بیاں اُس بزم میں میری کہانی ہو رہی ہے
ادائے خاص سے رنگیں بیانی ہو رہی ہے
مہک آتی ہے اِک سیلی ہوئی آزردگی کی
کوئی شے ہے جو اِس گھر میں پرانی ہو رہی ہے
نظر آتے نہیں اَب شام کو اُڑتے پرندے
تو کیا اِس شہر سے نقل مکانی ہو رہی ہے؟
بُلاوا آ گیا ہے اب کسے کوہِ ندا سے
مری اطراف میں کیوں نوحہ خوانی ہو رہی ہے؟
لبوں پر ہے کسی شیریں دہن کے ذکر میرا
خزاں کی شام ہے اور گل فشانی ہو رہی ہے
گریزاں ہیں مری صحبت سے کتنے لفظ ساجد
ثمر آور مگر فصلِ معانی ہو رہی ہے