درس گاہ – 50

سن تہتّر کی یہ ششماہی کئی لحاظ سے یادگار رہی۔سیف زلفی کے حلقۂ اربابِ قلم سے میں نے اپنی مجلسی زندگی کا آغاز کیا۔مجھے یاد ہے جس روز میں نے وہاں تنقید کے لیے نظم پیش کی۔دل میں رد و قبول کے خوف سے عجب دھڑکا تھا مگر خیریت گُزری اور میری نظم کو اسلوب،موضوع اور زبان تینوں حوالوں سے عمدہ قرار دیا گیا۔سیف زلفی کے مزاج میں ایک عجب لپک اور طراری تھی جو اس روز میرے بہت کام آئی اور ان سے ایک طویل نسبت کی بنیاد بنی۔
اسی زمانے میں میں علی ظہیر منہاس اور ظفر رباب کے ساتھ ریڈیو پاکستان لاہور پر متعارف ہوا۔پروگرام یونیورسٹی میگزین تھا اور اس کے پروڈیوسر اسد نذیر تھے۔بعد میں کچھ پروگرام صفدر ھمدانی اور نیلوفر عباسی کے ساتھ بھی کیے۔یہ وہ زمانہ تھا جب ریڈیو میں ایک سے بڑھ کر ایک نابغہ بھرا تھا اور ان کی ادب شناسی اور ادب پروری مسلّمہ تھی۔اس پروگرام میں شرکت کا معاوضہ بیس روپے تھا جو چیک کی صورت میں ادا کیا جاتا تھا اور اس پر دو آنے کا رسیدی ٹکٹ چسپاں کرنے کی ضرورت ہوتی تھی۔جسے منیر نیازی ریڈیو والوں کی سازش گردانتے تھے اور فرماتے تھے کہ انہوں نے ہر چیک پر ایک سانپ بٹھا رکھا ہے جسے دو آنے کا دودھ نذر کیے بغیر خزانے کا دروازہ وا نہیں کر سکتے۔
میرے پہلے ریڈیو پروگرام کے میزبان پروفیسر قیوم نظر تھے۔پروگرام سے پہلے انہوں نے کینٹن پر سب کی غزلیں دیکھیں تاکہ کوئی بے وزن یا بے اوسان شعر لاسلکی طور پر سامعین کے اذہان پر بوجھ نہ بنے۔اسی رو میں اپنی کئی غزلیں سُنائیں۔ایک شعر اب بھی میری یاداشت کا حصہ ہے:
دل توڑ کے جانے والے سُن، دو رشتے اب بھی باقی ہیں
اک سانس کی ڈور نہیں ٹوٹی،اک پریم کا بندھن رہتا ہے
اس نشست میں میں نے اپنی غزل”سنگیت سُریلے کیوں اتنے”سامعین کی نذر کی۔یہ غزل اس سے پہلے”نیا دور”میں چھپ چکی تھی مگر اب تک چُھپی ہوئی تھی۔ریڈیو پر پڑھ کر گاؤں آیا تو یہ عین اس وقت نشر کی گئی جب میرے ابّا جی وقت گزاری کے لیے ریڈیو سُن رہے تھے۔یہ غزل نشر ہونی شروع ہوئی تو مَیں جوتے پڑنےکے خوف سے کھسک لیا مگر انہوں نے ملازم بھیج کر طلب کر لیا اور کچھ اس طرح کا مکالمہ ہوا:
ابّا جی: یہ شاعری جو میں نے ابھی ریڈیو پر سُنی،تم نے کی ہے؟
میں: جی
ابّا جی: انسان کی کوئی ذات نہیں
پھر دیس قبیلے کیوں اتنے
تمہارا شعر ہے؟
میں:جی ہاں
ابّا جی:چنگا اے،چنگا اے۔یار تُوں شعر شُور آکھ لیا کر۔
اس کے بعد بقولِ میاں وارث شاہ”پاڑا کُھل گیا”اور میں نے شاعری کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔
یونیورسٹی میگزین کے میزبانوں میں جناب عارف عبدالمتین اور امجد اسلام امجد بھی تھے۔اسی پروگرام میں ہم سرّاج منیر سے متعارف ہوئے مگر اس کی روداد آگے چل کر۔
