درس گاہ – 52

سراج منیر مولانا متین ہاشمی کے فرزند تھے اور یکم جون 1951ءکو سید پور مشرقی پاکستان (موجودگی بنگلہ دیش)میں پیدا ہوئے۔یہ خاندان غازی پور (یوپی-بھارت)سے ہجرت کر کے مشرقی پاکستان منتقل ہوا تھا۔سراج اپنے والد کے بڑے صاحب زادے تھے اور بلا کے ذہین۔میڑک میں وہ پورے مشرقی پاکستان میں اوّل آئے۔زوال ِڈھاکہ کے بعد یہ خاندان کراچی منتقل ہوا اور پھر لاہور۔سراج سے جب میری ملاقات ہوئی تو وہ بی۔اے کر چکے تھے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم-اے انگریزی میں داخلہ لینے والے تھے۔یہی زمانہ تھا جب میں اورینٹل کالج میں داخلے کے انتظار میں تھا۔فرق صرف یہ تھا کہ اردو یا پنجابی میں ایم-اے کرنا میری منزل نہیں تھی جب کہ سراج منیر اپنی منزل سے بخوبی آگاہ تھا اور میری طرح اندھیری رات کا مسافر نہیں تھا۔
دو چار ملاقاتوں ہی میں کُھل گیا کہ سراج منیر اور ہمارے مطالعے میں ایک اور دس کی نسبت ہے۔وہ اردو اور فارسی کلاسک کو کھنگال چکا تھا اور یہاں یہ عالم تھا کہ کلاسک سے آشنائی کے عمل کا ابھی آغاز ہی نہیں ہوا تھا۔میں نے نسیم حجازی سے انتظار حسین تک کو تو پڑھ رکھّا تھا مگر کلاسیکی شاعری اور نثر سے واسطہ تھا نہ طبیعت اسے پڑھنے پر مائل ہوتی تھی۔اس لیے جب سراج کی گفتگو میں کلاسیکی ادب کے حوالے آتے اور وہ کسی شعر یا نثر پارے کو اپنی دلیل کی صداقت کو بڑھانے کے لیے پیش کرتا تو میں سوائے داد دینے کے اور کچھ کہہ ہی نہیں سکتا تھا۔اس پر اس کی خطابت۔زبان اور صنائع لفظی و معنوی کی خوبیوں سے بھری۔ایک دل موہ لینے والی تاثیر اور دماغ کو مسخّر کرتے دلائل سے لبالب۔جس میں انگریزی کے توسط سے عالمی ادب کے وسیع مطالعے کا تڑکا لگا ہوا یعنی سونے پر سہاگا ہی نہیں کچھ اس سے فزوں تر۔بس وہ کہے اور سُنا کرے کوئی۔یہی وجہ تھی کہ جب یہ آواز حلقۂ اربابِ ذوق میں گونجی تو اپنی جگہ بناتی ہی چلی گئی۔سراج منیر نے میری میز کو بدستور سجائے رکھّا مگر بہت جلد وہ لاہور کے ہر معقول ادیب و شاعر کا محبوب بن گیا۔انتظار حسین،پروفیسر سجاد باقر رضوی،سجاد رضوی،سہیل احمد خان،مسعود اشعر،محمد سلیم الرحمٰن،زاہد ڈار اور تبسّم کاشمیری جیسے نابغے اس کی راہ دیکھنے لگے اور مجھ سمیت میری عمر کے اکثر نوجوان اس کی محبت میں مبتلا ہو گئے۔
سراج ہی کے توسط سے میں کراچی کے بہت سے لکھنے والوں سے آشنا ہوا اور دوستوں کا ایک وسیع حلقہ وجود میں آیا۔اُس نے میرے فکری منہاج کے تعین میں بھرپور حصہ لیا،اس کے باوجود کہ فکری لحاظ سے ہم دو الگ بلکہ متضاد رویوں کے لوگ تھے۔اس کی نسبت دائیں اور میری بائیں بازو سے تھی مگر اس میں بھلائی کا پہلو یہ تھا کہ وجود کی تکمیل ان دونوں کے ملاپ سے ہوتی ہے۔کلوینو کے دو لخت شہزادے کی طرح ہر حصہ اپنی جگہ مکمل ہو کر بھی دوسرے حصے کو پائے بغیر سود مند نہیں ہو سکتا اور میری اور سراج کی ذات میں خیر کا پہلو شاید ہمارے اختلاف ِرائے کے استحکام ہی سے ممکن تھا۔
سراج نے شاید ٹھان رکھّی تھی کہ وہ میری شاعری کی تحسین کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں کہے گا۔میں نے جب بھی کسی ادبی حلقے میں کوئی چیز تنقید کے لیے پیش کی۔وہ میری مدح کو وہاں موجود ہوتا تھا۔یہی نہیں اردو اور عالمی ادب کے حوالے سے اس کے تعین ِقدر میں اس قدر اضافہ کرتا تھا کہ مجھے خود پر فخر محسوس ہونے لگتا تھا اور بعض اوقات یقین نہ آنے پر اس کی اور اپنی دماغی صحت پر شبہ بھی ہوتا تھا مگر سچ یہ ہے کہ وہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں ہوا کرتا تھا۔مجھے معلوم تھا کہ میں بُرا شاعر نہیں ہوں اور معمول سے مختلف بھی ہوں سو اس امر کی طرف نشاندہی کرنے میں کیا برائی تھی؟
سراج منیر تصویری (photo genic) یاداشت کے مالک تھے اور اردو/انگریزی ادب کے حوالے دیتے ہوئے اصل عبارت کو اپنی یاداشت کے سہارے دہرانے پر قادر تھے۔اس سلسلے میں ایک واقعے کا بیان دلچسپی کا حامل ہو گا۔حلقہ کے اجلاس سے پہلے ہم پاک ٹی ہاؤس کی سیڑھیوں کے پاس بیٹھے گپ ہانک رہے تھے کہ اجلاس شروع ہونے پر پروفیسر شہرت بخاری ہمیں دھکیل کر اجلاس میں لے گئے۔صدارت پروفیسر سجاد باقر رضوی کی تھی۔ادب پارے کا تنقیدی محاکمہ کرتے ہوئے سراج منیر نے کسی مغربی نقاد کا قول اپنی دلیل کو باوزن بنانے کے لیے دہرایا تو باقر صاحب نے گرفت کرتے ہوئے فرمایا کہ مغربی ناقدین کا حوالہ دے کر اپنی بات کو مؤقر بنانا رواج پایا گیا ہے۔مجھے شبہ ہے کہ جس ناقد کا حوالہ سراج منیر دے رہے ہیں،اس نے شاید ہی کبھی ایسی کوئی بات کی ہو۔اب معلوم نہیں باقر صاحب سراج کے زورِ بیان پر گرفت کر رہے تھے یا اس کی یاداشت کو آزمانا چاہتے تھے مگر سراج کو اُن کا استہزائیہ انداز کھا گیا۔اس نے تڑپ کر بصد معذرت عرض کی کہ اس وقت اس کے پاس مذکورہ ناقد کی کتاب موجود ہے اور اگر جنابِ صدر اجازت دیں تو وہ اپنی دلیل کے حق میں سنائی گئی کوٹیشن کو اس کے سیاق و سباق کے ساتھ کتاب سے پڑھ کر سنانا پسند کرے گا۔باقر صاحب نے ایک دل فریب مسکراہٹ کے ساتھ اجازت دی اور سراج نے کتاب کھول کر اور صفحہ نمبر بتا کر کم و بیش ایک صفحہ مذکورہ کوٹیشن سمیت پڑھ کر سّنا دیا۔
اجلاس کے اختتام پر ہم دوبارہ اپنی میز پر آ بیٹھے۔میں نے سراج سے کہا کہ ممکن ہو تو مذکورہ کتاب دو ایک دن کے لیے مجھے عنایت کرے۔اس نے کہا کہ آج نہیں۔ہاں کل وہ میرے لیے کتاب لیتا آئے گا اور میں اپنی سہولت سے پڑھ کر اسے لوٹا دوں۔میں نے اصرار کیا کہ جب کتاب موجود ہے تو اسے کل پر کیوں ٹالا جائے اور کچھ زبردستی کرتے ہوئے کتاب چھین لی مگر کھول کر دیکھا تو وہ کشف المحجوب کا کوئی نسخہ تھا۔میں حق دق رہ گیا اور پوچھا کہ اس نے وہ طویل عبارت کہاں سے پڑھی تھی تو سراج نے اپنے سر کو انگلی سے چھو کر کہا”یہاں سے”.
یہ سراج کی کہانی کا ابتدائیہ ہے۔1974 سے اس کی وفات تک اس میں عمودی اسراع کی کیفیت ہے۔مجھے شعر کہہ کر سب سے پہلے اسے سنانا اچھا لگتا تھا اور اس کی شاعری اور تنقیدی مضامین کا پہلا سامع بھی میں ہی ہوا کرتا تھا۔اس کی شاعری میں ایک دل موہ لینے والی تازگی تھی اور مضامین میں نئے پن اور تخلیقی اپج کے ساتھ ساحری کی سطح کو چھوتی دل نشین نثر جو اپنے اندر معانی کا ایک جہان لیے ہوتی تھی۔اس زمانے میں اس نے چند کہانیاں بھی لکھیں جو انتظار حسین اور سریندر پرکاش کے اسلوب سے متاثر ہونے کے باوجود موضوع اور تخلیقی ندرت کی سطح پر منفرد تھیں اور جن میں ہم عصریت کا پرتو بہت واضح تھا۔
سراج منیر کی کہانی لکھنا مجھ پر قرض ہے۔اس لیے بھی کہ یہ میری کہانی کا حصہ ہے اور اس لیے بھی کہ ہماری کہانی ایک دوسرے کی کہانی میں اس طرح دھنسی ہوئی ہے کہ اسے الگ کر کے دیکھنا ضروری ہے۔بہت کچھ ہے جو بتانا ضروری ہے اور بہت کچھ ہے جس کا چھپانا لازم ہے مگر یہ فیصلہ کرنا ابھی لازم ہے نہ ضروری۔ابھی تو وہ گورنمنٹ کالج اور میں یونیورسٹی اورینٹل کالج میں داخلے کے منتظر ہیں اور ہماری گاڑی اسٹیشن سے نکلنے کے انتظار میں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے