Author Archives: Ghulam Hussain Sajid

چراغ کی اوٹ میں رکا ہے جو اک ہیولیٰ سا یاسمیں کا

چراغ کی اوٹ میں رکا ہے جو اک ہیولیٰ سا یاسمیں کا
یہ رنگ ہے اور آسماں کا یہ پھول ہے اور ہی زمیں کا

مرے ارادے پہ منحصر ہے یہ دھوپ اور چھاؤں کا ٹھہرنا
کہ ایک ساعت کسی گماں کی ہے ایک لمحہ کسی یقیں کا

مجھے یقیں ہے زمین اپنے مدار پر گھومتی رہے گی
کہ اب ستاروں کے پانیوں میں بھی عکس ہے خاک کے مکیں کا

میں جن کے ہمراہ چل رہا ہوں وہ سب اسی خاک کی نمو ہیں
مگر جو میرے وجود میں ہے وہ خواب ہے اور ہی کہیں کا

جو میرے خوں میں بھڑک رہی ہے وہ مشعل خواب ہے کہاں کی
جو میری آنکھوں میں بس گیا ہے وہ چاند ہے کون سی جبیں کا

میں رات کے گھاٹ پر اتر کر کسی ستارے میں ڈوب جاتا
مگر مرے روبرو دھرا ہے یہ آئنہ صبح نیلمیں کا

سو اب یہ جیون کی ناؤ شاید کسی کنارے سے جا لگے گی
کہ اب تو پانی کی سطح پر بھی گمان ہونے لگا زمیں کا

رات اک لہر رُکی پانی میں

رات اک لہر رُکی پانی میں
صبح دم گھاس اُگی پانی میں

پھر بڑھی آس کی لَو آنکھوں میں
پھر وہی آگ لگی پانی میں

خواب میں آج اُسے دیکھیں گے
چاند اُترے گا ابھی پانی میں 

جھیل میں شام نے رکھا ہے قدم
گویا اُتری ہے پری پانی میں 

پہلے خود برف بنا تھا پانی
پھر وہی برف ڈھلی پانی میں

ہر طرف ایک گھنا بادل تھا
رات وہ بات نہ تھی پانی میں 

ایک تارا ہے نظر میں ساجد
ایک قندیل جلی پانی میں

جس کا ہم سر کوئ ستارہ نہیں

جس کا ہم سر کوئ ستارہ نہیں
وہ چراغ آج جگمگایا نہیں

کیا ہے موجود، کیا نہیں موجود
اس سے اپنا کوئی علاقہ نہیں

آئنہ، آسمان، آبِ زلال
میں نے کس کس حسیں کو چاہا نہیں

حسرتوں کا شمار کون کرے
غم نہیں اس کا جو بھی پایا نہیں

میں ہوں جس دل ربا کا شیدائی
اس نے اب تک مجھے پکارا نہیں

اب مجھے نیند کی ضرورت ہے
جاگنے سے تو کچھ افاقہ نہیں

اپنی وحشت سے نبھ رہی ہے مری
اہلِ دنیا سے کوئی جھگڑا نہیں

لوٹ آئی ہے فصلِ گل ساجد
وہ ستم گر پلٹ کر آیا نہیں