پاک ٹی ہاؤس میں اسرار زیدی صاحب سے روز کی ملاقات تھی۔وہ مجید امجد،فیض احمد فیض،منیر نیازی اور ظفر اقبال سے اپنی نسبت کے حوالے سے گُفتگُو کرتے تھے تو ہم اس کی صداقت پر کم ہی ایمان لاتے تھے مگر کسی رسالے میں ان کی ایک تصویر دکھائی دی،جس میں وہ کرسی نشین تھے اور فیض اور مجید امجد ان کے دائیں بائیں ایستادہ تو ان کے کہے پر یقین آیا۔شاید اس بدگمانی کی وجہ ان کی طبیعت کی سادگی تھی۔ٹی ہاؤس کی میز پر ہر کہ و مہ کے ساتھ بے تکلف نشست۔سادہ چائے کے دور۔عمومی زندگی سے جڑی حقیقت پسند گفتگو۔بناوٹ اور احساس ِعظمت سے نفور۔روز گھر واپسی پر سادہ روٹیوں کا پارسل ہمراہ۔سچ یہ ہے کہ یہ سب کچھ انہیں عام بنانے پر تُلا تھا اور جب ہمیں یہ بات سمجھ میں آئی تو ہم بھی خالد احمد کی طرح ان کی پُوجا کرنے لگے۔ان کا کمال یہ تھا کہ وہ پھر بھی عام آدمی ہی رہے اور دھنی رام روڈ سے پاک ٹی ہاؤس کے درمیان ایک پاکیزہ روح کی طرح تیرتے پھرے۔
نئے شاعروں میں جاوید شاہین (زخم ِمسلسل کی ہری شاخ)،سلیم شاہد(صبحِ سفر)اور نذیر قیصر (آنکھیں،چہرہ،ہاتھ)کو پڑھ بھی لیا تھا اور ملاقات بھی رہنے لگی تھی۔ظفر اقبال کی”اب ِرواں”کا بہت شہرہ تھا مگر اس وقت کوشش کے باوجود دستیاب نہیں ہو پائی۔”فنون”کے غزل نمبر میں ان کی ہزلیہ شاعری کا تاثر کچھ اچھا نہیں تھا۔ادبی پرچوں میں بھی وہ اپنے آپ کو غیر سنجیدہ ثابت کرنے پر تُلے تھے اور تو اور انہوں نے”سویرا”کا ایک شمارہ مرتب کیا تب بھی اپنے امیج کو بہتر بنانے کی ضرورت نہیں سمجھی تو ہم نے بھی انہیں جُوں کا تُوں قبول کر لیا۔
یہی وقت ملک بھر کے نوجوان شعراء سے متعارف ہونے کا تھا۔غلام محمد قاصر،شبیر شاہد،محمد خالد،ثروت حسین،صابر ظفر،جمال احسانی،سلیم کوثر،پروین شاکر،شاہدہ حسن،صغیر ملال،ایوب خاور،خالد اقبال یاسر،اصغر ندیم سید،طارق جامی،محمد اظہار الحق،روحی کنجاہی،زمان کنجاہی،یوسف حسن،نجیب احمد سرمد صہبائی،ناصر بلوچ،رمضان شاہد،مشتاق صوفی،اختر کاظمی،اختر ہاشمی،لطیف ساحل،اعزاز احمد آذر ،عبدالستار سید،گلزار بخاری اور بہت سے نئے لکھنے والوں ہمارے حلقۂ احباب میں داخل ہوئے اور بہت سوں سے ایک طویل نسبت کی بنیاد پڑی جو آگے چل کر تحریک کی شکل اختیار کر گئی۔
احباب میں اردو اور پنجابی سے جڑے احباب کی کثرت کا سبب یہ تھا کہ ہم خود دونوں زبانوں میں اظہار کر رہے تھے اور چھپ بھی رہے تھے۔یہ اس لیے کہ ہمارے تخلیقی کُل کو اس کے بغیر ظاہر کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔صرف اردو لکھتے تو محسوس ہوتا جیسے ابھی کچھ کہنا باقی ہے۔یہی کیفیت صرف پنجابی میں لکھنے میں تھی۔شاید ہماری زندگی کی دوہری شباہت دو زبانوں کا لبادہ چاہتی تھی سو ہم نے اِسے آج تک یہ سہولت فراہم کر رکھی ہے اور سچ یہ ہے کہ خاصے سُکھی ہیں۔
اس عرصے میں گاؤں پلٹے تو والد صاحب نے ایک طرح کا مدارالمہام بنا دیا۔غلہ منڈی کے معاملات ہمارے سپرد ہوئے۔حاجی محمد جرولہ،ریاض حسین قریشی،مہر منظور/مہر غلام محمد سنپال،راج محمد پاندہ،الیاس بھٹی،مہر صادق سنپال کی آڑھت کے علاوہ خود ہمارے بھائی مہر نواب اور تایا زاد مہر محمد نے بھی یہ شغل اختیار کر رکھا تھا۔جہاں کسی کو کسی کام کی جلدی نہیں ہوتی تھی۔ابّا جی کے چیک ہم بچپن سے لکھتے آئے تھے اب کیش بھی کرانے لگے تھے۔منڈی سے بھی وصولی کا حق مل گیا تھا۔اس لیے جیب اور نیّت بھری رہتی تھی۔
یہی دن تھے جب لاہور سے یونیورسٹی میں داخلہ فارم جمع کرانے کے لیے بُلاوا آیا اور میں ماں سے معقول رقم اینٹھ کر نواز کے پاس جا پہنچا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے