درس گاہ – 51

ریڈیو پاکستان لاہور کے پروگرام یونیورسٹی میگزین میں ہم دوست یا ہماری ٹولی ایک ساتھ مدعو کی جاتی تھی۔اس ٹولی میں مابدولت کے علاوہ علی ظہیر منہاس،علی نوید بخاری،ظفر رُباب،امجد
منہاس،نگہت رضوی،زاہد کامران،عبدالحکیم عامر اور اور اختر کاظمی کی حیثیت مستقل تھی۔کبھی کسی نئی آواز کو بھی موقع دے دیا جاتا تھا۔تہتّر کے آخر اور چوہتّر کے اوائل تک ہم کم و بیش ہر پروگرام کا حصّہ بنے جن کی میزبانی پروفیسر قیوم نظر،پروفیسر عارف عبدالمتین،پروفیسر امجد اسلام امجد(جو اُس وقت ابھی لڑکے ہی تھے) اور علی ظہیر منہاس نے کی۔
اس سلسلے میں تین واقعات ایسے ہیں جو اب تک ذہن سے نہیں اترے۔اس لیے ان کا اجمالی ذکر کرنا مناسب ہو گا۔
پروفیسر قیوم نظر کی میزبانی میں ایک پروگرام اقوام ِمتحدہ کی پچیسویں سالگرہ کے موقع پر نشر کیا گیا۔اس کے لیے تمام شرکا کو اقوام ِمتحدہ کے مقاصد کے حوالے سے نظمیں پڑھنا تھیں۔ریکارڈنگ سے پہلے پروفیسر صاحب میری نظم کے دوسرے بند پر معترض ہوئے اور نظم کو پہلے بند پر ہی ختم کرنے کی صلاح دی۔یہ صورت مجھے منظور نہیں تھی سو میں نے شمولیت سے معذرت چاہی تو ساتھی شعرا نے میری شمولیت پر اصرار کیا مگر پروفیسر صاحب اپنی ضد پر اڑے رہے۔ہم نے آپس میں مشورہ کیا اور طے پایا کہ میں بظاہر پروفیسر صاحب کی بات مان لوں گا مگر ریکارڈنگ کے وقت پوری نظم پڑھوں گا۔بعد میں جو ہو گا دیکھا جائے گا۔سو میں پروگرام کا حصّہ بنا اور پہلے بند پر داد کا سلسلہ جاری تھا کہ میں نے دوسرے بند کو قدرے تیزی سے اس طرح نمٹا دیا کہ میزبان کو خبر ہونے تک میں اپنا کام کر چکا تھا۔عجیب بات یہ کہ کسی نے مشاعرے میں خلل نہیں ڈالا۔بعد میں کینٹن پر چائے پیتے ہوئے پروفیسر صاحب مجھ پر خوب برسے مگر ہم نے ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے کا بتایا اور عرض کی کہ انہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ پرڈیوسر پروگرام نشر کرتے وقت نظم کو ایڈیٹ کر دیں گے اور آپ اسے میرا آخری پروگرام جانیے مگر جب پروگرام نشر ہوا تو اسے ایڈٹ نہیں کیا گیا تھا۔ہاں میں اگلے پروگرام کی ریکارڈنگ کے لیے گیا تو میزبان اور پروڈیوسر دونوں نئے تھے۔آپ کی دلچسپی کے لیے نظم ذیل میں درج کرتا ہوں۔واضح رہے کہ یہ نظم میری کسی کتاب کا حصّہ نہیں:
"پچیسویں سالگرہ پر”

ہمیں یہ خبر ہے
نیویارک کی وہ عجوبہ عمارت
جو سب کی لہو رنگ تیرہ نگاہوں کا مرکز بنی تھی
ابھی تک اُسی شان سے سر اُٹھائے کھڑی ہے
ہمیں علم ہے امن کے دُکھی دل پریشاں پجاری
جو انسانیت کی بھلائی کی خاطر
اندھیری رُتوں میں اکٹھّے ہوئے تھے
ابھی جاگتے ہیں
ہمیں علم ہے جنگ اور نفرت کسی مسئلے کا
تدارک نہیں ہے
ہمیں یہ خبر ہے ہمارے مرّبی
بنی نوعِ انساں کو لاحق مسائل کا حل ڈھونڈنے کے لیے جاگتے ہیں
ابھی جاگتے ہیں

۔۔۔۔اگر جاگتے ہیں تو کیوں ہم ابھی تک
اسیر ِشبِ قہرِ آزردگی ہیں؟
اندھیرے کی تہ میں نہاں ہو رہی ہے ہماری بصیرت
بدن ہیں قضا کی شقاوت سے گھایل
اُفق تا اُفق بہ رہا ہے ہمارا لہو خاکداں پر
مسلسل سُکڑتی چلی جا رہی ہے زمیں کارواں ہر
ہمارے سروں پر ابھی تک مسلّط ہیں کیوں یہ مسائل؟

دوسرے واقعے کی نسبت علی ظہیر منہاس کے ایک پرستار سے ہے۔اب میں ان کا نام بھول گیا ہوں مگر اتنا یاد ہے کہ وہ شاعر نہیں تھے اور صرف ریڈیو اسٹیشن دیکھنے کے شوق میں ساتھ ہو لیے تھے۔وہ کچھ چل بے چل سے تھے۔اس لیےانہیں ہدایت کی گئی کہ وہ ریکارڈنگ کے وقت خاموش رہیں گے اور داد دینے کی زحمت نہیں کریں گے۔انہوں نے اس ہدایت پر عمل بھی کیا مگر جب ظفر رباب اپنی غزل کے اس شعر پر پہنچے:
میں نے بارش کی دُعا مانگی تھی فصلوں کے لیے
گھر کی دیوار سے پانی بھلا کیوں رِستا ہے؟
تو وہ اپنی چُپ کو برقرار نہیں رکھ سکے اور ایک تیز رعد جیسی آواز میں گرج کر فرمایا”سبحان اللہ! کیا غُربت ِوطن ہے؟”. اُن کا یہ فرمانا تھا کہ سب حق دق رہ گئے،شاعر اگلا شعر پڑھنے کی بجائے انہیں دیکھتے رہ گئے۔ پروڈیوسر تڑپ کر اندر چلے آئے۔ریکارڈنگ روک دی گئی۔مہمان کو باہر کا راستہ دکھایا گیا اور بقیہ مشاعرہ اس کے بعد ریکارڈ کیا گیا۔
تیسرے واقعے کی اہمیت اس لیے ہے کہ وہ ایک نئی محبّت کی بنیاد بنا۔اس روز یونیورسٹی میگزین کے مشاعرے میں ایک نیا نام سراج منیر نامی ایک نوجوان کا تھا۔میزبان نے اس نام کو آخر میں درج کر رکھا تھا۔یعنی مشاعرے کا اختتام اُن کی غزل پر ہونا تھا۔مجھے تو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا مگر علی ظہیر منہاس اس معاملے میں بہت حسّاس تھے۔وہ معترض ہوئے اور ان کے موقف کی سبھی نے حمایت کی تو سراج منیر کا نام کہیں درمیان میں درج کر دیا گیا اور انہوں نے اس تبدیلی کو خوش دلی سے قبول بھی کیا۔اُن کی یہ ادا مجھے اچھی لگی۔ریکارڈنگ کے بعد ہم ساتھ ہو لیے۔کنگ سرکل(لکشمی چوک) پر چائے پینے تک ہم دوست بن چکے تھے۔پھر میں انہیں اپنے ساتھ پاک ٹی ہاؤس لے آیا۔مجھے میرے شعری مزاج اور دوستوں کے کراچی میں ایک وسیع حلقے کے باعث "کراچی والا” کہا جاتا تھا اور سراج منیر تو آئے ہی کراچی سے تھے۔اس لیے ہمیں بے تکلّف ہونے میں دیر نہیں لگی۔ہم نے ثروت حسین اور شاہدہ حسن کی شاعری پر بات کی۔قمر جمیل،سلیم احمد،اطہر نفیس،رئیس فروغ وغیرہ کو یاد کیا اور پاک ٹی ہاؤس میں ایک میز پر ساتھ بیٹھنا آغاز کیا۔یہ سلسلہ برسوں پر محیط رہا۔جس کی تفصیل الگ دفتر کی متقاضی ہے۔
یہ وہی سراج منیر ہیں جو بعد میں ادارہ ثقافت ِاسلامیہ کے کم عمر ترین ڈائریکٹر بنے۔کتاب”ملت ِاسلامیہ۔۔تہذیب و تقدیر”کے خالق تھےاور بے مثل شاعر اور نہایت فطین نقّاد۔اُن کی شخصیت کا ایک خفی پہلو ہجو نگار ہونا ہے مگر وہ یہ کام تن ِتنہا سر انجام نہیں دیتے تھے بلکہ محمد خالد اور اس فقیر کی معیت میں تکمیل کو پہنچاتے تھے۔اس کے لیے ایک اجتماعی تخلص”غریب و سادہ و رنگیں”استعمال کیا جاتا تھا جو دراصل "سراج و خالد و ساجد”کی متبادل صورت تھی۔
کبھی اُفتاں کبھی خیزاں غریب و سادہ و رنگیں
تمھارے شہر میں مہماں غریب و سادہ و رنگیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے