ مجھے ان کے اس مطالبے سے معمولی سا صدمہ پہنچا۔شاید اس کی وجہ ان کا بلند مرتبت ہونا اور میرا تمباکو نوشی سے نابلد ہونا تھا۔خیر میں نے زندگی میں پہلی بار کسی کے لیے گولڈلیف کی ایک ڈبیہ اور ماچس خریدی اور فخر سے بھرا ہوا گاؤں کے لیے روانہ ہوا۔میری اکٹر کا عالم یہ تھا کہ بازار میں راستہ مانگنے کو پیتل کی گھنٹی پر پاؤں رکھتا تھا تو اٹھانے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ایک بار تو کسی صاحب کے احتجاجی منہ بنانے پر باقاعدہ بدمعاشی دکھانے کو چابک لے کر اُتر گیا اور مہمان کی مداخلت پر ہی ٹلا۔وہی کیڑی کے گھر نارائن آنے کی کیفیت تھی اور میں آپے میں سما نہیں پا رہا تھا۔وہ وضع قطع اور لباس میں کچھ کچھ نارائن کی شباہت بھی رکھتے تھے اور جگت استاد کے درجے پر فائز تھے۔برسوں بعد میں نے پروفیسر سجاد باقر رضوی سمیت بیسیوں اکابرین کو انہیں استاد کہہ کر مخاطب کرتے دیکھا تو یقین آیا کہ استادی بھی ایک خدائی عطا ہے جو ہر ایک ذات پر زیبا نہیں دیتی اور(شاید)جوش ملیح آبادی کے یہ اشعار بلا شبہ مبنی بر شقاوت ہیں:
اس تیرے تخلص میں کیا چیز ہے بنیادی
اختر ہے کہ انصاری ، اکبر ہے کہ آبادی
مُلک جب ہوا تقسیم آیا اپنے حصّے میں
ایک اختر انصاری ، وہ بھی اکبر آبادی
خیر میں انہیں لے کر بستی تک اینڈتا آیا۔میرے دوستوں میں خادم رزمی،ساغر مشہدی،سجاد پاندھا،فلک شیر سنپال،اصغر علی شاہ کھگہ وغیرہ پہلے سے بیٹھک میں موجود تھے۔دیسی مرغ اور بٹیرے پکے تھے۔ساتھ لسّی،اچار،چٹنیاں،سلاد اور تندوری روٹی جسے تفتان کہنا مناسب ہوگا۔کھانا سب نے رغبت سے کھایا مگر مسئلہ تب ہوا جب استاد کو واش روم کی حاجت ہوئی۔یہاں اس کا کچھ رواج نہیں تھا۔سب نظام یہاں ضابطے میں بندھا تھا۔علی الصباح کھیتوں کا رُخ کرنا اور موسم کے اعتبار سے اندھیرے اور فصلوں کو چادر بنانا معمول تھا۔اس طرح کہ اُن پر جمال احسانی کا شعر صادق آتا تھا:
صبح ہوتے ہی نظر آتے ہیں جو کچھ لوگ یہاں
یہ سحر خیز ہیں یا رات کے جاگے ہوئے ہیں؟
اب استاد کے اس ناوقت مطالبے کا حل یہی تھا کہ انہیں خالص تانبے کا منقش آفتابہ تازہ جل سے بھر کر تھمایا اور اشارے سے لکڑی کی پُلیا پار کر کے کھیتوں میں سر چھپانے کی صلاح دے کر روانہ کیا مگر وہ ایک حویلی کی ڈیوڑھی میں جا چھپے۔وہ تو خیریت گُزری کہ معاملہ نچلے درجے کا نہیں تھا اور صاحب ِخانہ کو اس ایجاد کی خبر نہیں ہوئی۔استاد کامیاب اور زندہ پلٹ آئے ورنہ’نئی قدریں’ کے مدیر اُس رات کی گاڑی سے لاہور نہیں پہنچ پاتے اور ہمارے گاؤں میں بھی پختون بھائیوں کی لُطفیہ روایت کے تتبع میں’مہمان کُشی’واجب ٹھہرتی۔
استاد کا اصل مقصد رسالے کے لیے سالانہ خریدار تلاش کرنا تھا۔یہاں یہ مقصد آسانی سے پورا ہوا۔میرے کہنے پر ہر ایک نے خریداری لی اور خود میں نے پانچ دوستوں کے لیے جاری کرایا۔ان سب کو ایک ایک پرچہ نذر کیا گیا۔پھر استاد نے اسے جاری رکھنے کی ضرورت نہیں سمجھی اور ان خریداروں کو اس کی طلب بھی نہیں تھی مگر اس سے یہ فائدہ ہوا کہ استاد نے اپنی کتاب’مضامین’میں اس حقیر کی غزل کو بھی حوالہ بنایا اور ہمیں’نئی قدریں’میں من مانی کرنے کی اجازت مل گئی۔
لاہور پلٹ کر ہم ایک بار پھر ہاسٹل میں جم گئے۔میں اور میرے سبھی دوست پلٹ آئے تھے مگر ہاسٹل کچھ غیر آباد سا تھا۔اس لیے میس شروع نہیں ہو سکا اور ہم ناصر باغ کے راستے پُرانی انارکلی آ کر دوپہر اور رات کا کھانا کھاتے رہے۔اس معمول کے دوران میں ایک بار عدیم ہاشمی کو جو ایک شاعرہ کے ساتھ دمدمہ توپ کے پاس کہیں جا رہے تھے اور کسی راہگیری ٹولی کے نازیبا ریمارک سے برافروختہ ہو کر اُن کے گلے پڑ گئے تھے،پٹنے سے بچانے کی سعادت حاصل کی مگر اس سے اہم بات یہی تھی کہ ہم بیس فیصد کے لگ بھگ لوگوں نے گریجویشن کا یہ امتحان دیا۔حالاں کہ فورتھ ائیر کا کورس پڑھنے کی نوبت ہی نہیں آئی تھی۔پارٹ ٹو کے سبھی پیپر اللہ توکلی تھے۔کوئی مہینے بھر میں یہ کام نبیڑ کر میں شکور احمد خالد کے پاس سمن آباد مین روڈ پر ایک کھنڈر نما عمارت میں منتقل ہو گیا۔یہ’گھر’معروف لوک گلوکار عالم لُہار نے کرایے پر لے رکھا تھا۔سڑک کے رُخ پر کھلنے والے ایک کمرے میں اُن کا دفتر تھا۔وہ’مٹّی دا باوا’نامی ایک فلم بنانے کی کوشش کر رہے تھے اور زرتاش نامی ایک صاحب ان کے فلم ڈائریکٹر تھے۔میرے اور شکور کے پاس پچھلے صحن میں کھلنے والا ایک عمدہ کمرہ تھا مگر یہاں ٹائلٹ کی سہولت تو تھی،غسل خانے کی نہیں سو اور بھی کئی اہلِ محلہ کی طرح ہم بھی معصوم شاہ قبرستان کی مسجد کے غسل خانوں کا فائدہ اٹھاتے تھے۔جس کی دوسری طرف جنک نگر کا ایک ٹکڑا تھا۔
یہاں میں نے بے وجہ تین ماہ گزارے۔کھانا سمن آباد موڑ کے ایک ہوٹل پر کھایا جاتا۔شام کو بس یا وین پکڑ کر ٹی ہاؤس چلا جاتا۔اکثر رات کا کھانا وہیں کھا کر پلٹتا۔سردیوں میں کمرے میں اور گرمیوں میں سروس روڈ پر چارپائیاں ڈال کر سوتے۔بالکل مقابل میں اداکارہ شمیم آرا کا گھر تھا۔جہاں گردشی کاتب’بوتل نگر’کا دیواری طغرہ ٹانک جاتے تھے۔شکور صاحب اداکارہ سنگیتا کی بہن جو مستقبل میں کویتا بننے والی تھی،کو ٹیوشن پڑھا رہےتھے۔دلچسپ صورت تب پیدا ہوتی جب گھر لوٹنے پر ہماری چارپائی کسی اداکارہ کے قبضے میں ہوتی۔واگزاری کی صورت پیدا نہ ہو پاتی تو درمیان میں کتابِ صبر رکھ کر رات کاٹنا ہڑتی مگر رات کی سب سے اچھی بات یہی ہے کہ بالآخر کٹ جاتی ہے۔
ان میں سے کچھ نام ور بھی ہوئیں۔دو تین ماہ بعد میں اس سارے بندوبست سے اُکتا گیا اور رزلٹ آنے تک گاؤں پلٹ آیا۔اب کی بار میاں چنوں کی بجائے تلمبہ کا رُخ کیا اور شاعری کے سوا کوئی مصروفیت نہیں پالی۔یہی وہ زمانہ ہے جب مجھے لگا کہ میں شاعر ہوں اور مجھے اپنی اس حیثیت کو اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں اظہار کا وسیلہ بنانا ہے۔