Category Archives: غزل

کسـی نگاہ کی زد پر ہـے باغِ ســبز مِرا

کسـی نگاہ کی زد پر ہـے باغِ ســبز مِرا 
کہ زرد پڑنے لگا ہے چــراغِ ســبز مِرا

سمَجھ میں آ نہ ســکا بھیــد اُس کی آنکھــوں کا
اُلٹ کے رہ گیــا آخِــر دماغِ سـبز مِرا

پلٹ کے آئی نہیں چھاؤں اُس کے کُــوچے سے
دَھرا ہے دُھـوپ میں اب تک ایاغِ سـبز مِرا

یہ معجــزہ ہے زرِ عشــق کی صــداقت کا 
کسـی کے دل میں دھـڑَکتا ہے داغِ سـبز مِرا

بدل گئی جو کبھی رنگ و نُور کی تہذیب
نہ مِل سـکے گا کسـی کو سُــراغِ سـبز مِرا

گیــاہ و ســبزہ و گُل سے غــرَض ہو کیوں ســاجِــدؔ
کسـی کو خـوش نہیں آیا فــراغِ سـبز مِرا

جہاں بھر میں مرے دل سا کوئی گھر ہو نہیں سکتا

جہاں بھر میں مرے دل سا کوئی گھر ہو نہیں سکتا
کہ ایسی خاک پر ایسا سمندر ہو نہیں سکتا

رواں رہتا ہے کیسے چین سے اپنے کناروں میں
یہ دریا میری بیتابی کا مظہر ہو نہیں سکتا

کسی کی یاد سے دل کا اندھیرا اور بڑھتا ہے
یہ گھر میرے سلگنے سے منور ہو نہیں سکتا

بہت بے تاب ہوتا ہوں میں اس کو دیکھ کر لیکن
ستارہ تیری آنکھوں سے تو بڑھ کر ہو نہیں سکتا

یہ موج عمر ہر شے کو بہت تبدیل کرتی ہے
مگر جو سانس لیتا ہے وہ پتھر ہو نہیں سکتا

میں اس دنیا میں رہتا ہوں کہ جس دنیا کے لوگوں کو
خوشی کا ایک لمحہ بھی میسر ہو نہیں سکتا

اگر فرماں روائی صاحب ِ توقیر کا حق ہے

اگر فرماں روائی صاحب ِ توقیر کا حق ہے
تو مجھ سے بھی زیادہ تخت پر شمشیر کا حق ہے

مجھے خُوش آ نہیں سکتا کسی کا منتظر رہنا
مگر وہ خُوب صورت ہے ، اُسے تاخیر کا حق ہے

دکھائی دے رہی ہے آسماں پر روشنی سی کچھ
اور اس موج ِ مسرت پر کسی دل گیر کا حق ہے

جنون ِ عشق سے دوچار ہوتے ہی یقیں آیا
کہ اس طرز ِ تجاوز پر فقط زنجیر کا حق ہے

بہت کچھ کھو چکا ہوں میں جسے مسمار کرنے میں
مجھے اُس شہر کی بار ِ دگر تعمیر کا حق ہے

بتاتا کیوں نہیں کوئی کہ اِذن ِ باریابی پر
کسے خاموش رہنا ہے ، کسے تقریر کا حق ہے

مجھے یہ دھیان رہتا ہے حضور ِ شاہ میں ساجد
کہ میری قابلیت پر مری جاگیر کا حق ہے

گردش ِ جام کہیں گردش ِ مینا ساکت

گردش ِ جام کہیں گردش ِ مینا ساکت

یعنی کچھ دن سے ہے میخواروں کی دنیا ساکت

صرف چل دینے سے منزل نہیں ملنے والی

صرف رک جانے سے ہوتا نہیں صحرا ساکت

میں اسے دیکھتا رہتا تھا مجھے کیا معلوم

کیا رواں تھا میرے اطراف میں اور کیا ساکت

میں نے اک خواب میں پھر چوم لیں اس کی آنکھیں

میری غفلت سے ہوا نیند کا دریا ساکت

کیا کسی شہر ِ طلسمات میں آ نکلا ہوں ؟

رات ساکت ہے کہیں دن کا اجالا ساکت

آیئنے آب بصارت سے تہی ہیں ساجد

ہو گیا ہو نہ انہیں دیکھنے والا ساکت

رشک اپنوں پر نہ غیروں سے حسد کرتا ہوں میں

رشک اپنوں پر نہ غیروں سے حسد کرتا ہوں میں
یعنی اس کار ِ زیاں کو مُسترد کرتا ہوں میں

ساتھ ہو لیتا ہوں سایے کی طرح ہر ایک کے
بے گھری میں کب خیالِ نیک و بد کرتا ہوں میں

شام ہوتے ہی بنا دیتا ہوں منظر صبح کا
اس طرح اپنے قبیلے کی مدد کرتا ہوں میں

یاد کرتا ہوں کبھی اور بھول جاتا ہوں کبھی
میں اگر کچھ کام کرتا ہوں تو حد کرتا ہوں میں

صرف باتوں پر نہیںں قائم مری دیوانگی
اعتبار ِ راحت ِ عقل و خرد کرتا ہوں میں

اپنی آنکھیں رہن رکھ آیا ہوں اس کے نام پر
اب فقط چھُو کر تمیز ِخال و خد کرتا ہوں میں

کر رہا ہوں آج سے ساجد تکلّف بر طرف
اپنے فرمائے ہوئے کو اب سند کرتا ہوں میں

کبھی چراغ کبھی راستہ بدل کر دیکھ

کبھی چراغ کبھی راستہ بدل کر دیکھ
بہت قریب ہے منزل ذرا سا چل کر دیکھ

ترے حصار سے باہر نہیں زمان و مکاں
تو میری طرح کسی آئنے میں ڈھل کر دیکھ

فقیر بن کے وہ آیا ہے تیری چوکھٹ پر
یہ کوئی اور نہیں ہے ذرا سنبھل کر دیکھ

نگار خانۂ گردوں کو راکھ کرتے ہوئے
ذرا سی دیر کسی طاقچے میں جل کر دیکھ

زمین تنگ ہوئی جا رہی ہے لوگوں پر
حدود قریۂ جاں سے کبھی نکل کر دیکھ

رواں دواں ہیں کسی سمت میں کہ ساکت ہیں
پھر ایک بار ستاروں کی آنکھ مل کر دیکھ

عجیب لطف ہے ترک نشاط میں ساجدؔ
جو ہو سکے تو مری بات پر عمل کر دیکھ

چراغ کی اوٹ میں رکا ہے جو اک ہیولیٰ سا یاسمیں کا

چراغ کی اوٹ میں رکا ہے جو اک ہیولیٰ سا یاسمیں کا
یہ رنگ ہے اور آسماں کا یہ پھول ہے اور ہی زمیں کا

مرے ارادے پہ منحصر ہے یہ دھوپ اور چھاؤں کا ٹھہرنا
کہ ایک ساعت کسی گماں کی ہے ایک لمحہ کسی یقیں کا

مجھے یقیں ہے زمین اپنے مدار پر گھومتی رہے گی
کہ اب ستاروں کے پانیوں میں بھی عکس ہے خاک کے مکیں کا

میں جن کے ہمراہ چل رہا ہوں وہ سب اسی خاک کی نمو ہیں
مگر جو میرے وجود میں ہے وہ خواب ہے اور ہی کہیں کا

جو میرے خوں میں بھڑک رہی ہے وہ مشعل خواب ہے کہاں کی
جو میری آنکھوں میں بس گیا ہے وہ چاند ہے کون سی جبیں کا

میں رات کے گھاٹ پر اتر کر کسی ستارے میں ڈوب جاتا
مگر مرے روبرو دھرا ہے یہ آئنہ صبح نیلمیں کا

سو اب یہ جیون کی ناؤ شاید کسی کنارے سے جا لگے گی
کہ اب تو پانی کی سطح پر بھی گمان ہونے لگا زمیں کا

رات اک لہر رُکی پانی میں

رات اک لہر رُکی پانی میں
صبح دم گھاس اُگی پانی میں

پھر بڑھی آس کی لَو آنکھوں میں
پھر وہی آگ لگی پانی میں

خواب میں آج اُسے دیکھیں گے
چاند اُترے گا ابھی پانی میں 

جھیل میں شام نے رکھا ہے قدم
گویا اُتری ہے پری پانی میں 

پہلے خود برف بنا تھا پانی
پھر وہی برف ڈھلی پانی میں

ہر طرف ایک گھنا بادل تھا
رات وہ بات نہ تھی پانی میں 

ایک تارا ہے نظر میں ساجد
ایک قندیل جلی پانی میں

جس کا ہم سر کوئ ستارہ نہیں

جس کا ہم سر کوئ ستارہ نہیں
وہ چراغ آج جگمگایا نہیں

کیا ہے موجود، کیا نہیں موجود
اس سے اپنا کوئی علاقہ نہیں

آئنہ، آسمان، آبِ زلال
میں نے کس کس حسیں کو چاہا نہیں

حسرتوں کا شمار کون کرے
غم نہیں اس کا جو بھی پایا نہیں

میں ہوں جس دل ربا کا شیدائی
اس نے اب تک مجھے پکارا نہیں

اب مجھے نیند کی ضرورت ہے
جاگنے سے تو کچھ افاقہ نہیں

اپنی وحشت سے نبھ رہی ہے مری
اہلِ دنیا سے کوئی جھگڑا نہیں

لوٹ آئی ہے فصلِ گل ساجد
وہ ستم گر پلٹ کر آیا نہیں

بیاں اُس بزم میں میری کہانی ہو رہی ہے

بیاں اُس بزم میں میری کہانی ہو رہی ہے
ادائے خاص سے رنگیں بیانی ہو رہی ہے

مہک آتی ہے اِک سیلی ہوئی آزردگی کی
کوئی شے ہے جو اِس گھر میں پرانی ہو رہی ہے

نظر آتے نہیں اَب شام کو اُڑتے پرندے
تو کیا اِس شہر سے نقل مکانی ہو رہی ہے؟

بُلاوا آ گیا ہے اب کسے کوہِ ندا سے
مری اطراف میں کیوں نوحہ خوانی ہو رہی ہے؟

لبوں پر ہے کسی شیریں دہن کے ذکر میرا
خزاں کی شام ہے اور گل فشانی ہو رہی ہے

گریزاں ہیں مری صحبت سے کتنے لفظ ساجد
ثمر آور مگر فصلِ معانی ہو رہی ہے