جس کا ہم سر کوئ ستارہ نہیں

جس کا ہم سر کوئ ستارہ نہیں
وہ چراغ آج جگمگایا نہیں

کیا ہے موجود، کیا نہیں موجود
اس سے اپنا کوئی علاقہ نہیں

آئنہ، آسمان، آبِ زلال
میں نے کس کس حسیں کو چاہا نہیں

حسرتوں کا شمار کون کرے
غم نہیں اس کا جو بھی پایا نہیں

میں ہوں جس دل ربا کا شیدائی
اس نے اب تک مجھے پکارا نہیں

اب مجھے نیند کی ضرورت ہے
جاگنے سے تو کچھ افاقہ نہیں

اپنی وحشت سے نبھ رہی ہے مری
اہلِ دنیا سے کوئی جھگڑا نہیں

لوٹ آئی ہے فصلِ گل ساجد
وہ ستم گر پلٹ کر آیا نہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے