پکا حاجی مجید کا ظاہری رنگ جراحی سے بالکل مختلف تھا ۔ یہ بھی کوئی ستّر مربعوں کا موضع ہے جو اسی نام کے ایک بزرگ کے نام سے منسوب ہے ۔ روایت ہے کہ میاں چنوں، میاں شینہ اور پکا حاجی مجید بھائی تھے اور ان میں سے میاں چنوں جو پہلے ڈاکو تھے، حضرت بہا الدین زکریا ملتانی کی ایک کرامت( حضرت بہا الدین زکریا نے میاں چنوں سے پینے کے لیے پانی منگوایا تھا ۔ وہ پانی لے کر پلٹا تو حضرت اگلے پڑاؤ کی طرف کوچ کر گئے تھے ۔ وہ پانی لے کر وہاں پہنچا تو آپ ایک ٹیلے پر خیمہ زن تھے اور ٹیلے کے چاروں طرف دریا بہہ رہا
تھا) سے متاثر ہو کر ڈاکہ زنی سے تائب ہو گئے تھے ۔ ان بزرگوں کا تعلق سنپال قبیلے سے تھا جو راقم کا قبیلہ بھی ہے مگر حیرانی اس بات پر ہے کہ یہاں کے قدیم باشندوں کی اکثریت حضرت بہاء الدین زکریا کے سلسلے میں بیعت نہیں بلکہ حضرت موسیٰ پاک شہید کے سلسلے کی بیعت ہے ۔ اس علاقے میں ہر دو خاندانوں کی جاگیریں ہیں اور وہ یہاں کی سیاست پر حاوی ہیں ۔ تاہم یہ ایک الگ موضوع ہے اور اس پر پھر کبھی بات ہو گی۔
موضع پکا حاجی مجید میں ہماری بستی (بستی کبیر سنپال) اور پاندھوں کے دو ایک مربعے نکال کر بقیہ زمین کھگّہ فیملی کی ملکیت ہے اور ایک ہی خاندان کی ۔ اس گاؤں کی ملکیت متعدد بھائیوں پیرسوہارے شاہ، پیرعبدالرحمان شاہ، پیرعبداللہ شاہ، پیرغلام رسول شاہ اور پیرعبدالعزیز شاہ وغیرہ کے نام تھی اور ان میں سب سے زیادہ معروف پیرسوہارے شاہ تھے جو وہنی وال (خانیوال) کے مسلم لیگی رہنما پیر بڈّھن شاہ کے داماد تھے ۔ جراحی کے سیّدوں کے برعکس یہاں سادگی کا راج تھا ۔لشٹم پشٹم نام کو بھی نہیں تھی ۔ ملنے جلنے، کھانے پینے اور لباس میں کوئی ایسی ندرت نہیں تھی جو ان کے بڑے زمیندار ہونے کی علامت ہو اورشرعی عیبوں سے دوری کا رنگ بھی نمایاں تھا ۔ حیرت ہوتی تھی کہ یہ سادگی طبیعت کے استغنا کے باعث بے یا دستِ عطا کی بندش کے نتیجے میں ۔ ایک مدت گزرنے پر مجھے احساس ہوا کہ عوام کی رائے میری بات کے دوسرے حصے کے حق میں ہے۔
پیر سوہارے شاہ کی جہازی کوٹھی گاؤں سے کم و بیش باہر تھی اور اس مزاج اور شہری طرز کا بنگلہ اس پورے علاقے میں کوئی اور نہیں تھا ۔ سُنا تھا کہ یہ بنگلہ دلھن والوں کی شرط پوری کرنے کے لیے تعمیر کیا گیا تھا ۔ اس میں سرونٹ کوارٹرز، گیراج، لان، ڈرائیو تھے اور بیڈ رومز کے مابین لمبی گیلریوں اور غلام گردش کی وجہ سے یہ ہمارے لیے کھیلنے کی جنت تھی ۔ شاہ صاحب کی عنایت تھی کہ انہوں نے ہمیں اپنے یہاں ادھم مچانے سے کبھی روکا نہیں ۔ ان کے ایک ہی صاحب زادے خالد شاہ تھے اور ایک بیٹی مگر انہیں شاید پڑھنے کے لیے کہیں باہر بھیج رکھا تھا۔اس لیے ان کے دیدار کم ہی ہوتے تھے۔
ہم اور گاؤں کے کچھ اور بچے سکول کے بعد شاہ صاحب کے لان میں "ٹیوشن” لیتے تھے اور کبھی کبھار ان کے نیاز بھی حاصل ہو جاتے تھے ۔ وہ میرے والد کے قدردان تھے اور بطور لائی (ستھّی) ان کے کیے فیصلوں کو سراہتے تھے ۔ عجیب بات یہ ہے کہ وہ خود میری تعریف کرنے میں بھی بخیل نہیں تھے ۔ ایک بار ان کے کسی سوال کا جواب دینے پر انہوں نے عجیب حسرت سے کہا تھا "اگر تم میرے بیٹے ہوتے تو میں تمہیں لندن میں پڑھاتا” .یہ بات الگ کہ ان کی یہ بات مجھے اپنے والد کی توہین محسوس ہوئی تھی اور میں نے کہہ بھی دیا تھا کہ یہ کام میرے والد خود بھی کر سکتے ہیں مگر اب سوچتا ہوں کہ شاید اس جملے کے بین السطور معنی کچھ اور تھے۔
خیر گورنمنٹ پرائمری سکول ان کے گھر کے سامنے سے گزر کر گاؤں کے آخر میں تھا ۔ بستی سے یہاں پہنچنے میں آدھا پون گھنٹہ تو لگ ہی جاتا تھا ۔ گھر سے نکل کر پہلے جنوب کی طرف چونہہ سڑکوں تک آتے، وہاں سے مغرب کا رخ کر کے پیر شینے اور پھر پکا حاجی مجید تک جنوب کو اور پیر سوہارے شاہ کی کوٹھی سے دائیں مڑ کر سکول ۔ یہ سڑک کا راستہ تھا ۔ درخت کم تھے اور دھول بہت ۔ اس لیے ہم اس طوالت کو کم کرنے کے لیے گاؤں سے نکلتے ہی کھالے کی پگڈنڈی پکڑ کر بھاؤ مراد کی بھینی پر آتے ، وہاں سے کھیتوں کو بیچ میں سے چیرتے ، پاندھوں اور کھگّوں کے مربعوں میں سے گزر کر پکا حاجی مجید کے پُل پر اور وہاں سے سیدھے سکول ۔ راستے میں باغوں اور جنگلی پودوں کے پھلوں پر منہ مارتے ، موسم آنے پرجنڈ کے سنگر تک کا مزہ لیتے یہ سفر ایک مستی بھری روانی میں جاری رہتا ۔ ہاں اس میں خرابی بارش ہونے پر پیدا ہوتی جب زمین پھسلواں ہو جاتی اور کھیتوں سے گزر کر راستے کو مختصر کرنا ممکن نہ رہتا۔
(جاری ہے)
Category Archives: درس گاہ
درس گاہ – 2
جراحی بلکہ موضع جراحی کے نام کی وجہ تسمیہ معلوم نہیں۔یہ، کوٹ برکت علی، پکا حاجی مجید،اور غازی پاندہ ایسے موضعے تھے جن میں بڑے زمینداروں کی اکثریت تھی ۔ جراحی کا موضع کوئی ساٹھ ستّر مربعوں (ایک مربع=پچیس ایکڑ) پر مشتمل ہو گا اور شاید کشنے والے کھوہ(جو اب بودلہ فارم کہلاتا ہے)کے سوا شیرازی سیّدوں کی ملکیت تھا اور ان مالکان میں پیر برکت علی شاہ،غلام رسول شاہ اور محب شاہ خصوصیت سے لائقِ ذکر ہیں۔میرے والد کی ان تینوں خاندانوں سے قربت تھی اور ان کے سبب سب ہم بہن بھائیوں سے اپنے بچوں کا سا سلوک کرتے تھے۔
پیر برکت علی شاہ نسبتاً بڑے زمیندار تھے، شنید تھی کہ وہ موضع میں چالیس مربعوں کے مالک ہیں ۔ ان کی چار بیگمات چار الگ الگ محل نُما کوٹھیوں میں رہتی تھیں اور وہ اپنی تیسری بیگم نوراں (نور جہاں) کے ساتھ رہتے تھے جو جلال وجمال کا مرقع تھیں اور ان کے وقار اور بردباری کو ان کی بادشاہت زیب دیتی تھیں ۔ وہ میری والدہ کے بہت قریب تھیں ۔ اس لیے ہم انہیں ماسی کہتے تھے اور سمجھتے بھی تھے اور وہ بھی ہم بھانجے بھانجیوں کی ضرورت سے زیادہ آؤ بھگت کرتی تھیں ۔ ان کے یا ہمادے گھر دعوتیں اور نشتیں تو خیر ہوتی ہی رہتی تھیں ۔ میرے پاس ہونے پر مجھے سونے کی انگوٹھی تحفے میں دینے کا رواج بھی انھی نے ڈالا ۔شاید اس لیے کہ میں پڑھنے میں جی لگاؤں اور اس کا سبب شاید یہ تھا کہ شاہ صاحب کے پانچ صاحب زادوں (اور یہ پانچوں دوسری بیگمات میں سے تھے) میں سے کسی نے بھی تعلیم میں دل نہیں لگایا تھا ۔ تب وہ سبھی بھرپور جوان تھے ۔ ایک کے سوا سب کنوارے تھے اور ہر اس شغل میں مگن تھے جو کسی جاگیر دار فیملی کی شناخت ہوتا ہے مگر میرے والد کی جی سے عزت کرتے تھے اور ہمیں اپنے بہن بھائیوں سے بڑھ کر چاہتے تھے اور ہمارے لیے بھی وہ نواب ، مراد (میرے بڑے بھائی) سے کم لائقِ عزت نہیں تھے۔
پیر محب شاہ کی بیٹی میری بڑی بہن کی سہیلی تھی اور بیٹا سید حسن شاہ عرف ادّھم شاہ میرا ہم عمر اوربے تکلف دوست ۔ اس لیے گمان تھا کہ میں پانچویں جماعت تک جراحی ہی میں پڑھوں گا ۔ پہلے ہی برس کے اختتام تک وہ انڈہ نوش استادِ محترم، جن کا نام اب میرے ذہن سے اتر گیا ہے(مگر اس آئس کریم والے کا نام مجھے یاد ہے کہ جمال تھا) گرمیوں کی چھٹیوں میں ہمیں گھر پر پڑھانے کے لیے بھی آنے لگے تھے ۔ سب ٹھیک چل رہا تھا اور میری ماں کا ٹبے پر آ کر شربت پلانے کا وظیفہ بھی جاری تھا کہ کسی نامعلوم وجہ سے میرے والد نے مجھے اس سکول سے اٹھا لیا اور مجھے بلکہ ہم دونوں بھائی بہن کو گورنمنٹ پرائمری سکول پکا حاجی مجید میں تیسری جماعت میں داخل کرا دیا۔اب سوچتا ہوں تو اس کی ایک ہی وجہ سمجھ میں آتی ہے کہ جراحی کے لیے ہماری بستی سے کوئی سیدھی سڑک نہیں تھی اور پکا حاجی مجید تک جانے کی دو کچی مگر باقاعدہ سڑکیں موجود تھیں ۔ یہ الگ بات کہ وہاں پڑھنے والے ہم سب بچے اچھلتے کودتے فاصلہ گھٹانے اور بعض اوقات بڑھانے کے لیے کھیتوں میں سے ہو کر جاتے تھے، جس سے کم ازکم آدھ میل کا فرق تو پڑتا ہی تھا ۔ راہ میں بیریوں سے بیر چُن کر کھانے اور پاندھوں کے ڈیزل انجن والے کُوکُو کرتے ٹیوب ویل پر پانی پینے کا مزہ ہی الگ تھا۔
ہاں اس طرف نکلنے کا نقصان یہ ہوا کہ ماں کے بنائے شربت کی ترسیل رک گئی۔
درس گاہ – 1
گورنمنٹ پرائمری سکول ۔ جراحی
میاں چنوں سے تلمبہ جانے والی سڑک پر ہمارے گاؤں،بستی کبیر سنپال ، جانے کے لیے تین راستے تھے اور تینوں کچّے،ناہموار اور منوں گرد اور گھٹّے سے اٹے ہوئے۔پہلا چونہہ سڑکاں سے دائیں مڑ کر پیر شینے سے بائیں مڑ کر پکا حاجی مجید کی بغل سے نکل کر تلمبہ میاں چنوں روڈ پر جا نکلتا تھا اور اس کی طوالت کم وبیش ڈھائی میل یا چار کلومیٹر رہی ہو گی۔اب یہ سڑک پیر شینے تک پختہ ہے اور چونہہ سڑکاں سے بستی تک سولنگ لگی ہے۔دوسری سڑک ڈپٹیاں والا(کوٹ برکت علی)سے جراحی بینس پر چڑھ کر گھراٹاں کے قریب تلمبہ میاں چنوں پختہ روڈ پر جا نکلتی تھی اور اس کا بستی سے فاصلہ کم و بیش پانچ کلومیٹر تھا۔یہ سڑک کافی چوڑی تھی اور اس کے ایک پہلو میں محکمہ نہر والوں نے اپنے افسران کی گاڑیوں کے لیے دو ڈھائی فٹ گہری ایک نہایت ستھری اور ہموار سڑک بنا رکھّی تھی۔جس کے درمیان میں گڑھے کھودے گئے تھے تاکہ تانگے اور بیل گاڑیوں کا اس پر چلنا ممکن نہ رہے،جب کہ سڑک کا باقی حصہ گھنے درختوں سے ڈھکا اور گُھٹنوں تک پسی مٹی اور گڑھوں سے اٹا تھا۔اس قدر کہ اس پر چلنے والے مسافروں اور جانوروں کے پاؤں بعض اوقات پنڈلیوں تک مٹی میں دھنس جاتے تھےاور تیسری سڑک جو ہمارے کھوہ سے آگے پگڈنڈی کی شکل اختیار کر لیتی تھی،سیدھی چودہ چک کو جاتی تھی اور خُونی موڑ کے پاس پختہ سڑک پر جا نکلتی تھی۔یعنی شہر تک رسائی مشکل تھی۔شہر میاں چنوں ہو یا تلمبہ ذاتی سواری، سائیکل یا تانگہ پر بھی کم ازکم ایک گھنٹے کے فاصلے پر تھا۔ہم کسی باقاعدہ سڑک کے قریب نہیں تھے اور قریب ترین پرائمری سکول جراحی یا پکا حاجی مجید میں تھے جو دو کلومیٹر سے کم فاصلے پر نہیں تھے۔
یوں تو پکا حاجی مجید کے کھگّوں سے ہماری اچھی سنگت تھی مگر زیادہ آنا جانا جراحی کے شیرازی سیّدوں کی طرف تھا۔اس کی ایک وجہ تو میرے والد کی پیر برکت علی شاہ سے اور ان کی بیگم کی میری والدہ سے دوستی تھی۔دوسری وجہ سُنّی ہونے کے باوجود وہاں کی شیعہ تقریبات میں میرے خاندان کی رسمی مگر بھرپور شرکت تھی کہ ایک منّت کو پورا کرنے کے لیے مجھے عاشورہ کے روز سونے کی ہتھکڑی لگا کر قیدی بنایا جاتا تھا۔وہ ہتھکڑی بعد میں امام بارگاہ کو نذر کر دی جاتی تھی اور تیسری وجہ وہاں کے ہیڈ ماسٹر واحد بخش سے میرے والد کی یاد اللّٰہ تھی۔اس لیے اپنی تعلیم کے پہلے دو برس میں نے یہاں گزارے۔
میری پیدائش دسمبر کی ہے مگر میرے والد مجھے اپریل میں داخلے کے لیے لے کر گئے۔تب میں ساڑھے چار سال کا تھا مگر میری تاریخ ِپیدائش دو مئی مقّرر کی گئی اور داخلے کے پانچ برس کی عمر کی شرط پوری کی گئی۔مجھے کچھ روز نُقرے گھوڑے پر سائیس کے ساتھ بھجوایا جاتا رہا۔پھر میں اپنی بڑی بہن(جسے میرے ساتھ ہی یہاں داخل کرایا گیا تھا) اور بستی کے کچھ اور بچّوں کے ساتھ پگڈنڈیوں پر سے ہوتا ہوا پیدل آنے جانے لگا کہ جراحی کے لیے تب کوئی سیدھی سڑک موجود نہیں تھی۔اس راستے میں پہلا پڑاؤ ٹبّہ تھاجو خاں صاحبان کی جاگیر کا حصّہ تھا اور ماضی کی کسی معدوم آبادی کی یادگار۔اس کے پہلو میں بوہڑ کا ایک گیانی درخت آج بھی موجود ہے اور جنوب مشرق کو باغ اور پانی کے کھال کے ساتھ بستی تک جاتی ایک وتر نما پگڈنڈی۔میری کہانی کے اس ٹکڑے کا تعلق اسی ٹبّے اور پگڈنڈی سے ہے۔
سکول سے چھٹی تین بجے سہہ پہر کے بعد ہوا کرتی تھی۔واپسی کا سفر معمول سے زیادہ وقت لیتا تھا کہ راہ کے عجائبات سبھی کو اپنی طرف کھینچتے تھے۔کسی درخت کے تنے کو اپنی چونچ سے ٹھونکتا ہُد ہُد،کہیں آم کے درخت میں کُوکتی کوئل،کہیں سنگترے اور مالٹے کے پھولوں کی ترش رسیلی مہک،کہیں شیشم کی لچکیلی ٹہنیوں کی پکار۔گلہریوں اور حق دق نیولوں کی چِک چِک،فاختاؤں کی "اللہ ہُو،موسیٰ کھوہ”۔جنتر کی پھلیوں کی چھنکار۔کتنے ہی اسرار تھے جو سفر کو لمبا کر دیتے تھے.درختوں پر چڑھنا اور اس عمل کو شرط بِد کر کھیل بنانا بھی معمول کا حصہ تھا مگر راہ میں پڑنے والے ٹبے تک آنے کے بعد ہم سبھی اسی پگڈنڈی کو پکڑتے تھے جو یہاں ٹبے کی بائیں طرف خط ِمستقیم میں کھنچی تھی۔
اس راست روی کی دو وجہیں تھیں۔پہلی یہ کہ ٹبے کی مٹّی بھربھری تھی اور پگڈنڈی کو چھوڑ کر اس پر چلنے سے پاؤں زمین میں دھنسنے لگتے تھے جو جوتوں اور پاجاموں کو گندا کرنے کے علاوہ سفر کو مشکل بھی بناتی تھی اور دوسری وجہ اس ٹبے پر کہیں ایک اندھے کنویں کی موجودگی کی خبر تھی۔جس کی وجہ سے ہمیں ٹبے پر سے گزرنے کی ممانعت تھی۔
ٹبے کی سطح ناہموار تھی اور وہ ایک ننھے دشت کا تاثر دیتی تھی۔بعض اوقات بلندی سے ڈھلوان کی طرف اترتے ہوئے یا ڈھلوان سے بلندی کی طرف جاتے ہوئے سامنے کا منظر نگاہ سے اوجھل ہو جاتا تھا۔یہاں رم نہ کرنے یا کم کم کرنے کی ایک وجہ اس بھربھری مٹی میں نہاں ٹھیکریوں اور ٹوٹے ہوئے برتنوں کی باقیات کی بہتات تھی جو آزادانہ کھیل کود میں رکاوٹ بنتی تھی اور میرے متجسّس ساتھیوں کو منکوں اور سونے چاندی کے سکوں کی موجودگی کی اطلاع کے باوجود اس امر کی حقیقت کو کھولنے سے روکتی تھی۔
پھر بھی اس ننھے صحرا کے اسرار مجھے بلاتے تھے اور میں سونے چاندی کے سکوں اور رنگ برنگے منکوں سے زیادہ اس کنویں کی تلاش میں تھا۔
اپنی بستی کے پہلو میں چلتے کنویں کی گادھی پر میں نے بہت مزے کیے تھے۔پانی سے بھرے ڈولوں کے نسار میں خالی ہوتے سمے،اُن کی گنگناہٹ اور ہنسی کو سُنا تھا اور گھوم کر نیچے کنویں کی تہ میں دمکتے پانی میں ایک آسودہ زمزمے کے ساتھ غوطے لگاتے دیکھا تھا۔لکڑی کے بڑے بڑے پہیوں سے پیدا ہونے والی چرچراہٹ اور کنویں کے کُتّے کی ٹِک ٹِک مجھے خود سے مکالمہ کرتی محسوس ہوتی تھی اور میں نہیں جانتا تھا کہ زندگی کے اس تسلسل میں کہیں رخنہ بھی پڑ سکتا ہے۔
میں نے گاوؤں کے پہلوؤں میں اور مربعوں کے ماتھوں پر کنوؤں کو ہمیشہ گنگناتے ہی دیکھا تھا اور شام کے دھندلکوں میں پانی بھرتی لڑکیوں کو مہین دوپٹوں کا پردہ تان کر نہاتے سمے کھلکھلاتے بھی مگر کوئی اندھا کنواں اب تک میرے تجربے کا حصہ نہیں بنا تھا اور میرے دل میں ایسے کسی کنویں کو دیکھنے کی تمنا بہت طور موجود تھی۔
میں اپنے ساتھیوں اور بڑی بہن کے منع کرنے کے باوجود اور ٹبے پر شیش ناگ کی موجودگی کی افواہ کی پروا کیے بغیر اپنی یہ تمنا کبھی کی پوری کر چکا ہوتا اگر ٹبے پر اور کبھی ٹبے سے اترتے ہی مجھے قریب ہی اپنی ماں کی موجودگی کا یقیں نہ ہوتا۔
میری ماں درختوں اور دیواروں کے ڈھلتے سائے سے ہماری سکول سے چُھٹی ہونے کے وقت کا اندازہ کر لیتی تھی اور مختلف طرح کے شربت گھول کر،گڑوی اور گلاس اٹھائے جراحی کی طرف چلنا شروع کر دیتی تھی۔مجھے،مری بہن اور دوسرے بچوں کو یہ شربت عموماً ٹبے پر یا ٹبے کے اس پاس پہنچ کر پینے کو ملتا تھا۔کیوں کہ ٹبہ سکول اور گھر سے کم وبیش ایک جتنے فاصلے پر تھا۔ہم اپنی تیزروی کے باوجود،سیدھا راستہ نہ پکڑنے کے باعث ماں سے پہلے ٹبے پر کم ہی پہنچتے تھے۔اس لیے مری اندھے کنویں کو دیکھنے کی خواہش دیر تک پوری نہیں ہو سکی اور دن شربت کے رسیلے گھونٹوں کی طرح میرے حلق سے اترتے رہے اور وہ دن بھی آیا جب میری طبیعت شربت دیکھ کر متلانے لگی۔
ہمارا معمول اور لاکھ منع کرنے پر بھی ماں کا شربت لانے کا ورد جاری تھا کہ ایک روز بوندیں پڑیں اور کچے رستے کی مٹی کو گوندھ کر جلد ہی تھم کر آسمان سے امڈتی دھوپ کے مقابل بادل بن کر ٹھہر گئیں۔درختوں اور دیواروں کے سائے غائب ہونے سے شاید ماں کو وقت کا درست اندازہ نہیں رہا اور ہمارے ٹبے پر چڑھتے وقت وہ مجھے ،شربت کی گڑوی پر اپنے آنچل کا سایہ کیے،گھر سے ٹبے کی طرف آنے والی پگڈنڈی پر کہیں مربعے بھر کے فاصلے پر دکھائی دی۔مجھے یقین تھا وہ ٹبے تک اور ہم تک دس منٹ سے پہلے نہیں پہنچ سکتیں اور اس وقت کے غنیمت ہونے کا شعور ہونے تک میں اپنے آپ کو ٹبے کی بھربھری مٹی پر اپنی ان دیکھی منزل کے کھوج میں بگٹٹ بھاگتے دیکھ رہا تھا۔مرے پیچھے مری بہن اور ہم جولیوں کی چیخ پکار تھی اور مٹی میں دھنستے دھپ دھپ کرتے قدموں کا شور۔خود مرے پاؤں کسی ان دیکھے بوجھ سے رستم کے پیروں کی طرح زمین میں پنڈلیوں تک دھنستے تھے مگر میں اپنا اور اپنے ساتھیوں کے بیچ کا فاصلہ کم ہونے نہیں دے رہا تھا۔میں کبھی سیدھا اور کبھی دائرے میں بھاگتا اور ٹبے کی ڈھیہی دیواروں پر چڑھتا اترتا،اندر ہی اندر سانپ اور دوسرے کیڑوں کی دہشت سے کانپتا کنویں کی تلاش میں بھاگتا رہا اور جلد ہی میں نے اپنے آپ کو اس کے کنارے پایا۔
مرے کنویں میں نہ گرنے کی بظاہر کوئی وجہ نہیں تھی۔ڈھلوان سے بلندی کی طرف بھاگتے ہوئے میں نے اسے اچانک اپنے سامنے پایا۔منڈیر کے بغیر،ڈھہے ہوئے کناروں کے ساتھ،ٹبے کے پیٹ میں اترتی گولائی،جس پر جھک کر کہیں نیچے رکے ہوئے پانی کو دیکھنا ممکن نہیں تھا مگر پھپھوندی لگی اینٹوں اور تہ سے امڈتی مردہ مچھلیوں کی ہمک سے مماثل بھاری بُو کہیں دور پانی کی موجودگی کی خبر دیتی تھی۔اندر کہیں سانپ کے سرسرانے اور مٹی کے پھسلنے کی مدہم گونج اٹھتی تھی اور کنویں کی گولائی بہت آہستگی سے اوپر اٹھتی محسوس ہوتی تھی۔مگر نہیں کنویں کی گولائی اپنی جگہ پر تھی اور یہ میں تھا جو اپنے قدموں تلے کی زمین میں دھنس رہا تھا۔آگے کنویں کے اندھیرے کی طرف جھکتا ہوا اور شاید میں نے اسے چھو کر دیکھ ہی لیا ہوتا اگر ایک غیبی ہاتھ نے مجھے کلاوے میں لے کر پیچھے اپنی طرف کھینچ نہ لیا ہوتا۔
مڑ کر دیکھا تو ماں تھی۔چیختے چلاتے ہم جولیوں اور میری بوکھلائی ہوئی بہن سے آگے کنویں کی دھنسی ہوئی منڈیر پر مرے پیچھے ایک فرشتے کی طرح پر پھیلائے وہ مجھے اپنے وجود میں سمیٹتی تھی اور شربت کی گڑوی اور گلاس میرے سامنے کی ڈھلوان سے لڑھکتے ہوئے اس اندھی گہرائی کی طرف جا رہے تھے جہاں مجھے جانا تھا مگر میری ماں کی مشفق باہوں نے جانے نہیں دیا۔
شاید میرے جراحی کو الوداع کہہ کر گورنمنٹ پرائمری سکول پکا حاجی مجید میں داخلے کا سبب یہی واقعہ تھا۔
گورنمنٹ پرائمری سکول جراحی کی یادوں میں پی ٹی(سیدھی اور اُلٹی گنتی کے ساتھ)اور مجھ سے سبق کے بارے میں سوالات کا سلسلہ خاص ہے۔مجھے ہر سوال کے جواب پر نقد انعام سے نوازا جاتا تھا اور شاباش دی جاتی تھی،خواہ میرا جواب درست ہو یا غلط۔یہ راز تو بہت بعد میں مجھ پر کُھلا کہ یہ انعام اس رقم کا ایک معمولی حصہ ہوا کرتا تھا جو میرے والد صاحب اس ماسڑ صاحب کو میری حوصلہ افزائی کے لیے دیا کرتے تھے۔
جیب خرچ اس کے علاوہ تھا۔آدھی چُھٹی کے وقت ہم قلفی اور تلمبہ کے ایک پھیری والے”جمال” کی بنائی آئس کریم کھایا کرتے تھے اور گاؤں کے ان بچوں کو بھی کھلاتے تھے جو خود کچھ خریدنے کے لائق نہیں تھے۔یہ آئس کریم فلالین کے سبز کپڑے سے تہ دار تہ ڈھکی ہوئی ایک تھرماس نُما باکس میں ہوا کرتی تھی اور ایک کُھرپا نُما تیز دھار والے اوزار سے تراش کر بوہڑ کے پتّوں پر رکھ کر کھانے کو دی جاتی تھی،جنہیں چاٹنے کا بھی ایک الگ ہی مزہ تھا۔
ماسٹر واحد بخش تو جراحی ہی کے رہنے والے تھے۔ایک اور ماسٹر صاحب جو مقامی نہیں تھے،انڈے جمع کرنے کے شوقین تھے۔وہ روزانہ درجن بھر انڈے یکجا کر لیتے تھے کہ انہوں نے انڈے پہچانے کے لیے گھروں کی باریاں مقّرر کر رکھی تھیں مگر وہ سارے انڈے گھر کم ہی لے جایا کرتے تھے۔اپنی کرسی پر غنودگی کے عالم میں بچّوں کو سبق کا بلند آہنگ رٹّا لگواتے ہوئے وہ اچانک پینک سے نکلتے تھے اور ایک انڈہ توڑ کر اُسے منہ میں انڈیل لیتے تھے۔خدا جھوٹ نہ بُلوائے تو یہ عمل چار پانچ دفعہ دہرایا جاتا تھا۔وہ اپنی طرز کے اکیلے آدمی تھے کہ اُن کے بعد میں نے کسی کو یہ وظیفہ کرتے نہیں دیکھا۔